کیا سلیم ملک کو بھی دوسرا موقع ملنا چاہیے؟

محمداحمد

لائبریرین
دنیا اس وقت کورونا وائرس کی زد میں ہے اور جہاں دیکھیں اس وبائی مرض کی ہی خبریں نظر آرہی ہیں۔ ایسے دنوں میں کرکٹ کا خیال؟ اسے تو اگلے، ایک ڈیڑھ سال کے لیے بھول ہی جائیں اور ماضی کی یادوں سے ہی دل بہلاتے رہیں۔

کچھ دن پہلے کرکٹ کلینڈر میں ’آج کی سالگرہ‘ کے نیچے ایک نام نظر آیا اور کئی یادیں تازہ ہوگئیں۔

یہ فروری 1987ء تھا، کلکتہ میں یعنی دنیا کے سب سے بڑے میدان پر پاک-بھارت مقابلہ ہو رہا تھا۔ پاکستان 40 اوورز میں 239 رنز کے ہدف کا تعاقب کر رہا تھا اور اس کے 6 کھلاڑی 173 رنز پر ہی آؤٹ ہوچکے تھے۔ چند ہی اوورز باقی بچے تھے اور ’فاتحِ شارجہ‘ جاوید میانداد کریز پر نہیں تھے اور کپتان عمران خان بھی آؤٹ ہوچکے تھے۔

اس وقت میدان ایک 23 سال کے نوجوان کے ہاتھ میں تھا، جس نے صرف 36 گیندوں پر 72 رنز کی اننگز کھیلی، اور اس اننگ کو آج بھی ’تاریخ کی بہترین ون ڈے اننگز‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نوجوان کا نام تھا سلیم ملک، جن کی 57ویں سالگرہ ابھی کچھ دن پہلے ہی گزری ہے اور اب ان کا نام ایک مرتبہ پھر گردش میں آگیا ہے۔


سلیم ملک پاکستان کرکٹ میں کپتان کے بلند ترین عہدے تک پہنچے لیکن اس کے بعد انہوں نے زوال کی گہرائیاں بھی دیکھیں۔ وہ میچ فکسنگ کی وجہ سے پابندی کا نشانہ بننے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی بنے۔

سن 2000ء میں جسٹس ملک محمد قیوم نے میچ فکسنگ کی تحقیقات کے بعد سلیم ملک کو سزا سنائی تھی کہ وہ پوری زندگی میں کسی بھی سطح پر کرکٹ کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔

ان پر 4 مختلف دوروں میں میچ فکس کرنے کے الزامات تھے۔ یہی نہیں بلکہ آسٹریلیا کے شین وارن اور مارک وا نے بھی ان کے خلاف گواہی دی تھی کہ 1994ء کے دورۂ پاکستان میں سلیم ملک نے انہیں رشوت دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ خراب کارکردگی پیش کرکے کراچی ٹیسٹ ہار جائیں۔

ان تحقیقات میں سلیم ملک کے علاوہ بھی بڑے بڑے نام تھے لیکن پابندی صرف سلیم ملک اور فاسٹ باؤلر عطاء الرحمٰن پر لگی۔ سلیم ملک تو کسی بھی سطح پر کرکٹ نہیں کھیل سکتے تھے لیکن عطاء الرحمن کے محض بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر پابندی تھی۔ وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق اور مشتاق احمد پر محض جرمانے لگائے گئے۔

سلیم ملک نے کمیشن کے روبرو بھی ان الزامات کو مسترد کیا اور بعد میں فیصلے کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا لیکن ان کی درخواست رد کردی گئی، جس کے ساتھ ہی وہ گمنامی میں چلے گئے۔ یہاں تک کہ لمبے عرصے کے بعد ایک عدالت نے ان پر عائد پابندی کا خاتمہ کردیا۔ آج اس بات کو بھی 12 سال گزر چکے ہیں لیکن سلیم ملک پر کرکٹ کے دروازے اب بھی بند ہیں۔

