عشق میں نے لکھ ڈالا قومیت کے خانے میں
عامر امیر کی عمدہ غزل ہے
قومیت کے حساب سے "عاشق" یا "قوم عاشقان میں سے ہونا" قومیت ہوگی یا پھر لفظ "عشق" ہی مناسب ہے
بعض سوال اتنے عمدہ ہوتے ہیں کہ جواب دینے کو جی نہیں چاہتا۔ بس پوچھنے والے کی جودتِ طبع پر رشک آتا رہتا ہے۔ آدمی سوچتا ہے کہ جواب دے دیا تو یہ جستجو ماند نہ پڑ جائے۔ بھٹکنے دو۔ شاید اسی لیے خود خدا بھی کبھی کبھی ہماری پکار کا جواب نہیں دیتا۔
خیر ہم تو بشر ہیں۔ آپ کو داد بھی دیں گے اور جواب بھی۔ کیا نکتہ نکالا ہے آپ نے، واللہ۔ بہت خوب۔ خود ہمارے لیے بھی یہ پہلو نیا تھا۔ روشناس کروانے کا شکریہ!
اب ذرا تیاپانچا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس پورے مصرع میں ہمیں کوئی ترکیب نظر نہیں آئی۔ ترکیب سے مراد ہمارے ہاں عموماً الفاظ کا وہ مجموعہ ہوتا ہے جو باہمدگر فارسی عطف یا اضافت سے مربوط ہو۔ مثلاً شبوروز، منوتو، شوروشغب وغیرہ مرکبِ عطفی کی مثالیں ہیں اور دردِدل، حسنِجاناں، غمِروزگار وغیرہ مرکباتِاضافی ہیں۔ آپ کا سوال مصرعِزیرِغور میں عاشق یا عشق کی مناسبت سے متعلق ہے۔ یہ میری ناقص رائے میں تراکیب نہیں محض کلمات ہیں۔ یعنی بامعنیٰ الفاظ۔
اب آتے ہیں سوال کی جانب۔ قوم اور قومیت کا بنیادی فرق یہ ہے کہ قوم افراد کے گروہ کا نام ہے جبکہ قومیت اس کیفیت یا حالت کا نام ہے جس میں افراد قوم کی حیثیت سے موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی شخص لوہار قوم کا فرد ہو سکتا ہے۔ مگر اس کی قومیت کو لوہار کہنا مناسب نہ ہو گا۔ اس کی بجائے اسے لوہاری کہنا چاہیے۔ گڑبڑ یوں پیدا ہوتی ہے کہ اس قسم کے الفاظ اردو میں محض قومیت کے لیے استعمال میں نہیں آتے بلکہ پیشے کے لیے بھی مستعمل ہیں۔ یعنی لوہاری سے مراد لوہار کا پیشہ بھی ہو سکتا ہے اور قومیت بھی۔ زیادہ معروف پیشے کا مفہوم ہے۔
اسی طرح فرض کیجیے ہم دردمندوں کی بات کر رہے ہیں۔ دردمند لوگ ایک قوم کہلا سکتے ہیں۔ مگر ان کی قومیت دردمند نہیں بلکہ دردمندی ہونی چاہیے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قومیت ایک مجرد تصور ہے جبکہ قوم ایک جیتاجاگتا وجود رکھتی ہے۔ دردمند اور لوہار مجرد نہیں ہوتے مگر دردمندی اور لوہاری مجرد ہیں۔ لہٰذا قومیت کے مقابل انھی کو لکھا جانا چاہیے۔
اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ شاعر نے قومیت کے خانے میں جو عاشق کی بجائے عشق لکھنے کا ذکر کیا ہے تو یہ بالکل درست ہے۔ عاشق لکھنا تب ٹھیک کہلاتا جب قوم کا خانہ مذکور ہوتا نہ کہ قومیت کا۔ آپ کو غالباً یہ مسئلہ اس وجہ سے درپیش ہوا ہے کہ عشق معروف معنوں میں ایک کیفیت یا جذبے کا نام ہے۔ مگر خود ہی سوچیے کہ عاشقوں کی قوم میں وہ جو ایک کیفیت یا حالت قدرِمشترک کے طور پر موجود ہے جس کے طفیل وہ ایک قوم بنتے ہیں، اسے عشق یا عاشقی وغیرہ کے سوا اور کیا نام دینا چاہیے؟
عامر امیر صاحب کو ہو سکے تو داد پہنچا دیجیے گا اس چست اور فصیح مصرع پر۔ ہمیں ان کا جس قدر کلام ابھی ابھی میسر آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر شاعر کی زندگی کا کامیاب ترین مصرع ہو گا۔