السلام علیکم !
دو سال پہلے
یہ مضمون یہاں اردو محفل پر پوسٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔ اور اس سے کافی سال پہلے بھی میں نے یہ مضمون چند اور فورمز / ویب سائٹس پر پڑھا تھا۔ اور بالکل یہی مضمون اب کچھ دن پہلے
یہاں بھی کاپی کیا گیا ہے۔
آپ سے معذرت چاہتا ہوں ۔۔۔ مگر مجھے یہ دریافت کرنے کا حق تو دیجئے کہ ایک مخصوص نظریے والا کوئی مضمون جب سالوں سے گردش میں رہے تو اس کو "تفرقہ بازی پیدا کرنے والا مضمون" کا عنوان آپ کیوں نہیں دیتے؟؟
مگر جب اسی مضمون کے ردّ میں ایک مختلف نظریہ پیش کیا جائے تو وہ آپ کو کیوں "تفرقہ بازی پیدا کرنے والا مضمون" نظر آ جاتا ہے؟؟
کیا
محتاط رہنے کا مشورہ صرف اسی کو دیا جانا چاہئے جس کے نظریات سے ہمیں اختلاف ہو اور اس کو بخش دیا جانا چاہئے جس کے نظریات ہمیں مرغوب لگتے ہوں ؟؟
انصاف "غیر جانبداری" کا نام ہے یا اپنی خود کی "پسند" کو نوازنے کا؟؟
ایک بار پھر معذرت ۔۔۔ اگر میرے کچھ الفاظ ناگوار گزریں۔
اس تھریڈ میں باذوق بھائی نے براہ راست مجھے مخاطب کیا ہے۔
مگر باخدا میں اس لیے اس تھریڈ پر گفتگو نہیں کر رہی ہوں کیونکہ پہلے ہی بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں۔
اور جو باذوق برادر مجھ پر اعتراض کر رہے ہیں کہ میں نے پرانے تھریڈ "کیا اولیاء اللہ کو مولا کہنا شرک ہے؟" میں علی ابن ابی طالب کی ولایت ثابت کرنے کے لیے شروع کیا ہے تو بالکل غلط بات ہے۔ اپنے پرانے تھریڈ میں بالکل اپنے موضوع سے الگ نہیں ہوئی ہوں اور علی ابن ابی طالب کا ذکر صرف ضمنی طور پر آیا ہے جو کہ ناگریز تھا۔
اور ہرگز ہرگز میں نے علی ابن ابی طالب کے مولا ہونے پر گفتگو نہیں کی، بلکہ اس سے قبل میں خود رسول ص کا ہمارا مولا ہونے پر گفتگو کر رہی تھی۔ اب بھائی لوگوں نے میری باتوں کو الگ رنگ دے دیا تو میں کیا کر سکتی ہوں۔
اب میں اپنی پرانی پوسٹ سے وہ اقتباس پیش کر رہی ہوں کہ جس کو بنیاد بنا کر باذوق برادر اعتراض کر رہے ہیں۔ غور سے دیکھئیے میں رسول اللہ ص کے آقا و مولا ہونے پر گفتگو کر رہی ہوں:
یا رسول اللہ (ص) کو آقا و مولا کہنا شرک ہے؟
============================
ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے امت مسلمہ میں اُس وقت انتشار پیدا ہو رہا ہوتا ہے جب رسول اللہ (ص) کے لیے آقا و مولا کے الفاظ استعمال کرنے پر شرک کے فتوے سامنے آ رہے ہوتے ہیں، جبکہ یہ زبانِ رسول (ص) خود تھی جس نے اپنے آپ کو خود مسلمانوں کا مولا قرار دیا۔ یاد کریں جب رسول اللہ (ص) نے وادیِ غدیر میں فرمایا تھا کہ:
عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه, قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: من كنت مولاه فعلي مولاه, وسمعته يقول: أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي, وسمعته يقول: لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله.
