کیا قرآن و سنت اور تقلید صحابہ کافی نہیں؟

S. H. Naqvi

محفلین
آج کے فرقہ پرستانہ دور کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے میں ایک سوچ دے رہا ہوں کہ کیا کامل مسلمان بننے کے لیے پہلے قرآن پھر سنت پھر تقلید صحا بہ اور صحابہ کی آپس میں تقلید ہمارے لیے "راوایات" سے زیادہ معتبر ہونی چاہیے کہ نہیں؟؟
:praying:
 

میر انیس

لائبریرین
آج کے فرقہ پرستانہ دور کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے میں ایک سوچ دے رہا ہوں کہ کیا کامل مسلمان بننے کے لیے پہلے قرآن پھر سنت پھر تقلید صحا بہ اور صحابہ کی آپس میں تقلید ہمارے لیے "راوایات" سے زیادہ معتبر ہونی چاہیے کہ نہیں؟؟
:praying:

سنت اور صحابہ کی تقلید کے لیئے بھی تو روایتوں کا سہارا لینا پڑے گا نا ہم میں سے کس نے آنحضرت (ص) کو دیکھا ہے اور انکی احادیث خود سے سنی ہیں یا صحابہ اکرام کو خود سے دیکھا ہے اور انکے ارشادات خود سے سن رکھے ہیں ہم تک یہ مختلف راویوں سے ہی تو پنہچے ہیں نا
 

arifkarim

معطل
"روایات" بھی تو انہی اتباعات کی کہانیاں ہیں۔ کہاں‌کہاں تک مسئلہ حل کریں گے؟
 
برادرم آپ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو بہترین طریقہ اسکے مطالعے کا ہے ۔ ضروری نہیں کہ کسی خاص مسئلک کی کتب سے ہی استفادہ کیا جائے لیکن پہلے سے کسی مسئلک کے حق یا رد میں ذہن بنائے بغیر کر پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسکے علاوہ بنیادی اسلامی فرائض کو پورا کرنے کی حتیٰ الامکان ضرورت ہے ایسے فرائض جن پر کوئی اختلاف نہیں ہے ان پر عمل کرنا اور اللہ عزوجل سے ہر دم ہدایت مانگنا ۔خلوص نیت سے اسلام کے مطمع نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور تعلق باللہ کی سعی کرنا ۔ محبت اللہ کے لیئے نفرت اللہ کے لیئے اور اللہ سے زیادہ کسی سے محبت نہ کرنا ۔ اس کے بعد اسکے آخری رسول سے پھر تمام انبیاء کرام سے پھر تمام صحابہ کرام و اہل بیت بشمول تمام امہات المومنین سے پھر تابعین تبع تابعین اور امامان ملت اسلامیہ محبت و عقیدت کا تعلق قائم کرنے کی کوشش اور اس محبت و عقیدت کو غلو سے پاک رکھتے ہوئے عبادت کی حد میں داخل ہونے سے بچاتے ہوئے اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے جو زندگی بسر کرلے اسے کسی فرقے یا مسئلک کی ضرورت نہیں ہوگی ۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ہمدردان محفل شاید میں واضح نیہں کر سکا کیو ں کہ یہ موضو ع انتہا یٔ وسیع بحث کا متقا ضی ہے، اور آپ احباب سے اپنے اپنے نظریات و خیا لات کے اظہار کی گزارش ہے۔


