اس موضوع کی دوسری اور آخری پوسٹ
غیر اللہ کے بارے میں "
مولا" کا لفظ استعمال کرنے کے جواز میں
اس پورے مضمون میں صرف چار آیتیں پیش کی گئی ہیں جو کہ زیر بحث موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔
باقی سب صرف خلط مبحث کرنے کی کوششیں ہیں۔ آئندہ سطور میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی کہ "مولا" کا لفظ اللہ کے علاوہ دوسروں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ (جس پر کہ اصل گفتگو کی جانی چاہئے تھی)۔
اور ضمناً ان دلائل کا رد بھی پیش کیا جائے گا (بہ توفیق اللہ) جن سے اس مضمون میں مغالطہ آمیزی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
سب سے پہلے تو یہی دیکھ لیا جائے کہ اس پورے مضمون میں کہیں بھی "مولا" کے معنی ہی بیان نہیں کئے گئے ہیں۔ جبکہ اس لفظ کے مختلف معانی کی وضاحت نہایت ضروری تھی۔
غالباً مقصد یہ تھا کہ دلائل کے طور پر پیش کی گئی آیات میں جو مختلف معانی مذکور ہوئے ہیں ، ان پر کسی کی نظر نہ جانے پائے۔ اور اس کو صرف "ظاہر پرستی" اور "مجاز" کی ب۔حث تک محدود رکھ کر اپنے مزعومہ مقصد کو حاصل کر لیا جائے۔
لفظ مولیٰ کا قرآن و صحیح احادیث میں استعمال:
مولیٰ کے عربی زبان میں وہی مطالب ہیں جو اردو میں
آقا، کارساز، حامی، مددگار اور رب کے ہیں۔
آزاد کردہ غلام اور دوست کیے لیے بھی مولیٰ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
جیسے سالم(رضی اللہ عنہ) مولیٰ ابی حذیفہ(رضی اللہ عنہ)۔
اور اسی معنی میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
[ARABIC]انت اخونا ومولانا[/ARABIC]
تم ہمارے بھائی اور مولیٰ ہو۔
صحيح بخاري ، كتاب المغازی ، باب : عمرة القضاء ، حدیث : 4296
حامی، دوست اور غلام کے معنوں کو چھوڑ کر اس لفظ کے باقی سارے معنی و مفہوم صرف اللہ ہی کے لائق ہیں۔
اور اس کے بندوں کو ان معنوں میں اس نام سے پکارنا حقیقی شرک ہے۔
قرآن میں بھی مولیٰ انہی معنوں میں اللہ نے اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ اور حامی اور دوست کے معنوں میں یا "ماتحت الاسباب مددگار" کے معنوں میں غیر اللہ کے لیے بھی "مولیٰ" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
درحقیقت یہ صرف معنی کی بحث ہے ، ظاہر و مجاز کی نہیں۔
آئیے۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کتنی جگہوں پر صرف اللہ ہی کو مولیٰ قرار دیتا ہے؟
یہ ایک دو آیات نہیں۔ میرے ناقص علم کے مطابق ایسی دس (10) آیات موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے :
1۔
[ARABIC]أَنتَ
مَوْلاَنَا[/ARABIC]
(اے اللہ!) تو ہی ہمارا مولیٰ (رب) ہے۔
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 286 )
2۔
[ARABIC]بَلِ اللّهُ
مَوْلاَكُمْ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِين[/ARABIC]
اللہ تمہارا مولیٰ (مددگار) ہے اور وہ سب سے اچھا مدد کرنے والا ہے
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 150 )
3۔
[ARABIC]هُوَ
مَوْلاَنَا [/ARABIC]
وہ (اللہ) ہی ہمارا مولیٰ (کارساز) ہے
( سورة التوبة : 9 ، آیت : 51 )
4۔
[ARABIC]فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ
مَوْلاَكُمْ [/ARABIC]
پس جان لو کہ اللہ ہی تمہارا مولیٰ ہے
( سورة الانفال : 8 ، آیت : 40 )
5۔
[ARABIC]َنِعْمَ الْ
مَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِير[/ARABIC]
وہ (اللہ) بہترین مولیٰ (مالک) اور بہترین مددگار ہے
( سورة الحج : 22 ، آیت : 78 )
