کیا امریکہ پاکستان میں جمہوری قوتوں کے مقابلے میں ایک آمر کی پشت پناہی کر رہا ہے ؟

محسن حجازی

محفلین
کیا آپ تب باز آئیں کے جب یہاں بھی مرگ بر امریکہ کے نعرے سرعام لگنا شروع ہو جائیں گے؟
واضح رہے کہ یہاں میری مراد امریکی حکومت ہے۔
دیگرہم مان لیتے ہیں کہ پاکستان کے حالات و واقعات میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں۔

امریکہ حالات پیدا نہیں کرتا پیدا شدہ حالات سے فائدہ اٹھاتا ہے!​

اب یہ میں حاضرین پر چھوڑتا ہوں کہ یہ کس امریکی سفارتکارکا قول ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

پاکستانی ووٹروں نے امریکی غلاموں کو اس الیکشن میں اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے اگر اب بھی امریکہ ہم پر اپنی مرضی کا ٹولہ مسلط کرنے کے لیے جوڑ توڑ میں لگا رہے تو کیا یہ پاکستانی ووٹر کے منہ پر طمانچہ نہیں؟
میں نے اسی لیے ووٹ نہیں دیا کیوں کہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری رائے کے اوپر سے 'سفید حویلی' والے اپنی مرضی جوڑ توڑ سے مسلط کردیں۔
امید ہے کہ تلخ نوائی کا برا نہیں مانیں گے۔

محترم،

آپ ہی کےفورم پر"پرويز مشرف کی مقبوليت" کے عنوان سے ايک دوسرے تھريڈ ميں ايک عالمی تنظيم کے توسط سے کچھ اعدادوشمار ديے گئے ہيں جس کے مطابق 70 فيصد پاکستانی پرويز مشرف کو صدر نہيں ديکھنا چاہتے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومتی حلقے انتخابات سے پہلے ان اعداد وشمار سے بے خبر تھے؟ اس کے باوجود امريکی حکومت نے ملک ميں انتخابات کے انعقاد پر زور ديا۔ جمہوريت اور انتخابات کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف چيرمين ہوم لينڈ سيکيورٹی جوزف ليبرمين کے اس بيان سے لگايا جا سکتا ہے۔

" ہم نے پرويز مشرف پر زور ديا ہے کہ وہ ملک ميں جمہوری انتخابات کا عمل يقينی بنائيں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار ديا ہے۔"


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

یہ بھی فرمائیے گا کہ امریکہ کو ججوں کے بحال ہونے سے کیا مسئلہ ہے؟ کیا انصاف صرف امریکیوں کے لیے رہ گیا ہے؟

3 نومبر 2007 کو جب صدر پرويز مشرف نے ملک ميں ايمرجنسی لگائ تو ملک ميں عام تاثر يہی تھا کہ اس کا مقصد سپريم کورٹ کے اس فيصلے کو روکنا تھا جو پرويز مشرف کی صدارت کے حوالے سے تھا۔ اس حوالے سے سياسی جماعتوں نے يہ الزام لگايا تھا کہ امريکہ پرويز مشرف کو برسراقتدار ديکھنا چاہتا ہے اس ليے ايمرجنسی کے عمل پر تنقيد کے باوجود امريکہ نے کبھی بھی ججز کی بحالی کا مطالبہ نہيں کيا۔ اس حوالے سے امريکی حکومت کا موقف يہ ہے کہ اگر ان ججز کی بحالی کا مطالبہ کيا جائے جنھيں 12 اکتوبر 1999 کےبعد پرويز مشرف نے خود مقرر کيا تھا تو پھر پرويز مشرف کے ان اقدامات کی تائيد اور توثيق ہو جائے گی جو پرويز مشرف نے 1999 ميں کيے تھے۔ امريکہ نے کبھی بھی پرويز مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدامات کی تا‏ئيد نہيں کی۔ جن ججز کی بحالی کا آپ ذکر کر رہے ہيں وہ 1999 کے اقدامات کے باعث ہی اپنے عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

