سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 19 اکتوبر 2014
برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم الشان جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والے نئے ملک پاکستان کا دارالحکومت جب کراچی بنا تو تین لاکھ کی آبادی کا یہ شہر ساری دنیا کی نظروں میں آگیا۔ 1971ء تک مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک کا دارالحکومت ہونے کے سبب کراچی برصغیر جنوبی ایشیا ہی کا نہیں، ساری مسلم دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے مسلم کُش فسادات، کانگریس کی مسلم بیزار پالیسیوں اور مستقبل کے خدشات و خطرات کے علاوہ، نئے ملک میں دستیاب امکانات کے پیشِ نظر بھی لاکھوں کی تعداد میں پاکستان ہجرت کی۔ تقریباً اَسی لاکھ انسان بھارت سے نکل کر موجودہ پاکستان میں آبسے۔ مہاجرین کی نصف تعداد پاکستانی پنجاب میں آباد ہوئی۔ ان میں سے بیشتر پنجابی بولنے والے تھے۔ مگر اردو بولنے والے بھی خاصی بڑی تعداد میں پنجاب کے شہروں میں جابسے۔ جبکہ مہاجروں کی بقیہ نصف تعداد سندھ میں آباد ہوئی اور ان میں سے بھی اکثر کراچی و حیدرآباد اور سندھ کے جنوبی شہروں میں۔ ان مہاجروں کی نوے فیصد تعداد اردو، گجراتی اور میمنی بولنے والی تھی۔ پاکستان میں نئے آباد ہونے والے مہاجروں میں سے جو لوگ سندھ میں آباد ہوئے وہ بوجوہ مقامی آبادی میں ضم نہ ہو سکے۔ ان ’’مہاجروں‘‘ کی آبادی سندھ کی مجموعی آبادی میں پینتیس چالیس فیصد کے قریب ہے۔ اگر سندھ کے پرانے پنجابی آبادکاروں اور بعد میں آنے والے پختونوں کو ملا لیا جائے تو یہ تعداد سندھی و بلوچی آبادی کے قریب پہنچ جاتی ہے۔
کراچی کی موجودہ آبادی تقریبا دو کڑوڑ کے قریب ہے، 18 اکتوبر کوپاکستان پیپلزپارٹی کے کراچی کے جلسے میں ایک اندازئے کے مطابق تقریبا ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب لوگوں نے شرکت کی جس میں 95 فیصد لوگوں کواندرون ملک سے لایا گیا تھا اور اس بات کا خود جلسے کے مقررین نے ذکر بھی کیا۔ کیا وجہ ہے کہ کراچی کے رہنے والے عام طور پر اس جلسہ سے دور رہے، پیپلز پارٹی اور آصف زرداری نے بلاول کو لانچ کرنے کےلیے کڑوڑوں روپے خرچ کیے اور کراچی سے باہر کے لوگوں کو لانا پڑا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کی متعصب ترین سیاسی پارٹی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آج اس پارٹی میں مہاجر سرئے سے موجود ہی نہیں ہیں، کبھی معراج محمد خان، ڈاکٹر شمیم زین الدین، این ڈی خان، محمد احمد اور دوسرئے کافی مہاجر ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر شمیم زین الدین تو بھٹو صاحب کے برسراقتدار آنے کے بہت تھوڑئےعرصے بعد ہی اُنکے رویے سے مایوس ہوکر پیپلز پارٹی چھوڑ گیں تھیں، معراج محمد خان جن کو بھٹو صاحب نے اپنا جانشین قرار دیا تھا، بھٹو صاحب کے زمانے میں ہی جیل پہنچادیے گے اور جب جیل سے رہا ہوئے تو کافی عرصے تک آنکھوں کی بینائی سے محروم رہے۔ این ڈی خان آج بھی موجود ہیں، بےنظیر کے زمانے کچھ عرصے وزیر رہے، بچوں کو امریکہ میں تعلیم دلوالی اور لانڈھی سے اٹھکر گلشن اقبال پہنچ گے، مہاجر ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں دو ٹکے کی اوقات نہیں ہے۔