ذاتی طور پر میری رائے پوچھیں تو میں فکسنگ کے گھناؤنے جرم کے مرتکب کسی بھی شخص کو دوسرا موقع دینے کا قائل نہیں ہوں۔ جنہیں ملک کی نمائندگی کا موقع ملا اگر وہ اپنے کاندھوں پر موجود اس ذمہ داری کا احساس تک نہ کریں تو وہ کسی رُو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ لیکن، ہاں، انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ سب کے لیے برابر ہو۔

کرکٹ کے معاملے میں مختلف کھلاڑیوں کے لیے مختلف معیارات رکھنا انصاف کے منافی ہے۔

جب 90ء کی دہائی کے سارے مشتبہ کھلاڑی کسی نہ کسی سطح پر کرکٹ میں واپس قبول کرلیے گئے، جب مشکوک ماضی ہونے کے باوجود انہیں آج عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہی نہیں بلکہ ان کے بعد آنے والی پود کے کھلاڑی بھی اب ’آزاد‘ ہیں تو تنہا سلیم ملک کا کیا قصور؟

خود دیکھ لیں، ابھی کل کی ہی بات لگتی ہے کہ 2010ء میں لارڈز کے میدان پر اسپاٹ فکسنگ کے ذریعے پاکستان کا نام ڈبویا گیا۔ اس گھناؤنی حرکت کے مرتکب کھلاڑی آج کہاں ہیں؟ محمد عامر کم عمر تھے اور شبہ تھا کہ انہوں نے فکسنگ کی حرکت کپتان کے دباؤ کی وجہ سے کی ہوگی، اس لیے انہیں سزا بھگتنے کے فوراً بعد قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کرلیا گیا اور وہ آج بھی ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔

محمد آصف نے دنیا سے الگ تھلگ ہونے کا راستہ چن لیا اور کرکٹ کا رخ ہی نہیں کیا، ورنہ شاید انہیں بھی موقع مل جاتا۔ لیکن سب سے بڑے کردار سلمان بٹ ڈومیسٹک کرکٹ سے لے کر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) تک میں، ہر جگہ ایکشن میں نظر آرہے ہیں اور میدان سے باہر بھی تجزیہ کار کی حیثیت سے ٹیلی وژن چینلوں پر موجود رہتے ہیں۔

اس سے بھی تازہ مثال شرجیل خان کی لے لیں کہ جن پر 2017ء میں فکسنگ اسکینڈل کے بعد 5 سال کی پابندی لگائی گئی تھی لیکن سزا ڈھائی سال بعد معطل کردی گئی اور اب وہ ایک مرتبہ پھر کھیل کے میدانوں میں موجود ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ایک بُرائی دوسری بُرائی کا جواز نہیں بن سکتی، اور نہ بننی چاہیے لیکن انصاف کے تقاضے کچھ اور کہتے ہیں۔ ایک ہی جرم کی سزا مختلف افراد کو مختلف دینا انصاف ہے؟ اس پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔

اب اتنے سالوں کے بعد اچانک سلیم ملک کا منظرِ عام پر آنا اور کرکٹ سرگرمیاں شروع کرنے کی سرِعام اجازت طلب کرنا ظاہر کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ’میں کسی بھی سطح پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے کوچنگ کی خدمات انجام دے سکتا ہوں۔ مجھے 2008ء میں عدالت نے کلین چٹ دے دی تھی اور قانوناً مجھ پر کوئی پابندی نہیں۔ جب محمد عامر، سلمان بٹ اور شرجیل خان کو موقع مل سکتا ہے تو میرے تجربے کا بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے‘۔

پھر پاکستان کے سابق کپتان اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کا بھی یہی سمجھنا ہے کہ سلیم ملک کو دوسرا موقع ملنا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے سلیم ملک کا کیریئر اس انداز میں ختم ہوا۔ لیکن انہیں ملک کے لیے دوسری اننگز کا موقع ملنا چاہیے، بالکل اسی طرح جیسے بھارت میں سابق کپتان اظہر الدین پر پابندی لگائی گئی لیکن آج کل وہ حیدرآباد کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر ہیں‘۔

انضمام الحق نے تو سلیم ملک کے کھیل کو ماضی میں ظہیر عباس اور محمد یوسف اور آج کل کے کھلاڑیوں میں بابر اعظم سے تشبیہ دی اور کہا کہ انہوں نے پاکستان کے لیے 100 سے زیادہ ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں۔ ہوسکتا ہے نئی نسل ان کے بارے میں زیادہ نہ جانتی ہو لیکن وہ اپنے زمانے میں ایک زبردست کھلاڑی تھے۔

