الف نظامی
لائبریرین
کیا طالبان کے ڈر سے حق بات کہنا چھوڑ دوں؟
"سر ۔۔۔ ساری دنیا لرز رہی ہے ، آپ کیوں نہیں؟"
"کوئی گارڈ ، نہ سیکورٹی ، کون جانے کب کوئی آپ پر وار کردے"
"ٹھیک ہے تو پھر کیا کروں"
"سر! وہی جو دوسرے کر رہے ہیں ۔ کوئی احتیاط کریں اور اپنی حفاظت کا بندوبست بھی ، کیونکہ طالبان۔۔۔"
"طالبان۔۔۔ کیا طالبان؟ ان کے ڈر سے اب حق بات کہنا بھی چھوڑ دوں ، طالبان سے ڈروں یا اللہ کا خوف کروں۔ انٹرویو ختم ہوگا تو مجھ سے اہلسنت کے ان 65 علماء کی فہرست ضرور لے جائیے گا جنہیں محض مسلکی اختلافات کی وجہ سے سوات اور شمالی ، جنوبی وزیرستان میں شہید کردیا گیا۔ ان علماء سیمت سینکڑوں ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کی طالبان کے ہاتھوں شہادت پر آواز نہ اٹھاوں تو کیا چپ بیٹھا رہوں۔ جانتا ہوں میری جان سخت خطرے میں ہے لیکن جو بات میں کر رہا ہوں اس کا ابلاغ میری جان سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ یہ میری قومی ذمہ داری ہے۔ میرا بولنا اسلام اور عوام کے بہترین مفاد میں ہے۔ اس لیے آخری سانسوں تک یہ فرض ادا کرتا رہوں گا"
یہ الفاظ بیدردی کے ساتھ مسجد میں شہید ہونے والے فقیر صفت عالم دین ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کے ہیں ، جو انہوں ے اس وقت کہے جب ان سطور کا راقم انٹرویو کرنے 24 اپریل 2009 کے روز جامعہ نعیمہ گڑھی شاہو پہنچا۔ جناح کیپ ، سادہ سی شلوار قیمض میں ملبوس ڈاکٹر سرفراز نعیمی نمازِ جمعہ کے بعد جامعہ کے مین گیٹ کے ساتھ واقع دفتر میں جہاں انہیں شہید کیا گیا ، کسی سائل کی گفتگو کو انتہائی انہماک کے ساتھ سن رہے تھے۔ شاید اس دکھیارے کو سننے کے لیے ہمدرد کان ملے تھے اس لیے پوری تفصیل کے ساتھ دل کے پھپھولے پھوڑ رہا تھا۔ ڈاکٹر نعیمی انتہائی تحمل کے ساتھ سائل کی بات سنتے رہے۔ جب وہ چپ ہوا تو انتہائی آہستہ آواز میں کچھ پڑھنے کی تلقین اور نصیحت کی۔ کچھ دیگر افراد بھی وہاں موجود تھے۔ میل ملاقات کا یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا۔ وہاں سے فراغت ہوئی تو انہوں ے مجھےہمراہ کیا اور مسجد کے صحن سے نپے تلے قدموں کے ساتھ ہوتے ہوئے جامعہ کی وسیع و عریض لائبریری میں آگئے۔ وہاں کا ماحول نسبتا پرسکون تھا۔ قدرے توقف کے ساتھ انٹرویو کا باقاعدہ آغاز کردیا تو بجلی چلی گئی۔ یوں اس نیم تاریک ماحول میں بات چیت کا سلسلہ تقریبا تین گھنٹوں تک دراز رہا۔ کوئی سوال ایسا نہ تھا جو ہمارے ذہن میں آیا اور ہم نے اسے پوچھنے سے گریز کیا ہو اور کوئی جواب ایسا نہیں جسے انہوں نے مصلحت کے غلاف میں لپیٹ کر دیا ہو۔ سچی سیدھی اور ابہام سے پاک گفتگو سے واسطہ رہا۔ استوار لہجے میں علم وحلم کا دریا رواں دواں رہا۔ خود نمائی اور رکھ رکھاو کے عیب سے بے نیاز یہ ملاقات طالب علم کی زندگی کا ناقابل فراموش تجربہ بن گئی۔
از کرامت علی بھٹی ، سیارہ ڈائجسٹ جولائی 2009