اظہرالحق

محفلین
ایک خواہش ہی ہے مگر ۔ ۔ شاید یہ کبھی بھی پوری نہ ہو

کاش ہماری صفوں میں "میر جعفر" اور "میر صادق" نہ ہوں ۔ ۔ تو امریکہ کیا اس سے بڑی طاقتیں بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ ۔ ہمارے اپنے لوگ ۔ ۔ ۔امریکی ہونے میں فخر مسحسوس کرتے ہیں ۔ ۔۔

اگر امریکہ کو عوام کا فیصلہ پسند ہوتا تو کبھی بھی اتنے شد و مد سے پاکستانی سیاست کا رُخ نہ موڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا ۔ ۔ ۔
 
میر جعفر اور میر صادق دور غلامی میں چھپے دشمن تھے۔ آزادانہ نہیں ۔ یہ مثال بالکل غلط ہے۔ امریکہ نے پاکستان پر کوئی غلامی طاری نہیں کی ہوئی ہے۔ یہ تاثر دینا کہ امریکہ پاکستان میں جارحانہ کاروائی کرتا ہے، درست نہیں۔ جبکہ دوستانہ کاروائیوں کے اتنے سارے ثبوت موجود ہوں۔
 

ساجداقبال

محفلین
میر جعفر اور میر صادق دور غلامی میں چھپے دشمن تھے۔ آزادانہ نہیں ۔ یہ مثال بالکل غلط ہے۔ امریکہ نے پاکستان پر کوئی غلامی طاری نہیں کی ہوئی ہے۔ یہ تاثر دینا کہ امریکہ پاکستان میں جارحانہ کاروائی کرتا ہے، درست نہیں۔ جبکہ دوستانہ کاروائیوں کے اتنے سارے ثبوت موجود ہوں۔
:grin::grin: خوشی ہوئی جان کر۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ایک خواہش ہی ہے مگر ۔ ۔ شاید یہ کبھی بھی پوری نہ ہو

کاش ہماری صفوں میں "میر جعفر" اور "میر صادق" نہ ہوں ۔ ۔ تو امریکہ کیا اس سے بڑی طاقتیں بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ ۔ ہمارے اپنے لوگ ۔ ۔ ۔امریکی ہونے میں فخر مسحسوس کرتے ہیں ۔ ۔۔

اگر امریکہ کو عوام کا فیصلہ پسند ہوتا تو کبھی بھی اتنے شد و مد سے پاکستانی سیاست کا رُخ نہ موڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا ۔ ۔ ۔

اظہر،

میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں سے نپٹنے کا تو شاید کوئی حل ہو، مگر جس چیز کا قوم کے پاس کوئی حل نہیں ہے وہ یہ ہیں:

1۔ ہماری اپنی ہی قوم کے وہ نادان لوگ جو اپنی تمام برائیوں کا امریکہ کے نام چڑھا کر اس بات کے منکر ہیں کہ اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنی غلطیوں کا اعادہ کر سکیں۔

ایسے نادان دوستوں پر میں ایک دانا دشمن کو ترجیح دوں گی۔

کیونکہ جتنا نقصان قوم کو یہ نادان دوست اپنی نیک نیتی میں پہنچائیں گے، وہ ایک کیا شاید دس امریکہ مل کر بھی نہ پہنچا سکیں۔


 

