قمر بُخاری
محفلین
خطبہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام
لوگو ! فتنوں کی ابتدا خواہشات نفسانی کی پیروی اور اپنی طرف سے ان احکامات کی ایجادات سے ہوتی ہے جو کتاب اللہ کے سراسر خلاف ہوتے ہیں۔ لوگ اوروں کو اس میں صاحب تصرف بنا لیتے ہیں۔ پس اگر باطل خالص صورت میں سامنے آتا تو صاحبان عقل سے پوشیدہ نہ رہتا۔ اور اگر حق خالص صورت میں ہوتا تو اختلاف پیدا ہی نہ ہوتا۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ باطل سے لیا جاتا ہے اور کچھ حق سے۔اور یہ دونوں آپس میں غلط ملط ہو کر لوگوں کے سامنے آتے ہیں۔ ایسی صورت میں شیطان اپنے اولیا پر غالب آتا ہے اور جو لوگ خوف کرتے ہیں، ان کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے نیکی سبقت کرتی ہے۔
پس خدا کے نزدیک بدترین دشمن دو ہیں،
ایک وہ جس کے کام کو خدا نے اسی پر چھوڑ دیا پس وہ راہِ راست سے ہٹ گیا۔ اور اپنے بدعتی کلام کا عاشق بن گیا اور روزہ و نماز کا فریفتہ ہو گیا۔ پس وہ اپنے مریدوں کے لئے ایک فتنہ ہے۔ جس نے اسے قبول کیا ہدایت سے گمراہی میں جا پڑا۔ وہ اپنی حیات میں اور موت کے بعد بھی اپنی پیروی کرنے والوں کا گمراہ کن ہے۔ وہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے والا ہے اور اپنے گناہوں میں گرفتار ہے۔
دوسرا وہ قاضی و مفتی ہے جو جہل مرکب کا شکار ہو کر دوسروں کو جہالت میں پھانستا ہے اور فتنہ کے پھیلانے میں مدد کرتا ہے۔ عوام الناس نے اس کو عالم سمجھ رکھا ہے حالانکہ اس کا ایک دن بھی احکام الہیٰہ کے مطابق شبہ سے خالی نہیں۔ اس کے جہل مرکب کی علامت یہ ہے کہ اِس نے اُس چیز کو جِس کا کم اُس کے زیادہ سے بہتر ہے بہت تیزی سے بہت زیادہ جمع کر لیا ہے۔ یہاں تک کے وہ آب گندہ سے سیراب ہو گیا۔ اور لاطائل باتوں سے معمور ہو گیا تو قاضی بن بیٹھا۔ اور لوگوں کو شبہات سے نکالنے کا ضامن ہو گیا۔ اگر اِس نے اپنے سے پہلے کے قاضی کے حکم کی مُخالفت کی تو وہ اِس امر سے بےخوف نہ ہُوا کہ اُس کے بعد آنے والا اُس کے حُکم کو اِسی طرح توڑ دے گا جِس طرح اُس نے اپنے سے پہلے کے حُکم کو توڑا ہے۔
اگر کوئی سخت مسئلہ سامنے آتا ہے تو اپنی رائے سے خلاف حقیقت بیان کر کے نامعقول باتوں پر معاملہ کو ختم کر دیتا ہے۔ اور شبہات کی پردہ پوشی کا حکم دیتا ہے۔ جس کی مثال مکڑی کے جالا بُننے کی ہے۔ اِس کو نہ یہ پتہ ہے کہ اِس کی رائے صحیح ہےاور نہ یہ پتہ ہے کہ غلط ہے۔ اُس کے گمان تک میں یہ بات نہیں کہ جِس سے انکار کیا ہے دراصل عِلم اُسی میں ہے۔ اور وہ نہیں سمجھتا کہ وہ دو چیزوں کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ایک کا دوسری چیز پر قیاس کرتا تو اپنی فکر کو غلط نہ سمجھتا۔
اگر اس پر کوئی اور مخفی تاریک ہو جاتا ہے یعنی وہ اس میں اپنے قیاس کی راہ نہیں پاتا تو اس کو اپنے جہالت آگیں عِلم سے چھُپاتا ہے۔ تاکہ لوگ یہ نہ خیال کریں کہ وہ نہیں جانتا۔ پس جسارت کر کے حکم لگاتا اور اندھے پن کے اکثر شبہات کی کنجی بنتا ہے۔ اور شکوک و ادہام میں خبط الحواسی کرتا ہے۔ وہ جس بات کو نہیں جانتا اُس کے مُتعلق عُزر بھی نہیں کرتا۔ تاکہ گُمراہی سے بچے۔ وہ پُوری کوشش سے عِلم حاصل نہیں کرتا تاکہ غنیمت عِلم و دانش حاصل کرے اور وہ احادیث اِس طرح پراگندہ کرتا ہے جیسے تیز ہَوا گھاس کو۔
اُس کے غلط حُکم دینے سے میراث روتی ہے اور مظلوموں کے خون چیخیں مارتے ہیں۔ اُس نے اپنے فتوے سے حرام شرمگاہوں کو حلال کر دیا اور اپنے فیصلہ سے حلال شرم گاہوں کو حرام بنا دیا۔ جو احکام اُس سے صادر ہوئے وہ ان کے لئے پراز علم نہیں اور عِلم حق کے متعلق وہ جس کثرت سے اعادہ کرتا ہے وہ اس کا اہل نہیں۔