میں تھوڑا آگے چلوں گا کہ میرے خیا ل میں ایک حکم جو قرآن میں آیا ہو اور واضح ہو تو کی حدیث یا تقلید کی نا ضرورت اور نا گنجا ٔش ہونی چا ہیے اگر بعد الذکر اس حکم سے متصادم ہوں۔ کیو ں کہ حدیث اور تقلید تحریف اور روایات سے بھری ہیں۔ اس نظریہ پر سختی سے کا ربند ہونے کی ضرورت ہے اگر انسان فلا ح کا طا لب ہو۔
پھر ایک حکم جو قرآن میں واضح نا ہو تو حدیث سے رجو ع کیا جا ے اس ضمن میں تقلید کو مد نظر رکھا جاۓ اگر اس میں متضاد آرا ء ہو ں تو عقل اور اجتہاد محض استعما ل کیا جا ٔے اور ا گر جو شخص اول زکر دو حکم پورے کرے اور اس مقا م پر ا جدا نظریہ رکھتا ہو تو وہ قا بل احترام ہو اور مزید آپس میں الجھنے کے بجھاۓ اتفا ق سے رہا جا ۓ تا کہ مسلم معا شرہ تر قی کر سکے۔

مزید کیٔ اہل علم موجود ہیں میں ان سے گزارش کروں گا کہ آگے آیٔں اور اس پر مزید روشنی ڈالیں۔ تا کہ مسلم معاشرہ حقیقی معنوں میں وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ
کی تفسیر اور تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ کا نمونہ بن سکیں۔ اللہ ہم سب کو نور ھدایت سے پہرہ مند فرما ۓ۔ آمین۔
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
نقوی بھائی اللہ تابرک و تعالیٰ نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی بہت سی صفات بیان فرمائی ہیں ، جن میں چند کا آپ نے منقولہ ذیل مراسلہ میں ذکر کیا ، جزاک اللہ خیرا ،

مزید کیٔ اہل علم موجود ہیں میں ان سے گزارش کروں گا کہ آگے آیٔں اور اس پر مزید روشنی ڈالیں۔ تا کہ مسلم معاشرہ حقیقی معنوں میں وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ
کی تفسیر اور تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ کا نمونہ بن سکیں۔
نقوی بھائی ، ظاہری سی بات ہے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جو مدینہ المنورہ سے اللہ کا دین نافذ کرنے نکلے اور دُنیا کی سب سے بڑی قوت بن گئے اور دنیا کی سب سے بڑء سلطنت کے والی و سربراہ بن گئے وہ صرف """ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ """ اور """ رُکَّعًا سُجَّدًا """ تک ہی محدود نہ رہے ہوں گے ،
اور """ یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ """ صرف گنتی کے چند اعمال اور چند """ عبادات محضہ """ میں نہ رہا ہو گا ،
کیا ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کی صرف وہ صفات ہی اپنائیں جن کا ذکر قران پاک میں ہوا ، یا ہمیں یہ دیکھنا اور سمجھنا ہو گا کہ انہوں نے ان صفات کے ساتھ اپنی زندگیوں کے سارے ہی معاملات کیسے پورے فرمائے ؟
و السلام علیکم۔


 

ظفری

لائبریرین
سنت اور صحابہ کی تقلید کے لیئے بھی تو روایتوں کا سہارا لینا پڑے گا نا ہم میں سے کس نے آنحضرت (ص) کو دیکھا ہے اور انکی احادیث خود سے سنی ہیں یا صحابہ اکرام کو خود سے دیکھا ہے اور انکے ارشادات خود سے سن رکھے ہیں ہم تک یہ مختلف راویوں سے ہی تو پنہچے ہیں نا

صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور پھر ان کی رحلت کے بعد کس چیز کو تقلید کا ماخذ بنایا تھا ۔ کیا ان کی تقلید اور ایمان پر عمل پیرا ہونا کسی روایت کی موہونِ منت تھی یا اس کے پیشِ نظر کوئی اور ذریعہ تھا ۔ میرا خیال ہے دور صحابہ کرام اور پھر پہلی دو صدیوں میں قرآن جس کو اللہ نے میزان اور برہان کہا ہے وہی ان کے لیئے دین کا ماخذ تھا ۔ اسی پر عمل کرتے تھے ۔ اور اپنی طرزِ زندگی کو اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس کے بعد روایتوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ صوفی مذہب کا آغاز ہوا ۔ اور قرآن دعا تعویذ اور ناظرے تک محدود ہوگیا ۔ اب ہم کہتے ہیں کہ ہم روایتوں کے محتاج ہیں ۔ مگر صحابہ کرام اور دیگر محترم ہستیاں اسلام کے پہلی دوصدیوں میں کسی طرح روایتوں کے بغیر دین پر عمل پیرا تھیں ۔ اس پر بھی روشنی ڈالنی چاہیئے ۔ اور میرا خیال ہے کہ نقوی صاحب کا اشارہ بھی اسی طرف ہے ۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
بجا فرمایا میرے فاضل دوست آپ نے، تقلید صحابہ تو اصل میں وہی تقلید قرآن و سنت ہے باقی رہا یہ قصہ کے ہم نے صحابہ کو دیکھا نہیں تو ان کے عمل کی سند کیا ہو گی تو اس کے لیے حدیث سے بڑھ کر قرآن کی کسوٹی ہمارے پاس ہے نا۔ میں ان دنوں کچھ مصروف ہوں ذرا فراغت ملی تو میں چند ایک مسایٔل ایسے بیان کروں گا جو صرف اس بات پر عمل نا کرنے کی وجہ سے اور روایات پہ اعتبار کرنے کی وجہ سے ہماری زندگی کا غیر محسوس حصہ ہیں۔
 
صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور پھر ان کی رحلت کے بعد کس چیز کو تقلید کا ماخذ بنایا تھا ۔ کیا ان کی تقلید اور ایمان پر عمل پیرا ہونا کسی روایت کی موہونِ منت تھی یا اس کے پیشِ نظر کوئی اور ذریعہ تھا ۔
آپ روایت سے مراد کیا لیتے ہیں پہلے تو اسکی وضاحت ہونی چاہئیے۔ ۔ ۔ظاہر ہے کہ روایت کمیونیکیشن ہی کا ایک ذریعہ ہے۔ جب ابوجہل نے حضرت ابوبکر صدیق کو کہا کہ 'تمہارے دوست نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ وہ راوتوں رات بیت المقدس سے ہو آئے اور آسمانوں کی بھی سیر کر آئے" تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ تو نہیں کہا کہ جی ہم اس روایت کو نہیں مانتے یہ عقل کے خلاف ہے،ابھی تک جتنا قرآن نازل ہوا ہے اس میں بھی نہیں ہے اور یہ روایت ایک کافر یعنی ابوجہل بیان کر رہا ہے لہذا نہ صحیح، نہ حسن، نہ ضعیف، بلکہ موضوع و مردود ہے۔ ۔ ۔۔ ۔ جی نہیں۔ ۔ ۔بلکہ انہوں نے تو یہ کہا کہ" اگر یہ بات رسول اللہ نے کہی ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں"۔
پتہ نہیں لوگوں کو لفظ روایت سے کیوں چڑ ہے۔:)
میرا خیال ہے دور صحابہ کرام اور پھر پہلی دو صدیوں میں قرآن جس کو اللہ نے میزان اور برہان کہا ہے وہی ان کے لیئے دین کا ماخذ تھا ۔ اسی پر عمل کرتے تھے ۔ اور اپنی طرزِ زندگی کو اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس کے بعد روایتوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔
رسول کا اسوہ حسنہ ان تک کیسے پہنچا؟کسی روایت کے بغیر محض الہام و کشف سے ہر آدمی کو رسول کی سنتیں معلوم ہوجاتی تھیں؟ کیا سارا اسوہ حسنہ قرآن میں درج ہے؟:)

اس کے بعد روایتوں کا سلسلہ شروع ہوا صوفی مذہب کا آغاز ہوا ۔ اور قرآن دعا تعویذ اور ناظرے تک محدود ہوگیا ۔
یہ تو بلاوجہ موضوع کو بھیلانے والی بات ہوئی۔ اس دھاگے کا موضوع صوفی مذہب یا کوئی اور مسلک و مشرب نہیں ہے۔ ٹو دی پوائنٹ بات کیجئے ۔ صوفی 'مذہب' یا مثلاّ وہابی دھرم یا کوئی اور ازم کیا بات خوامخواہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر مسلک کے نزدیک انکی بنیاد قرآن و سنت پر ہی استوار ہوتی ہے۔ :)