محسن حجازی

محفلین
فواد صاحب!
جناب روز تو بیان چھپتے ہیں واشگاف الفاظ میں کہ 'پرویز مشرف کی حمایت جاری رکھیں گے۔'
ایک تو الیکشن کے ساتھ ہی چھپا ہے ڈھونڈ کر لنک پیش کرتا ہوں۔
تو یہ جس پرویز مشرف کی بات کرتے ہیں وہ کہاں ہوتا ہے۔؟ :grin:
مجھے آپ چاہے ‌گوانتا ناموبے لے جائیں، میں حلق بریدہ سے بھی اپنی دھرتی کے دفاع کے لیے آخری سانس تک کلمہ حق بلند کرتا رہوں گا انشا اللہ!
مجھے امریکہ سے نفرت نہیں۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسانی تمدن نے اتنا عروج کبھی نہیں دیکھا اوراسی سبب میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ امریکہ کا نقصان بنیادی طور پر انسانیت کا نقصان ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ایجادات میں امریکہ یورپ سے بھی نیچے آ گیا ہے۔ یہ War on Terror کا پیسہ تحقیق میں کھپا دیتے تو انسانیت کا فائدہ ہوتا۔۔۔۔ میں اسے مذاق سے Terror on War کہتا ہوں! :grin:
جس علمی عروج پر امریکہ ہے اس سے تنزلی کے تصور سے مجھے کوفت اور جھنجلاہٹ ہوتی ہے کیونکہ یہ سب انسانوں کا نقصان ہے۔ اور یہ بات آپ کے سیاستدان سمجھنے سے قاصر ہیں۔۔۔۔
تیل کے پیچھے بالٹیاں لے کر بستیاں اجاڑنے سے بہتر نہیں تھا کہ یہ جنگی بجٹ سستے ہائیڈروجن سیل بنانے پر کھپا دیا جاتا؟ کوئی تو طریقہ نکل ہی آتا۔۔۔۔؟ یہی پیسہ دنیا بھر کے ذہین دماغوں کی 'خرید' پر خرچ کر دیتے؟ اب آپ کہیں گے کہ اس کے لیے علیحدہ گلہ رکھا ہواہے۔
آپ لوگ سب سے طاقت ور گروہ ہیں کرہ ارض پر۔۔۔ آپ چاہیں تو افریقیوں کو سیر کر دیں۔۔۔۔
چاہے ہم جیسے بے زبانوں کو ہم خیال کرنے پر روسائل خرچ کر دیں۔۔۔۔
الغرض،
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔۔۔۔
ہم جیسی اقوام کا کیا ہے؟ جرم ضعیفی کی سزا!
لیکن اگر ہم کبھی آپ جیسے مقام تک ہوئے تو انشااللہ ظلم و جبرکی بجائے انصاف و رحم کی راہ اپنائیں گے۔۔۔ دیوانے کی بڑ ہی سہی۔۔۔۔ لیکن وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے۔۔۔ اوپر والے نیچے آجاتے ہیں اور نیچے والے اوپر۔۔۔۔

والسلام،
ایک کمزور قوم کا حساس فرد۔
 

اظہرالحق

محفلین
اظہر،

میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں سے نپٹنے کا تو شاید کوئی حل ہو، مگر جس چیز کا قوم کے پاس کوئی حل نہیں ہے وہ یہ ہیں:

1۔ ہماری اپنی ہی قوم کے وہ نادان لوگ جو اپنی تمام برائیوں کا امریکہ کے نام چڑھا کر اس بات کے منکر ہیں کہ اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنی غلطیوں کا اعادہ کر سکیں۔

ایسے نادان دوستوں پر میں ایک دانا دشمن کو ترجیح دوں گی۔

کیونکہ جتنا نقصان قوم کو یہ نادان دوست اپنی نیک نیتی میں پہنچائیں گے، وہ ایک کیا شاید دس امریکہ مل کر بھی نہ پہنچا سکیں۔




اور امریکہ ہمارا دانا دشمن ہے ۔ ۔ ۔؟؟؟؟؟

اور رہی بات نادان دوست کی ۔ ۔ ۔ تو مشرف کیا نادان دوست نہیں ؟؟ جسکی نیک نیتی نے ہمیں ایک آتش فشانی دھانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ ۔

میری اس بات کو طنز مت سمجھیے گا کیونکہ میں بھی آپ کی ہی طرح ۔۔ OSP یعنی اوور سسپیکٹڈ پاکستانی ہوں ۔ ۔ ہم او ایس پیز وطن کو بڑے کینوس پر دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ ۔ مگر جب ہم مائکرو لیول پر آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے ۔ ۔ کہ وہ نادان دوست ہم ہی ہیں ۔ ۔ ۔ جو دانا دشمن کی گود میں بیٹھے مزے سے ۔ ۔ ۔ اپنے جیسے مذید "دانا دوست" بنا رہے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔

سچی بات ہے مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد ، امریکہ کی سازشوں کی باتوں پر بھی ہالو کاسٹ جیسی پابندی لگ جائے یا پھر اس بات کو بھی ایسا ہی سمجھا جانے لگے کہ جیسے ہم مسلمان ہمیشہ یہودی سازشوں کی بات کرتے ہیں تو امریکہ بھی ایسا ہی کچھ سمجھا جائے ۔ ۔
 

اظہرالحق

محفلین
فواد صاحب!لیکن اگر ہم کبھی آپ جیسے مقام تک ہوئے تو انشااللہ ظلم و جبرکی بجائے انصاف و رحم کی راہ اپنائیں گے۔۔۔ دیوانے کی بڑ ہی سہی۔۔۔۔ لیکن وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے۔۔۔ اوپر والے نیچے آجاتے ہیں اور نیچے والے اوپر۔۔۔۔

والسلام،
ایک کمزور قوم کا حساس فرد۔

محسن ۔ ۔ آپ واقعٰی ہی حجازی ہو رہے ہیں :)

بس یہ ہی ایک وجہ ہے جس سے سب مخالف قوتوں کو ڈر ہے ، کہ جب ہماری باری ہے تو ۔ ۔ ہم معاف کر دیں گے ۔ ۔ اور یہ لوگ شرمندگی سے منہ چھپائیں گے ۔ ۔ ۔ کسی بھی انسان کی سب سے بڑی شکست اسکا اپنے آپ سے ہارنا ہوتا ہے ۔ ۔ اور اپنے آپ سے یہ اقوام ہارنا شروع ہو چکی ہیں ۔ ۔۔
 

محسن حجازی

محفلین
3 نومبر 2007 کو جب صدر پرويز مشرف نے ملک ميں ايمرجنسی لگائ تو ملک ميں عام تاثر يہی تھا کہ اس کا مقصد سپريم کورٹ کے اس فيصلے کو روکنا تھا جو پرويز مشرف کی صدارت کے حوالے سے تھا۔ اس حوالے سے سياسی جماعتوں نے يہ الزام لگايا تھا کہ امريکہ پرويز مشرف کو برسراقتدار ديکھنا چاہتا ہے اس ليے ايمرجنسی کے عمل پر تنقيد کے باوجود امريکہ نے کبھی بھی ججز کی بحالی کا مطالبہ نہيں کيا۔ اس حوالے سے امريکی حکومت کا موقف يہ ہے کہ اگر ان ججز کی بحالی کا مطالبہ کيا جائے جنھيں 12 اکتوبر 1999 کےبعد پرويز مشرف نے خود مقرر کيا تھا تو پھر پرويز مشرف کے ان اقدامات کی تائيد اور توثيق ہو جائے گی جو پرويز مشرف نے 1999 ميں کيے تھے۔ امريکہ نے کبھی بھی پرويز مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کے اقدامات کی تا‏ئيد نہيں کی۔ جن ججز کی بحالی کا آپ ذکر کر رہے ہيں وہ 1999 کے اقدامات کے باعث ہی اپنے عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

حضور بارہ اکتوبر والے مردے تو مت اکھاڑئیے یہ امریکی حکومت کی اصول پسندی مار نہ ڈالے ہمیں! یعنی جج اسی لیے نہ بحال کیے جائیں کہ بارہ اکتوبر کے اقدامات کی توثیق نہ ہو جائے؟ اور پاپ جتنے مرضی ہوجائیں اس ایک توثیقی پاپ سے بچتے ہوئے؟ کمال است! میرا نہیں خیال کہ امریکی حکومت کا ایسا بودا موقف ہوگا جس میں دائروی تضاد Circular Contradiction بہت واضح ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
دل تو کرتا ہے کہ اجمل انکل کی بھیجی ہوئی تصویر پوسٹ کردوں مگر کیا کروں سیلف سنسر اجازت نہیں دے رہا :(
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

