کیا تشفی بوند سے ہو گی سمندر دیکھ کر

نمرہ

محفلین
کیا تشفی بوند سے ہو گی سمندر دیکھ کر
کشمکش میں پڑ گئے ہم چشم و ساغر دیکھ کر

بت پرستی عین کعبے میں کوئی کرتا رہا
کوئی لے آیا ہے ایماں دست آذر دیکھ کر

جب زمانے کو پڑھانے سے ذرا فرصت ملی
کچھ پشیماں ہو گئے ہیں اپنے اندر دیکھ کر

اس بلا خیزی سے کس کی سمت جاتا ہے خیال
دل یہ کس کو یاد کرتا ہے سمندر دیکھ کر

قہقہے تھے، زندگی تھی اور آتشدان تھا
ہم ترستے رہ گئے کھڑکی سے منظر دیکھ کر

شائبہ پھر اور ہی ہونے پہ ہوتا ہے ہمیں
یوں نظر انداز کرتے ہیں وہ اکثر دیکھ کر

کھینچنا قدموں تلے سے فرش کا تھا لازمی
پاؤں ہم رکھتے تھے دنیا میں بھی اوپر دیکھ کر

خواہ مخواہ ہی ناز نخروں کے فسانے بن گئے
جبکہ ہم خاموش تھے لوگوں کو برتر دیکھ کر

اس پذیرائی کا ہم کو خود بھی اندازہ نہ تھا
آئے ہیں دیوار و در کتنے ہی بے گھر دیکھ کر

اس کے دروازے پہ پہنچیں گے لیے گر اپنا آپ
پھر پلٹ جائیں گے اس کو بھی میسر دیکھ کر
****
 
مدیر کی آخری تدوین:
پوری غزل ہی بہت خوب ہے اور خصوصی طور پر یہ دو اشعار تو یوں دل پہ لگے جیسے ان کا کام ہی یہ تھا۔ :)
بت پرستی عین کعبے میں کوئی کرتا رہا
کوئی لے آیا ہے ایماں دست آذر دیکھ کر

قہقہے تھے، زندگی تھی اور آتشدان تھا
ہم قناعت کر گئے کھڑکی سے منظر دیکھ کر
 

نمرہ

محفلین
خیال آیا کہ خواہ مخواہ کا استعمال غلط ہے یہاں ، تو ایک شعر تبدیل کر دیا۔


یوں ہی اپنے ناز نخروں کے فسانے بن گئے
جبکہ ہم خاموش تھے لوگوں کو برتر دیکھ کر
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
جب زمانے کو پڑھانے سے ذرا فرصت ملی
کچھ پشیماں ہو گئے ہیں اپنے اندر دیکھ کر

اس بلا خیزی سے کس کی سمت جاتا ہے خیال
دل یہ کس کو یاد کرتا ہے سمندر دیکھ

کھینچنا قدموں تلے سے فرش کا تھا لازمی
پاؤں ہم رکھتے تھے دنیا میں بھی اوپر دیکھ کر

بہت خوب!
 
کیا تشفی بوند سے ہو گی سمندر دیکھ کر
کشمکش میں پڑ گئے ہم چشم و ساغر دیکھ کر

بت پرستی عین کعبے میں کوئی کرتا رہا
کوئی لے آیا ہے ایماں دست آذر دیکھ کر

جب زمانے کو پڑھانے سے ذرا فرصت ملی
کچھ پشیماں ہو گئے ہیں اپنے اندر دیکھ کر

اس بلا خیزی سے کس کی سمت جاتا ہے خیال
دل یہ کس کو یاد کرتا ہے سمندر دیکھ کر

قہقہے تھے، زندگی تھی اور آتشدان تھا
ہم ترستے رہ گئے کھڑکی سے منظر دیکھ کر

شائبہ پھر اور ہی ہونے پہ ہوتا ہے ہمیں
یوں نظر انداز کرتے ہیں وہ اکثر دیکھ کر

کھینچنا قدموں تلے سے فرش کا تھا لازمی
پاؤں ہم رکھتے تھے دنیا میں بھی اوپر دیکھ کر

خواہ مخواہ ہی ناز نخروں کے فسانے بن گئے
جبکہ ہم خاموش تھے لوگوں کو برتر دیکھ کر

اس پذیرائی کا ہم کو خود بھی اندازہ نہ تھا
آئے ہیں دیوار و در کتنے ہی بے گھر دیکھ کر

اس کے دروازے پہ پہنچیں گے لیے گر اپنا آپ
پھر پلٹ جائیں گے اس کو بھی میسر دیکھ کر
****
لاجواب۔
 
شکریہ مگر سند تو ڈھونڈو کوئی خواہ مخواہ کی۔
جیتے جی میرے لینے نہ پاوے تپش بھی دم
اتنی تو سعی تو بھی جگر خواہ مخواہ کر

میر
(یہاں خواہ کا الف دبا دیا گیا ہے۔ یہ تغیر لفظ میں ہے جیسے واہ سے وَہ مگر املا یہی رہنی چاہیے)
 
جیتے جی میرے لینے نہ پاوے تپش بھی دم
اتنی تو سعی تو بھی جگر خواہ مخواہ کر

میر
(یہاں خواہ کا الف دبا دیا گیا ہے۔ یہ تغیر لفظ میں ہے جیسے واہ سے وَہ مگر املا یہی رہنی چاہیے)
اگر خواہ کے لیے یہ جائز ہے تو مخواہ کے لیے بھی کوئی ممانعت نہیں ہونی چاہیے۔ یعنی کہ خواہ مخواہ کو فاعلن کے وزن پر باندھنا قابلِ اعتراض نہیں۔
 

نمرہ

محفلین
جیتے جی میرے لینے نہ پاوے تپش بھی دم
اتنی تو سعی تو بھی جگر خواہ مخواہ کر

میر
(یہاں خواہ کا الف دبا دیا گیا ہے۔ یہ تغیر لفظ میں ہے جیسے واہ سے وَہ مگر املا یہی رہنی چاہیے)

میر کی پوری غزل پڑھ کر مجھے شک پڑتا ہے کہ لفظ خوامخواہ ہے، فاعلات کے وزن پر۔ نوراللغات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! اچھے اشعار ہیں ! بہت خوب!

خواہ مخواہ کا تلفظ خامخاہ کیا جاتا ہے ۔ سو اس کا اصل وزن فاعلات ہی ہے ۔ اس کےآخر سے ہ کو گرانا ٹھیک نہیں ۔ میر کے شعر میں بھی فاعلات ہی باندھا گیا ہے ۔مشہور مزاحیہ شاعر خوامخواہ حیدرآبادی بھی اپنے تخلص کو اسی وزن پر باندھتے تھے ۔
آپ نے آزر کا املا آذر لکھا ہے جو ایک بالکل ہی مختلف لفظ ہے اور یہاں اس کا محل نہیں ۔
 
Top