S. H. Naqvi
محفلین
آج کے فرقہ پرستانہ دور کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے میں ایک سوچ دے رہا ہوں کہ کیا کامل مسلمان بننے کے لیے پہلے قرآن پھر سنت پھر تقلید صحا بہ اور صحابہ کی آپس میں تقلید ہمارے لیے "راوایات" سے زیادہ معتبر ہونی چاہیے کہ نہیں؟؟
آج کے فرقہ پرستانہ دور کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے میں ایک سوچ دے رہا ہوں کہ کیا کامل مسلمان بننے کے لیے پہلے قرآن پھر سنت پھر تقلید صحا بہ اور صحابہ کی آپس میں تقلید ہمارے لیے "راوایات" سے زیادہ معتبر ہونی چاہیے کہ نہیں؟؟
نقوی بھائی ، ظاہری سی بات ہے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جو مدینہ المنورہ سے اللہ کا دین نافذ کرنے نکلے اور دُنیا کی سب سے بڑی قوت بن گئے اور دنیا کی سب سے بڑء سلطنت کے والی و سربراہ بن گئے وہ صرف """ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ """ اور """ رُکَّعًا سُجَّدًا """ تک ہی محدود نہ رہے ہوں گے ،مزید کیٔ اہل علم موجود ہیں میں ان سے گزارش کروں گا کہ آگے آیٔں اور اس پر مزید روشنی ڈالیں۔ تا کہ مسلم معاشرہ حقیقی معنوں میں وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ
کی تفسیر اور تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ کا نمونہ بن سکیں۔
سنت اور صحابہ کی تقلید کے لیئے بھی تو روایتوں کا سہارا لینا پڑے گا نا ہم میں سے کس نے آنحضرت (ص) کو دیکھا ہے اور انکی احادیث خود سے سنی ہیں یا صحابہ اکرام کو خود سے دیکھا ہے اور انکے ارشادات خود سے سن رکھے ہیں ہم تک یہ مختلف راویوں سے ہی تو پنہچے ہیں نا
آپ روایت سے مراد کیا لیتے ہیں پہلے تو اسکی وضاحت ہونی چاہئیے۔ ۔ ۔ظاہر ہے کہ روایت کمیونیکیشن ہی کا ایک ذریعہ ہے۔ جب ابوجہل نے حضرت ابوبکر صدیق کو کہا کہ 'تمہارے دوست نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ وہ راوتوں رات بیت المقدس سے ہو آئے اور آسمانوں کی بھی سیر کر آئے" تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ تو نہیں کہا کہ جی ہم اس روایت کو نہیں مانتے یہ عقل کے خلاف ہے،ابھی تک جتنا قرآن نازل ہوا ہے اس میں بھی نہیں ہے اور یہ روایت ایک کافر یعنی ابوجہل بیان کر رہا ہے لہذا نہ صحیح، نہ حسن، نہ ضعیف، بلکہ موضوع و مردود ہے۔ ۔ ۔۔ ۔ جی نہیں۔ ۔ ۔بلکہ انہوں نے تو یہ کہا کہ" اگر یہ بات رسول اللہ نے کہی ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں"۔صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور پھر ان کی رحلت کے بعد کس چیز کو تقلید کا ماخذ بنایا تھا ۔ کیا ان کی تقلید اور ایمان پر عمل پیرا ہونا کسی روایت کی موہونِ منت تھی یا اس کے پیشِ نظر کوئی اور ذریعہ تھا ۔
رسول کا اسوہ حسنہ ان تک کیسے پہنچا؟کسی روایت کے بغیر محض الہام و کشف سے ہر آدمی کو رسول کی سنتیں معلوم ہوجاتی تھیں؟ کیا سارا اسوہ حسنہ قرآن میں درج ہے؟میرا خیال ہے دور صحابہ کرام اور پھر پہلی دو صدیوں میں قرآن جس کو اللہ نے میزان اور برہان کہا ہے وہی ان کے لیئے دین کا ماخذ تھا ۔ اسی پر عمل کرتے تھے ۔ اور اپنی طرزِ زندگی کو اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس کے بعد روایتوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔
یہ تو بلاوجہ موضوع کو بھیلانے والی بات ہوئی۔ اس دھاگے کا موضوع صوفی مذہب یا کوئی اور مسلک و مشرب نہیں ہے۔ ٹو دی پوائنٹ بات کیجئے ۔ صوفی 'مذہب' یا مثلاّ وہابی دھرم یا کوئی اور ازم کیا بات خوامخواہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر مسلک کے نزدیک انکی بنیاد قرآن و سنت پر ہی استوار ہوتی ہے۔اس کے بعد روایتوں کا سلسلہ شروع ہوا صوفی مذہب کا آغاز ہوا ۔ اور قرآن دعا تعویذ اور ناظرے تک محدود ہوگیا ۔
یہ روشنی تو آپ کو ہی ڈالنی چاہیئے، کیونکہ ہمارے نزدیک تو اسلام کی پہلی دو صدیوں میں بھی روایت کے بغیر دین پر عمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ قرآن بھی ایک روایت ہے جو اللہ سے جبریل امیں ، پھرقلب رسول اور لسان نبوت اور پھر صحابہ کے ذریعے امت تک پہنچا ۔اب ہم کہتے ہیں کہ ہم روایتوں کے محتاج ہیں ۔ مگر صحابہ کرام اور دیگر محترم ہستیاں اسلام کے پہلی دوصدیوں میں کسی طرح روایتوں کے بغیر دین پر عمل پیرا تھیں ۔ اس پر بھی روشنی ڈالنی چاہیئے ۔ ۔
مجھے آپ سے اس ردعمل کی توقع نہیں تھی خیر ۔۔۔۔آپ روایت سے مراد کیا لیتے ہیں پہلے تو اسکی وضاحت ہونی چاہئیے۔ ۔ ۔ظاہر ہے کہ روایت کمیونیکیشن ہی کا ایک ذریعہ ہے۔ جب ابوجہل نے حضرت ابوبکر صدیق کو کہا کہ 'تمہارے دوست نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ وہ راوتوں رات بیت المقدس سے ہو آئے اور آسمانوں کی بھی سیر کر آئے" تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ تو نہیں کہا کہ جی ہم اس روایت کو نہیں مانتے یہ عقل کے خلاف ہے،ابھی تک جتنا قرآن نازل ہوا ہے اس میں بھی نہیں ہے اور یہ روایت ایک کافر یعنی ابوجہل بیان کر رہا ہے لہذا نہ صحیح، نہ حسن، نہ ضعیف، بلکہ موضوع و مردود ہے۔ ۔ ۔۔ ۔ جی نہیں۔ ۔ ۔بلکہ انہوں نے تو یہ کہا کہ" اگر یہ بات رسول اللہ نے کہی ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں"۔
پتہ نہیں لوگوں کو لفظ روایت سے کیوں چڑ ہے ۔
رسول کا اسوہ حسنہ ان تک کیسے پہنچا؟کسی روایت کے بغیر محض الہام و کشف سے ہر آدمی کو رسول کی سنتیں معلوم ہوجاتی تھیں؟ کیا سارا اسوہ حسنہ قرآن میں درج ہے؟
اس سوال نے مجھے آپ کے بارے میں صحیح رائے منتخب کرنے میں مدد دی ہے ۔کیا سارا اسوہ حسنہ قرآن میں درج ہے
۔''یہ تو بلاوجہ موضوع کو بھیلانے والی بات ہوئی۔ اس دھاگے کا موضوع صوفی مذہب یا کوئی اور مسلک و مشرب نہیں ہے۔ ٹو دی پوائنٹ بات کیجئے ۔ صوفی 'مذہب' یا مثلاّ وہابی دھرم یا کوئی اور ازم کیا بات خوامخواہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر مسلک کے نزدیک انکی بنیاد قرآن و سنت پر ہی استوار ہوتی ہے۔
آپ کے اس تبصرے پر بڑی سادہ سی بات کہنے کی جسارت کروں گا ۔یہ روشنی تو آپ کو ہی ڈالنی چاہیئے، کیونکہ ہمارے نزدیک تو اسلام کی پہلی دو صدیوں میں بھی روایت کے بغیر دین پر عمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ قرآن بھی ایک روایت ہے جو اللہ سے جبریل امیں ، پھرقلب رسول اور لسان نبوت اور پھر صحابہ کے ذریعے امت تک پہنچا ۔
براہِ کرم جب آپ کسی نتیجے تک پہنچ جائیں تو مجھے بھی اس قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کردیجئے گا۔ ۔ شائد مجھے اس سے خود کو جاننے سمجھنے کے عمل میں مدد مل سکےمجھے آپ سے اس ردعمل کی توقع نہیں تھی خیر ۔۔۔۔