سنی مسلمانوں کے بڑے عالم دین ڈاکٹر سرفراز نعیمی اپنی سادگی کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ میں ایک خبر پر ان کا موقف لینے کے لیے اسی دفتر میں ان کا منتظر بیٹھا تھا جہاں انہیں ہلاک کیا گیا ہے۔
دورانِ انتظار ان کے ایک شاگرد نے لوہے کہ گلاس میں مجھے پانی پلایا اور تھوڑی دیر کے بعد میں یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی ستر سی سی کی ایک پرانی موٹر سائیکل پر تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے احتیاط سے موٹرسائیکل پارک کی اور چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اپنے نرم چھوٹے ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔
میں نے ایک بار پھر دفتر کے اندرونی دروازے سے جھانک کر پہلے جامعہ نعیمیہ کی اس وسیع و عریض عمارت کو دیکھا جہاں چودہ سو طلبہ کو تعلیم، رہائش اور کھانے پینے کی سہولت حاصل ہے اور پھر اہلسنت کی پچیس جماعتوں کے اتحاد کے سربراہ، پانچ ہزار مدارس کے سرپرست اعلی کی جانب دیکھا۔ان کے مدرسے میں زیر تعلیم غریب یتیم اور مسکین بچوں کا جیسا حلیہ تھا بالکل ویسا ہی حلیہ ان کے مہتمم اعلی علامہ مفتی سرفراز نعیمی کا بھی تھا۔
عام سی شلوار قمیض جسے کلف تو دور کی بات استری کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔کپڑے صاف ستھرے لیکن ایسے کہ بار بار کی دھلائی کے بعد ان کے رنگ اجلے نہیں رہے تھے۔ ولیوں اور صوفیوں میں پائی جانے والی سادگی صدیوں کا سفر کرکے علامہ سرفراز نعیمی میں سرایت کرچکی تھی۔
یہی وجہ ہے وہ سکیورٹی کی آڑ میں پروٹوکول کے خلاف تھے۔ان کے رشتہ داروں نے بتایاکہ طالبان کی مخالفت کرنے پر انہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس کے باوجود ان کے جامعہ کے دروازے سب پر کھلے تھے۔حتی کہ اس پر بھی کھلے تھے جو انہیں مارنے کے لیے بارود کی جیکٹ پہن کر آیا تھا۔ عینی شاہدوں نے بتایا کہ دھماکے سے پہلے حملہ آور کافی دیر تک جامعہ اور مسجد میں پھرتا رہا تھا لیکن کسی نے اسے روکا ٹوکا نہیں کیونکہ ایسا کرنا مفتی سرفراز نعیمی کے عقیدے کے خلاف تھا۔
سرفراز نعیمی کی موت ایک طالبان کے ہاتھوں آئی اور ان کی ’غلطی‘ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے قاتل کی اسی حرکت کو حرام قرار دیا تھا جس میں ان کی اوران کے قاتل کی جان ایک ساتھ جانا تھی۔
پنجاب پولیس کے سربراہ نے کہا کہ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ علامہ صاحب کو اتنی دھمکیاں مل رہی ہیں اور لاہور پولیس کے سربراہ نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ان کی سکیورٹی کا کوئی بندوبست تھا کیونکہ خود انہوں نے بھی ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ وہ جتنے بڑے عالم اور مذہبی رہنما تھے ان کے لیے بڑی سے بڑی سکیورٹی حاصل کرلینا نہایت ہی آسان تھا لیکن ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ سکیورٹی کے ساتھ پروٹوکول اور غرور آتا ہے۔
انہوں نے موت قبول کرلی لیکن تکبر کا شائبہ اپنی شخصیت پر نہیں پڑنے دیا۔ وہ سادہ زندگی جیئے اور اسی سادگی میں مرگئے۔