سید اسد محمود
محفلین
کیا سندھ میں ہنگامہ آرائی لسانی بنیادوں پر ہوئی؟
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ،کراچی
ستائیس دسمبر کو جب بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد صوبہ سندھ شدید ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں تھا، اس وقت کراچی سے پشاور جانے والی پاکستان ایکسپریس کے ڈرائیور نے ٹرین کو محرابپور ریلوے اسٹیشن پر روک دیا۔ ٹرین کے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ محرابپور کے لوگ مہمان نواز ہیں اس لیے سٹاپ نہ ہونے کے باوجود اس نے وہاں گاڑی کو روکا ﴿اس بات کا تو میں بھی گواہ ہوں کہ جون جولائی شدید گرمیوں میں بھی اس اسٹیشن پر یخ ٹھنڈا پانی مسافروں کے لئے شہریوں کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے﴾۔
ضلعی مرکز نوشہرو فیروز سے تیس کلو میٹر دور وسطی سندھ میں واقع محرابپور کے لوگوں نے ڈرائیور کی اس بات کو سچ ثابت کردیا۔ٹرین رکنے کے بعد مشتعل ہجوم نے اسے آگ لگادی مگر پہلے مسافروں کو اترنے دیا گیا اور کئی مسافر اپنا سامان بھی ساتھ لے آئے۔ مقامی لوگوں نے ٹرین میں سوار تیرہ سو سے زائد مسافروں کو بلا امتیاز تین روز تک اپنے گھروں میں بطور مہمان ٹھہرایا۔
عبدالغفور میمن کے گھر میں بھی دس مسافروں نے قیام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ’ وہ پنجابی لوگ تھے، افرا تفری کی وجہ سے سخت پریشان تھے۔ اس لیے ہم انہیں اپنے گھر لے آئے، عورتیں کہہ رہی تھیں کہ کھانا ہم پکائیں گے مگر ہم نے کہا کہ آپ مہمان ہیں‘۔
عبدالغفور میمن مسافروں کی مہمان نوازی کرنے والوں میں شامل تھے
یہی مناظر نوابشاھ کے دوڑ اور سانگھڑ کے سرہاڑی اور جلال مری سٹیشنوں پر بھی دیکھنے میں آئے۔ ان سٹیشنوں پر بھی ایک ایک ٹرین رکی ہوئی تھی۔ لوگوں نے بلاامتیاز دل وجان سے مسافروں کی مہمان نوازی کی۔ کوئی مسافر پنجاب سے تھا تو کوئی سرحد سے اور کوئی کشمیر سے تو کوئی کراچی سے۔
دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ ستائیس دسمبر سے اکتیس دسمبر تک جاری ہنگامہ آرائی کی طرف رہی اور بھائی چارے اور محبت کی یہ تصویر پوری طرح سامنے نہیں آسکی۔
اس دوران یہ خبریں آئیں کہ لوٹ مار میں لسانی رنگ بھی شامل ہے۔ جس پر بعض سیاستدانوں نے تشویش کا بھی اظہار کیا۔
مثال کے طور پر کنڈیارو، مورو اور نوابشاھ شہر میں ہنگامہ آرائی کے دوران ایک سو سے زائد دکانیں لوٹی یا نذر آتش کی گئیں جو اکثر غیر سندھیوں کی تھیں۔خیرپور، نوشہرو فیروز، نوابشاہ اور سانگھڑ اضلاع میں اکثر کاروبار اردو اور پنجابی بولنے والوں کے ہاتھوں میں ہے۔ کپڑے کی دکان ہو یا جنرل اسٹور، موبائل کی فرنچائز ہو یا اسپئر پارٹس کی دکان، یہ سب غیر سندھی ہی چلاتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ سندھ کے ہنگاموں میں متاثرین کی خاصی تعداد غیر سندھی ہے جس سے یہ تاثر پھیل گیا کہ لسانی بنیادوں پر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
لیکن کیا یہ تاثر درست تھا؟
نوشہرو فیروز سے چالیس کلومٹیر کے فاصلے پر واقع کنڈیارو شہر میں عمر دراز کا جنرل اسٹور خاکستر ہوا۔ اب وہ دکان کے سامنے ٹھیلا لگاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک گروہ نے انہیں مہاجر ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ سارے لوگ ایسے نہیں ہیں۔ ’اس وقت نا جانے لوگوں پر کیا جنون سوار تھا‘۔ خیرپور کی بنارس کالونی کے نوجوان انجم سجاد کہتے ہیں کہ کوئی گروہ ہے جو چاہتا ہے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف جائے۔ ’جب حالات معمول پر آئے تو لوگوں کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں نفرتیں نہیں ہیں‘۔ کاروبار تو متاثر ہوئے لیکن یہاں کے لوگوں کے تعلقات میں اپنائیت موجود ہے اور کسی نے اپنا گھر بار نہیں چھوڑا۔
دکانداروں کی اکثریت ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والے نقصان کا ذمہ دار انتظامیہ کو سمجھتی ہے۔