اب ہم کہتے ہیں کہ ہم روایتوں کے محتاج ہیں ۔ مگر صحابہ کرام اور دیگر محترم ہستیاں اسلام کے پہلی دوصدیوں میں کسی طرح روایتوں کے بغیر دین پر عمل پیرا تھیں ۔ اس پر بھی روشنی ڈالنی چاہیئے ۔ ۔
یہ روشنی تو آپ کو ہی ڈالنی چاہیئے، کیونکہ ہمارے نزدیک تو اسلام کی پہلی دو صدیوں میں بھی روایت کے بغیر دین پر عمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ قرآن بھی ایک روایت ہے جو اللہ سے جبریل امیں ، پھرقلب رسول اور لسان نبوت اور پھر صحابہ کے ذریعے امت تک پہنچا ۔:)
 

ظفری

لائبریرین
آپ روایت سے مراد کیا لیتے ہیں پہلے تو اسکی وضاحت ہونی چاہئیے۔ ۔ ۔ظاہر ہے کہ روایت کمیونیکیشن ہی کا ایک ذریعہ ہے۔ جب ابوجہل نے حضرت ابوبکر صدیق کو کہا کہ 'تمہارے دوست نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ وہ راوتوں رات بیت المقدس سے ہو آئے اور آسمانوں کی بھی سیر کر آئے" تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ تو نہیں کہا کہ جی ہم اس روایت کو نہیں مانتے یہ عقل کے خلاف ہے،ابھی تک جتنا قرآن نازل ہوا ہے اس میں بھی نہیں ہے اور یہ روایت ایک کافر یعنی ابوجہل بیان کر رہا ہے لہذا نہ صحیح، نہ حسن، نہ ضعیف، بلکہ موضوع و مردود ہے۔ ۔ ۔۔ ۔ جی نہیں۔ ۔ ۔بلکہ انہوں نے تو یہ کہا کہ" اگر یہ بات رسول اللہ نے کہی ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں
پتہ نہیں لوگوں کو لفظ روایت سے کیوں چڑ ہے ۔:)
مجھے آپ سے اس ردعمل کی توقع نہیں تھی خیر ۔۔۔۔
آپ کا پہلا سوال روایت کے متعلق ہے ۔ میری ناقص معلومات کے مطابق روایت کا لفظ راوی کی نسبت سے بولا جاتا ہے اور حدیث کا لفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے۔ یعنی موقع استعمال کے پہلو سے یہ دو لفظ ہیں۔ اطلاق کے پہلو سے انھیں مترادف ہی قرار دیا جائے گا ۔ یہاں ایک بات کی اور وضاحت کردوں کہ کتب حدیث میں کچھ روایات کو چھوڑ کر تمام روایات روایت بالمعنیٰ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو راوی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ حدیث کہنے کی وجہ یہ ہے کہ محدث کے نزدیک وہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جب کوئی فن مرتب ہو جاتا ہے تو اس کے بنیادی الفاظ اصطلاح کے طور استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کا لغوی مفہوم پس منظر میں چلا جاتا ہے ۔