6۔
[ARABIC]هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ وَرُدُّواْ إِلَى اللّهِ
مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ [/ARABIC]
وہاں (آخرت میں) ہر شخص اپنے اعمال کی آزمائش کر لے گا جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے اور وہ اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ان کا حقیقی مولیٰ ہے
( سورة يون۔س : 10 ، آیت : 30 )
7۔
[ARABIC]رُدُّواْ إِلَى اللّهِ
مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ[/ARABIC]
وہ سب اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ا ن کا حقیقی مولیٰ ہے
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 62 )
8۔
[ARABIC]ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ
مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لاَ
مَوْلَى لَهُم[/ARABIC]
اور یہ اس لئے کہ بے شک مومنین کا مولیٰ اللہ ہے ۔ اور کافروں کا کوئی مولیٰ (مددگار) نہیں
( سورة محمد : 47 ، آیت : 11 )
9۔
[ARABIC]وَاللَّهُ
مَوْلاَكُمْ [/ARABIC]
اور اللہ ہی تمہارا مولیٰ (مالک) ہے
( سورة التحريم : 66 ، آیت : 2 )
10۔
[ARABIC]إِنَّ اللَّهَ هُوَ
مَوْلاَهُ[/ARABIC]
بے شک اللہ ہی اس کا مولیٰ ( کارساز) ہے
( سورة التحريم : 66 ، آیت : 4 )
مندرجہ بالا دس (10) آیات اپنے مطلب و مفہوم میں بالکل واضح ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی مولیٰ، مالک، کارساز، رب، مددگار نہیں ہے۔
ان واضح و صریح نصوص کے برعکس یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ:
غیر اللہ بھی مولیٰ ہو سکتے ہیں
یعنی وہ مالک، کارساز، رب، مددگار ہو سکتے ہیں۔
اس دعویٰ کے لیے جو دلائل دئے گئے ہیں، آئیے کچھ ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے ؟
غیر اللہ کے لیے لفظ مولیٰ استعمال کرنے کے دلائل کا جائزہ:
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے:
اگرچہ یہ بات سو فیصد درست ہے ، تاہم اس کا مطلب وہ نہیں جو یہاں باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں نیت کچھ بھی ہو ، ہمیشہ ظاہر کو ہی دیکھا جاتا ہے۔ مثلا ً طلاق دینے والے کی نیت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ اگر اس کی نیت طلاق دینے کی نہ بھی ہو، صرف ہنسی مذاق کے طور پر ہی وہ طلاق کے الفاظ کہہ دے تو طلاق ہو جاتی ہے۔
ثابت ہوا کہ "
انما الاعمال بالنیات" طلاق کے مسئلے میں لاگو نہیں ہے۔
لہٰذا اگر تو لفظ مولیٰ کو دوست، غلام، یا حامی و مددگار (ماتحت الاسباب) کے طور پر غیر اللہ کے لیے استعمال کیا جائے تو قطعاً جائز ہے۔ جیسا کہ قرآن ہی کی کچھ آیات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اور اگر مافو ق الاسباب مددگار مانا جائے، اس کو مالک، مشکل کشا، دستگیر، مانا جائے۔ تو یہی اصل شرک ہے۔
یہ ہے لفظ
مولیٰ کے استعمال کی بحث کا خلاصہ۔
ولی کی بحث:
خود دیکھ لیجئے کہ مولیٰ کے بارے میں دلائل کو خلط مبحث کرنے کے لیے اور کئی طرح کی بحثیں چھیڑ دی گئی ہیں۔ اسی ولی کی بحث کے دوران کچھ آیات پیش کی گئی ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی صرف اللہ ہی ہے۔
اور پھر دوسری آیات پیش کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔۔
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول، صالح مومنین، ایمان رکھنے والے ، زکوٰ ۃ دینے والے بھی ولی ہیں۔ اور پھر نتیجہ کے طور پر یوں ایک (خودساختہ) اصول اخذ فرمایا جاتا ہے:
اصول :
جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے اور بطور ولی کے کافی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین بھی مجازی طور پر اس میں شامل ہیں۔
یہ بہت عجیب بات ہے کہ اللہ تو فرما رہا ہے کہ صرف وہی ولی ہے۔ اور یہاں ہم کو سمجھایا جا رہا ہے کہ
اس جملے میں مجازی طور پر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مومنین بھی شامل ہیں۔
ایسے تو کوئی بت پرست یا قبر پرست دعویٰ کر سکتا ہے کہ ۔۔۔۔
اللہ تو فرما رہا ہے کہ وہی معبود ہے ، لیکن اس میں مجازی طور پر دوسرے انبیاء اور بت وغیرہ بھی شریک ہیں۔
جس طرح سے "بت وغیرہ" کی شرکت والا جملہ صریحاً شرک ہوگا، اسی طرح سے "رسول(ص) اور مومنین" کی شرکت والا جملہ بھی صریحاً شرک ہے، کیونکہ "شامل" کا مطلب "شریک ہونا" ہی ہوتا ہے۔
اللہ کی صفت "ولایت" میں جب دوسروں کو شریک ٹھہرا دیا جائے گے تو یہ دراصل اللہ کے ساتھ شرک کرنا ثابت ہوگا۔
جبکہ ان آیات کا صحیح مطلب صرف اتنا ہے کہ ۔۔۔۔
مافوق الاسباب اور حقیقی ولی (بمعنی مددگار) تو صرف اللہ ہی ہے۔
لیکن ۔۔۔
ماتحت الاسباب اور عارضی ولی (بمعنی دوست) دوسرے بھی ہو سکتے ہیں۔
جبکہ اسلام کی بعض عظیم شخصیات کو دوست سمجھ کر یا ماتحت الاسباب سمجھ کر پکارنے کے بجائے مافوق الفطرت طور پر بغیر اسباب کے ان کو مددگار مانا جائے تو ۔۔۔۔۔
تو یہی وہ غلطی ہے جس سے قرآن ہمیں بچانا چاہتا ہے۔
اس کی مثال بہت آسان ہے ۔۔۔۔۔
کسی شخص کا ہاتھ کٹ جائے اور وہ ڈاکٹر کے پاس جائے تو ایسا شخص شرک نہیں کر رہا ہوتا۔ اسی طرح ۔۔۔۔
ایک ڈوبتا ہوا شخص جب کسی دوسرے شخص سے مدد مانگتا ہے تو وہ بھی شرک نہیں کر رہا ہوتا۔
کیونکہ وہ اسباب کے تحت مدد مانگ رہا ہے۔ اور ایسی مدد مانگنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔
جیسے درج ذیل آیات :
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 52 )
تمہارے پاس جو رسول آئے ۔۔۔ تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 81 )
۔۔۔ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو ۔۔۔
( سورة المآئدة : 5 ، آیت : 2 )
کیونکہ اس مدد کے مانگنے میں عقیدہ شامل نہیں ہوتا۔ کوئی غیر مسلم ہو ، اللہ پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔۔۔۔ سب ایسی مدد مانگتے ہی ہیں۔ اور کوئی بھی انسان چاہے وہ نبی ہو، رسول ہو یا بہت بڑا ولی اللہ ہی کیوں نہ ہو، اس کو کسی نہ کسی درجے میں دوسرے انسانوں کی مدد چاہئے ہی ہوتی ہے۔
اگر قرآن کی آیات میں ہمیں یہ سمجھا یاجا رہا ہے کہ ایسی مدد بھی اللہ ہی سے مانگو اور کسی انسان سے مدد نہ مانگو تو یہ تو انسان کے بس میں ہی نہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن جن معنوں میں اللہ کو بطور ولی و مددگار کافی قرار دیتا ہے ۔ وہ ماتحت الاسباب معنوں میں نہیں کہتا۔ بلکہ مافوق الاسباب معنوں میں قرار دیتا ہے۔
مثلاً ۔۔۔۔۔
یہی ڈوبتا ہوا شخص ، جبکہ اس کے پاس کوئی دوسرا موجود نہ ہو، تو یہ اب اسباب سے ہٹ کر دور بیٹھے یا قبر میں لیٹے کسی بزرگ، ولی یا نبی کو پکارنا شروع کر دے ، تو یہاں پر اسباب موجود نہیں۔
یہ ہے عقیدہ کا مسئلہ۔ اور یہی صریح شرک ہے۔
کیونکہ ۔۔۔۔۔ اس جگہ پر ایسی حالت میں جب وسائل موجود نہیں تو اس کو صرف اور صرف اللہ کو پکارنا چاہئے اور اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔
اب یہ مسئلہ مقید ہو گیا صرف "ماتحت الاسباب" اور "مافوق الاسباب" کی بحث میں۔
یہ بات بھی بغیر دلیل کے نہیں کی جار ہی ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔۔
[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِين
أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا .....[/ARABIC]
(مشرکو!) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ اچھا تم ان کو پکارو اگر تم سچے ہو تو چاہئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔ بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں ۔۔۔۔
( سورة الاعراف : 7 ، آیت : 194-195 )
دیکھ لیجئے کہ ۔۔۔۔ مندرجہ بالا آیت میں اللہ کے سوا بندوں کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔
لیکن یہ بھی بتلایا جا رہا ہے کہ اگر پکارا جانے والا شخص جواب دے سکے، چل سکے، ہاتھ سے پکڑ سکے، آنکھ سے دیکھ سکے یا کان سے سن سکے تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر ان کو پکارا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوگا۔
پس ثابت ہوا کہ کسی کو ولی بمعنی دوست سمجھ کر پکارا جائے ، تو درست و جائز۔ اور اگر مافوق الفطرت طور پر پکارا جائے جیسے کہ
ہمارے معاشرے میں برپا ہونے والے بعض نعرے ۔۔۔
یا فلاں مدد
یا فلاں فلاں مدد
۔۔۔۔ تو یہ ناجائز ہے۔
دوسری اہم بات ۔۔۔۔۔
یہ بات بھی ازحد قابل غور ہے کہ دلائل میں جو آیات پیش کی گئی ہیں ، ان سے تو ہرایمان رکھنے والا، ہر نماز پڑھنے والا "ولی" ثابت ہوتا ہے۔
مگر بڑی حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی فرقۂ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا مسلمان ہر مومن نماز پڑھنے والے کو ہرگز
ولی نہیں کہتا۔
بہت سوں کے نزدیک تو "ولایت" ایک بہت اونچا معیار ہے ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ ایسوں کا خود بھی ان آیات پر ایمان نہیں ہے۔
یا تو قرآن کی آیات سے صرف انبیاء شہداء صالحین وغیرہ کو "
ولی" ثابت کریں کہ جن کو مافوق الفطرت ولی و مددگار اور آقا و مولیٰ کہا اور سمجھا جاتا ہے۔
یا پھر ان آیات کے عموم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر مومن مسلمان اور نمازی کو ولی اور مشکل کشا اور حاجت روا اور آقا و مولیٰ اور دستگیر سمجھ کر پکارنا شروع کر دیں۔
یقیناً ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار نہیں کی جا سکتی۔
شفاعت کی بحث:
شفاعت کی بحث میں بھی ہر حق بات کی گواہی دینے والے کی شفاعت کا آیت سے ثبوت ملتا ہے۔
جیسا کہ خود اصل مضمون میں یہ آیت پیش کی گئی ہے :
[ARABIC]وَلاَ يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلاَّ مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُون[/ARABIC]
اور جنہیں یہ (کافر) اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ان کے پاس شفاعت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے جو حق بات کی گواہی دیتے ہیں اور اسے جانتے ہیں۔
( سورة الزخرف : 43 ، آیت : 86 )
تو کیا وجہ ہے کہ اولیاء کرام اور انبیاء کرام کو تو شفیع مانا جاتا ہے اور ان سے شفاعت مانگی جاتی ہے۔
لیکن حق بات کی گواہی دینے والے کسی عام آدمی سے نہ تو کوئی اس کی زندگی میں اور نہ ہی اس کے مرنے کے بعد شفاعت مانگتا ہے۔
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تو کیا یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی مسلمانوں کی شفاعت کر سکتے ہیں؟ کیا واقعی قران میں (معاذ اللہ) تضاد ہے؟
نہیں! یہ شرک نہیں ہے۔
لیکن اس شفاعت کو براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا اولیاء سے اس طرح مانگنا کہ