ترجمہ: سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
„ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا۔ (سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول (ص) کو یہ بھی کہتے سنا) اے علی تمہیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو کہ ہارون کو موسیٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی اور نبی نہ ہو گا۔ اور میں (سعد) نے رسول کو (غزوہ خیبر میں) یہ بھی فرماتے سنا کہ آج میں علم اُس شخص کو دوں گا جو کہ اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔
پس رسول اللہ (ص) کو آقا و مولا کہنا شرک نہیں بلکہ عین سنتِ رسول ہے۔
نوٹ کیجئے:
1۔ پوری پوسٹ میں میری اصل گفتگو قران کے مجازی معنوں پر ہے۔
2۔ اور انہی مجازی معنوں میں یہ ایک واحد اقتباس آیا ہے جہاں پر حدیث میں رسول اللہ ص کے ساتھ علی کا نام آ گیا، حالانکہ ادھر بھی میرا موضوع صرف رسول ص کی ذات ہے۔
3۔ اور میں نے ولایت اور مولا وغیرہ کے معنوں پر بحث ہی نہیں کی ہے [جس کو باذوق صاحب بحث برائے بحث کے لیے شروع کر رہے ہیں]
بلکہ موضوع یہ تھا کہ باذوق برادر کے مطابق سعودیہ کے علماء مطلقا کسی کو بھی مولانا کہنے پر
[چاہے وہ کسی بھی معنوں میں کہا گیا ہو] شرک کا فتوی جاری کر رہے ہیں۔ مثلا ہم مسجد کے امام کو کبھی بھی اُن معنوں میں مولانا نہیں کہتے کہ جن معنوں میں ہم اللہ کو مولانا کہتے ہیں۔
اس لیے میں نے صرف یہ بیان کیا تھا کہ نہ صرف قران میں مجاز ہے، بلکہ ہماری اپنی زندگی میں ہم جو الفاظ استعمال کرتے ہیں، ان کو بھی مطلق معنوں میں اللہ والی صفات کا حامل نہیں لیا جائے بلکہ مجازی معنوں میں سمجھا جائے۔
اور میں نے ولی کے مختلف معنوں کی بحث ہی نہیں چھیڑی اور یہ میری پوسٹ پر صرف بحث برائے بحث ہے۔ مجازی کا مطلب ہی یہ ہے کہ اسکے جو مرضی معنی لو، مگر وہ معنی ہرگز نہ لو جس میں اللہ اسے اپنی صفت قرار دے رہا ہے۔
اور اس لیے مجازی کے مقابلے میں مختلف معنی کی بحث مجھ پر بالکل بےکار کا الزام ہے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ولی کے تو مختلف معنی کیے جا سکتے ہیں، مگر اللہ فرما رہا ہے کہ رسول ص بھی اللہ کے ساتھ اپنے فضل سے غنی کرتا ہے ۔۔۔۔ تو پھر یہاں پر فضل اور غنی کرنے کے آپ کون سے معنی لیکر آ جائیں گے؟؟؟
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ
(القران 9:59) اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے کی جو کچہ اللہ نے اور اس کے رسول نے انہیں دیا ہے، اور یہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور اللہ جلد ہمیں مزید عطا کرے گا اپنے فضل سے اور اس کا رسول بھی۔
يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا
(القران 9:74) یہ قسم کہاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے حالانکہ انہوں نے کلمہِ کفر کہا ہے اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گثے ہیں اور وہ ارادہ کیا تھا جو حاصل نہیں کر سکے اور انہیں صرف اس بات کا غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں (مسلمانوں) کو غنی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ھے۔۔۔
اور اللہ کو کوئی ضرورت نہ تھی کہ اپنے فضل سے مزید عطا کرنے اور غنی کر دینے کی بات کرتے وقت رسول کا ذکر اپنے ساتھ کرتا [یعنی صرف یہ کہہ دیتا "اللہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا" ۔۔۔۔ اور "اللہ نے اپنے فضل سے [مسلمانوں] کو غنی کر دیا] تب بھی بات بالکل مکمل اور صاف ہوتی۔
مگر جب اللہ بذات خود رسول کا نام اپنے ساتھ مجازی معنوں میں استعمال کر رہا ہے تو ہمیں اللہ کے سوا کسی اور شریعت ساز کی ضرورت نہیں جو الفاظ کے ان مجازی معنوں کے استعمال کو اپنی تخلیق کردہ شریعت کی روشنی میں حرام قرار دیتا پھرے۔
اسی طرح "مولانا" کہنے کا بھی مسئلہ ہے اور اللہ نے اسلامی شریعت میں اسے حرام قرار نہیں دیا۔ اور رسول ص بےشک و شبہ ہمارے آقا و مولا ہیں۔ اور رسول ص نے بزبان خود اپنے آپکو مسلمانوں کا مولا قرار دیا ہے۔ تو آج کوئی رسول اللہ ص کو مولا کہنے پر ہم پر شرک کے فتوے جاری کرتا ہے تو باخدا وہ بذات خود انتہائی غلطی و گمراہی پر ہے۔
رسول ص کو مولا کہنا خود "سنت نبوی" ہے۔
///////////////////////////////////////////////
امید ہے کہ چیزیں واضح ہو گئی ہوں گی۔
میں ہرگز نہیں چاہتی کہ یہاں پر شیعہ سنی بحث شروع ہو جائے۔ اہلسنت برادران سے عزت و احترام کا رشتہ ہے۔ محترم شاکر القادری بھائی اور دیگر برادران کے ساتھ آج تک ان معاملات میں الف بے تک نہیں ہوئی اور ہمیشہ ایک دوسرے کے عقائد کا خیال اور احترام کیا ہے۔ اور جن اہلسنت فیملیز کو پرسنلی سالوں سے جانتے ہیں، ان تمام سالہا سال سے ایک دفعہ بھی یہ مسائل نہیں اٹھے۔
اگر باذوق صاحب اب بھی بحث کو بڑھانا چاہتے ہیں، تو برائے مہربانی بحث کو صرف رسول ص کے آقا و مولا ہونے تک محدود رکھیں۔
نیز میں نے انہیں القلم کا راستہ دکھایا تھا اور ہمت دلائی تھی کہ انکے مراسلوں کے ساتھ وہ کچھ سلوک نہ ہو گا جو کہ انکے ماڈریٹڈ فورمز میں انکے ساتھی ہمارے مراسلوں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ چنانچہ اگر انہیں مولی کے معنوں اور علی ابن ابی طالب کو بیچ میں کھینچ کر لانا ہے تو القلم کا رخ کیجئے کیونکہ محفل کا ماحول اس حد تک کی بحث کے لیے موزوں نہیں ہے۔