کیا رسول اللہ (ص) کو آقا و مولا کہنا شرک ہے؟
============================
ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے امت مسلمہ میں اُس وقت انتشار پیدا ہو رہا ہوتا ہے جب رسول اللہ (ص) کے لیے آقا و مولا کے الفاظ استعمال کرنے پر شرک کے فتوے سامنے آ رہے ہوتے ہیں، جبکہ یہ زبانِ رسول (ص) خود تھی جس نے اپنے آپ کو خود مسلمانوں کا مولا قرار دیا۔ یاد کریں جب رسول اللہ (ص) نے وادیِ غدیر میں فرمایا تھا کہ:
عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه, قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: من كنت مولاه فعلي مولاه, وسمعته يقول: أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي, وسمعته يقول: لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله.
ترجمہ: سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
„
جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا۔ (سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول (ص) کو یہ بھی کہتے سنا) اے علی تمہیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو کہ ہارون کو موسیٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی اور نبی نہ ہو گا۔ اور میں (سعد) نے رسول کو (غزوہ خیبر میں) یہ بھی فرماتے سنا کہ آج میں علم اُس شخص کو دوں گا جو کہ اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔
پس رسول اللہ (ص) کو آقا و مولا کہنا شرک نہیں بلکہ عین
سنتِ رسول ہے۔
یہ حدیث اتنے تواتر سے نقل ہوئی ہے انسان اسکی اسناد دیکھ کر گھبرا جاتا ہے (پورے اسلامی حدیث لٹریچر میں شاید ہی چند اور ایسی احادیث ہوں جو اتنے تواتر سے نقل ہوئی ہوں۔
محترم ڈاکٹر طاہر القادری کی اس حدیث پر ریسرچ
=============================
محترم ڈاکٹر صاحب نے اس حدیث کے تواتر پر پوری ایک کتاب تالیف فرمائی ہے جس میں انہوں نے 51 طریقوں سے یہ حدیث نقل کی ہے (جن میں سے کئی طُرق صحیح اسناد سے نقل ہوئے ہیں)۔ یہ کتاب آپ فرید ملت ریسرچ انسٹیٹوٹ پر آنلائن پڑھ سکتے ہیں۔
آنلائن کتاب پڑھنے کے لیے ذیل کے لنک پر تشریف لے جائیں۔
http://www.research.com.pk/home/fmri/books/ur/ghadir/index.minhaj?id=0
کیا یوسف ؑ اس وقت مشرک بن گئے جب انہوں نے اپنے مصری مالک کو ’رب‘ کہا؟
==============================================
آئیے اب قران کی ایک بہت اہم آیت کا مطالعہ کرتے ہیں کہ جہاں اللہ نے ظاہر پرستی کی بیماری کو مکمل طور پر رد کر ڈالا ہے۔
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
(القران 12:23) اور اس (زلیخا) نے ان سے اظہارِ محبت کیا کہ وہ اس کے گھر میں رہتے تھے اورکہنے لگی کی آؤ۔ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ
وہ (تمہارا شوہر) میرا رب ہے اور اس نے مجھے اچھی طرح رکہا ہے اور ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔
کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ قران میں مجازی معنی آیات موجود نہیں ہیں؟
ہمارے لیے تو یہ بات صاف ہے کہ یوسف ؑ نے رب کا یہ استعمال مجازی معنوں میں کیا تھا۔ رب کے لغوی معنی “پالنے والے” کے ہیں ۔ اور چونکہ اس مصری شخص نے یوسف ؑ کو پال پوس کر بڑا کیا تھا اس لیے یوسف ؑ نے اس کے لیے مجازی معنوں میں رب کا استعمال کیا ہے۔
یہ اسی طرح ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہمیں پال پوس کر بڑا کیا ہے اور وہ ہمارے مربی ہیں۔
مودودی علیہ رحمت کا اس آیت پر شش و پنج
==========================
مودودی صاحب پچھلی صدی کے بہت بڑے عالم ہیں اور ان کی تفہیم القران خاص طور پر تفسیر کے میدان میں اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن مودودی صاحب پر اس تفہیم القران کے حوالے سے جو سب سے بڑی تنقید ہے وہ یہی ہے کہ مودودی صاحب نے قرانی آیات کو اپنے فہم کے مطابق صرف ظاہری معنوں میں سمجھا ہے اور اسی وجہ سے انہیں بہت سے جگہوں پر قران میں تضادات کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ان تضادات کو اپنے فہم کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں انہیں قرانی آیات بالکل الگ ہی ڈھنگ میں پیش کرنا پڑیں۔
مثال کے طور پر آئیے دیکھتے ہیں کہ مودودی صاحب اس آیت کے ذیل میں کیا لکھ رہے ہیں:
’عام طور پر مفسرین نے (غلطی کی ہے اور) اس سے مراد یہ لیا ہے کہ یوسف ؑ نے ’رب‘ کا یہ لفظ اپنے مصری آقا کے لیے استعمال کیا ہے کہ وہ کس طرح اس کی بیوی سے زنا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ان کی وفاداری کے خلاف ہو گا۔ مگر یہ انبیاء سے مناسبت نہیں رکہتا کہ وہ دوسروں کی خاطر گناہ کریں، بلکہ وہ گناہ نہیں کرتے تو صرف اللہ کی خاطر نہیں کرتے۔ اور قران میں بھی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی رسول نے کبھی بھی ’رب‘ کا لفظ اللہ کے سوا کسی اور کے لیے استعمال کیا ہو۔‘
مسئلہ یہ ہے کہ یہ آیت اتنی واضح اور صاف ہے کہ اس صدی تک کوئی ایسا عالم و مفسر نہیں گذرا جس نے اس آیت کو ایسے سمجھا ہو جیسا کہ مودودی صاحب اسکا مطلب ڈھالنا چاہ رہے ہیں۔
فتح جالندھری صاحب کا اردو ترجمہ دیکھ لیں تو اس میں بھی انہوں نے بھی صاف یہی لکھا ہے کہ رب کا لفظ یوسف(علیہ السلام) نے اپنے مصری آقا کے لیے استعمال کیا ہے۔
بلکہ عرفان القران (طاہر القادری)، کنز الایمان (احمد رضا صاحب)، تفسیر عثمانی، اور اسی طرح انگلش تراجم میں شاکر، یوسف، وغیرہ جس کو بھی دیکھ لیں، سب نے مودودی صاحب کے برخلاف سیدھا سادھا ترجمہ کیا ہے۔
بلکہ مودودی صاحب نے ایک اور بڑی غلطی یہ کی ہے کہ وہ اسی سورہ کے آگے والی کچھ آیات پر بھی نظر نہ رکھ سکے۔ مثلا اسی سورۃ میں حضرت یوسف(علیہ السلام) مصر کے بادشاہ کے لیے بھی رب کا لفظ استعمال کر رہے ہیں:
(القران 12:42) وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
اور دونوں شخصوں میں سے جس کی نسبت (یوسف نے) خیال کیا کہ وہ رہائی پا جائے گا، اس سے کہا کہ اپنے رب (یعنی بادشاہ) سے میرا ذکر بھی کرنا۔ لیکن شیطان نے اس کو اپنے رب (بادشاہ) سے (یوسف) کا ذکر بھلا دیا۔
(اسی طرح اسی سورۃ یوسف کی آیت نمبر 50 بھی دیکھیئے جہاں یوسفؑ اس مصری بادشاہ کو دوبارہ رب کہہ رہے ہیں)
پس ان واضح قرانی نصوص کے مقابلے میں مودودی صاحب علیہ رحمت کے قیاسات کو اہمیت دینا بہت مشکل ہے۔ بہت اچھا ہوتا اگر مودودی صاحب ظاہر اور مجاز کا فرق سامنے رکھتے تاکہ نہ انہیں تمام قدیم مفسرین کے خلاف جانا پڑتا اور نہ ہی قران کی دیگر آیات میں تضاد نظر آتا۔
قران میں مجازی معنوں والی آیات کی کچھ اور مثالیں
===============================
اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ھے کہ وہ کریم ہے۔
فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
(القران 27:40) ۔۔۔ اور میرا رب بے نیاز اور کریم ہے
لیکن اسی قران میں اللہ اپنے رسول ﷺ کے لیے بھی فرما رہا ہے:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم
(القران 69:40) بیشک یہ (قران) ایک کریم رسول کا قول ہے۔
جب ہم اللہ کے لیے ’کریم‘ استعمال کرتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جبکہ جب ہم ’نبیِ کریم‘ کہتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور اگر ہم اس حقیقی اور مجازی معنوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر نہ رکہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ اپنی صفت میں دوسرے کو شریک کر کے (معاذ اللہ) خود شرک کر رہا ہے۔
اسی طرح قوی بھی اللہ کی صفت اور نام ہے۔ اللہ قران میں اپنے متعلق فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز
(القران 22:74) بیشک اللہ بڑا قوی اور غالب اور زبردست ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ رسول ﷺ بھی قوت والا ہے
ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ
(القران 81:20) وہ صاحبِ قوت ہے اور صاحبِ عرش کی بارگاہ کا مکین ہے۔
کیا اللہ یہاں یہ کہہ کر شرک کر رہا ہے کہ رسول بھی قوت والا ہے؟ آپ حضرات کو دعوتِ فکر ہے کہ اس چیز پر غور فرمائیں۔
رؤوف اور رحیم
===========
یہ دونوں صفات اللہ کی ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ہے:
إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 2:143) بیشک اللہ تو لوگوں کے لیے بہت رؤوف (شفیق) اور رحیم ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ اپنے رسولﷺ کے لیے فرما رہا ہے:
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 9:12
لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت روؤف (شفیق) اور رحیم ہیں۔
اور در حقیقت قران میں کئی اور مقامات پر اللہ اپنے نیک بندوں کی اسطرح کی عزت افزائی کر رہا ہے کہ انہیں اپنی صفات والے ناموں کے ساتھ یاد کر رہا ہے۔ مثلاً:
عالم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر اسمعیل ؑ کو بھی عالم کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔
حلیم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر ابراہیم ؑ اور اسمعیل ؑ کو بھی حلیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
شکور:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر نوح ؑ کو بھی شکور کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
بر:
یہ اللہ کی صفت مگر عیسیٰ ؑ اور یحییٰ ؑ کو بھی بر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
نتیجہ:
=====
اللہ نے اپنی صفات کو اپنے نیک بندوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے یہ نیک بندے ان صفات میں اللہ کے شریک بن گئے ہیں۔ بیشک یہ ان صفات کے حقیقی معنوں میں مالک نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں اپنی ان صفات کا ایک حصہ عطا کیا ہے۔
اور ان قرانی آیات کو محض ظاہر پرستی، ظن اور قیاس کی بنیاد پر رد نہیں کیا جا سکتا۔
جب ہم اللہ کو ’کریم‘ کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور جب ہم رسول اللہ ﷺ کو ’کریم‘ کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیں اس کی تاویل مجازی معنوں میں کرنی پڑتی ہے۔
اور اگر ہم اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قران میں مجازی معنوں والی آیات بھی ہیں، تو یقیناً ہم تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بھی مشرک بنا دیں گے۔