نوابشاہ میں صرافہ بازار کے صدر اسلم شیخ کہتے ہیں کہ بازار میں تین روز تک بلاامتیاز لوٹ مار کی گئی۔’تین روز تک انتظامیہ کا وجود نظر نہیں آیا، پولیس نام کی کوئی شے سامنے نہیں تھی، وہ فورسز اور ایجنسیاں کہاں تھیں جن کو سیاستدانوں کے واش روم تک کی رپورٹ ہوتی ہے؟
ہنگامہ آرائی کے متاثرین میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ہمدرد بھی شامل ہیں۔ ان میں نوشہروفیروز کے پیر قربان علی شاھ بھی شامل ہیں جن کے پیٹرول پمپ کو نذر آتش کیا گیا۔ ’شرپسند لوگ تھے جن کا پاکستان پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا، جو بھی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے قریب ہیں، ان کے خلاف لوگوں کی نفرت تھی۔اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ اردو بولنے والوں کے خلاف رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے‘۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہنگامہ آرائی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ق کی جانب سے اخبارات میں کچھ ایسے اشتہارات شائع کیے گئے جن کی سندھ کے پنجابی آبادکاروں نے بھی مذمت کی۔
نوابشاہ کے تاجر چودھری عبدالقیوم شہر میں لسانی بنیاد پر کسی بھی واقعہ کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پنجاب سے بعض حلقےسیاسی مقاصد کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ ’ستر فیصد پنجابی آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ ان کی تو نکسیر بھی نہیں پھوٹی ہے، یہ جتنی اشتہار بازی کی جارہی ہے وہ سیاسی حربے ہیں اور وہ یہاں کے لوگوں کی قربانی دینا چاہتے ہیں‘۔
نوابشاہ شہر میں پنجابی آبادکار زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اسی کمیونیٹی سے صوبائی اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا جاتا ہے جس کا مقابلہ ایم کیو ایم کے امیدوار سے ہوتا ہے۔ شاید ایک یہ بھی وجہ ہے کہ شہر میں سیاسی رنگ زیادہ حاوی ہے۔ سانگھڑ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں پنجابی برداری کثرت سے آباد ہے ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہاں ریٹائرڈ فوجی افسران کو الاٹ کی گئی زمین بھی ہے۔
سانگھڑ کی شناخت پیر پگاڑا کی جماعت کے مریدوں یعنی حر قوم سے بھی ہوتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت پہلا موقع تھا کہ سانگھڑ شہر تین روز تک بند رہا، کچھ لوگوں کی کوششوں کے باوجود بھی دکانداروں نے کاروبار کھولنے سے انکار کردیا۔
اس شہر میں کسی بھی سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا، یہاں پنجابی برداری کی اکثریت نے گزشتہ سال پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اسی کمیونیٹی سے صوبائی اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا۔ اس ڈرامائی تبدیلی کے بعد مسلم لیگ فنکشنل کو سخت مقابلے کا سامنا ہے اور شہر میں ان کی مقبولیت نہیں ہے۔
سانگھڑ کےچودھری عابد فاروق بتاتے ہیں کہ چودھری برادران لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہاں پر کسی پنجابی کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، اب وہ جب یہ دیکھ رہے ہیں کہ سندھ میں انہیں شکست نصیب ہورہی تو پنجاب کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے یہ ڈرامہ کر رہے ہیں۔ مورو، ٹھارو شاہ، ہالانی سمیت کئی شہروں میں معززین نے سڑکوں پر نکل کر مشتعل لوگوں کو روکا اور شہروں کو مزید نقصان سے بچایا۔
ٹنڈو آدم میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ یہ علاقہ اسی کی دہائی میں ہونے والے لسانی فسادات سے بھی فسادات سے محفوظ رہا تھا اور آج وہاں کوئی کشیدگی نہیں۔ٹنڈو آدم کے ناظم غلام مرتضیٰ جونیجو کا کہنا ہے کہ پورے سندھ میں نقصان ہوا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ جان بوجھ کر کسی کو نسلی یا لسانی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس ثاتر میں صداقت ہوتی تو جلال مری میں جو ٹرین رکی تھی، لوگ ان مسافروں کی مہمان نوازی کے بجائے ان سے بھی لوٹ مار کرتے مگر لوگوں نےانہیں تین روز تک اپنے گھروں میں مہمان بنایا۔