آپ نے جو روایت پیش کی ہے اس کی قلمبندی میں آپ جوشِ جذبات میں آکر اس اہم نکتہ پر غور فرمانا بھول گئے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی نے یہ فرمایا " کہ اگر یہ بات رسول اللہ نے کہی ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں"" ۔ انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ " میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی اس بات پر یقین رکھتا ہوں " تو محترم یہ بات تو میں بھی کہتا ہوں کہ جب اس بات کی تصدیق ہوجائے کہ یہ قول رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کا فرمایا ہوا ہے تو اس پر چون و چرا کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہ تو دین سے ہی خارج ہوگیا کہ وہ اللہ کی نبی کی کسی بات کو نعوذ باللہ جھٹلا دے ۔ آپ کا کیا خیال ہے حضرت ابو بکر نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہوگی۔ وہاں تو دین کا ماخذ بذات خود موجود تھا ۔مگر اب کوئی روایت جو رسول اللہ کی ذاتِ اقدس سے منسوب کردی جائے تو کیا اس کی تحقیق ضروری نہیں ہے ۔ اس ضمن میں یہ اہم نکتہ بھی ذہن میں رہنا چاہیئے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمرِ فاروق اس معاملے میں حددرجہ محتاط تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے بہت کم روایات بیان ہوئی ہیں۔ میرا خیال ہے آپ نے علمی اختلاف کے حوالے سے میرا ٹاپک پر غور سے نہیں پڑا کیونکہ وہاں بھی آپ کا تبصرے موضوع سے ہٹ کر ہے ۔ اور روایت سے چڑ کا صحیح مفہوم بھی آپ پر اپنی ہی قلمبند روایت سے وضع ہوگیا ہوگا ۔


رسول کا اسوہ حسنہ ان تک کیسے پہنچا؟کسی روایت کے بغیر محض الہام و کشف سے ہر آدمی کو رسول کی سنتیں معلوم ہوجاتی تھیں؟ کیا سارا اسوہ حسنہ قرآن میں درج ہے؟:)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کسی مشتبہ بات کی روایت چونکہ دنیا اور آخرت ، دونوں میں بڑے سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے ، اِس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری ہے کہ اِس معیار کا اطلاق آپ سے متعلق ہر روایت پر بغیرکسی رورعایت کے اور نہایت بے لاگ طریقے پر کیا جائے اور صرف وہی روایتیں قابل اعتنا سمجھی جائیں جو اُس پر ہر لحاظ سے پوری اترتی ہوں ۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت سے جو چیزکسی بات کو حدیث کے درجے تک پہنچاتی ہے ، وہ اُس کی سند ہی ہے ۔ راویوں کی عدالت ، اُن کا ضبط اور سلسلہ روایت کا اتصال ،یہی تین چیزیں ہیں جو اُس مواد کی روشنی میں جو ائمہ رجال نے بڑی محنت سے اِس باب میں فراہم کر دیا ہے، سند کے علل کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے دقت نظر کے ساتھ دیکھنی چاہییں ۔
یہ وہ احتیاط ہے جو میں احادیث اور روایتوں کے متعلق رکھتا ہوں ۔ اس کو کون اپنے کس عقائد اور کس فلسفے کے تحت دیکھتا ہے ۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ مگر میں‌کوئی ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ کی نسبت آگے بڑھانے سے ڈرتا ہوں ۔ جس پر محدثین کا اجماع نہ ہو ۔ اور میرا خیال ہے کہ ابھی تک میں نے کسی ایسی حدیث پر کوئی نکتہِ اعتراض نہیں اٹھایا ۔ جس پر محدثین متفق ہوں ۔

کیا سارا اسوہ حسنہ قرآن میں درج ہے
اس سوال نے مجھے آپ کے بارے میں صحیح رائے منتخب کرنے میں مدد دی ہے ۔
آپ سب سے پہلے حدیث کا دائرہ سمجھ لیں ۔
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ''حدیث'' کہا جاتا ہے ، ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجہ یقین کو نہیں پہنچتا ۔ کیوں ۔۔۔۔ وہ اس لیے کہ دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوتا ۔ دین سے متعلق جو چیزیں احادیث میں آتی ہیں ، وہ درحقیقت ، قرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ اس دائرے کے اندر، البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے ۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ۔ میرا خیال ہے کہ میں‌ اپنا نکتہ ِ نظر اس سے زیادہ سہل اور آسان الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ۔

