تعلیم ،کن خطوط پر ہو
علم کیا ہے اور علم کی اہمیت کیا ہے اور اس کو دوسروں تک کیسے پہنچانا ہے، کیا کچھ پہنچانا ہے ، کیا کچھ نہیں پہنچانا۔ علم کا اعلیٰ ترین منصب کیا ہے اور ایک عالم کو ایک غیر عالم پر کیا فوقیت حاصل ہے، علم اور عمل کا اور قول و فعل کا آپس میں تعلق کیا ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کی تشفی ازبس ضروری ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور علم انسان کی فطری ضرورت بھی ہے اور خاصّہ بھی۔
آئیے تخلیقِ آدم سے شروع کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی پہلے! اللہ کریم نے فرشتوں کو لازماً یہ علم دیا ہو گا کہ انسان زمین پر فساد بھی کرے گا، خونریزی بھی کرے گا اور اللہ کی زمین میں اللہ کا نظام بھی نافذ کرے گا۔ تبھی تو یہ ممکن ہوا کہ جب اللہ نے فرمایا ’’میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘ تو فرشتوں نے عرض کیا: ’’آپ اس کو تخلیق کرنے والے ہیں جو زمین میں فساد اور خون ریزی کرے گا؟‘‘ ارشاد ہوا: ’’جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے‘‘۔ لامحالا، اللہ کریم اپنی ذات اور صفات میں یکتا اور لامحدود ہے تو اس کا علم بھی لامحدود ہے۔ اللہ کریم نے حضرت آدم علیہ السلام کے جسم میں روح پھونکی تو ساتھ ہی علم بھی پھونک دیا۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے: ’’ہم نے آدم کو تمام اسماء سکھا دیے‘‘ مطلب ہے علم سے مالا مال کر دیا اور فرشتوں سے کہا: ’’اگر تم سچے ہو تو ان اشیاء کے نام ہی بتا دو‘‘۔ فرشتے درخواست گزار ہوئے کہ: اللہ! ہمیں جو کچھ آپ نے سکھا دیا ہے اس سے زیادہ کچھ بھی معلوم نہیں‘‘۔ تب اللہ کریم اپنے نوتخلیق خلیفہ سے مخاطب ہوا: ’’ان کو بتاؤ‘‘ اور آدم علیہ السلام نے بتا دیا۔
یہاں سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ کی نیابت کے لئے نہ تو کوئی جناتی قوت ویسی کارآمد ہے اور نہ ملکوتی لطافت جیسی کارآمد خاصیت۔ مرتبت علم سے ہے، جو علم میں برتر ہے وہی اصل میں برتر ہے۔ نبئ آخرالزمان حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوتی ہے، جبریلِ امین کہتے ہیں: اِقْرَاْ (پڑھئے!) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَا اَنَا بِقَارِءٍ (میں پڑھا لکھا نہیں ہوں)۔ جبریلِ امین پھر کہتے ہیں: اقْرَاْ (پڑھئے!)، پھر وہی جواب: مَا اَنَا بِقَارِءٍ (میں پڑھا لکھا نہیں ہوں)۔ تیسری دفعہ کہتے ہیں: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا)۔ پڑھنا، اسلام کا پہلا حکم، پہلی وحی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’وہ بے انتہا رحم کرنے والا ہے، اس نے قرآن سے علم سکھایا، انسان کو تخلیق کیا، اس کو بات کرنا سکھایا‘‘۔ لفظ ’’قرآن‘‘ کے سادہ معانی ہی بتا رہے ہیں : ’’سب سے زیادہ پڑھا جانے والا‘‘۔ اس سے علم کی اہمیت بالکل عیاں ہو جاتی ہے۔
اب آگے بڑھتے ہیں۔ پڑھنا کیا ہے اور پڑھانا کیا ہے؟ بہت صاف سی بات ہے کہ یہ زمین، یہ انسان، جن، فرشتے، حیوانات، جمادات، حشرات، نباتات، معدنیات، فضائیں، چاند، سورج، ستارے، کہکشائیں، آسمان، عرش، کرسی سب اللہ کریم کی صنّاعی ہے اور سب کا ملاک وہی ہے؛ سو اس سب کچھ پر نظام بھی وہی چلے گا جو اللہ کو پسند ہے۔ اور اللہ کو تو صرف ایک ہی نظام پسند ہے: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اللہ کے نزدیک نظام تو ہے ہی اسلام) اور اسلام وہی ہے جو اللہ کریم نے انسانوں کے نام اپنے آخری پیغام یعنی قرآن شریف میں کھول کر بیان فرما دیا اور اس کی عملی تشریح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی صورت میں اہلِ دہر کو دکھا دی۔ سو، علم حاصل کرنا ہے تو اسلام کا علم حاصل کرنا ہے جس کا منبع قرآن ہے۔ ارشادِ نبوی ہے: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ (تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے)۔ اور قرآن کہتا ہے کہ اللہ کا نبی جو تمہیں دے وہ لے لو (یعنی جو کہے، وہ کرو!) اور جس سے روکے، رک جاؤ!۔ یاد رہے کہ یہ حکمِ قطعی ہے اس میں اختیار یا انتخاب کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ یہی حکم ایک اور انداز میں وارد ہوتا ہے: اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃ (اسلام میں داخل ہو جاؤ، پورے طور پر)۔ نبی اکرم کا یہ ارشاد بھی پیشِ نظر رہے کہ : بَلِّغُوْا عَنِّیْ لَوْ کَانَ آیَۃٌ (میرا کہا عام کر دو یعنی سب کو بتا دوچاہے وہ ایک مختصر سی بات ہو)۔
بات بالکل صاف ہو گئی کہ پڑھنا کیا ہے؟ قرآن پڑھنا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھنے ہیں۔ اور کرنا کیا ہے؟ جو کچھ پڑھنا ہے اس کو عملی طور پر (پورے طور پر)اختیار کرنا ہے۔ اسلامی معاشرے کی تشکیل کرنی ہے اور اللہ کریم کا نظام نافذ کرنا ہے۔ اسلام میں علم کا اعلیٰ ترین مقصد اور مطمعِ نظر یہی ہے اور یہی علم کا تقاضا ہے، یہی فلاح ہے۔ اگلا مرحلہ ہے پڑھائے گا کون؟ ارشاد ہوتا ہے کہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے سلسلے میں جواب دہ ہو گا۔ انسانی معاشرے کے راعی کو ہم ’’چرواہا‘‘ کہہ کر مطمئن نہیں ہو سکتے۔ وہ اپنی بھیڑ بکریوں گایوں اونٹوں کو چراگاہ میں لے جاتا ہے، گھیر گھار کے رکھتا ہے، ان کی چوکیداری کرتا ہے اور شام کو باڑے میں لا کر بند کر دیتا ہے۔ اسے کسی گائے بھینس کی تربیت نہیں کرنی ہوتی۔ انسانی معاشرے کے راعی کی اولین ضرورت ہے اپنے رعیت کو سمجھنا، ان کی تربیت کرنا، ان کی صلاحیتوں کو مثبت رخ پر چلانا اور اس معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنا جو اللہ کو مطلوب ہے۔ اس طرح ہم میں ہر فرد جس درجہ میں راعی ہے اسی درجہ میں استاد یا معلم بھی ہے۔
یہ جو حکم ہواکہ اِطْلِبُوا الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ (گود سے گور تک سیکھنے کا عمل جاری رہے)، بتاتا ہے کہ اولین معلم والدین ہیں، خاص طور پر والدہ۔ سو، والدین پر پہلے لازم آتا ہے کہ اپنے بچوں کو سکھانے کی اہلیت حاصل کریں۔ علم اور طلبِ علم کے بارے میں اللہ کریم نے اپنے بندوں کو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے: قُلْ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً (کہہ یعنی دعا کیا کر کہ اے میرے رب میرے علم کو بڑھا)، علم کی طمع شاید واحد طمع ہے جو اللہ کریم کو محبوب ہے۔ بات علم حاصل کرنے پر، اس کو بڑھا لینے پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے ساتھ اس علم پر عمل کرنا بھی لازم ہو جاتا ہے۔ روزمرہ زندگی سے مثال لیتے ہیں: ایک بچے کو علم ہی نہیں کہ بھڑ، بچھو، سانپ زہریلے ہوتے ہیں اور نقصان پہنچا سکتے ہیں، وہ اتفاق سے ایسے کسی کیڑے کو چھیڑ دیتا ہے اور کیڑا اس کو ڈس لیتا ہے، وہ بچہ بے قصور سمجھا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک عاقل و بالغ شخص بھی ایسا ہی بچگانہ عمل کرے تو وہ بے قصور نہیں کہلا سکتا۔ حاصل یہ ہوا کہ علمِ مفید حاصل کرنا ہے اور اس سے فائدہ بھی لینا ہے، نہیں تو ایسا عالم زیادہ قصور وار ہے جو جانتے بوجھتے ایک غلط کام کرتا ہے۔ اس شخص کو بھی دیکھتے چلئے جسے عرفِ عام میں جاہل کہا جاتا ہے، جس نے جہالت میں زندگی بسر کردی۔ اہل علم کے نزدیک اس کی مثال گدھے کی سی ہے جو کسی نہ کسی طور چلا جا رہا ہے، اسے کچھ پتہ نہیں کہ جانا کدھر ہے۔ ایک عالم ہے جو جانتا بہت کچھ ہے مگر اس کا عمل صفر ہے، وہ اپنے علم سے کوئی راہنمائی نہیں لے رہا۔ ایسے عالم کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں۔ وہ جاہل گدھا تو ہلکا پھلکا گزر گیا اور یہ عالم گدھا پیٹھ پر بوجھ اٹھائے گزر رہا ہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص شکایت لے کر آیا کہ: میرے بیٹے نے مجھے ڈنڈوں کے ساتھ پیٹا ہے۔ امیرالمؤمنین نے اس سے پوچھا: کیا تجھے دین کا علم حاصل ہے؟ کہنے لگا: کچھ کچھ ہے۔ پوچھا: تو نے مزید علم کی کوشش کی؟ بولا: نہیں۔ پوچھا: جتنا تو جانتا تھا اپنے بیٹے کو سکھایا؟ کہا: نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے پاس کیا لینے آئے ہو؟ ایک بیل نے دوسرے کو مارا، میں کیا کر سکتا ہوں! مراد یہ ہے کہ ہر باپ اپنی اولاد کی اسلامی خطوط پر تربیت کرنے کا پابند ہے، وہ خود کو اس کا اہل نہیں پاتا تو اہلیت حاصل کرے، اپنی لاعلمی یا کم علمی کو بہانہ نہیں بنا سکتا۔ خاص طور پر بیٹیوں کے معاملے میں بشارت دی گئی ہے کہ ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کو پالا پوسا، اسلامی طرزِ حیات پر ان کی تربیت کی اور ان کو بیاہ دیا، وہ جنتی ہے۔
اسلامی تعلیمات اور طرزِ حیات میں توازن بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک باپ جو اتنی محنت کرتا ہے اور اس کے باوجود اپنی اولاد کے اعمال کا بھی ذمہ دار ہے، اس کا مقام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، اس واقعہ سے عیاں ہوتا ہے۔ ایک شخص دربارِ رسالت میں شکایت لے کر آیا کہ میری کمائی میرا باپ لے لیتا ہے اور میرے مال میں سے بھی لے لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کو طلب فرما لیا۔ شکایت سن کر اس نے شعر کی صورت میں اپنی ان بے لوث محنتوں کا ذکر کیا جو اُس نے اپنے بیٹے کے پیدا ہونے سے لے کر کڑیل جوان ہونے تک کی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آنکھوں میں آنسو آ گئے ، شکایت کرنے والے جوان سے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ ماں کا مقام تو اس سے بھی کہیں آگے ہے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نے پوچھا: بندوں میں مجھ پر سب سے پہلا حق کس کا ہے؟ ارشاد ہوا: تیری ماں کا۔ عرض کیا: اس کے بعد؟ ارشاد ہوا: تیری ماں۔ عرض کیا : اور اس کے بعد؟۔ پھر ارشاد ہوا: تیری ماں کا۔ عرض کیا: اور اس کے بعد؟ ارشاد ہوا: تیرے باپ کا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایک باپ اپنے بیٹے پر اور اس کے مال پر حق رکھتا ہے تو ماں کا حق کہاں تک رہا ہو گا! اسلام نے والدین کی خدمت کو جنت کے حصول کے لئے شرط قرار دیا ہے۔ ہر مسلم کے لئے سدا بہار حکم ہے کہ اپنے والدین کی کسی بات پر تیوری چڑھانے اور سخت سست لفظ کہنے کی بھی ممانعت کر دی گئی اورایک ایسی دعا تعلیم کی گئی جس میں بجائے خود اعتراف موجود ہے: رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً (میرے رب ان دونوں پر رحم اور رحمت فرما جیسے ان دونوں نے مجھے پالا جب میں چھوٹا سا تھا)۔ ایک شخص جو کچھ توقع اپنی اولاد سے رکھتا ہے، اس سے کسی قدر زیادہ توقع اس کے اپنے والدین کو رہی ہو گی۔
ارشادِ ربانی ہے کہ ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہ اس کے ماں باپ ہیں جو اُس کو یہودی، نصرانی، مجوسی بنا دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی ایک مسلم ماں کی مثال لیجئے: بچہ ابھی بولنے کے قابل نہیں ہوتا، جب وہ اے سُلاتی ہے تو ہلکی ہلکی تھپکیوں کے ساتھ کہتی جاتی ہے: اللہ، اللہ، اللہ!، سوتے سے جاگتا ہے تو بسم اللہ کہہ کر اس کو اٹھاتی ہے، گود میں لیتی ہے۔ اس کے منہ میں کھانے کی کوئی چیز ڈالتی ہے تو دائیں ہاتھ سے ڈالتی ہے، بچے کی جگہ خود بسم اللہ پڑھتی ہے۔ یہ تعلیم بھی ہے اور تربیت بھی! ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: سَمِّ اللّٰہِ وَ کُلْ بِیَمِیْنِکَ وَ مِمَّا یَلِیْکَ (اللہ کا نام لو یعنی بسم اللہ پڑھو، اپنے دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھاؤ)۔
اگلا سوال آتا ہے کہ کون سا علم حاصل نہیں کرنا؛ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ علم النافع جسے کہا گیا ہے وہ علم ہے جو بندے کو اللہ کے قریب کر دے۔ اولیت تو ظاہر ہے اللہ کی کتاب کی تفہیم و تفسیر کو حاصل ہوئی، اور اِس کے لئے علم الحدیث ہے، علم الحدیث کے ضمن میں علمِ روایت، علمِ درایت اور علم اسماء الرجال وجود میں آئے۔ اور ایسے تمام علوم جو انسانوں کی فلاح و بہبود میں مدد گار ہوں، علم التعلیم، علم الطب والجراحت، علم الادویہ وغیرہ بے شمار شعبے ہیں جن میں علم حاصل کرنا خیر و برکت کا باعث ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ ان علوم کا اطلاق صراطِ مستقیم کی ہدایات کے مطابق کیا جائے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے)، اطلاق اور استعمال برا ہو گیا، نیت بگڑ گئی تو اچھے علم سے بھی برے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ چاقو، چھری، نشتر ایک چیز ہے، اُس کو استعمال کر کے اپنے ہی اہل و عیال کے لئے رزق کمایا، کسی کے جسم سے پھوڑا، غدود، گلٹی نکالی کہ اس کی بیماری کا علاج ہو سکے تو یہ چیز ایک اچھے مقصد میں کام آئی اور کسی کو قتل کر دیا تو بات ہی بدل گئی، ایسے قتل کا جواز اور عدم جواز ہمارا اس وقت کا موضوع نہیں ہے۔ علم الحساب بری چیز نہیں مگر جب یہی علم سودی کاروبار کو چلانے کے لئے کام میں لایا جائے تو وہ عمل حرام ٹھہرے گا، علم حرام نہیں ۔ تاہم کچھ علوم ایسے بھی ہیں جن کو سیکھنا سکھانا ممنوع ہے ان میں سرِ فہرست جادو ہے۔ جادو کا علم سکھانے والا، سیکھنے والا، جادو کرنے والا اور کرانے والا سب کے لئے سخت وعید ہے؛ کہ ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ تعلیم کی بنیاد تقوے پر ہے۔ ہر وہ کام کرنے کی، سیکھنے کی، سکھانے کی سعی کرنی ہے جو اللہ کے ہاں محبوب ہے اور ہر اس کام سے بچنا ہے جو اللہ کو ناراض کرنے کا سبب ہے۔ استاد اور شاگرد دونوں کی نیت اور تقوے کی سطح وہ پیمانہ ہے جس کا ٹھیک ٹھیک علم صرف اللہ کریم کو ہوتا ہے، انسان اندازہ ضرور کر سکتا ہے۔حصولِ رزق کے لئے علم حاصل کرنا لازم ہے تاہم اس کو اللہ اور بندے کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔
معلم کی ایک اور ذمہ داری ہے، کہ وہ جس علم کی تعلیم دے رہا ہے اسے اس کی صداقت اور جواز پر یقین ہو، اور اس علم کے اچھے اور برے پہلوؤں سے پوری شناسائی حاصل ہو۔ اچھے علوم اور اچھی تعلیم بھی اگر زبانی جمع خرچ پر مبنی اور مشتمل ہو گی تو اس کی افادیت بھی جاتی رہے گی بلکہ گرفت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ایک استاد اپنے شاگردوں کو، ایک باپ اپنی اولاد کو نماز سکھاتا ہے، اس کی پابندی کی تلقین کرتا ہے مگر خود اپنی نمازوں کی چنداں پروا نہیں کرتا تو اس کی تعلیم اور تلقین کا مؤثر ہونا مشکوک ہو جائے گا۔ نیکی سکھانے اور اس کی تلقین کرنے کے لئے لازم ہے کہ استاد پہلے خود اس پر عمل پیرا ہو۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں ہو؟ اور یہ بھی کہ: یہ کیا کہ تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو؟۔ شاگرد کے لئے استاد کا مقام باپ سے بھی آگے ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ استاد کی ذمہ داریاں ایک باپ کی ذمہ داریوں سے زیادہ ہیں۔ استاد پر بھی لازم ہے کہ اُن ذمہ داریوں کا کما حقہٗ ادراک رکھے اور اپنی حد تک پورے خلوص کے ساتھ تعلیم کا کام سر انجام دے۔
اب تک کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ علم کردار سازی کا نام ہے۔ سیکھنے والا اپنے اساتذہ کی نہ صرف عادات کا بلکہ ان کی حرکات و سکنات کا بھی اثر لیتا ہے۔ اور اس کی شخصیت کی تعمیر میں اساتذہ کی ذاتی خوبیاں یا خامیاں رچ بس جاتی ہیں۔ وہ ماحول جس میں اسے علم حاصل کرنے کے مواقع دیے جا رہے ہیں، اس ماحول کا پاکیزہ اور اخلاقی سطح پر بلند ہونا از بس لازمی ہے۔ کردار سازی کے حوالے سے انبیائے کرام کی مثال بہترین مثال ہے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنے صحابیوں کی اس طور تربیت کی کہ ان کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دیکھئے! اللہ کے حکم پر اپنے لختِ جگر کی گردن پر چھری چلانے کو تیار ہو جاتے ہیں اور بیٹا بھی بے چون و چرا اپنی گردن پیش کر دیتا ہے۔ اللہ کریم کو ان باپ بیٹے کی اطاعت ایسی پسند آتی ہے کہ عید قربان کی صورت میں تاقیامت اس کی یاد اور یاد دہانی کا سامان کر دیا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے شاگردوں کو اللہ کریم کی طرف سے سند جاری ہو جاتی ہے کہ: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کفار پر سخت ہیں اور آپس میں رحم کرنے والے ہیں۔ کفر اور اسلام کا یہ امتیاز حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے چلا آتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا جس کا نام کنعان بتایا جاتا ہے، وہ اپنے باپ کو نبی اور استاد تسلیم نہیں کرتا تو آسمانوں سے فیصلہ آتا ہے کہ وہ تیرے (نوح علیہ السلام کے) کا کچھ نہیں لگتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ جس کا نام یا عرفیت قرآن شریف کے مطابق آذر ہے، غلط لوگوں کا غلط استاد بن جاتا ہے، اللہ کے حکم کے خلاف بت پرستی کی ترویج میں سرگرم ہے، اپنے بیٹے کو جو اللہ کا نبی ہے دھمکیاں دیتا ہے کہ میں تجھے سنگسار کر دوں گا اگر تو ہمارے بتوں کی توہین سے باز نہیں آتا۔ اللہ کریم اس آذر کو قیامت کے دن جیسے چاہے گا رسوا کرے گا۔ملتیں دو ہی ہیں بس! ایک ملتِ اسلام اور ایک ملتِ کفر۔ ہر مسلمان مبلغ اور معلم کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اس امتیاز کو خود تسلیم کرے، اپنے شاگردوں کو بھی بتائے اور سمجھائے کہ ملتیں دو ہی ہیں بس!
ملتِ اسلام میں شامل ہونے کا اعلان کلمۂ شہادت ہے: اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی الٰہ نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں)۔ در حقیقت یہ اعلان اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدے کا اعلان ہے جس کی پہلی شق اللہ کریم بیان فرماتا ہے: ہم نے اُن سے اُن کی جان اور مال خرید لئے کہ اس کے بدلے میں اُن کے لئے جنت ہے۔ سودا ہو چکا، اس سے انحراف کی سزا بھی بتا دی گئی کہ جہنم ہے، انسان اللہ سے بھاگ نہیں سکتا، بھاگ کر جائے گا بھی کہاں؟ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ: اے جنوں اور انسانوں کے گروہ اگر تم زمین اور آسمانوں کی حدود سے بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ! تم نہیں بھاگ سکتے الا یہ کہ تمہیں آسمانوں اور زمین پر تسلط حاصل ہو۔ اور وہ تسلط اللہ کا ہے کسی اور کا ہو نہیں سکتا۔جسم و جان اللہ کی عطا، مال و منال اللہ کی عطا، خود ہی عطا کر کے اس کے بدلے جنت کی بشارت اللہ ہی کی رحمت ہو سکتی ہے۔ عہد یہ ہوا کہ میرے جان و مال اللہ کے ہوئے، یعنی ہیں تو میرے پاس اور جو کچھ میرے اختیار میں ہے اس کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر خرچ کرنا ہے اور جب جیسے وہ طلب کرے جان حاضر کر دینی ہے۔ ذاتی اور انفرادی زندگی سے لے کر ریاستی اور آفاقی معاملات تک جو کچھ بھی ہے اس کو اللہ کے دین کے تابع کر دینا ہے، کوئی چیز دین سے باہر نہیں۔ دنیا اور دین کی تقسیم یا الگ الگ خانوں کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، دین کا نفاذ اس دنیا میں ہونا ہے اور اس کا اجر دوسرے جہان میں جا کر ملنا ہے، یہاں جو مل گیا سوفضل اور بخشیش ہے۔ مرنا پڑے گا، یہ لکھ دیا گیا! سو جب مرنا ہی ہے تو پھر اللہ کے عطا کئے ہوئے طریقے پر کیوں نہ مرا جائے؟ یہی حقانیت ہے۔ جب ہم اسلام میں تعلیم کی اہمیت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں تعلیم میں اسلام کی حقانیت کونصاب تسلیم کرنا ہو گا، چاہے کوئی کچھ بھی کہتا رہے۔
اسلام روزی روٹی کے لئے علم حاصل کرنے کو منع نہیں کرتا، بلکہ کمانا فرضِ عین ہے، کوشش کو لازم قرار دیا گیا۔ رزق کے بارے میں کہا گیا کہ رزق انسان کے پیچھے ایسے پڑا ہوا ہے جیسے موت کہ اس کا ملنا مقسوم ہو گیا، وہ مل کر رہے گا۔ اسے حاصل کیسے کرنا ہے اس کا طریقہ جو بھی ہے شرط صرف ایک ہے کہ طریقہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق درست ہو اور خرچ کرنے میں بھی معیار وہی ہے۔ فساد وہاں پیدا ہوتا ہے جب بندہ روزی روٹی کو روزی رسان پر ترجیح دینے لگے۔ نظامِ تعلیم کی بنیادیں اس نظریے پر استوار ہوں گی تو بات بنے گی نہیں تو خرابی ہی خرابی ہے۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ ایک لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا ایک پورے خاندان کا تعلیم یافتہ ہونا ہے اسی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی کی غلط تربیت ایک پورے خاندان کی غلط تربیت ہے۔معاملہ لڑکے کا بھی یہی ہے، جیسے آج کی ننھی گڑیا کل کی ماں اور پرسوں کی نانی دادی ہے، ویسے ہی آج کے گڈو میاں کل کے ابا اور پرسوں کے نانا دادا ہیں۔ اِن کی تربیت اور تعلیم ایسے خطوط پر ہونی چاہئے کہ وہ مسلم معاشرے کے کار آمد رکن بن سکیں۔
مزید پھر کبھی سہی ۔۔