محترم،

کسی بھی موضوع کے حوالے سے رائے قائم کرنے کے ليے ضروری ہے کہ ميڈيا پر پيدا کردہ مضبوط مصنوعی تاثر کو رد کر کے اصل حقائق کو پيش نظر رکھا جائے۔

آج کل ميڈيا اور تمام اردو فورمز پر تواتر کے ساتھ اس بات پر زور ديا جا رہا ہے کہ امريکہ پاکستان ميں حکومت کی تشکيل کے عمل ميں براہراست مداخلت کر رہا ہے۔ اس حوالے سے مختلف امريکی سفيروں کی سياسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کو خاص اہميت دی جا رہی ہے۔ مغربی ميڈيا ميں شائع ہونے والی بہت سی خبروں اور اداريوں کو بھی ثبوت کے طور پر مختلف فورمز پر پيش کيا جا رہا ہے اور اس رائے کو پختہ کيا جا رہا ہے کہ امريکہ ہر صورت ميں سياسی رہنماؤں کے توسط سے پرويز مشرف کو صدر کے عہدے پر ديکھنے کا خواہ ہے۔

اسی حوالے سے آج ٹی وی پر خبروں کے دوران ايک مختصر فلم ديکھنے کا اتفاق ہوا جس ميں امريکی سفیر اين پيٹرسن کو نواز شريف سے ملاقات کرتے دکھايا گيا اور ساتھ ميں يہ خبر چلائ گئ۔

"امريکی سفير اين پيٹرسن نے نواز شريف سے ملاقات کے دوران ججوں کی بحالی اور صدر مشرف کے عہدے کے حوالے سے نرم رويہ اختيار کرنے کی درخواست کی"۔

آپ کی اطلاع کے ليے عرض کر دوں کہ سفارتی سطح پر ہونے والی ملاقاتوں ميں گفتگو کا متن ريکارڈ کيا جاتا ہے۔25 فروری کو فرنٹير ہاوس ميں اين پيٹرسن اور نواز شريف کے درميان ہونے والی ملاقات ميں اين پيٹرسن کی گفتگو کے کچھ منتخب حصے پيش خدمت ہيں۔

"انتخابی عمل کے ذريعے پاکستان کے عوام نے اپنی خواہشات کا اظہار کر ديا ہے اور ہم انکی خواہش کا احترام کرتے ہيں۔ ہم کسی بھی اتحاد کے تحت بننے والی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے ليے آمادہ ہيں۔ حکومت بنانا منتخب عوامی نمايندوں کا کام ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم نئ حکومت کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام کے بہبود اور ترقی کے ليے شروع کيے جانے والے مختلف مشترکہ منصوبوں اور پاکستان کی دفاعی صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے باہمی کوششوں پر کام جاری رکھ سکيں"۔

ججوں کی بحالی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جس پر فيصلے کا اختيار نو منتخب پارليمنٹ اور متعلقہ قانونی ماہرين کو حاصل ہے۔ جہاں تک اس مسلئے پر امريکی حکومت کے موقف کا سوال ہے تو جمہوريت کے حوالے سے امريکی موقف بالکل واضح ہے۔ آزاد ميڈيا، آزاد عدليہ اور عوام کے سامنے جوابدہ حکومت مضبوط جمہوريت کے اہم ستون ہيں۔

يہاں ميں ايک بات واضح کر دوں کہ سفارتی سطح پر امريکی حکام کے بيانات محض روايتی بيانات نہيں ہوتے بلکہ کسی بھی متعلقہ ايشو پر امريکی حکومت کے موقف کو واضح کرتے ہيں۔

امريکی سفير اين پيٹرسن اور نواز شريف کے درميان ہونے والی گفتگو کے متن کا آج ٹی وی پر چلائے جانے والی خبر سے موازنہ کريں اور پھر اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے تاثر پر غور کريں۔ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