ان تمام کڑیوں کو آپس میں ملائیں تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سلیم ملک کے حوالے سے کرکٹ کے کرتا دھرتا کوئی فیصلہ کرچکے ہیں، اب اس فیصلے کے اعلان سے پہلے رائے عامہ ہموار کی جا رہی ہے۔ انتظار کیجیے کہ ملک صاحب کسی نئے جلوے میں نمودار ہونے ہی والے ہیں اور ماضی قریب میں جو مثالیں قائم کی گئی ہیں، ان کے بعد تو یہ آمد کسی کو بُری لگنی بھی نہیں چاہیے۔

بشکریہ ڈان نیوز
 

محمد وارث

لائبریرین
سلیم ملک کی جس اننگز کا شروع میں تذکرہ کیا گیا ہے وہ میں نے براہِ راست ٹی وی پر دیکھی تھی، گریٹ کپل دیو کی دھنائی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یاد ہے! :)

باقی سلیم ملک نے کچھ سال پہلے بھی واپسی کی کوشش کی تھی اور اب بھی کر رہا ہے، سلیم ملک اور ان کے ہم زلف اعجاز احمد کوئی بزنس وغیرہ کرتے ہیں، میرے خیال میں تو بزنس ہی میں رہیں تو بہتر ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سلیم ملک کی جس اننگز کا شروع میں تذکرہ کیا گیا ہے وہ میں نے براہِ راست ٹی وی پر دیکھی تھی، گریٹ کپل دیو کی دھنائی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یاد ہے! :)

باقی سلیم ملک نے کچھ سال پہلے بھی واپسی کی کوشش کی تھی اور اب بھی کر رہا ہے، سلیم ملک اور ان کے ہم زلف اعجاز احمد کوئی بزنس وغیرہ کرتے ہیں، میرے خیال میں تو بزنس ہی میں رہیں تو بہتر ہے۔

کرکٹ میں پیسہ بھی تو بہت آ گیا ہے۔

ویسے سلیم ملک بڑے فیورٹ تھے اپنے دور میں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سن 2000ء میں جسٹس ملک محمد قیوم نے میچ فکسنگ کی تحقیقات کے بعد سلیم ملک کو سزا سنائی تھی کہ وہ پوری زندگی میں کسی بھی سطح پر کرکٹ کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔

یہ وہی جسٹس قیوم ہیں نا کہ جنہوں نے کہا تھا کہ وہ وسیم اکرم کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اس لیے انہیں چھوڑ دیا۔ ؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہ وہی جسٹس قیوم ہیں نا کہ جنہوں نے کہا تھا کہ وہ وسیم اکرم کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اس لیے انہیں چھوڑ دیا۔ ؟
جی یہ وہی معروف جج ہیں جو بینظیرسے متعلق ایک کیس میں فون پر شہباز اور نواز شریف سے ڈکٹیشن لیتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔

پاکستان وہ عظیم ملک ہے جہاں پولیس، تفتیشی افسر سے لے کر جج تک سب برائے فروخت ہیں۔ اور ان کو خریدنے والے عوام کے اپنے ووٹوں سے منتخب حکمران۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جی یہ وہی معروف جج ہیں جو بینظیرسے متعلق ایک کیس میں فون پر شہباز اور نواز شریف سے ڈکٹیشن لیتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔

پاکستان وہ عظیم ملک ہے جہاں پولیس، تفتیشی افسر سے لے کر جج تک سب برائے فروخت ہیں۔ اور ان کو خریدنے والے عوام کے اپنے ووٹوں سے منتخب حکمران۔

بھائی کھیل اور کھلاڑی میں کرکٹ کی بات کریں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
بھائی کھیل اور کھلاڑی میں کرکٹ کی بات کریں۔ :)
جب کرپٹ سیاسی لوگ درباری جج بھرتی کریں جو میرٹ کی بجائے غیر منصفانہ اور جانبدار فیصلہ جاری کریں تو ایسے نظام کے خلاف بولنا آپ کا حق ہی نہیں ذمہ داری ہے۔
over five years after the report was released, and more than seven years after the inquiry began, Justice Qayyum said he had not wanted a "great cricketer" like Wasim to be banned
"For Wasim I had some soft corner for him," Qayyum was quoted as saying in an interview on cricinfo.com. "He was a very great player, a very great bowler and I was his fan, and therefore that thing did weigh with me​
Judge admits possibility of leniency over punishment for Wasim