اس سوال نے مجھے آپ کے بارے میں صحیح رائے منتخب کرنے میں مدد دی ہے ۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میری پوسٹ میں ایسی کونسی بات تھی جسکے نتیجے میں آپ نے حدیث، کتبِ حدیث اور تدوینِ حدیث کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا؟۔ ۔ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اس موضوع پر تو بات ہو ہی نہیں رہی تھی۔ نہ ہی میں نے اس موضوع پر بات کی۔ میں نے تو اسلام کی پہلی دو صدیوں میں امت کے تعامل کی بات کی تھی بتائے اس میں حدیث یا کتبِ حدیث کا کہاں ذکر ہے؟آپ سب سے پہلے حدیث کا دائرہ سمجھ لیں ۔
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ''حدیث'' کہا جاتا ہے ، ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجہ یقین کو نہیں پہنچتا ۔ کیوں ۔۔۔۔ وہ اس لیے کہ دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوتا ۔ دین سے متعلق جو چیزیں احادیث میں آتی ہیں ، وہ درحقیقت ، قرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ اس دائرے کے اندر، البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے ۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ۔ میرا خیال ہے کہ میں اپنا نکتہ ِ نظر اس سے زیادہ سہل اور آسان الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ۔
جیسا کہ آپ نے قرآن کو روایت کہا ۔۔۔۔اور یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست صحابہ میں منتقل ہوئی ۔ اور یہ سارا عمل کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچا آپ سہیل عادل صاحب کے ٹاپک پر جاکر اس کی تفصیل پڑھ کر جان سکتے ہیں ۔
جہاں تک حدیث کا سوال ہے تو یہ سمجھ لیجیے کہ حدیث کی تدوین کاباقاعدہ عمل تیسری صدی میں شروع ہوا۔ حدیث کی پہلی کتاب موطا امام مالک 160 ہجری میں تصنیف ہوئی۔امام بخاری کا انتقال 256 ہجری میں ہوا اورصحیح بخاری اس سے کچھ عرصے پہلے ہی مکمل ہوئی تھی۔امام مسلم کا انتقال 261 ہجری میں ہوا اس طرح صحیح مسلم کی تصنیف کازمانہ بھی تیسری صدی کی نصف اول کا ہوا۔
ایک طرف احادیث کی تدوین کا یہ زمانہ پیش نظر رکھیے اور دوسری طرف یہ حقیقت کہ نماز، روزہ اوران جیسے دیگر احکام پر مسلمانوں نے دوسری یا تیسری صدی میں عمل کرناشروع نہیں کیا تھا۔ان احکام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی سے پوری امت عمل کر رہی تھی اور اس کے لیے امت نے حدیثوں کے پھیلنے اور ان کی کتابوں کی تدوین کا انتظار نہیں کیا تھا۔ اس وضاحت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عبادات اور دین کے دیگرعملی معاملات کا انحصاردوسری صدی میں عام ہونے والی حدیثوں پر نہیں ، بلکہ ان احکام پرہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بطوردین امت میں جاری کیا اوراس کے بعد ہر زمانے کے لوگ لاکھوں اور کروڑ وں کی تعداد میں ان پر عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انہی کوسنت کہا جاتا ہے ۔
والسلام
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میری پوسٹ میں ایسی کونسی بات تھی جسکے نتیجے میں آپ نے حدیث، کتبِ حدیث اور تدوینِ حدیث کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا؟۔ ۔ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اس موضوع پر تو بات ہو ہی نہیں رہی تھی۔ نہ ہی میں نے اس موضوع پر بات کی۔ میں نے تو اسلام کی پہلی دو صدیوں میں امت کے تعامل کی بات کی تھی بتائے اس میں حدیث یا کتبِ حدیث کا کہاں ذکر ہے؟
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