مہوش علی
لائبریرین
جب صدر مشرف نے پہلی مرتبہ اختیارات کو ضلعی سطح تک تقسیم کرنے کا نظام متعارف کروانا چاہا تو ملک میں ایک ہاہا کار مچ گئی اور ہمارے نامور دانشور ابھی تک مشرف صاحب پر اس نظام کو متعارف کروانے پر تنقید کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ ان کے اعتراضات کے برعکس ہم نے دیکھا کہ کسی علاقے کی عوام کو موقع ملا کہ وہ اپنے علاقے کی تقدیر خود بنائے ورنہ اس سے قبل سارے ترقیاتی پروگرام صوبائی سطح سے کبھی نیچے ہی نہیں آ پاتے تھے۔
اب پاکستان میں جمہوریت کا مسئلہ ہے۔
اور مسئلہ یہ ہے کہ چند ایک بڑے شہروں کو چھوڑ کر بقیہ پورے پاکستان میں جمہوریت "برادری سسٹم" اور "لسانیت" و "صوبائی قومیت" اور علاقے میں "آپکی جاگیردارانہ طاقت" کی بنیاد پر چل رہی ہے۔
کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟
تو میرے خیال میں اسکا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے "پارلیمانی نظام" کی جگہ "صدارتی نظام" کا نفاذ۔ یہ برادری سسٹم ملک گیر سطح پر امیدوار کے کام نہیں آ سکتا، یہ صوبائی تعصبات و لسانیت ملک گیر سطح پر امیدوار کو اتنا زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا [جبکہ چھوٹے علاقے میں یہ فیصلہ کن ہو سکتا ہے]، اور کسی امیدوار کی جاگیردارنہ طاقت ملک گیر سطح پر اسکو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
تو کیا وجہ ہے کہ قوم کے دانشور کالم نگار ابھی تک پاکستان کی جمہوریت کے ان Evils کو بے نقاب نہیں کرتے اور نہ ہی اسکا کوئی حل پیش کرتے ہیں، بلکہ انکا سارا کا سارا زور صرف لفظ "آمر" پر مرتکز ہو کر رہ گیا ہے؟
بات یہ ہے کہ مشرف صاحب نے اس صدارتی نظام کو نافذ کرنے کے لیے کوششیں بھی کیں، مگر پھر یہی میڈیا کے دانشور کالم نگار اور دیگر پارٹیاں انکے ایسے پیچھے پڑے کہ پانی کے ڈیمز کی طرح مشرف صاحب کو اس پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ بہرحال یہ فکر زندہ رہنی چاہیے کیونکہ جیسے ضلعی نظام نے کراچی میں ایم کیو ایم کے آدھے مسائل حل کر دیے، اسی طرح یہ صدارتی نظام پاکستانی جمہوریت کے ان آدھے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
اب پاکستان میں جمہوریت کا مسئلہ ہے۔
اور مسئلہ یہ ہے کہ چند ایک بڑے شہروں کو چھوڑ کر بقیہ پورے پاکستان میں جمہوریت "برادری سسٹم" اور "لسانیت" و "صوبائی قومیت" اور علاقے میں "آپکی جاگیردارانہ طاقت" کی بنیاد پر چل رہی ہے۔
کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟
تو میرے خیال میں اسکا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے "پارلیمانی نظام" کی جگہ "صدارتی نظام" کا نفاذ۔ یہ برادری سسٹم ملک گیر سطح پر امیدوار کے کام نہیں آ سکتا، یہ صوبائی تعصبات و لسانیت ملک گیر سطح پر امیدوار کو اتنا زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا [جبکہ چھوٹے علاقے میں یہ فیصلہ کن ہو سکتا ہے]، اور کسی امیدوار کی جاگیردارنہ طاقت ملک گیر سطح پر اسکو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
تو کیا وجہ ہے کہ قوم کے دانشور کالم نگار ابھی تک پاکستان کی جمہوریت کے ان Evils کو بے نقاب نہیں کرتے اور نہ ہی اسکا کوئی حل پیش کرتے ہیں، بلکہ انکا سارا کا سارا زور صرف لفظ "آمر" پر مرتکز ہو کر رہ گیا ہے؟
بات یہ ہے کہ مشرف صاحب نے اس صدارتی نظام کو نافذ کرنے کے لیے کوششیں بھی کیں، مگر پھر یہی میڈیا کے دانشور کالم نگار اور دیگر پارٹیاں انکے ایسے پیچھے پڑے کہ پانی کے ڈیمز کی طرح مشرف صاحب کو اس پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ بہرحال یہ فکر زندہ رہنی چاہیے کیونکہ جیسے ضلعی نظام نے کراچی میں ایم کیو ایم کے آدھے مسائل حل کر دیے، اسی طرح یہ صدارتی نظام پاکستانی جمہوریت کے ان آدھے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