جس شخص کو اتنا نہیں معلوم تھا کہ اس کا کام اپنی ذاتی پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلے دینا ہے۔ وہ شہباز شریف کے ساتھ اپنی فون کال لیک ہونے تک لاہور ہائی کورٹ کا جج رہا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ وہی جسٹس قیوم ہیں نا کہ جنہوں نے کہا تھا کہ وہ وسیم اکرم کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اس لیے انہیں چھوڑ دیا۔ ؟
جی وہی ہیں۔

پاکستان میں میچ فکسنگ میں سلیم ملک سے بھی زیادہ شاید وسیم اکرم کا عمل دخل تھا۔ میں 1996ء میں لاہور میں تھا اور اس وقت پاکستان میں نیا نیا کیبل ٹی وی شروع ہوا تھا، دنیا جہان کے میچوں پر چوبیس گھنٹے پیسے لگتے تھے، 1996ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی شکست کے بعد لاہور میں وسیم اکرم کے گھر پر جواریوں کی طرف سے پتھراؤ اور حملہ بھی ہوا تھا لیکن کورٹ کمیشن سے وسیم اکرم صاف بچ کر نکل گئے جب کہ سلیم ملک اور عطا الرحمٰن کو سزا ہو گئی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سلیم ملک کو غلط سزا ملی بلکہ یہ کہ وسیم اکرم کو بھی سزا ملنی چاہیئے تھی۔
 
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں، جب سلیم ملک کپتان تھا، اور خود باؤلنگ کرواتا تھا۔ فیلڈنگ ایک طرف زیادہ رکھ کر دوسری طرف باؤلنگ کرواتا تھا، اور ہمیں بڑا غصہ آتا تھا کہ میچ فکس کیا ہوا ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
خود دیکھ لیں، ابھی کل کی ہی بات لگتی ہے کہ 2010ء میں لارڈز کے میدان پر اسپاٹ فکسنگ کے ذریعے پاکستان کا نام ڈبویا گیا۔ اس گھناؤنی حرکت کے مرتکب کھلاڑی آج کہاں ہیں؟ محمد عامر کم عمر تھے اور شبہ تھا کہ انہوں نے فکسنگ کی حرکت کپتان کے دباؤ کی وجہ سے کی ہوگی، اس لیے انہیں سزا بھگتنے کے فوراً بعد قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کرلیا گیا اور وہ آج بھی ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔
اسپاٹ فکسنگ بھی ظاہر ہے جرم ہے لیکن میچ فکسنگ کے مقابلے میں انتہائی چھوٹا سا، کہاں میچ کی 600 گیندوں میں سے ایک دو گیند کو جان بوجھ کر غلط کرنا یا چھوڑ دینا اور کہاں کپتان کی طرف سے پورے میچ کا نتیجہ ہی بدل دینا، وہی فرق ہے جو مذہب میں صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں فرق ہے اور یہی فرق محمد عامر اور سلیم ملک کی سزاؤں میں ہے اور درست ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
جی وہی ہیں۔