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ،کراچی
ستائیس دسمبر کو جب بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد صوبہ سندھ شدید ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں تھا، اس وقت کراچی سے پشاور جانے والی پاکستان ایکسپریس کے ڈرائیور نے ٹرین کو محرابپور ریلوے اسٹیشن پر روک دیا۔ ٹرین کے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ محرابپور کے لوگ مہمان نواز ہیں اس لیے سٹاپ نہ ہونے کے باوجود اس نے وہاں گاڑی کو روکا ﴿اس بات کا تو میں بھی گواہ ہوں کہ جون جولائی شدید گرمیوں میں بھی اس اسٹیشن پر یخ ٹھنڈا پانی مسافروں کے لئے شہریوں کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے﴾۔
ضلعی مرکز نوشہرو فیروز سے تیس کلو میٹر دور وسطی سندھ میں واقع محرابپور کے لوگوں نے ڈرائیور کی اس بات کو سچ ثابت کردیا۔ٹرین رکنے کے بعد مشتعل ہجوم نے اسے آگ لگادی مگر پہلے مسافروں کو اترنے دیا گیا اور کئی مسافر اپنا سامان بھی ساتھ لے آئے۔ مقامی لوگوں نے ٹرین میں سوار تیرہ سو سے زائد مسافروں کو بلا امتیاز تین روز تک اپنے گھروں میں بطور مہمان ٹھہرایا۔
عبدالغفور میمن کے گھر میں بھی دس مسافروں نے قیام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ’ وہ پنجابی لوگ تھے، افرا تفری کی وجہ سے سخت پریشان تھے۔ اس لیے ہم انہیں اپنے گھر لے آئے، عورتیں کہہ رہی تھیں کہ کھانا ہم پکائیں گے مگر ہم نے کہا کہ آپ مہمان ہیں‘۔
عبدالغفور میمن مسافروں کی مہمان نوازی کرنے والوں میں شامل تھے
یہی مناظر نوابشاھ کے دوڑ اور سانگھڑ کے سرہاڑی اور جلال مری سٹیشنوں پر بھی دیکھنے میں آئے۔ ان سٹیشنوں پر بھی ایک ایک ٹرین رکی ہوئی تھی۔ لوگوں نے بلاامتیاز دل وجان سے مسافروں کی مہمان نوازی کی۔ کوئی مسافر پنجاب سے تھا تو کوئی سرحد سے اور کوئی کشمیر سے تو کوئی کراچی سے۔
دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ ستائیس دسمبر سے اکتیس دسمبر تک جاری ہنگامہ آرائی کی طرف رہی اور بھائی چارے اور محبت کی یہ تصویر پوری طرح سامنے نہیں آسکی۔
اس دوران یہ خبریں آئیں کہ لوٹ مار میں لسانی رنگ بھی شامل ہے۔ جس پر بعض سیاستدانوں نے تشویش کا بھی اظہار کیا۔
مثال کے طور پر کنڈیارو، مورو اور نوابشاھ شہر میں ہنگامہ آرائی کے دوران ایک سو سے زائد دکانیں لوٹی یا نذر آتش کی گئیں جو اکثر غیر سندھیوں کی تھیں۔خیرپور، نوشہرو فیروز، نوابشاہ اور سانگھڑ اضلاع میں اکثر کاروبار اردو اور پنجابی بولنے والوں کے ہاتھوں میں ہے۔ کپڑے کی دکان ہو یا جنرل اسٹور، موبائل کی فرنچائز ہو یا اسپئر پارٹس کی دکان، یہ سب غیر سندھی ہی چلاتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ سندھ کے ہنگاموں میں متاثرین کی خاصی تعداد غیر سندھی ہے جس سے یہ تاثر پھیل گیا کہ لسانی بنیادوں پر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
لیکن کیا یہ تاثر درست تھا؟
نوشہرو فیروز سے چالیس کلومٹیر کے فاصلے پر واقع کنڈیارو شہر میں عمر دراز کا جنرل اسٹور خاکستر ہوا۔ اب وہ دکان کے سامنے ٹھیلا لگاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک گروہ نے انہیں مہاجر ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ سارے لوگ ایسے نہیں ہیں۔ ’اس وقت نا جانے لوگوں پر کیا جنون سوار تھا‘۔ خیرپور کی بنارس کالونی کے نوجوان انجم سجاد کہتے ہیں کہ کوئی گروہ ہے جو چاہتا ہے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف جائے۔ ’جب حالات معمول پر آئے تو لوگوں کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں نفرتیں نہیں ہیں‘۔ کاروبار تو متاثر ہوئے لیکن یہاں کے لوگوں کے تعلقات میں اپنائیت موجود ہے اور کسی نے اپنا گھر بار نہیں چھوڑا۔
دکانداروں کی اکثریت ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والے نقصان کا ذمہ دار انتظامیہ کو سمجھتی ہے۔