۔''یہ تو بلاوجہ موضوع کو بھیلانے والی بات ہوئی۔ اس دھاگے کا موضوع صوفی مذہب یا کوئی اور مسلک و مشرب نہیں ہے۔ ٹو دی پوائنٹ بات کیجئے ۔ صوفی 'مذہب' یا مثلاّ وہابی دھرم یا کوئی اور ازم کیا بات خوامخواہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر مسلک کے نزدیک انکی بنیاد قرآن و سنت پر ہی استوار ہوتی ہے۔ :)

آپ اس موضوع کو چھیڑنے سے منع بھی فرما رہے ہیں اور موضوع کی طرف بھی قدم بڑھا رہے ہیں ۔ مگر آپ کی بات کا جواب دینے کے لیئے میں میں کسی نئے ٹاپک کا انتظار کرلیتا ہوں ۔

یہ روشنی تو آپ کو ہی ڈالنی چاہیئے، کیونکہ ہمارے نزدیک تو اسلام کی پہلی دو صدیوں میں بھی روایت کے بغیر دین پر عمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ قرآن بھی ایک روایت ہے جو اللہ سے جبریل امیں ، پھرقلب رسول اور لسان نبوت اور پھر صحابہ کے ذریعے امت تک پہنچا ۔:)
آپ کے اس تبصرے پر بڑی سادہ سی بات کہنے کی جسارت کروں گا ۔
جیسا کہ آپ نے قرآن کو روایت کہا ۔۔۔۔اور یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست صحابہ میں منتقل ہوئی ۔ اور یہ سارا عمل کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچا آپ سہیل عادل صاحب کے ٹاپک پر جاکر اس کی تفصیل پڑھ کر جان سکتے ہیں ۔
جہاں تک حدیث کا سوال ہے تو یہ سمجھ لیجیے کہ حدیث کی تدوین کاباقاعدہ عمل تیسری صدی میں شروع ہوا۔ حدیث کی پہلی کتاب موطا امام مالک 160 ہجری میں تصنیف ہوئی۔امام بخاری کا انتقال 256 ہجری میں ہوا اورصحیح بخاری اس سے کچھ عرصے پہلے ہی مکمل ہوئی تھی۔امام مسلم کا انتقال 261 ہجری میں ہوا اس طرح صحیح مسلم کی تصنیف کازمانہ بھی تیسری صدی کی نصف اول کا ہوا۔

ایک طرف احادیث کی تدوین کا یہ زمانہ پیش نظر رکھیے اور دوسری طرف یہ حقیقت کہ نماز، روزہ اوران جیسے دیگر احکام پر مسلمانوں نے دوسری یا تیسری صدی میں عمل کرناشروع نہیں کیا تھا۔ان احکام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی سے پوری امت عمل کر رہی تھی اور اس کے لیے امت نے حدیثوں کے پھیلنے اور ان کی کتابوں کی تدوین کا انتظار نہیں کیا تھا۔ اس وضاحت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عبادات اور دین کے دیگرعملی معاملات کا انحصاردوسری صدی میں عام ہونے والی حدیثوں پر نہیں ، بلکہ ان احکام پرہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بطوردین امت میں جاری کیا اوراس کے بعد ہر زمانے کے لوگ لاکھوں اور کروڑ وں کی تعداد میں ان پر عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انہی کوسنت کہا جاتا ہے ۔
والسلام
 
