Fawad - Digital Outreach Team - US State Department
محترم،
کسی بھی موضوع کے حوالے سے رائے قائم کرنے کے ليے ضروری ہے کہ ميڈيا پر پيدا کردہ مضبوط مصنوعی تاثر کو رد کر کے اصل حقائق کو پيش نظر رکھا جائے۔
آج کل ميڈيا اور تمام اردو فورمز پر تواتر کے ساتھ اس بات پر زور ديا جا رہا ہے کہ امريکہ پاکستان ميں حکومت کی تشکيل کے عمل ميں براہراست مداخلت کر رہا ہے۔ اس حوالے سے مختلف امريکی سفيروں کی سياسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کو خاص اہميت دی جا رہی ہے۔ مغربی ميڈيا ميں شائع ہونے والی بہت سی خبروں اور اداريوں کو بھی ثبوت کے طور پر مختلف فورمز پر پيش کيا جا رہا ہے اور اس رائے کو پختہ کيا جا رہا ہے کہ امريکہ ہر صورت ميں سياسی رہنماؤں کے توسط سے پرويز مشرف کو صدر کے عہدے پر ديکھنے کا خواہ ہے۔
اسی حوالے سے آج ٹی وی پر خبروں کے دوران ايک مختصر فلم ديکھنے کا اتفاق ہوا جس ميں امريکی سفیر اين پيٹرسن کو نواز شريف سے ملاقات کرتے دکھايا گيا اور ساتھ ميں يہ خبر چلائ گئ۔
"امريکی سفير اين پيٹرسن نے نواز شريف سے ملاقات کے دوران ججوں کی بحالی اور صدر مشرف کے عہدے کے حوالے سے نرم رويہ اختيار کرنے کی درخواست کی"۔
آپ کی اطلاع کے ليے عرض کر دوں کہ سفارتی سطح پر ہونے والی ملاقاتوں ميں گفتگو کا متن ريکارڈ کيا جاتا ہے۔25 فروری کو فرنٹير ہاوس ميں اين پيٹرسن اور نواز شريف کے درميان ہونے والی ملاقات ميں اين پيٹرسن کی گفتگو کے کچھ منتخب حصے پيش خدمت ہيں۔
"انتخابی عمل کے ذريعے پاکستان کے عوام نے اپنی خواہشات کا اظہار کر ديا ہے اور ہم انکی خواہش کا احترام کرتے ہيں۔ ہم کسی بھی اتحاد کے تحت بننے والی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے ليے آمادہ ہيں۔ حکومت بنانا منتخب عوامی نمايندوں کا کام ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم نئ حکومت کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام کے بہبود اور ترقی کے ليے شروع کيے جانے والے مختلف مشترکہ منصوبوں اور پاکستان کی دفاعی صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے باہمی کوششوں پر کام جاری رکھ سکيں"۔
ججوں کی بحالی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جس پر فيصلے کا اختيار نو منتخب پارليمنٹ اور متعلقہ قانونی ماہرين کو حاصل ہے۔ جہاں تک اس مسلئے پر امريکی حکومت کے موقف کا سوال ہے تو جمہوريت کے حوالے سے امريکی موقف بالکل واضح ہے۔ آزاد ميڈيا، آزاد عدليہ اور عوام کے سامنے جوابدہ حکومت مضبوط جمہوريت کے اہم ستون ہيں۔
يہاں ميں ايک بات واضح کر دوں کہ سفارتی سطح پر امريکی حکام کے بيانات محض روايتی بيانات نہيں ہوتے بلکہ کسی بھی متعلقہ ايشو پر امريکی حکومت کے موقف کو واضح کرتے ہيں۔
امريکی سفير اين پيٹرسن اور نواز شريف کے درميان ہونے والی گفتگو کے متن کا آج ٹی وی پر چلائے جانے والی خبر سے موازنہ کريں اور پھر اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے تاثر پر غور کريں۔ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
اسی ضمن ميں ايک آرٹيکل کا لنک آپ کو دے رہا ہوں جو مختلف اردو فورمز پر پوسٹ کيا گيا۔
http://news.yahoo.com/s/mcclatchy/20080220/wl_mcclatchy/2855957
يہ آرٹيکل اور ايسے ہی بے شمار آرٹيکلز اس بات کا ثبوت ہيں کہ ميڈيا ميں شائع ہونے والی ہر بات کو بغير تحقيق کے سچ نہيں مان لينا چاہيے۔ اگر آپ اس آرٹيکل کو دوبارہ پڑھيں تو آپ يہ بات جان ليں گے کہ پورا آرٹيکل کسی بھی امريکی حکومتی اہلکار کے بيان کے بغير لکھا گيا ہے۔ کيا وجہ ہے کہ اس آرٹيکل ميں پاکستان کے حوالے سے تو ہر بات مذکورہ اہلکار کے نام اور اسکی سياسی وابستگی کے تعارف کے ساتھ لکھی گئ ہے جبکہ امريکی حکومت کے کسی بھی اہلکار کا نام اور اسکی وابستگی نہيں دی گئ۔ صرف امريکی صدر بش کا ايک بيان شائع کيا گيا جس ميں انھوں نے کہا کہ "اب وقت آ گيا ہے کہ نومنتخب ارکان اسمبلی اپنی حکومت بنائيں۔ ہميں اميد ہے کہ نئ حکومت امريکہ کے ساتھ دوستانہ روابط رکھے گی"۔
امريکہ ميں آزادی رائے کے اظہار کی وجہ سے آپ کو ميڈيا پر ہر قسم کا نقطہ نظر اور اسکی تآئيد ميں بےشمارمواد مل جائے گا۔ ليکن سوال يہ ہے کہ کيا يہ کسی شخص يا ادارے کی ذاتی رائے کی ترجمانی کرتا ہے يا اسے امريکی حکومت کے سرکاری موقف سے منسوب کيا جا سکتا ہے۔
جہاں تک امريکی سفيروں کی سياست دانوں سے ملاقاتوں کا سوال ہے تو آپ کی اطلاع کے ليے عرض کر دوں کہ پچھلے 24 گھنٹوں ميں صدر مشرف سے امريکہ کے علاوہ 5 مختلف ممالک کے سفيروں نے ملاقات کی ہے۔ ملک ميں نئ حکومت کے قيام کے حوالے سے سفيروں کی اہم رہنماؤں سے ملاقاتيں کوئ غير معمولی واقعہ نہيں ہے۔ اسکی ايک تازہ مثال کوسوو ميں ديکھی جا سکتی ہے جہاں نئ حکومت کے قيام کے حوالے سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ يہ بھی ياد دلا دوں کہ پاکستانی سفارت کار بھی امريکہ سميت ديگر بيرونی ممالک ميں اہم رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہيں۔ کسی بھی دو ممالک کے درميان تعلقات کی مضبوطی کے ليے يہ سفارتی روابط نہايت اہم کردار ادا کرتے ہيں۔ يہی وہ سفارتی روابط ہیں جن کی بدولت بھارت اور پاکستان کے درميان کئ بار کشيدگی ختم کی گئ بصورت ديگر ايٹمی ہتھياروں سے ليس دونوں ممالک متعدد موقعوں پر جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہوتے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov