حسینی
محفلین
کیا خون کا گروپ بدلا جا سکتا ہے؟
نعیم احسن
انتہائی محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کو خون کی ضرورت پڑتی ہوگی اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے دنیا بھر کے لوگ یکساں طور پر دوچار ہیں۔ کافی عرصے سے سائنس دان اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ منصوعی خون تیار کرنے کے بے شمار تجربے کئے جا چکے ہیں لیکن خون کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ گروپ کی وجہ سے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اگر مریض کو اس کے خون کے گروپ کے علاوہ کسی دوسرے گروپ کا خون لگا دیا جائے تو فوری طور پر اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خون لگانے سے پہلے کراس میچ کیا جاتا ہے اور پوری طرح تسلی کرنے کے بعد ہی مریض کو عطیہ میں ملنے والا خون لگایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اوسطاً 15000 کیسوں میں ایک غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ مستقبل میں شاید اس طرح کی کوئی بھی مجبوری باقی نہ رہے کیونکہ سائنس دانوں نے کسی بھی گروپ کے خون کو O نیگیٹو گروپ میں تبدیل کرنے کا طریقہ جان لیا ہے۔ اور O نیگیٹو ایک ایسا بلڈ گروپ ہے جسے ’’یونیورسل‘‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ کسی بھی گروپ کے حامل مریض کو لگایا جا سکتا ہے۔ ’’نیچر بائیوٹیکنالوجی‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کس طرح A، B یا AB گروپ کے خون کو O گروپ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں بیکٹیریل انزائمز کو بائیولوجیکل کٹرز کی طرح استعمال کرکے خون کے سرخ ذرات کی سطح سے شوگر کے مالیکیولز کو ختم کیا جاتا ہے۔ 1980ء میں نیویارک کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دکھایا کہ کافی کے سبز دانوں سے حاصل ہونے والے انزائمز خون کے سرخ ذرات سے B اینٹجنز کو ختم کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں تجربات سے ثابت ہوگیا کہ ان کی یہ صلاحیت عملی استعمال کے لئے ناکافی ہے لیکن حالیہ تحقیق سے انتہائی طاقتور ایسے انزائمز کا پتہ چلا لیا گیا ہے جو بڑے موثر انداز میں خون کے سرخ ذرات پر سے شوگر مالیکیولز کو ختم کردیتے ہیں۔ جن لوگوں کے خون کا گروپ A یا B ہوتا ہے ان کے خون میں دو مختلف قسموں کے شوگر مالیکیولز میں سے کوئی ایک قسم پائی جاتی ہے۔ انہیں اینٹجنز (antigens) کہتے ہیں۔ خون کے گروپ O میں اینٹجنز نہیں ہوتے جبکہ گروپ AB میں دونوں قسموں کے اینٹجنز پائے جاتے ہیں۔ ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے سائنس دانوں نے پروفیسرہنری کلازن (Henrik Clausen) کی سربراہی میں مفید پروٹینز کے لئے فنگی اور بیکٹیریا کی پچیس سو سے زائد اقسام سے سکریننگ کا آغاز کیا اور ان میں سے دو ایسے بیکٹیریم کا پتہ چلالیا جو کہ خون کے سرخ ذرات سے A اور B دونوں قسموں کے اینٹجنز کو الگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں سےElizabethkingia meningosepticum نامی بیکٹیریم A اینٹجنز اور Bacteroides fragilis نامی بیکٹیریم خون میں سے B اینٹجنز کو ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ سٹینڈرڈ لیبارٹری میں کئے گئے ٹیسٹوں سے اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔ متعلقہ انزائم کے ساتھ ایک گھنٹے کے ایکسپوژر سے خون کےA، B اور AB گروپوں کے 200 ملی لٹر سیمپل سے اینٹجنز مکمل طور پر ختم ہوگئے۔ محققین لکھتے ہیں کہ، ’’اس طریقے سے ہو سکتا ہے کہ خون کی فراہمی میں بہتری آئے اور ٹرانسفیوژن میڈیسن میں مریضوں کو زیادہ تحفظ دیا جا سکے۔‘‘ ابھی اس پر مزید تجربات کئے جائیں گے اور کسی بھی گروپ کے خون کو O گروپ میں تبدیل کرکے ہسپتالوں میں استعمال سے پہلے انفرادی مریضوں پر اس کی جانچ کی جائے گی۔ ماہرین کو امید ہے کہ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب کسی خاص گروپ کے لئے دوڑ دھوپ کرنے کی ضرورت بالکل ختم ہوجائے گی۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2013-09-02/5740
نعیم احسن
انتہائی محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کو خون کی ضرورت پڑتی ہوگی اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے دنیا بھر کے لوگ یکساں طور پر دوچار ہیں۔ کافی عرصے سے سائنس دان اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ منصوعی خون تیار کرنے کے بے شمار تجربے کئے جا چکے ہیں لیکن خون کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ گروپ کی وجہ سے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اگر مریض کو اس کے خون کے گروپ کے علاوہ کسی دوسرے گروپ کا خون لگا دیا جائے تو فوری طور پر اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خون لگانے سے پہلے کراس میچ کیا جاتا ہے اور پوری طرح تسلی کرنے کے بعد ہی مریض کو عطیہ میں ملنے والا خون لگایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اوسطاً 15000 کیسوں میں ایک غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ مستقبل میں شاید اس طرح کی کوئی بھی مجبوری باقی نہ رہے کیونکہ سائنس دانوں نے کسی بھی گروپ کے خون کو O نیگیٹو گروپ میں تبدیل کرنے کا طریقہ جان لیا ہے۔ اور O نیگیٹو ایک ایسا بلڈ گروپ ہے جسے ’’یونیورسل‘‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ کسی بھی گروپ کے حامل مریض کو لگایا جا سکتا ہے۔ ’’نیچر بائیوٹیکنالوجی‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کس طرح A، B یا AB گروپ کے خون کو O گروپ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں بیکٹیریل انزائمز کو بائیولوجیکل کٹرز کی طرح استعمال کرکے خون کے سرخ ذرات کی سطح سے شوگر کے مالیکیولز کو ختم کیا جاتا ہے۔ 1980ء میں نیویارک کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دکھایا کہ کافی کے سبز دانوں سے حاصل ہونے والے انزائمز خون کے سرخ ذرات سے B اینٹجنز کو ختم کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں تجربات سے ثابت ہوگیا کہ ان کی یہ صلاحیت عملی استعمال کے لئے ناکافی ہے لیکن حالیہ تحقیق سے انتہائی طاقتور ایسے انزائمز کا پتہ چلا لیا گیا ہے جو بڑے موثر انداز میں خون کے سرخ ذرات پر سے شوگر مالیکیولز کو ختم کردیتے ہیں۔ جن لوگوں کے خون کا گروپ A یا B ہوتا ہے ان کے خون میں دو مختلف قسموں کے شوگر مالیکیولز میں سے کوئی ایک قسم پائی جاتی ہے۔ انہیں اینٹجنز (antigens) کہتے ہیں۔ خون کے گروپ O میں اینٹجنز نہیں ہوتے جبکہ گروپ AB میں دونوں قسموں کے اینٹجنز پائے جاتے ہیں۔ ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے سائنس دانوں نے پروفیسرہنری کلازن (Henrik Clausen) کی سربراہی میں مفید پروٹینز کے لئے فنگی اور بیکٹیریا کی پچیس سو سے زائد اقسام سے سکریننگ کا آغاز کیا اور ان میں سے دو ایسے بیکٹیریم کا پتہ چلالیا جو کہ خون کے سرخ ذرات سے A اور B دونوں قسموں کے اینٹجنز کو الگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں سےElizabethkingia meningosepticum نامی بیکٹیریم A اینٹجنز اور Bacteroides fragilis نامی بیکٹیریم خون میں سے B اینٹجنز کو ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ سٹینڈرڈ لیبارٹری میں کئے گئے ٹیسٹوں سے اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔ متعلقہ انزائم کے ساتھ ایک گھنٹے کے ایکسپوژر سے خون کےA، B اور AB گروپوں کے 200 ملی لٹر سیمپل سے اینٹجنز مکمل طور پر ختم ہوگئے۔ محققین لکھتے ہیں کہ، ’’اس طریقے سے ہو سکتا ہے کہ خون کی فراہمی میں بہتری آئے اور ٹرانسفیوژن میڈیسن میں مریضوں کو زیادہ تحفظ دیا جا سکے۔‘‘ ابھی اس پر مزید تجربات کئے جائیں گے اور کسی بھی گروپ کے خون کو O گروپ میں تبدیل کرکے ہسپتالوں میں استعمال سے پہلے انفرادی مریضوں پر اس کی جانچ کی جائے گی۔ ماہرین کو امید ہے کہ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب کسی خاص گروپ کے لئے دوڑ دھوپ کرنے کی ضرورت بالکل ختم ہوجائے گی۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2013-09-02/5740