نوابشاہ میں صرافہ بازار کے صدر اسلم شیخ کہتے ہیں کہ بازار میں تین روز تک بلاامتیاز لوٹ مار کی گئی۔’تین روز تک انتظامیہ کا وجود نظر نہیں آیا، پولیس نام کی کوئی شے سامنے نہیں تھی، وہ فورسز اور ایجنسیاں کہاں تھیں جن کو سیاستدانوں کے واش روم تک کی رپورٹ ہوتی ہے؟
ہنگامہ آرائی کے متاثرین میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ہمدرد بھی شامل ہیں۔ ان میں نوشہروفیروز کے پیر قربان علی شاھ بھی شامل ہیں جن کے پیٹرول پمپ کو نذر آتش کیا گیا۔ ’شرپسند لوگ تھے جن کا پاکستان پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا، جو بھی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے قریب ہیں، ان کے خلاف لوگوں کی نفرت تھی۔اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ اردو بولنے والوں کے خلاف رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے‘۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہنگامہ آرائی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ق کی جانب سے اخبارات میں کچھ ایسے اشتہارات شائع کیے گئے جن کی سندھ کے پنجابی آبادکاروں نے بھی مذمت کی۔
نوابشاہ کے تاجر چودھری عبدالقیوم شہر میں لسانی بنیاد پر کسی بھی واقعہ کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پنجاب سے بعض حلقےسیاسی مقاصد کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ ’ستر فیصد پنجابی آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ ان کی تو نکسیر بھی نہیں پھوٹی ہے، یہ جتنی اشتہار بازی کی جارہی ہے وہ سیاسی حربے ہیں اور وہ یہاں کے لوگوں کی قربانی دینا چاہتے ہیں‘۔
نوابشاہ شہر میں پنجابی آبادکار زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اسی کمیونیٹی سے صوبائی اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا جاتا ہے جس کا مقابلہ ایم کیو ایم کے امیدوار سے ہوتا ہے۔ شاید ایک یہ بھی وجہ ہے کہ شہر میں سیاسی رنگ زیادہ حاوی ہے۔ سانگھڑ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں پنجابی برداری کثرت سے آباد ہے ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہاں ریٹائرڈ فوجی افسران کو الاٹ کی گئی زمین بھی ہے۔
سانگھڑ کی شناخت پیر پگاڑا کی جماعت کے مریدوں یعنی حر قوم سے بھی ہوتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت پہلا موقع تھا کہ سانگھڑ شہر تین روز تک بند رہا، کچھ لوگوں کی کوششوں کے باوجود بھی دکانداروں نے کاروبار کھولنے سے انکار کردیا۔
اس شہر میں کسی بھی سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا، یہاں پنجابی برداری کی اکثریت نے گزشتہ سال پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اسی کمیونیٹی سے صوبائی اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا۔ اس ڈرامائی تبدیلی کے بعد مسلم لیگ فنکشنل کو سخت مقابلے کا سامنا ہے اور شہر میں ان کی مقبولیت نہیں ہے۔
سانگھڑ کےچودھری عابد فاروق بتاتے ہیں کہ چودھری برادران لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہاں پر کسی پنجابی کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، اب وہ جب یہ دیکھ رہے ہیں کہ سندھ میں انہیں شکست نصیب ہورہی تو پنجاب کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے یہ ڈرامہ کر رہے ہیں۔ مورو، ٹھارو شاہ، ہالانی سمیت کئی شہروں میں معززین نے سڑکوں پر نکل کر مشتعل لوگوں کو روکا اور شہروں کو مزید نقصان سے بچایا۔
ٹنڈو آدم میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ یہ علاقہ اسی کی دہائی میں ہونے والے لسانی فسادات سے بھی فسادات سے محفوظ رہا تھا اور آج وہاں کوئی کشیدگی نہیں۔ٹنڈو آدم کے ناظم غلام مرتضیٰ جونیجو کا کہنا ہے کہ پورے سندھ میں نقصان ہوا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ جان بوجھ کر کسی کو نسلی یا لسانی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس ثاتر میں صداقت ہوتی تو جلال مری میں جو ٹرین رکی تھی، لوگ ان مسافروں کی مہمان نوازی کے بجائے ان سے بھی لوٹ مار کرتے مگر لوگوں نےانہیں تین روز تک اپنے گھروں میں مہمان بنایا۔