کیا خاندانی نظام ظلم ہے؟

کعنان

محفلین
کیا خاندانی نظام ظلم ہے؟

کچھ روز قبل ”دلیل“ پر خاندانی نظام کے غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے ایک تحریر سامنے آئی جس میں کوئی اسلامی دلیل موجود نہ تھی۔ اس تحریر کے استدلال کی کل بنیاد ”بڑے بھائی پر ہونے والے مظالم“ کا حوالہ تھی جس کا برادر عامر خوکوانی صاحب نے تفصیلا جواب دیا ہے۔ اس تحریر میں خاندانی نظام کو اس کے وسیع تر معاشرتی و سیاسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے اور جدید مارکیٹ سوسائٹی سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ مسئلے کے اس پہلو کو چونکہ عام طور پر نظر انداز کرکے خاندانی نظام پر گفتگو کی جاتی ہے، لہذا بات سمجھانے کے لیے کچھ طوالت اختیار کرنا پڑی ہے جس کے لیے معذرت۔

آج دنیا میں جس پیمانے پر غربت، افلاس، عدم مساوات و استحصال پایا جاتا ہے اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس قدر بڑے پیمانے پر پائے جانے والی غربت، افلاس و عدم مساوات کوئی حادثہ نہیں بلکہ غالب سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم کا نتیجہ ہے۔ مگر جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے نظام کو جو انسانیت کی ایک عظیم اکثریت کو ظلم کی چکی میں پیس رہا ہے اس پر فدا ہوا چلا جا رہا ہے اور اسے ہی اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے بیٹھا ہے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے، فی الوقت ذرائع کی تقسیم میں برصغیر کی طرز کے جوائنٹ فیملی سسٹم کی اہمیت واضح کرنا مقصود ہے۔



تمام انسانی معاشرے انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اشیاء کی پیداوار اور انہیں تقسیم کرنے کی کسی نہ کسی ترتیب کو جاری رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اشیاء کی پیداوار کے عمل میں حصہ لینے کی صلاحیت ہر انسان میں بوجوہ مساوی نہیں ہوتی، اس صلاحیت میں تفاوات ایک فطری چیز ہے۔ لیکن پیداواری صلاحیت کے اس تفاوت کا عمل صرف (consumption) کے تفاوت کے ساتھ کیا تعلق ہے، کیا ایک فرد کا جائز حق صرف اسی حد تک ہے جس قدر اس نے پیداواری عمل میں حصہ لیا یا اس سے کچھ زیادہ، اور اگر زیادہ تو کس بنا پر؟ علم معاشیات میں یہ نہایت اہم سوالات ہیں جس پر Development Economists کی بہت سی آراء پائی جاتی ہیں۔ یہ سوال اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ پیدواری صلاحیتوں میں تفاوات پایا جاتا ہے بلکہ آبادی کا وہ حصہ جو براہ راست پیدوار ی عمل میں حصہ لیتا ہے (یعنی employed) وہ بالعموم غیر پیدواری آبادی (بچے، بوڑھے، گھریلو خواتین ، معذور وغیرھم) کے مقابلے میں کم ہوتا ہے (اور پختہ مارکیٹ سوسائٹی میں امیروں میں کم بچے پیدا کرنے اور اوسط آبادی کی عمر بڑھتے چلے جانے کے رجحانات کی بنا پر یہ شرح مزید کم ہوتی چلی جاتی ہے)۔ افراد کے مابین صرف کے تفاوت کو کم سے کم رکھنا قدیم سے لے کر جدید تمام انسانی معاشروں میں ایک جائز و مطلوب مقصد سمجھا جاتا رہا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انسان کسی نہ کسی روابط کی ترتیب کو اختیار کرتے رہے ہیں۔



خاندان بطور ایک اکائی اس مسئلے کا ایک عمدہ تاریخی حل رہا ہے، وہ اس طرح کہ ایک خاندان (اگر وہ واقعی خاندان ہے) میں بالعموم افراد کے صرف کا حصہ یا تو مساوی ہوتا ہے اور اگر اس میں تفاوت ہو بھی تو کسی پر فاقوں کی نوبت نہیں آتی۔ اس کی جھلک ہم ہمارے یہاں شہروں کے بچھے کچھے خاندان کے تصور میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایک گھر کے بچوں، کمانے والوں، خواتین، بوڑھوں، معذور افراد (اگر کچھ ہوں) وغیرھم سب کا معیار زندگی تقریبا مساوی ہوتا ہے، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ والد صاحب خود تو مرغ مسلم اڑاتے اور رات کو اے سی لگا کر سوتے ہوں مگر نہ کمانے والے افراد کو دال روٹی اور صحن میں بستر ملتا ہو۔ اگر کسی رشتے دار پر ناگہانی آفت (مثلا بیماری یا بے روزگاری) آجائے تو خاندان کے بھلے لوگ آج بھی اس کی ضروریات و علاج کا پورا بندوبست کرتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ خاندان تمام قسم کے افراد (یہاں تک کہ نکموں جن کی ذمہ داری سوشل سیکورٹی کے نام پر اب ریاست پر ڈال گئی ہے) کی معاشی ضروریات اور مسائل کو سمونے (انٹرنلائز) کرنے کا ایک نظام ہے۔ اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں یہ سب کچھ محبت، خلوص، صلہ رحمی و ایثار جیسے خوبصورت جذبات کے تحت کرنے کا نام ہے۔



اب آتے ہیں جدید مارکیٹ سوسائٹی کی طرف۔ اس کے لیے مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے تعلق کو سمجھنا لازم ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تنویری معاشی مفکرین نے یہ فرض کیا کہ ایک فرد کا جائز حق صرف اسی قدر ہے جس قدر وہ کمپنی کے نفع میں اضافے کا باعث ہو (اس سب کے پیچھے ان مفکرین کا مخصوص تصور ”قدر“ ہے جس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں)۔ یورپی ممالک استعماری دور میں ایک طرف دنیا بھر سے لوٹ مار کر کے اپنے یہاں دولت کے انبار جمع کر رہے تھے اور دوسری طرف انہوں نے ان مقبوضہ نوآبادیاتی علاقوں میں بالجبر مارکیٹ سوسائٹی اور سرمایہ دارانہ سٹیٹ سٹرکچر کو فروغ دیا (اور یہ عمل آج بھی جاری ہے)۔ مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے مابین لازمی تعلق ہے جس کی چند بنیادی وجوہات ہیں:


1) مارکیٹ نظم معاشرے کی روایتی اجتماعیتوں کو تحلیل کرکے معاشرتی زندگی کو فرد پر منتج (individualize) کر دیتا ہے، یوں عمل صرف انفرادی ہو جاتا ہے۔


2) مارکیٹ نظم میں ایک فرد کا کل پیداوار میں حصہ اس بنیاد پر متعین ہوتا ہے کہ وہ نفع خوری پر مبنی پیداواری عمل میں کتنا اضافہ کرنے (نیز اس پر سودے بازی) کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ مارکیٹ صرف مستعد (efficient) لیبر ہی کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔


3) نفع خوری پر مبنی مارکیٹ نظم کا پابند پیداواری نظام ذرائع کو انہی اشیاء کی پیداوار کیلئے استعمال کرتا ہے جن سے حصول نفع ممکن ہو، لہذا مارکیٹ نظم معاشرے کے اسی طبقے کی خواہشات و ترجیحات کی تسکین کا سامان پیدا کرتا ہے جو زیادہ قیمت ادا کرنے لائق ہوں (مثلا یہ نظام ہر سال امریکی و یورپی عوام کے کتوں اور بلوں یعنی پیٹس (pets) کیلئے اربوں ڈالرز کے کھلونے پیدا کرتا ہے مگر افریقہ اور ایشیا کے غریبوں کیلئے گندم نہیں)


4) سرمایہ دارانہ ریاست چونکہ سرمائے کی باجگزار ریاست ہوتی ہے لہذا وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرتی ہے جس سے سرمایہ بڑی بڑی کارپوریشنز، صنعتوں اور شہروں میں مرتکز ہوتا چلا جائے (کیونکہ ارتکاز سرمایہ کے بغیر بڑھوتری سرمایہ ممکن نہیں)



ان سب کے درج ذیل نتائج نکلتے ہیں:

1) آبادی کی وہ اکثریت جو efficient نہ ہونے کی بنا پر مارکیٹ کا حصہ نہیں بن پاتی انکے روزگار کے مواقع ناپید ہو جاتے ہیں، مارکیٹ نظم اور سرمایہ دارانہ ریاست ذرائع کے عظیم ترین حصے کو بڑے شہروں میں منتقل کردیتی ہے (اور فرد کے ان کا حصہ بننے کی کوشش میں روایتی اجتماعیتیں تحلیل ہوجاتی ہیں)، یوں معاشی، معاشرتی و سیاسی ناہمواری کو فروغ ملتا ہے


2) عمل صرف کے انفرادی ہونے نیز خاندان اور روایتی اجتماعیتوں کی حفاظت نہ ہونے کی بنا پر یہ عظیم اکثریت غربت و افلاس کا شکار ہوگئ۔ روایتی مذہبی معاشروں میں عمل صرف ہمیشہ اجتماعی (خاندان کے لیول پر مبنی) رہا، یعنی خاندان یا قبیلہ جتنی دولت پیدا کرتا عمل صرف کے لئے سب اس میں یکساں حصہ دار سمجھے جاتے۔ جدید معاشی مفکرین نے اس رویے کو غیر عقلی باور کرایا، اس کے مقابلے میں جدید معاشیات ایک فرد کو اپنی لامحدود خواہشات کی تکمیل کو بطور جائز و عقلی مقصد قبول کرنے کا درس دیتی ہے۔

3) چونکہ لوگوں کی پیداواری اور سودے بازی کی صلاحیتوں میں تفاوت ہوتا ہے لہذا سرمایہ دارانہ معاشروں میں تقسیم دولت میں بھی زبردست عدم مساوات پائی جاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک خودکار نظام کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے (جو لوگ ایک سائیکل میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ efficient ہوتے ہیں دوسرے سائیکل میں ان دونوں کا فرق بڑھنا لازم بات ہے)


4) ان معاشروں میں سیاسی و سماجی قوت بھی اسی طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہوجاتی ہے جسکے ذریعے یہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں کارپوریشنز اور بڑے کاروباری طبقے کے ہاتھ کروڑوں مزدوروں کے استحصال کی قوت آجاتی ہے جسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ریاست کے کاندھوں پر ڈالی جاتی ہے جو اسی طبقے کی باجگزار ہوتی ہے

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشرے کی آبادی کا وہ عظیم ترین حصہ جو نان پراڈکٹو ہے وہ سب کہاں جائیں ؟ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جیسوں کیلئے دو آپشنز کھولے ہیں، ایک سرمایہ دارانہ ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے۔ یہاں انکا جائزہ لیتے ہیں، نیز ان کا روایتی معاشرتی نظم کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ روابط کی کونسی تریب رحمت ہے۔


چنانچہ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ہے جن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام ”بے کار“ (مشہور فلسفی فوکو کے الفاظ میں ”پاگل“ افراد کہ اس کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن ”’کام نہ ہونے“ کی کیفیت کا نام ہے) لوگوں کی ذمہ داری اپنے ناتواں کاندہوں پر اٹھائیں جسکی یہ بالعموم متحمل نہیں ہوپاتیں۔ اولا اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کیلئے تیار کرنے کے لیے جس قدر ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے دنیا کی تمام ریاستوں کے پاس بالعموم اور تھرڈ ورلڈ کی ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ہوتے (ظاہرہے انکی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ہوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر قوم اکٹھی کر سکیں اور یہاں ٹیکس دینے والوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے)، ثانیا اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کیلئے جس قدر دیو ہیکل ریاست کی ضرورت ہے فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاتا رہتا ہے۔ یہ اس نظام کا ایک دیرینہ تضاد ہے، یعنی ایک طرف یہ نظام حصول آزادی (بڑھوتری سرمائے) کے نام پر معاشرے کی عظیم اکثریت کو منظم طور پر (حادثاتی نہیں) بے یارومددگار کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اسکے مداوے کے دروازے (ریاست کے پھیلاؤ) پر بھی حد بندی کرتا رھتا ہے، اور وہ بھی آزادی (بڑھوتری سرمائے و efficiency) ہی کے نام پر۔



سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والے مظالم کے شکار طبقات کیلئے دوسرا دروازہ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی اداروں کا ہے۔ جوں جوں مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم پختہ ہوتا چلا جاتا ہے، بے یارومددگار اور نادار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان مظالم کا مداوا کرنے کیلئے این جی اوز و خیراتی ادارے سامنے آنے لگتے ہیں جو اغراض کی اس معاشرت کو سہارا دے کر اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ تقریبا ہر غیر محفوظ طبقے کیلئے ایک پروفیشنل خیراتی ادارہ (جس کا کام اور شناخت ہی یہی ہوتی ہے) وجود میں آجاتا ہے،] مثلا اولڈ ہاؤس، ڈے کئیر سینٹر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، دارالامان، معذورخانہ، خودکار معالجاتی نظام پر مبنی ہسپتال، مردے ٹھکانے لگانے کا ادارہ اور اسی طرح ‘حقوق کی جدوجہد’ (مثلا عورتوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، ڈاکٹرز کے حقوق، میراثی و بھانڈ کے حقوق کو فروغ دینے والی بے شمار سنگل اشو موومنٹس اور این جی اوز) وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام ”فلاحی ادارے“ مل کر ایک طرف مارکیٹ نظم کا گند صاف کرکے اسے فرد کے لیے قابل قبول بناتے ہیں (کہ اسے یہ بدنما دکھائی نہ دے کہ چلو اگر ظلم ہو رہا ہے تو کوئی اس کا مداوا بھی کررہا ہے) تو دوسری طرف نظام سے حقوق مانگنے کی ذہنیت کو پختہ کرکے فرد کو نظام سے پرامید رھنے پر راضی کرتے ہیں۔


دھیان رہے خاندانی نظم پر مبنی معاشرت میں فرد کو اپنی بقا کے لیے ان اداروں کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہاں فرد خود کو خاندانی تعلقات میں محفوظ پاتا ہے۔ مثلا بیمار ہونے کے بعد اسے کسی ایسے خودکار معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں پہنچنے کے بعد ہسپتال کا پروفیشنل عملہ خودکار طریقے سے اس کا خیال رکھے کیونکہ تیمار داری کے لیے اس کے عزیز و اقارب کا خودکار نظام موجود ہوتاہے (بلکہ بیماری روٹھوں کو منانے اور رفع اختلاف کا خوبصورت سبب ہوا کرتا ہے)۔ مگر جب فرد اکیلا ہو (جیسا کہ مارکیٹ نظم میں اس کا حال ہوتا ہے) تو معاشرے کے کسی فرد کو اس کی عیادت کرنے کا یارانہ نہیں، لہذا ضرورت ہے کہ اس کے معالجے کا ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں کسی کو عیادت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں فرد کو ایک تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ یہ کام خاندان کے لوگ سرانجام دیتے ہیں (اور جب ایک دفعہ ادارہ بن جاتا ہے تو لوگ اس ذمہ داری سے گلوخلاصی حاصل کر لیتے ہیں کہ ادارہ ہے نا، وہ یہ کام کر دے گا)۔ بالکل اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ معاشرے کے سارے پاگلوں، یتیموں، بیواوں، معذوروں کو پکڑ پکڑ کر ایسے اداروں کے اندر جمع کر دیا گیا ہو جہاں ”پروفیشنل“ (ذاتی اغراض سے متحرک و مغلوب) افراد ان کا خیال رکھنے پر مامور کر دیے گئے ہوں۔ خاندانی نظم میں عزیز و اقارب معذور بچوں و نادار افراد کی محبت و صلہ رحمی کے ساتھ خود کفالت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس معاشرت میں پاگل (جھلا) بھی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے، محبت اور صلہ رحمی کرنے والوں کے ساتھ رھتا اور دل لگی کرتا ہے۔ اس معاشرت میں غریب و مفلسوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے (کیونکہ عمل صرف خاندان کے اندر اجتماعی ہوتا ہے، یعنی خاندان جتنی پیداوار عمل میں لاتا ہے سب لوگ اس میں یکساں حصے دار سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مارکیٹ نظم ایک طرف معاشرے کو انفرادیت پر منتج کرکے اور دوسری طرف ذرائع کے ارتکاز کو بڑھا کر غربت، افلاس و ناداری کو فروغ دیتا ہے۔



جدید دنیا میں دو ارب سے زیادہ سسکتے انسان کہیں آسمان سے نہیں ٹپکے اور نہ ہی درختوں پر اگے ہیں، یہ اس ‘ترقی یافتہ’ نظام کے مظالم کا شاخسانہ ہیں، وہ نظام جس پر ہمارا جدید مسلم ذہن فریفتہ ہوا چلا جا رہا ہے، دین کو جس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ثابت کرنے کی فکر میں گھلا چلا جا رہا ہے، جس کی چکا چوند کے آگے اسے اپنی تاریخ و طرز معاشرت ہیچ دکھائی دیتی ہے۔ خدا کا شکر کیجیے کہ ابھی ہمارے یہاں وسیع تر خاندان (extended family) کے باقیات ابھی کچھ نہ کچھ باقی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں نادار افراد اس نظام کے تحفظ میں ہیں، اگر یہ جلد ہی ختم ہو گیا تو یہ کروڑوں لوگ امیروں کو نوچ کھائیں گے کیونکہ ہماری ریاست میں فی الوقت انہیں سنبھالنے کی صلاحیت نہیں۔



اب غور کیجیے! برادری، قبائلی و خاندانی نظم کس خوبصورتی کے ساتھ ”محبت و صلہ رحمی کے جذبات“ کے تحت ان تمام طبقات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے، جبکہ مارکیٹ نظم ان کے لیے اغراض پر مبنی پروفیشنل اداروں کا محتاج ہے۔ کیا اغراض سے متحرک افراد سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ان نادار افراد کا ویسا دھیان رکھیں گے جیسا محبت و صلہ رحمی سے مغلوب لوگ رکھتے رہے ہوں گے؟ سوچیے کون سا معاشرتی نظم انسانیت کے لیے رحمت تھا؟ چنانچہ جہاں یہ جدید نظام پختہ ہوچکا وہاں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہمارے لوگ اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ماشاء اللہ جی کیا عمدہ بندوبست ہے وہاں، کیا انسانیت و اعلی اخلاقیات ہیں! یعنی جو مقام (انسانیت کا تعلق محبت و رحمی رشتوں سے کٹ کر پروفیشنل اداروں سے جڑ جانا) مقام افسوس تھا ہمارے یہاں کے مرعوب ذہن نے اسے مقام عجب سمجھ لیا ہے۔ ذرا سوچیے ایک ایسا دین جو پڑوسیوں، بیماروں، مردے کے حقوق ادا کرنے کی بات کرتا ہو، اس کے ماننے والے آج اپنے یہاں بھی ایسے پروفیشنل اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مطمئن ہو رہے ہیں۔ گویا ان کے خیال میں سول سوسائٹی مقاصد دین کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ مقام عبرت ہے۔


تحریر: محمد زاہد صدیق مغل
 

کعنان

محفلین
کیا واقعی مشترکہ خاندانی نظام ہندوؤں کا نظام ہے؟

دلیل پر اس حوالے سے تحریر شائع ہوئی، جس میں‌ کہا گیا کہ مشترکہ خاندانی نظام یا جوائنٹ فیملی سسٹم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ ہندوؤں‌ کے ساتھ رہنے کی یادگار ہے، جہاں‌ بڑا بیٹا جائیداد کا وارث ہوتا ہے اور پورا خاندان اکٹھا گزارا کرتا ہے، وغیرہ۔ کیا واقعی ایسا ہے؟

پہلے تو یہ کہ اس مضمون میں شروع سے ایک بات فرض‌ کر لی گئی اور پوری گفتگو اسی نکتے کے گرد گھومتی رہی۔ وہ یہ کہ گھر کا بڑا بیٹا ہی گھر چلا رہا ہے اور باقی گھر والے یعنی چھوٹے بہن بھائی، بھتیجے، بھانجے اس کی کمائی کھا رہے ہیں، وہ اپنے بچوں‌ کا حق مار کر بھیتجیوں کو موٹرسائیکل لے کر دے رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

یہ مفروضہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام صرف یہ نہیں ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی گھر میں‌ بڑا بیٹا جلدی سیٹل ہو گیا اور اپنی خوشحالی کی وجہ سے اس کا گھر چلانے میں کنٹری بیوشن دوسروں سے کچھ زیادہ ہوا، مگر یہ کوئی بنیادی شرط نہیں‌ ہے۔ ہم نے ایسے کئی گھر دیکھے جہاں‌ چھوٹا بھائی یا منجھلا اپنے پروفیشن یا کاروباری صلاحیتوں کی وجہ سے نسبتآ آگے نکل گیا اور اپنے بڑے بھائیوں‌ کی کمزور مالی حالت دیکھتے ہوئے اس نے ایثار کر لیا۔

بنیادی طور پر مشترکہ خاندانی نظام کا مطلب ہے گھر کے ایک سے زیادہ یونٹس کا یکجا ہو کر رہنا۔ نوے فیصد سے زیادہ کیسز میں والد ہی گھر کا سربراہ ہوتا ہے، مگر جب اس پر بڑھاپا وارد ہو گیا اور اس کے دو، تین یا چار بیٹے جوان ہو گئے، کمانے لگے تو ایک خاص وقت تک وہ اکٹھے رہ سکتے ہیں، رہ جاتے ہیں۔
ایسے معاملات میں عام طور سے والدہ ہی فنانس منسٹر ہوتی ہے اور سب بچے اپنی اپنی تنخواہ یا آمدنی سے ایک خاص حصہ والدہ کو دے دیتے ہیں، وہی پھر گھریلو معاملات چلاتی ہیں، مکان کا کرایہ، بلز، راشن، کھانے پینے کے اخراجات وغیرہ۔ اب اس کا انحصار مختلف خاندانوں‌، ان کے مالی حالات اور زمینی حقائق پر ہے۔
اگر والد نے ہمت کر کے اپنا آبائی گھر بنا لیا اور کوشش کر کے ڈبل، ٹرپل سٹوری یہ سوچ کر بنا ڈالی کہ کل کو میرے بچے اکٹھے ہو کر رہ جائیں گے تو وہاں پر زیادہ آسانی رہتی ہے۔ مختلف بھائی مختلف پورشنز میں‌ رہتے ہیں اور بل وغیرہ کی شیئرنگ ہی ہوتی ہے، اس میں بھی بجلی کے سب میٹر کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ کہیں‌ پر کھانا مشترک ہوا تو پھر دوسرا معاملہ ہے، ورنہ اکثر و بیشتر کیسز میں کچن الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ اب اس کی بھی کئی صورتیں‌ ہو سکتی ہیں۔ کبھی تو ایسا کہ راشن مشترک ہے، مگر کھانا ہر بہو اپنے انداز میں‌ بنا لے گی، اپنے خاوند اور اپنے معروضی تقاضوں‌کے مطابق۔ جیسے میرے جیسے کسی صحافی نے رات کو ایک دو بجے آنا، تین چار بجے سونا ہے تو پھر وہ ناشتہ آٹھ بجے نہیں کر سکے گا، اس کا ناشتہ برنچ ٹائپ ہو گا، گیارہ بارہ بجے، جبکہ پورا گھر صبح ناشتہ کر لے گا اپنے اپنے حساب سے۔
بعض گھرانوں‌ میں ابھی تک ایک ہی دسترخوان کی شرط موجود ہے کہ سب گھر والے کھانا اکٹھا کھائیں گے، کم از کم ناشتہ اور رات کا کھانا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب والد بڑھاپے کے باوجود مالی اعتبار سے بھی مضبوط ہو اور اولاد سعادت مند، والد کے حکم کو ماننے والی۔ ایک آسان صورت یہ نکال لی جاتی ہے کہ اوپر نیچے رہنے والے بھائی اپنااپنا کچن ہی الگ بنا لیتے ہیں، یوں‌ راشن وغیرہ بھی الگ الگ آتا ہے، کبھی کسی ضرورت میں ایک دوسرے سے خام یا پکا ہوا کھانا لے لیا، اچھے ہمسائیوں‌ کی طرح۔

اب یہ جو شیئرنگ کی صورت ہے، جس میں ماں‌ یا باپ کے کہنے کے مطابق ہر بھائی گھر چلانے کے لیے اپنا شیئر ڈالتا ہے، اس میں‌ کیا برائی ہے؟
یہ تو ممکن ہے کہ سب سے چھوٹا بھائی اگر ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو پھر ظاہر ہے وہ کنٹری بیوٹ نہیں‌ کر سکتا، اس سے یہ تقاضا بھی نہیں کرنا چاہیے۔
اگر اپنی بہتر مالی حالت کی وجہ سے ایک بھائی کچھ زیادہ کنٹری بیوٹ‌ کر ڈالتا ہے تو اس میں اس کی بیوی کو برا نہیں ماننا چاہیے۔ یہ فطری بات ہے اور اس کے خاندان کا اپنے فرزند پر حق بھی ہے۔
رہی یہ بات کہ بڑا بھائی اپنے مسٹنڈے بھتیجے کو موٹر سائیکل لے کر دے اور اپنے بچوں‌ کا حق مار دے تو بھیا یہ مفروضہ صورتحال ہی ہے۔ ہم نے تو ایسا ایثار کرنے والے کم ہی دیکھے، دو تین فیصد بمشکل۔ ستر اسی فیصد تو ایسے ہیں جو اپنا شیئر ایمانداری سے دے دیں‌، بڑی بات ہے۔ جو دو چار اچھی مثالیں ہیں، ان سے کسی عورت کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
صلہ رحمی کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے اور کوئی ایثار کرے گا تو وہ یقین رکھے کہ رب تعالیٰ کےخزانے میں کوئی کمی نہیں، اس سے بڑھ کر منصف مزاج اور حق ادا کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ جو دس دے گا، اسے ستر، سو بلکہ ہزاروں بھی مل سکتے ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بہت سے کیسز میں‌ بڑے بیٹے کی کامیابی میں پورے خاندان کا حصہ، قربانی اور کوششیں شامل ہوتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسے اچھی تعلیم دلوانے، اکیڈمی وغیرہ میں‌ پڑھانے کے لیے چھوٹے بچوں کو نسبتا ہلکے سکولوں‌ میں‌ پڑھانا اور اکیڈمی بھیجنے کی عیاشی سے گریز کرنا پڑ جاتا ہے۔ ماں‌باپ اپنا پیٹ کاٹ کر بڑے بیٹے پر محنت کرتے ہیں، خود بہت سی لذات سے برسوں‌ محروم رہ جاتے ہیں اور فطری طور پر کسی لوئر مڈل کلاس گھر میں بڑے بچے یا بچوں‌ کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی قیمت چھوٹوں کو بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ بعد میں جب تعلیم مکمل ہوئی اور بڑے بیٹوں‌ کو ثمرات ملنے لگیں تو کیا وہ خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ اپنے بچوں تک محدود رکھ دیں۔ ایسا تو دین کہتا ہے نہ اخلاقیات نہ منطق۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بہت بڑی اکثریت کے کیسز میں اس بڑے لڑکے کی محنت، کوششوں‌ میں اس کے ماں باپ، چچا، ماموں وغیرہ تو شامل رہے ہوتے ہیں، کسی نہ کسی صورت میں، اس کی بیوی تو اس پوری فلم میں ہوتی ہی نہیں۔ تیس سال کی عمر میں شادی ہوئی اور لڑکی جو تیس سال کے بعد زندگی میں شامل ہوئی، اگلے دو برسوں کے دوران ہی وہ چاہتی ہے کہ پچھلی انتیس تیس برسوں میں جو گھر والے اس کے خاوند کی زندگی کا حصہ رہے، وہ اب اچانک ہی دنیا سے ہی غائب ہو جائیں۔ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ سوچ ہی انتہائی خود غرضی کا مظہر ہے۔

ہندوؤں میں رواج ایک الگ معاملہ ہے، اس کا ہمارے مشترکہ خاندانی نظام سے کوئی موازنہ نہیں۔ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام جہاں‌ جہاں‌ کامیاب ہے تو وہ اخوت و بھائی چارہ کے جذبات اور صلہ رحمی کی تلقین کے باعث۔ دل میں‌ خوف خدا رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ اگر میں نے صلہ رحمی سے کام لیا اور اپنے وسائل میں اپنے بھائی بہنوں‌ کو شامل کیا تو رب خوش ہوگا۔ اس کا یہ جذبہ مستحسن ہے اور مطلوب بھی۔

یہ درست ہے کہ عربوں‌ میں ہماری طرز کا خاندانی نظام نہیں تھا، مگر یاد رکھیے کہ وہ قبائلی نظام تھا اور قبائلی سادہ معاشرت پر مبنی، جس میں‌ دو منزلہ، تین منزلہ آبائی گھر نہیں تھے، خیموں‌ میں رہائش رکھی جاتی تھی یا کچے چھوٹے مکان۔ ویسے تو قبائلی نظام بھی ایک لارجر مشترکہ خاندانی نظام کی طرح ہے، جس میں بہت سی چیزیں شیئر کرنا پڑتی ہیں بلکہ دوسروں کی دوستیاں اور دشمنیاں بھی اپنانی پڑتی ہیں۔ آج کی جدید شہری زندگی سے اس زمانے کا موازنہ کرنا سادگی اور بھولپن ہے، مگر اسلام کی سپرٹ کہیں‌ پر مشترکہ خاندانی نظام سے نہیں روکتی۔ اسلام تو نام ہی ایک دوسرے سے محبت، بھائی چارہ، صلہ رحمی، ایثار اور قربانی دینے کا ہے۔ اس میں تو پڑوسیوں کے اتنے حقوق ہیں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک قول ہے کہ انہیں‌ یوں لگا کہ کہیں پڑوسیوں کو وراثت میں حق نہ مل جائے۔ وہ خدا کیا بھائی بہنوں‌ کو دور کر دینے کی تلقین کرے گا؟ ہرگز نہیں۔
یہ تو ممکن ہے کہ کسی عرب ملک میں چلے جانے اور وہاں مقیم ہو جانے والے شخص کے ذاتی تجربات تلخ ہوں کہ ہمارے ہاں دبئی، سعودی عرب چلے جانے والے سیٹھ سمجھے جاتے تھے اور پورا گاؤں ان سے امیدیں‌ لگا بیٹھتا تھا، ایسے میں ممکن ہے کسی اوورسیز پاکستانی کو ضرورت سے زیادہ کنٹری بیوٹ کرنا پڑا ہو، مگر پاکستان میں آج جس طرح مادیت پرستی کا چلن عام ہو گیا، خودغرضی بڑھ رہی ہے اور سنگل فیملی یونٹ‌ کا رواج بڑھ رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے مشترکہ خاندانی نظام پر تنقید کے بجائے اس کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔

مشترکہ خاندانی نظام میں‌ ظاہر ہے کچھ خامیاں بھی ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بھائی اپنی بیویوں‌ کی پڑھائی پٹی پڑھ کر آپس میں بلا وجہ الجھ پڑتے ہیں اور نوبت وہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اگر اکٹھے رہے تو بول چال ہی جاتی رہے گی، اس لیے الگ الگ ہو جائیں تاکہ رسمی تعلقات تو رہ جائیں۔
جگہ کی تنگی، چھوٹے مکان کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی والدہ یعنی ساس کے مزاج کے باعث بہوؤں یا کسی ایک بہو کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ بچوں‌ کی آپس کی لڑائیوں میں اگر بڑے شامل ہوجائیں تو تلخی بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر دل بڑا نہ کرنا بھی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ فلانی توے پر گھی میں تربتر پراٹھے پکاتی ہے، اپنے حصے سے زیادہ گھی لگا دیتی ہے، یا اچھی بوٹیاں پہلے خود نکال لیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسی عامیانہ سوچ اور تنگ نظری سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کی تلخ باتوں کو نظرانداز کرنے اور کبھی ہنس کر ٹال دینے کی روش اپنانی پڑتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کو سپیس دی جائے تو بہت سے معاملات از خود سلجھ جاتے ہیں۔

آپس میں رہنے کے دیگر فوائد کے علاوہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں بلز وغیرہ شیئر ہو جائیں، کچن کی شیئرنگ ہو تو اخراجات خاصے کم ہو جاتے ہیں۔ پھر گھرانہ کچھ محفوظ بھی محسوس کرتا ہے۔ گھر میں مرد زیادہ ہوں‌ تو آج کل کے خطرات کے دور میں بچت رہتی ہے۔ ایک بھائی مصروف ہے تو دوسرا سودا سلف لا سکتا ہے، ایمرجنسی میں‌ کسی کو ہسپتال لے جانا ہو، وہ ہو جاتا ہے۔ اگر ہم مشترکہ خاندانی نظام میں کچھ سوچی سمجھی اصلاحات لے آئیں، "مضبوط مرکز" کے بجائے "ڈھیلا ڈھالا وفاقی نظام" یا "کنفیڈریشن" ہی قائم کر لیں تو معاملہ احسن طریقے سے چل سکتا ہے۔ اگر مختلف وجوہات کی بنا پر اکٹھا رہنا ممکن نہیں‌، تب بھی ایسی بےرحمی سے اس تصور کو رد کرنا اور اسے غیر اسلامی اور ہندوؤں سے منسوب کرنا تو ظلم کے مترادف ہے۔

تحریر: محمد عامر ہاشم خاکوانی
21/10/2016
 
Top