ظفری بھائی میری پوسٹ میں احادیث یا کتب احادیث کا تو ذکر ہی موجود نہیں۔ اگر آپ غور فرمانے کی زحمت کرتے تو اس میں بھی عرض یہی کیا گیا ہے کہ اسلام کی پہلی دو صدیوں میں رسول کریم کا اسوہءِ حسنہ اور سنتِ مبارکہ کا لوگوں تک ابلاغ کس طرح ہوا۔ اسکا جواب یہی ہے کہ روایات سے۔ کیونکہ احادیث کی کتب تو ابھی مرتب نہیں کی گئی تھیں۔ چنانچہ کسی بھی شہر میں رہنے والے اپنے شہر میں موجود کسی صحابی یا تابعی سے(جن کے بارے میں انکو حسنِ ظن ہوتا کہ یہ خدا خوفی رکھنے والے لوگ ہیں اور علم رکھتے ہیں) مسائل وغیرہ پوچھتے اور اس کے مطابق عمل کرنا شروع کردیتے۔ چنانچہ یہی بات بنیاد بنی فقہ کے مذاہب کی۔ کچھ صحابہ مدینے میں تھے ان سے امام مالک اور انکے اصحاب نے علم اخذ کیا۔ کچھ کوفہ و بغداد میں سکونت پذیر ہوئے ان سے اور انکے اصحاب سے امام ابو حنیفہ نے علم اخذ کیا۔ اور اسی طرح باقی بلاد و امصار۔ ۔ ۔ ڈھائی تین سو سال تک اسی طرح ہوتا رہا اسکے بعد حدیث کی کتب کی تدوین کی گئی اور آپ کو اسکے بارے میں پتہ ہی ہے۔ ۔ ۔ اب ان سب حقائق کے ہوتے ہوئے آپ کا یہ کہنا کہ جی پہلے دو سو سال میں صرف قرآن سے ہی علم اخذ ہوتا رہا روایتیں نہیں ہوتی تھیں اسکے بعد روایتیں آگئیں اور امت میں انحراف پیدا ہونا شروع ہوا اور نت نئے مذاہب وجود میں آگئے۔ تو بھائی آپ ہی بتائیں کہ آپ کی اس بات کو کس تناظر میں لیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں آپ ہی بتا دیں۔ مجھے تو آپ کی بات سے یہی محسوس ہوا کہ آپ کی اس ساری تمہید کا مقصد اسی نظریے کا فروغ تھا جسکو کچھ صاحبان یہاں پڑی تندہی سے پھیلارہے ہیں اور جنکے پیغامات کے نیچے آپ کے شکریے کی سندِ قبولیت بھی اکثر و بیشتر پائی جاتی ہے۔
 
