کیا خبر تھی کہ میں اس درجہ ، بدل جاؤں گا
تجھ کو کھو دونگا ، تیرے غم سے سنبھل جاؤں گا
اجنبی بن کے ملوں گا ، میں تجھے محفل میں
تُو نے چھیڑی بھی تو میں بات ، بدل جاؤں گا
ڈھونڈ پائے نہ جہاں ، یاد بھی تیری مجھ کو
ایسے جنگل میں ، کسی روز نکل جاؤں گا
ضد میں آئے ہوئے معصوم سے بچے کی طرح
خود ہی کشتی کو ڈبونے پہ ، مچل جاؤں گا
( فرحت شہزاد )