(اصول کافی ج۱ ب۲۰)
لوگو ! فتنوں کی ابتدا خواہشات نفسانی کی پیروی اور اپنی طرف سے ان احکامات کی ایجادات سے ہوتی ہے جو کتاب اللہ کے سراسر خلاف ہوتے ہیں۔ لوگ اوروں کو اس میں صاحب تصرف بنا لیتے ہیں۔ پس اگر باطل خالص صورت میں سامنے آتا تو صاحبان عقل سے پوشیدہ نہ رہتا۔ اور اگر حق خالص صورت میں ہوتا تو اختلاف پیدا ہی نہ ہوتا۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ باطل سے لیا جاتا ہے اور کچھ حق سے۔اور یہ دونوں آپس میں غلط ملط ہو کر لوگوں کے سامنے آتے ہیں۔ ایسی صورت میں شیطان اپنے اولیا پر غالب آتا ہے اور جو لوگ خوف کرتے ہیں، ان کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے نیکی سبقت کرتی ہے۔
پس خدا کے نزدیک بدترین دشمن دو ہیں،
ایک وہ جس کے کام کو خدا نے اسی پر چھوڑ دیا پس وہ راہِ راست سے ہٹ گیا۔ اور اپنے بدعتی کلام کا عاشق بن گیا اور روزہ و نماز کا فریفتہ ہو گیا۔ پس وہ اپنے مریدوں کے لئے ایک فتنہ ہے۔ جس نے اسے قبول کیا ہدایت سے گمراہی میں جا پڑا۔ وہ اپنی حیات میں اور موت کے بعد بھی اپنی پیروی کرنے والوں کا گمراہ کن ہے۔ وہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے والا ہے اور اپنے گناہوں میں گرفتار ہے۔
دوسرا وہ قاضی و مفتی ہے جو جہل مرکب کا شکار ہو کر دوسروں کو جہالت میں پھانستا ہے اور فتنہ کے پھیلانے میں مدد کرتا ہے۔ عوام الناس نے اس کو عالم سمجھ رکھا ہے حالانکہ اس کا ایک دن بھی احکام الہیٰہ کے مطابق شبہ سے خالی نہیں۔ اس کے جہل مرکب کی علامت یہ ہے کہ اِس نے اُس چیز کو جِس کا کم اُس کے زیادہ سے بہتر ہے بہت تیزی سے بہت زیادہ جمع کر لیا ہے۔ یہاں تک کے وہ آب گندہ سے سیراب ہو گیا۔ اور لاطائل باتوں سے معمور ہو گیا تو قاضی بن بیٹھا۔ اور لوگوں کو شبہات سے نکالنے کا ضامن ہو گیا۔ اگر اِس نے اپنے سے پہلے کے قاضی کے حکم کی مُخالفت کی تو وہ اِس امر سے بےخوف نہ ہُوا کہ اُس کے بعد آنے والا اُس کے حُکم کو اِسی طرح توڑ دے گا جِس طرح اُس نے اپنے سے پہلے کے حُکم کو توڑا ہے۔
اگر کوئی سخت مسئلہ سامنے آتا ہے تو اپنی رائے سے خلاف حقیقت بیان کر کے نامعقول باتوں پر معاملہ کو ختم کر دیتا ہے۔ اور شبہات کی پردہ پوشی کا حکم دیتا ہے۔ جس کی مثال مکڑی کے جالا بُننے کی ہے۔ اِس کو نہ یہ پتہ ہے کہ اِس کی رائے صحیح ہےاور نہ یہ پتہ ہے کہ غلط ہے۔ اُس کے گمان تک میں یہ بات نہیں کہ جِس سے انکار کیا ہے دراصل عِلم اُسی میں ہے۔ اور وہ نہیں سمجھتا کہ وہ دو چیزوں کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ایک کا دوسری چیز پر قیاس کرتا تو اپنی فکر کو غلط نہ سمجھتا۔
اگر اس پر کوئی اور مخفی تاریک ہو جاتا ہے یعنی وہ اس میں اپنے قیاس کی راہ نہیں پاتا تو اس کو اپنے جہالت آگیں عِلم سے چھُپاتا ہے۔ تاکہ لوگ یہ نہ خیال کریں کہ وہ نہیں جانتا۔ پس جسارت کر کے حکم لگاتا اور اندھے پن کے اکثر شبہات کی کنجی بنتا ہے۔ اور شکوک و ادہام میں خبط الحواسی کرتا ہے۔ وہ جس بات کو نہیں جانتا اُس کے مُتعلق عُزر بھی نہیں کرتا۔ تاکہ گُمراہی سے بچے۔ وہ پُوری کوشش سے عِلم حاصل نہیں کرتا تاکہ غنیمت عِلم و دانش حاصل کرے اور وہ احادیث اِس طرح پراگندہ کرتا ہے جیسے تیز ہَوا گھاس کو۔
اُس کے غلط حُکم دینے سے میراث روتی ہے اور مظلوموں کے خون چیخیں مارتے ہیں۔ اُس نے اپنے فتوے سے حرام شرمگاہوں کو حلال کر دیا اور اپنے فیصلہ سے حلال شرم گاہوں کو حرام بنا دیا۔ جو احکام اُس سے صادر ہوئے وہ ان کے لئے پراز علم نہیں اور عِلم حق کے متعلق وہ جس کثرت سے اعادہ کرتا ہے وہ اس کا اہل نہیں۔
(اصول کافی ج۱ ب۲۰)