گُلِ یاسمیں
لائبریرین
کیا سنائیں کس حال میں آتی ہے پردیس کی عید
نکل آتے ہیں آنسو جب یاد آتی ہے پردیس کی عید
وطن سے دور پردیس میں رہنا ایسا تجربہ ہے جو روزمرہ کی زندگی میں بھی کبھی کبھار تکلیف و کرب کا باعث بنتا ہے۔ اور اس کیفیت کو وہی محسوس کر سکتے ہیں جو پردیس میں ہیں۔ لیکن عید وغیرہ کے موقعہ پر یہ کمی کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتی ہے۔ عید کارڈ وطن کی مٹی کی خوشبو ساتھ لے کر آئیں تو بھی کچھ تسکین کا باعث ہوں۔ لیکن بھلا ہو اس وٹس ایپ کا جس نے یہ سُکھ بھی چھین لیا ہے۔ ایک ہی میسج اتنے لوگوں کو فارورڈ کر دیا جاتا ہے کہ گھوم پھر کر پھر اپنے پاس آ جاتا ہے۔نکل آتے ہیں آنسو جب یاد آتی ہے پردیس کی عید
لیکن دیس کے لوگ کیا جانیں کہ جو خوشی عید کارڈ دیتا ہے وہ ان پیغامات میں ادھوری ملتی ہے۔
سنو اے دیس کے لوگو
کہ یہ جو عید کا دن ہے
اگر پردیس میں آئے
نہ خوشیاں پاس ہوتی ہیں
نہ کوئی مسکراتا ہے
خوشی غم سے لپٹتی ہے
اداسی مسکراتی ہے
سنو اے دیس کے لوگو
تمہاری یاد آتی ہے
ہمیں پھر یاد آتی ہیں
سہانے دیس کی یادیں
وہ بچپن اور جوانی کے سہانے دن
نہ پوچھو کس طرح سے ہم
گھروں کی بات کرتے اور پھر آنسو چھپاتے ہیں
بجھے دل سے مسکراتے ہیں
سنو اے دیس کے لوگو
ہمیں شدت سے اپنا دور بچپن یاد آتا ہے
ہمیں ماؤں کی میٹھی میٹھی ممتا یاد آتی ہے
ہنساتی ہے ، رلاتی ہے
تسلی کے لئے ہم اک دوجے سے یہ کہتے ہیں
دنوں کی بات ہے ہم بھی وطن کو لوٹ جائیں گے
یقیناً عید اگلی اپنے اپنے گھر منائیں گے
سنو اے دیس کے لوگو
اگر سچ بات پوچھو تو
گھروں کو یاد کرنے سے
کوئی فریاد کرنے سے
تھکن سے چور ہونے سے
بہت مجبور ہونے سے
کسی کو کچھ بھی نہیں ملتا
کوئی در بھی نہیں کٗھلتا
(شکریہ سلیمان جاذب)
کہ یہ جو عید کا دن ہے
اگر پردیس میں آئے
نہ خوشیاں پاس ہوتی ہیں
نہ کوئی مسکراتا ہے
خوشی غم سے لپٹتی ہے
اداسی مسکراتی ہے
سنو اے دیس کے لوگو
تمہاری یاد آتی ہے
ہمیں پھر یاد آتی ہیں
سہانے دیس کی یادیں
وہ بچپن اور جوانی کے سہانے دن
نہ پوچھو کس طرح سے ہم
گھروں کی بات کرتے اور پھر آنسو چھپاتے ہیں
بجھے دل سے مسکراتے ہیں
سنو اے دیس کے لوگو
ہمیں شدت سے اپنا دور بچپن یاد آتا ہے
ہمیں ماؤں کی میٹھی میٹھی ممتا یاد آتی ہے
ہنساتی ہے ، رلاتی ہے
تسلی کے لئے ہم اک دوجے سے یہ کہتے ہیں
دنوں کی بات ہے ہم بھی وطن کو لوٹ جائیں گے
یقیناً عید اگلی اپنے اپنے گھر منائیں گے
سنو اے دیس کے لوگو
اگر سچ بات پوچھو تو
گھروں کو یاد کرنے سے
کوئی فریاد کرنے سے
تھکن سے چور ہونے سے
بہت مجبور ہونے سے
کسی کو کچھ بھی نہیں ملتا
کوئی در بھی نہیں کٗھلتا
(شکریہ سلیمان جاذب)
آخری تدوین: