کعنان
محفلین
کیا خاندانی نظام ظلم ہے؟
کچھ روز قبل ”دلیل“ پر خاندانی نظام کے غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے ایک تحریر سامنے آئی جس میں کوئی اسلامی دلیل موجود نہ تھی۔ اس تحریر کے استدلال کی کل بنیاد ”بڑے بھائی پر ہونے والے مظالم“ کا حوالہ تھی جس کا برادر عامر خوکوانی صاحب نے تفصیلا جواب دیا ہے۔ اس تحریر میں خاندانی نظام کو اس کے وسیع تر معاشرتی و سیاسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے اور جدید مارکیٹ سوسائٹی سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ مسئلے کے اس پہلو کو چونکہ عام طور پر نظر انداز کرکے خاندانی نظام پر گفتگو کی جاتی ہے، لہذا بات سمجھانے کے لیے کچھ طوالت اختیار کرنا پڑی ہے جس کے لیے معذرت۔
آج دنیا میں جس پیمانے پر غربت، افلاس، عدم مساوات و استحصال پایا جاتا ہے اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس قدر بڑے پیمانے پر پائے جانے والی غربت، افلاس و عدم مساوات کوئی حادثہ نہیں بلکہ غالب سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم کا نتیجہ ہے۔ مگر جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے نظام کو جو انسانیت کی ایک عظیم اکثریت کو ظلم کی چکی میں پیس رہا ہے اس پر فدا ہوا چلا جا رہا ہے اور اسے ہی اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے بیٹھا ہے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے، فی الوقت ذرائع کی تقسیم میں برصغیر کی طرز کے جوائنٹ فیملی سسٹم کی اہمیت واضح کرنا مقصود ہے۔
تمام انسانی معاشرے انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اشیاء کی پیداوار اور انہیں تقسیم کرنے کی کسی نہ کسی ترتیب کو جاری رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اشیاء کی پیداوار کے عمل میں حصہ لینے کی صلاحیت ہر انسان میں بوجوہ مساوی نہیں ہوتی، اس صلاحیت میں تفاوات ایک فطری چیز ہے۔ لیکن پیداواری صلاحیت کے اس تفاوت کا عمل صرف (consumption) کے تفاوت کے ساتھ کیا تعلق ہے، کیا ایک فرد کا جائز حق صرف اسی حد تک ہے جس قدر اس نے پیداواری عمل میں حصہ لیا یا اس سے کچھ زیادہ، اور اگر زیادہ تو کس بنا پر؟ علم معاشیات میں یہ نہایت اہم سوالات ہیں جس پر Development Economists کی بہت سی آراء پائی جاتی ہیں۔ یہ سوال اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ پیدواری صلاحیتوں میں تفاوات پایا جاتا ہے بلکہ آبادی کا وہ حصہ جو براہ راست پیدوار ی عمل میں حصہ لیتا ہے (یعنی employed) وہ بالعموم غیر پیدواری آبادی (بچے، بوڑھے، گھریلو خواتین ، معذور وغیرھم) کے مقابلے میں کم ہوتا ہے (اور پختہ مارکیٹ سوسائٹی میں امیروں میں کم بچے پیدا کرنے اور اوسط آبادی کی عمر بڑھتے چلے جانے کے رجحانات کی بنا پر یہ شرح مزید کم ہوتی چلی جاتی ہے)۔ افراد کے مابین صرف کے تفاوت کو کم سے کم رکھنا قدیم سے لے کر جدید تمام انسانی معاشروں میں ایک جائز و مطلوب مقصد سمجھا جاتا رہا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انسان کسی نہ کسی روابط کی ترتیب کو اختیار کرتے رہے ہیں۔
خاندان بطور ایک اکائی اس مسئلے کا ایک عمدہ تاریخی حل رہا ہے، وہ اس طرح کہ ایک خاندان (اگر وہ واقعی خاندان ہے) میں بالعموم افراد کے صرف کا حصہ یا تو مساوی ہوتا ہے اور اگر اس میں تفاوت ہو بھی تو کسی پر فاقوں کی نوبت نہیں آتی۔ اس کی جھلک ہم ہمارے یہاں شہروں کے بچھے کچھے خاندان کے تصور میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایک گھر کے بچوں، کمانے والوں، خواتین، بوڑھوں، معذور افراد (اگر کچھ ہوں) وغیرھم سب کا معیار زندگی تقریبا مساوی ہوتا ہے، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ والد صاحب خود تو مرغ مسلم اڑاتے اور رات کو اے سی لگا کر سوتے ہوں مگر نہ کمانے والے افراد کو دال روٹی اور صحن میں بستر ملتا ہو۔ اگر کسی رشتے دار پر ناگہانی آفت (مثلا بیماری یا بے روزگاری) آجائے تو خاندان کے بھلے لوگ آج بھی اس کی ضروریات و علاج کا پورا بندوبست کرتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ خاندان تمام قسم کے افراد (یہاں تک کہ نکموں جن کی ذمہ داری سوشل سیکورٹی کے نام پر اب ریاست پر ڈال گئی ہے) کی معاشی ضروریات اور مسائل کو سمونے (انٹرنلائز) کرنے کا ایک نظام ہے۔ اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں یہ سب کچھ محبت، خلوص، صلہ رحمی و ایثار جیسے خوبصورت جذبات کے تحت کرنے کا نام ہے۔
اب آتے ہیں جدید مارکیٹ سوسائٹی کی طرف۔ اس کے لیے مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے تعلق کو سمجھنا لازم ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تنویری معاشی مفکرین نے یہ فرض کیا کہ ایک فرد کا جائز حق صرف اسی قدر ہے جس قدر وہ کمپنی کے نفع میں اضافے کا باعث ہو (اس سب کے پیچھے ان مفکرین کا مخصوص تصور ”قدر“ ہے جس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں)۔ یورپی ممالک استعماری دور میں ایک طرف دنیا بھر سے لوٹ مار کر کے اپنے یہاں دولت کے انبار جمع کر رہے تھے اور دوسری طرف انہوں نے ان مقبوضہ نوآبادیاتی علاقوں میں بالجبر مارکیٹ سوسائٹی اور سرمایہ دارانہ سٹیٹ سٹرکچر کو فروغ دیا (اور یہ عمل آج بھی جاری ہے)۔ مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے مابین لازمی تعلق ہے جس کی چند بنیادی وجوہات ہیں:
1) مارکیٹ نظم معاشرے کی روایتی اجتماعیتوں کو تحلیل کرکے معاشرتی زندگی کو فرد پر منتج (individualize) کر دیتا ہے، یوں عمل صرف انفرادی ہو جاتا ہے۔
2) مارکیٹ نظم میں ایک فرد کا کل پیداوار میں حصہ اس بنیاد پر متعین ہوتا ہے کہ وہ نفع خوری پر مبنی پیداواری عمل میں کتنا اضافہ کرنے (نیز اس پر سودے بازی) کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ مارکیٹ صرف مستعد (efficient) لیبر ہی کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
3) نفع خوری پر مبنی مارکیٹ نظم کا پابند پیداواری نظام ذرائع کو انہی اشیاء کی پیداوار کیلئے استعمال کرتا ہے جن سے حصول نفع ممکن ہو، لہذا مارکیٹ نظم معاشرے کے اسی طبقے کی خواہشات و ترجیحات کی تسکین کا سامان پیدا کرتا ہے جو زیادہ قیمت ادا کرنے لائق ہوں (مثلا یہ نظام ہر سال امریکی و یورپی عوام کے کتوں اور بلوں یعنی پیٹس (pets) کیلئے اربوں ڈالرز کے کھلونے پیدا کرتا ہے مگر افریقہ اور ایشیا کے غریبوں کیلئے گندم نہیں)
4) سرمایہ دارانہ ریاست چونکہ سرمائے کی باجگزار ریاست ہوتی ہے لہذا وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرتی ہے جس سے سرمایہ بڑی بڑی کارپوریشنز، صنعتوں اور شہروں میں مرتکز ہوتا چلا جائے (کیونکہ ارتکاز سرمایہ کے بغیر بڑھوتری سرمایہ ممکن نہیں)
ان سب کے درج ذیل نتائج نکلتے ہیں:
1) آبادی کی وہ اکثریت جو efficient نہ ہونے کی بنا پر مارکیٹ کا حصہ نہیں بن پاتی انکے روزگار کے مواقع ناپید ہو جاتے ہیں، مارکیٹ نظم اور سرمایہ دارانہ ریاست ذرائع کے عظیم ترین حصے کو بڑے شہروں میں منتقل کردیتی ہے (اور فرد کے ان کا حصہ بننے کی کوشش میں روایتی اجتماعیتیں تحلیل ہوجاتی ہیں)، یوں معاشی، معاشرتی و سیاسی ناہمواری کو فروغ ملتا ہے
2) عمل صرف کے انفرادی ہونے نیز خاندان اور روایتی اجتماعیتوں کی حفاظت نہ ہونے کی بنا پر یہ عظیم اکثریت غربت و افلاس کا شکار ہوگئ۔ روایتی مذہبی معاشروں میں عمل صرف ہمیشہ اجتماعی (خاندان کے لیول پر مبنی) رہا، یعنی خاندان یا قبیلہ جتنی دولت پیدا کرتا عمل صرف کے لئے سب اس میں یکساں حصہ دار سمجھے جاتے۔ جدید معاشی مفکرین نے اس رویے کو غیر عقلی باور کرایا، اس کے مقابلے میں جدید معاشیات ایک فرد کو اپنی لامحدود خواہشات کی تکمیل کو بطور جائز و عقلی مقصد قبول کرنے کا درس دیتی ہے۔
3) چونکہ لوگوں کی پیداواری اور سودے بازی کی صلاحیتوں میں تفاوت ہوتا ہے لہذا سرمایہ دارانہ معاشروں میں تقسیم دولت میں بھی زبردست عدم مساوات پائی جاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک خودکار نظام کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے (جو لوگ ایک سائیکل میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ efficient ہوتے ہیں دوسرے سائیکل میں ان دونوں کا فرق بڑھنا لازم بات ہے)
4) ان معاشروں میں سیاسی و سماجی قوت بھی اسی طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہوجاتی ہے جسکے ذریعے یہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں کارپوریشنز اور بڑے کاروباری طبقے کے ہاتھ کروڑوں مزدوروں کے استحصال کی قوت آجاتی ہے جسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ریاست کے کاندھوں پر ڈالی جاتی ہے جو اسی طبقے کی باجگزار ہوتی ہے
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشرے کی آبادی کا وہ عظیم ترین حصہ جو نان پراڈکٹو ہے وہ سب کہاں جائیں ؟ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جیسوں کیلئے دو آپشنز کھولے ہیں، ایک سرمایہ دارانہ ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے۔ یہاں انکا جائزہ لیتے ہیں، نیز ان کا روایتی معاشرتی نظم کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ روابط کی کونسی تریب رحمت ہے۔
چنانچہ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ہے جن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام ”بے کار“ (مشہور فلسفی فوکو کے الفاظ میں ”پاگل“ افراد کہ اس کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن ”’کام نہ ہونے“ کی کیفیت کا نام ہے) لوگوں کی ذمہ داری اپنے ناتواں کاندہوں پر اٹھائیں جسکی یہ بالعموم متحمل نہیں ہوپاتیں۔ اولا اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کیلئے تیار کرنے کے لیے جس قدر ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے دنیا کی تمام ریاستوں کے پاس بالعموم اور تھرڈ ورلڈ کی ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ہوتے (ظاہرہے انکی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ہوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر قوم اکٹھی کر سکیں اور یہاں ٹیکس دینے والوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے)، ثانیا اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کیلئے جس قدر دیو ہیکل ریاست کی ضرورت ہے فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاتا رہتا ہے۔ یہ اس نظام کا ایک دیرینہ تضاد ہے، یعنی ایک طرف یہ نظام حصول آزادی (بڑھوتری سرمائے) کے نام پر معاشرے کی عظیم اکثریت کو منظم طور پر (حادثاتی نہیں) بے یارومددگار کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اسکے مداوے کے دروازے (ریاست کے پھیلاؤ) پر بھی حد بندی کرتا رھتا ہے، اور وہ بھی آزادی (بڑھوتری سرمائے و efficiency) ہی کے نام پر۔
سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والے مظالم کے شکار طبقات کیلئے دوسرا دروازہ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی اداروں کا ہے۔ جوں جوں مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم پختہ ہوتا چلا جاتا ہے، بے یارومددگار اور نادار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان مظالم کا مداوا کرنے کیلئے این جی اوز و خیراتی ادارے سامنے آنے لگتے ہیں جو اغراض کی اس معاشرت کو سہارا دے کر اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ تقریبا ہر غیر محفوظ طبقے کیلئے ایک پروفیشنل خیراتی ادارہ (جس کا کام اور شناخت ہی یہی ہوتی ہے) وجود میں آجاتا ہے،] مثلا اولڈ ہاؤس، ڈے کئیر سینٹر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، دارالامان، معذورخانہ، خودکار معالجاتی نظام پر مبنی ہسپتال، مردے ٹھکانے لگانے کا ادارہ اور اسی طرح ‘حقوق کی جدوجہد’ (مثلا عورتوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، ڈاکٹرز کے حقوق، میراثی و بھانڈ کے حقوق کو فروغ دینے والی بے شمار سنگل اشو موومنٹس اور این جی اوز) وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام ”فلاحی ادارے“ مل کر ایک طرف مارکیٹ نظم کا گند صاف کرکے اسے فرد کے لیے قابل قبول بناتے ہیں (کہ اسے یہ بدنما دکھائی نہ دے کہ چلو اگر ظلم ہو رہا ہے تو کوئی اس کا مداوا بھی کررہا ہے) تو دوسری طرف نظام سے حقوق مانگنے کی ذہنیت کو پختہ کرکے فرد کو نظام سے پرامید رھنے پر راضی کرتے ہیں۔
دھیان رہے خاندانی نظم پر مبنی معاشرت میں فرد کو اپنی بقا کے لیے ان اداروں کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہاں فرد خود کو خاندانی تعلقات میں محفوظ پاتا ہے۔ مثلا بیمار ہونے کے بعد اسے کسی ایسے خودکار معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں پہنچنے کے بعد ہسپتال کا پروفیشنل عملہ خودکار طریقے سے اس کا خیال رکھے کیونکہ تیمار داری کے لیے اس کے عزیز و اقارب کا خودکار نظام موجود ہوتاہے (بلکہ بیماری روٹھوں کو منانے اور رفع اختلاف کا خوبصورت سبب ہوا کرتا ہے)۔ مگر جب فرد اکیلا ہو (جیسا کہ مارکیٹ نظم میں اس کا حال ہوتا ہے) تو معاشرے کے کسی فرد کو اس کی عیادت کرنے کا یارانہ نہیں، لہذا ضرورت ہے کہ اس کے معالجے کا ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں کسی کو عیادت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں فرد کو ایک تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ یہ کام خاندان کے لوگ سرانجام دیتے ہیں (اور جب ایک دفعہ ادارہ بن جاتا ہے تو لوگ اس ذمہ داری سے گلوخلاصی حاصل کر لیتے ہیں کہ ادارہ ہے نا، وہ یہ کام کر دے گا)۔ بالکل اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ معاشرے کے سارے پاگلوں، یتیموں، بیواوں، معذوروں کو پکڑ پکڑ کر ایسے اداروں کے اندر جمع کر دیا گیا ہو جہاں ”پروفیشنل“ (ذاتی اغراض سے متحرک و مغلوب) افراد ان کا خیال رکھنے پر مامور کر دیے گئے ہوں۔ خاندانی نظم میں عزیز و اقارب معذور بچوں و نادار افراد کی محبت و صلہ رحمی کے ساتھ خود کفالت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس معاشرت میں پاگل (جھلا) بھی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے، محبت اور صلہ رحمی کرنے والوں کے ساتھ رھتا اور دل لگی کرتا ہے۔ اس معاشرت میں غریب و مفلسوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے (کیونکہ عمل صرف خاندان کے اندر اجتماعی ہوتا ہے، یعنی خاندان جتنی پیداوار عمل میں لاتا ہے سب لوگ اس میں یکساں حصے دار سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مارکیٹ نظم ایک طرف معاشرے کو انفرادیت پر منتج کرکے اور دوسری طرف ذرائع کے ارتکاز کو بڑھا کر غربت، افلاس و ناداری کو فروغ دیتا ہے۔
جدید دنیا میں دو ارب سے زیادہ سسکتے انسان کہیں آسمان سے نہیں ٹپکے اور نہ ہی درختوں پر اگے ہیں، یہ اس ‘ترقی یافتہ’ نظام کے مظالم کا شاخسانہ ہیں، وہ نظام جس پر ہمارا جدید مسلم ذہن فریفتہ ہوا چلا جا رہا ہے، دین کو جس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ثابت کرنے کی فکر میں گھلا چلا جا رہا ہے، جس کی چکا چوند کے آگے اسے اپنی تاریخ و طرز معاشرت ہیچ دکھائی دیتی ہے۔ خدا کا شکر کیجیے کہ ابھی ہمارے یہاں وسیع تر خاندان (extended family) کے باقیات ابھی کچھ نہ کچھ باقی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں نادار افراد اس نظام کے تحفظ میں ہیں، اگر یہ جلد ہی ختم ہو گیا تو یہ کروڑوں لوگ امیروں کو نوچ کھائیں گے کیونکہ ہماری ریاست میں فی الوقت انہیں سنبھالنے کی صلاحیت نہیں۔
اب غور کیجیے! برادری، قبائلی و خاندانی نظم کس خوبصورتی کے ساتھ ”محبت و صلہ رحمی کے جذبات“ کے تحت ان تمام طبقات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے، جبکہ مارکیٹ نظم ان کے لیے اغراض پر مبنی پروفیشنل اداروں کا محتاج ہے۔ کیا اغراض سے متحرک افراد سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ان نادار افراد کا ویسا دھیان رکھیں گے جیسا محبت و صلہ رحمی سے مغلوب لوگ رکھتے رہے ہوں گے؟ سوچیے کون سا معاشرتی نظم انسانیت کے لیے رحمت تھا؟ چنانچہ جہاں یہ جدید نظام پختہ ہوچکا وہاں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہمارے لوگ اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ماشاء اللہ جی کیا عمدہ بندوبست ہے وہاں، کیا انسانیت و اعلی اخلاقیات ہیں! یعنی جو مقام (انسانیت کا تعلق محبت و رحمی رشتوں سے کٹ کر پروفیشنل اداروں سے جڑ جانا) مقام افسوس تھا ہمارے یہاں کے مرعوب ذہن نے اسے مقام عجب سمجھ لیا ہے۔ ذرا سوچیے ایک ایسا دین جو پڑوسیوں، بیماروں، مردے کے حقوق ادا کرنے کی بات کرتا ہو، اس کے ماننے والے آج اپنے یہاں بھی ایسے پروفیشنل اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مطمئن ہو رہے ہیں۔ گویا ان کے خیال میں سول سوسائٹی مقاصد دین کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ مقام عبرت ہے۔
تحریر: محمد زاہد صدیق مغل