مجھے آپ سے اس ردعمل کی توقع نہیں تھی خیر ۔۔۔۔
اس سوال نے مجھے آپ کے بارے میں صحیح رائے منتخب کرنے میں مدد دی ہے ۔
براہِ کرم جب آپ کسی نتیجے تک پہنچ جائیں تو مجھے بھی اس قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کردیجئے گا۔ ۔ شائد مجھے اس سے خود کو جاننے سمجھنے کے عمل میں مدد مل سکے:)
آپ سب سے پہلے حدیث کا دائرہ سمجھ لیں ۔
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ''حدیث'' کہا جاتا ہے ، ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجہ یقین کو نہیں پہنچتا ۔ کیوں ۔۔۔۔ وہ اس لیے کہ دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوتا ۔ دین سے متعلق جو چیزیں احادیث میں آتی ہیں ، وہ درحقیقت ، قرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ اس دائرے کے اندر، البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے ۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ۔ میرا خیال ہے کہ میں‌ اپنا نکتہ ِ نظر اس سے زیادہ سہل اور آسان الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ۔
جیسا کہ آپ نے قرآن کو روایت کہا ۔۔۔۔اور یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست صحابہ میں منتقل ہوئی ۔ اور یہ سارا عمل کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچا آپ سہیل عادل صاحب کے ٹاپک پر جاکر اس کی تفصیل پڑھ کر جان سکتے ہیں ۔
جہاں تک حدیث کا سوال ہے تو یہ سمجھ لیجیے کہ حدیث کی تدوین کاباقاعدہ عمل تیسری صدی میں شروع ہوا۔ حدیث کی پہلی کتاب موطا امام مالک 160 ہجری میں تصنیف ہوئی۔امام بخاری کا انتقال 256 ہجری میں ہوا اورصحیح بخاری اس سے کچھ عرصے پہلے ہی مکمل ہوئی تھی۔امام مسلم کا انتقال 261 ہجری میں ہوا اس طرح صحیح مسلم کی تصنیف کازمانہ بھی تیسری صدی کی نصف اول کا ہوا۔
ایک طرف احادیث کی تدوین کا یہ زمانہ پیش نظر رکھیے اور دوسری طرف یہ حقیقت کہ نماز، روزہ اوران جیسے دیگر احکام پر مسلمانوں نے دوسری یا تیسری صدی میں عمل کرناشروع نہیں کیا تھا۔ان احکام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی سے پوری امت عمل کر رہی تھی اور اس کے لیے امت نے حدیثوں کے پھیلنے اور ان کی کتابوں کی تدوین کا انتظار نہیں کیا تھا۔ اس وضاحت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عبادات اور دین کے دیگرعملی معاملات کا انحصاردوسری صدی میں عام ہونے والی حدیثوں پر نہیں ، بلکہ ان احکام پرہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بطوردین امت میں جاری کیا اوراس کے بعد ہر زمانے کے لوگ لاکھوں اور کروڑ وں کی تعداد میں ان پر عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انہی کوسنت کہا جاتا ہے ۔
والسلام
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میری پوسٹ میں ایسی کونسی بات تھی جسکے نتیجے میں آپ نے حدیث، کتبِ حدیث اور تدوینِ حدیث کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا؟۔ ۔ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اس موضوع پر تو بات ہو ہی نہیں رہی تھی۔ نہ ہی میں نے اس موضوع پر بات کی۔ میں نے تو اسلام کی پہلی دو صدیوں میں امت کے تعامل کی بات کی تھی بتائے اس میں حدیث یا کتبِ حدیث کا کہاں ذکر ہے؟:)
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔​
 

ظفری

لائبریرین
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میری پوسٹ میں ایسی کونسی بات تھی جسکے نتیجے میں آپ نے حدیث، کتبِ حدیث اور تدوینِ حدیث کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا؟۔ ۔ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اس موضوع پر تو بات ہو ہی نہیں رہی تھی۔ نہ ہی میں نے اس موضوع پر بات کی۔ میں نے تو اسلام کی پہلی دو صدیوں میں امت کے تعامل کی بات کی تھی بتائے اس میں حدیث یا کتبِ حدیث کا کہاں ذکر ہے؟:)
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔​

میرا خیال ہے کہ آپ نے اپنی پوسٹ کی طرف دوبارہ رجوع نہیں کیا ۔
آپ نے مجھ سے روایت کی وضاحت طلب کی ۔ آپ تو ماشاء اللہ صاحبِ علم ہیں ۔ مگر یہاں مجھ سے جیسے کئی اور احباب سیکھنے کے مراحل سے گذر رہے ہیں ۔ سو میں نے سوچا کہ آپ کے روایت پر اس سوال کی وضاحت کا دائرہ حدیث تک پھیلانے تک کوشش کی کہ تاکہ حدیث اور روایت کا فرق بھی واضع ہوسکے۔ اگر یہ معلومات آپ کو گراں گذری ہو تو میں معافی کا خواستگار ہوں ۔

دوسری بات ۔۔۔۔ آپ نے ایک روایتی اعتراض اٹھایا کہ " لوگوں کو روایتوں سے چڑ کیوں ہوتی ہے ۔ ؟
یہاں اعتراض ہی دراصل ایک مخصوص رویئےکی نشان دہی کررہا ہے لہذا میں‌ نے سوچا کہ روایت سے متعلق اپنے بارے میں تاثر واضع کردوں کہ میں حدیث اور روایت میں‌کیا فرق روا رکھتا ہوں ۔ اس کے لیئے مجھے کچھ وضاحت سے کام لینا پڑا کہ اختصار سے کام لیتا تو شاید آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ ان کی نوعیت مختلف ہوتی ۔ :)
 
Top