اسی ضمن ميں ايک آرٹيکل کا لنک آپ کو دے رہا ہوں جو مختلف اردو فورمز پر پوسٹ کيا گيا۔

http://news.yahoo.com/s/mcclatchy/20080220/wl_mcclatchy/2855957

يہ آرٹيکل اور ايسے ہی بے شمار آرٹيکلز اس بات کا ثبوت ہيں کہ ميڈيا ميں شائع ہونے والی ہر بات کو بغير تحقيق کے سچ نہيں مان لينا چاہيے۔ اگر آپ اس آرٹيکل کو دوبارہ پڑھيں تو آپ يہ بات جان ليں گے کہ پورا آرٹيکل کسی بھی امريکی حکومتی اہلکار کے بيان کے بغير لکھا گيا ہے۔ کيا وجہ ہے کہ اس آرٹيکل ميں پاکستان کے حوالے سے تو ہر بات مذکورہ اہلکار کے نام اور اسکی سياسی وابستگی کے تعارف کے ساتھ لکھی گئ ہے جبکہ امريکی حکومت کے کسی بھی اہلکار کا نام اور اسکی وابستگی نہيں دی گئ۔ صرف امريکی صدر بش کا ايک بيان شائع کيا گيا جس ميں انھوں نے کہا کہ "اب وقت آ گيا ہے کہ نومنتخب ارکان اسمبلی اپنی حکومت بنائيں۔ ہميں اميد ہے کہ نئ حکومت امريکہ کے ساتھ دوستانہ روابط رکھے گی"۔

امريکہ ميں آزادی رائے کے اظہار کی وجہ سے آپ کو ميڈيا پر ہر قسم کا نقطہ نظر اور اسکی تآئيد ميں بےشمارمواد مل جائے گا۔ ليکن سوال يہ ہے کہ کيا يہ کسی شخص يا ادارے کی ذاتی رائے کی ترجمانی کرتا ہے يا اسے امريکی حکومت کے سرکاری موقف سے منسوب کيا جا سکتا ہے۔

جہاں تک امريکی سفيروں کی سياست دانوں سے ملاقاتوں کا سوال ہے تو آپ کی اطلاع کے ليے عرض کر دوں کہ پچھلے 24 گھنٹوں ميں صدر مشرف سے امريکہ کے علاوہ 5 مختلف ممالک کے سفيروں نے ملاقات کی ہے۔ ملک ميں نئ حکومت کے قيام کے حوالے سے سفيروں کی اہم رہنماؤں سے ملاقاتيں کوئ غير معمولی واقعہ نہيں ہے۔ اسکی ايک تازہ مثال کوسوو ميں ديکھی جا سکتی ہے جہاں نئ حکومت کے قيام کے حوالے سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ يہ بھی ياد دلا دوں کہ پاکستانی سفارت کار بھی امريکہ سميت ديگر بيرونی ممالک ميں اہم رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہيں۔ کسی بھی دو ممالک کے درميان تعلقات کی مضبوطی کے ليے يہ سفارتی روابط نہايت اہم کردار ادا کرتے ہيں۔ يہی وہ سفارتی روابط ہیں جن کی بدولت بھارت اور پاکستان کے درميان کئ بار کشيدگی ختم کی گئ بصورت ديگر ايٹمی ہتھياروں سے ليس دونوں ممالک متعدد موقعوں پر جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہوتے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

الف نظامی

لائبریرین
دنیا میں ایٹمی حملوں کا آغاز کس نے کیا؟
اور اب دنیا کو جنگوں کی نصابی کتاب کس نے بنا رکھا ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کدھر ہیں؟
عراق افغانستان کی حکومتیں برطرف کرنے کے بعد پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی؟
امریکہ اپنی اوقات میں رھو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سپر پاور کا خبط پال کر ساری دنیا کو جنگ خانہ بنا دیا ہے۔
کیا امریکہ عالمی برادری میں برابری کی سطح پر انسانوں کی طرح نہیں رہ سکتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
امریکہ پاکستان میں کسی فریق آمر حتی کہ جمہوریت پسند کی بھی پشت پناہی نہیں کرسکتا۔
پاکستان کے معاملات میں دخیل صرف اور صرف پاکستانی عوام ہیں۔
 
Top