پاکستان میں میچ فکسنگ میں سلیم ملک سے بھی زیادہ شاید وسیم اکرم کا عمل دخل تھا۔ میں 1996ء میں لاہور میں تھا اور اس وقت پاکستان میں نیا نیا کیبل ٹی وی شروع ہوا تھا، دنیا جہان کے میچوں پر چوبیس گھنٹے پیسے لگتے تھے، 1996ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی شکست کے بعد لاہور میں وسیم اکرم کے گھر پر جواریوں کی طرف سے پتھراؤ اور حملہ بھی ہوا تھا لیکن کورٹ کمیشن سے وسیم اکرم صاف بچ کر نکل گئے جب کہ سلیم ملک اور عطا الرحمٰن کو سزا ہو گئی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سلیم ملک کو غلط سزا ملی بلکہ یہ کہ وسیم اکرم کو بھی سزا ملنی چاہیئے تھی۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں، جب سلیم ملک کپتان تھا، اور خود باؤلنگ کرواتا تھا۔ فیلڈنگ ایک طرف زیادہ رکھ کر دوسری طرف باؤلنگ کرواتا تھا، اور ہمیں بڑا غصہ آتا تھا کہ میچ فکس کیا ہوا ہے۔ :)
وہ پوچھنا یہ تھا کہ انتخابات میں دھاندلی فوج کرواتی ہے تو کیا کرکٹ میچوں میں دھاندلی کی ذمہ دار بھی فوج ہے؟ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اسپاٹ فکسنگ بھی ظاہر ہے جرم ہے لیکن میچ فکسنگ کے مقابلے میں انتہائی چھوٹا سا، کہاں میچ کی 600 گیندوں میں سے ایک دو گیند کو جان بوجھ کر غلط کرنا یا چھوڑ دینا اور کہاں کپتان کی طرف سے پورے میچ کا نتیجہ ہی بدل دینا، وہی فرق ہے جو مذہب میں صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں فرق ہے اور یہی فرق محمد عامر اور سلیم ملک کی سزاؤں میں ہے اور درست ہے۔ :)

یہ بات واقعی درست ہے اور اہم ہے۔

اگر جان بوجھ کر قومی ٹیم میچ ہا ر جائے تو یہ ملک سے غداری اور قوم سے مذاق ہے۔ ایسے میں یقیناً کپتان ملی بھگت میں شامل ہوتا ہےاور میرا خیال ہے کہ ایسے کپتان کو کبھی معافی نہیں ملنی چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ مجھے سلمان بٹ زہر لگتا ہے۔ کہ اس نے پیسے کی خاطر ملکی وقار کو داؤ پر لگا دیا۔ اور نوجوان کرکٹرز کو ورغلانے میں بھی یقیناًَ اسی کا ہاتھ تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ڈِش انٹینا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ کیبل ٹی وی لاہور میں شائد ۱۹۹۸ میں متعارف ہوا تھا۔ :)
شاید آپ درست کہہ رہے ہیں، چند ہی سالوں میں موبائل فون ، ڈش انٹینا اور کیبل ٹی وی آگے پیچھے پاکستان کے بڑے شہروں میں بہت تیزی سے پھیل گئے تھے۔ ویسے ڈش انٹینا سے مجھے ایک بہت پرانی جنگ اخبار کی خبر یاد آ گئی اور جو اکثر مواقع پر یاد آتی ہے، وہ اسی بارے میں تھی کہ پاکستان میں دو ڈش انٹیناز ہیں ایک کراچی کے کسی فائیوسٹار ہوٹل میں اور دوسرا پیر صاحب پگاڑو کے "کنگری ہاؤس" میں۔:)
 

عرفان سعید

محفلین
سلیم ملک کی جس اننگز کا شروع میں تذکرہ کیا گیا ہے وہ میں نے براہِ راست ٹی وی پر دیکھی تھی، گریٹ کپل دیو کی دھنائی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یاد ہے! :)

باقی سلیم ملک نے کچھ سال پہلے بھی واپسی کی کوشش کی تھی اور اب بھی کر رہا ہے، سلیم ملک اور ان کے ہم زلف اعجاز احمد کوئی بزنس وغیرہ کرتے ہیں، میرے خیال میں تو بزنس ہی میں رہیں تو بہتر ہے۔
کیا ہی شاندار اننگز تھی!
مجھے ٹی وی پر کرکٹ دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اچھی طرح یاد ہے کہ سکول سے آنے کے بعد ٹی وی آن کیا تو رمیز اور یونس احمد کی اووپننگ پارٹنرشپ جاری تھی۔ بس دیکھنا شروع کر دیا اور دیکھتا ہی چلا گیا اور پھر سلیم ملک کی یادگار اننگز کے بعد تو ٹی وی کا نشہ ہو گیا۔
33 سال پرانے میچ سے سلیم ملک کی اننگز، جس میں حسن جلیل کی خوبصورت کمنٹری بھی موجود ہے۔

 
آخری تدوین:
Top