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت میں میری شفاعت کیجئے گا۔
یا شفاعت کو براہ راست ان سے ہی مانگنا شروع کر دیا جائے۔
تو یہی شرک ہے۔ کیونکہ
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کا حق ضرور دیا ہے ۔ لیکن یہ حق نہیں دیا کہ اللہ کے اذن کے بغیر شفاعت کر سکیں۔
دلائل ملاحظہ فرمائیں :
[ARABIC]مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ[/ARABIC]
کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے گا؟
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 255 )
[ARABIC]مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ[/ARABIC]
کوئی سفارش کرنے والا نہیں الا یہ کہ اس کی اجازت سے سفارش کرے۔
( سورة يون۔س : 10 ، آیت : 3 )
جب اذنِ شفاعت ملے گا تب آپ شفاعت کریں گے۔
(بخاری و مسلم)
شفاعت اللہ سے اس طرح مانگی جائے گی کہ ۔۔۔۔
یا اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حق میں سفارشی بنا۔
یہ جائز و مسنون عمل ہے۔
اسی طرح مددگار، اور صفات والی ابحاث کو بھی مندرجہ بالا دلائل پر قیاس کر لیجئے۔
آقا و مولیٰ کے لفظ کا استعمال احادیث کی روشنی میں:
اس سب خلط مبحث کے دوران ہی آقا و مولیٰ کی ایک دلیل حدیث سے بھی دی گئی ہے۔
یعنی حدیث غدیر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
[ARABIC]من كنت مولاه فعلي مولاه[/ARABIC] [جس کا میں مولیٰ ، علی (رضی اللہ عنہ) اس کا مولیٰ]
ترمذی ، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : مناقب علي بن ابي طالب رضى الله عنه ، حدیث : 4078
[اس کی سند ثابت ہے ، علامہ البانی اور شیخ زبیر علی زئی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔]
یہاں پر بھی
مولیٰ کا مطلب نہ رب ہے، نہ آقا، نہ مالک، نہ مافوق الفطرت مدد کرنے والا، نہ دستگیر۔
یہاں پر بھی
مولیٰ کا لفظ صرف مخلص دوست کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھے گا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ضرور محبت رکھے گا۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ "مولیٰ " کا مطلب "
مخلص دوست" میں نے اپنی طرف سے کر دیا ہے۔
یہ مطلب لغت کی مشہور زمانہ کتاب "القاموس الوحید" صفحہ:900 میں موجود ہے۔
رہی یہ بات کہ اس لفظ کا مطلب آقا وغیرہ کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحیح مسلم کی ایک روایت میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو مولیٰ (بمعنی آقا) کہنے سے منع فرمایا ہے۔
[ARABIC]ولا يقل العبد لسيده مولاى ... فإن مولاكم الله عز وجل[/ARABIC]
غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے ۔۔۔ کیونکہ تمہارا مولیٰ اللہ عز وجل ہے ۔
صحیح مسلم ، كتاب الالفاظ من الادب ، باب : حكم اطلاق لفظة العبد والامة والمولى والسيد ، حدیث : 6013
لہٰذا مندرجہ بالا قرآن و حدیث کے دلائل سے صراحتاً ثابت ہوا کہ لفظ مولیٰ کا استعمال
رب، آقا، مالک، مددگار (مافوق الاسباب) کے معنوں میں صرف اور صرف [ARABIC]الله وحده لا شريک له[/ARABIC] کے لیے لائق و زیبا ہے۔ اور
ان معنوں میں مخلوق کے لیے اس لفظ کا استعمال شرک ہے۔
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اولیاء اللہ یا صالحین کے لیے
آقا و مولیٰ کا استعمال نہیں کیا جا سکتا
کیونکہ ۔۔۔
مخلوق کے لیے مولیٰ کا استعمال صرف دوست، غلام یا ماتحت الاسباب مددگار کے معنوں میں ہی کرنا درست ہے۔
وما علینا الا البلاغ