بھٹو صاحب نے اپنے بےانتہا متعصب بھائی ممتاز بھٹو کو جو اب مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں سندھ کا وزیراعلی بنایا تو اُن مہاجروں کو جو پیپلز پارٹی میں تھے اپنی اوقات کا پتہ چل گیا تھا، آہستہ آہستہ مہاجر پیپلز پارٹی سے دور ہوتے چلے گے۔ 1972ء میں سندھہ کی صوبائی اسمبلی نے ایک زبان بل کی منظوری دی جس میں اردو کے ساتھ سندھی کو صوبائی زبان قرار دیا۔ اگلے سال 1973ء میں بھٹو صاب کا جہاں یہ بہت بڑا کارنامہ تھا کہ انہوں نے ایک متفقہ آئین پاکستان بنایا وہاں ایک سیاہ باب یہ بھی ہے کہ انہوں نے کوٹا سسٹم کو آئین کا حصہ بنایا۔ مہاجروں کے نام پر ایک عرصے تک سیاست کرنے والے پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی اور شاہ احمد نورانی بھی اس ظلم میں برابر کے شامل تھے۔ یاد رہے کوٹا سسٹم کی میعاد دس سال تھی مگر افسوس کہ آج بھی اُس پر عمل ہورہا ہے، کوٹا سسٹم سے سب سے زیادہ کراچی اور حیدرآباد متاثر ہوئے۔ 1978ء میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹ آرگنا ئزیشن [موجودہ آل پاکستان متحدہ اسٹوڈینٹ آرگنا ئزیشن] کا بھی کراچی یونیورسٹی میں اعلان ہوگیا۔ کراچی میں اسلامی جمیت طلبا میں اکثریت مہاجروں کی تھی،اے پی ایم ایس او بننے کے بعد جمیت کی ایک بڑی تعداد نےاس میں شمولیت اختیار کرلی- اب نعرے کچھ یوں تھے۔ جیے مہاجر، جیے پختون، جاگ پنجابی جاگ یعنی کراچی کو برباد کرنے کے لیے تعصب کی ہانڈی پوری طرح تیار۔ کراچی میں لسانی تعصب سے پہلے ایک فرقہ وارانہ شیعہ سنی تعصب پہلے ہی موجود تھا اور ہر سال ان دونوں فرقوں کی لڑای سے کافی لوگوں کی جانیں جاتی تھیں ۔ پہلے ان دونوں فرقے کے لوگ پوری کراچی میں رہ رہے تھے مگر آہستہ آہستہ ان کے علاقے بھی علیدہ علیدہ ہو گے۔18 مارچ 1984ء کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹ آرگنا ئزیشن [موجودہ آل پاکستان متحدہ اسٹوڈینٹ آرگنا ئزیشن] کے سربراہ الطاف حسین نے مہاجر قومی مومنٹ [ایم کیو ایم] کے نام سے ایک سیاسی جماعت کا اعلان کیا اور یہ اعلان عین اس وقت ہوا جب ضیا الحق کے اس فیصلے کو محض چھ دن ہی گزرے تھے، جس میں دیہاتی شہری کوٹہ سسٹم کو مزید 10 سال کے لیے بڑھا دیاگیا تھا۔
بےنظیر بھٹو 1988ء میں وزیراعظم بنیں تب سے آجتک ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے گٹھ جوڑ نے سندھ اور خصوصا کراچی اور حیدرآباد کو بےانتہا نقصان پہنچایا ہے۔ پیپلز پارٹی نے مہاجروں کو اپنے آپ سے دور کرلیا اور ایم کیو ایم نے جو کبھی صرف مہاجروں کی جماعت بن جاتی اور کبھی پورئے پاکستان کے غریبوں کی ہمدرد اور جاگیرداروں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی ہے، مگر مہاجر پیپلز پارٹی اور متحدہ کے بیچ میں پستے رہتے ہیں، کبھی ذوالفقار مرزا مہاجروں کو بھوکا ننگا کہتا ہے تو کبھی کہتا ہےکسی کے باپ میں بھی ہمت نہیں ہے کہ سندھ کو تقسیم کر سکے، پیپلز پارٹی کے کراچی میں ہونے والے جلسے سے صرف چوبیس گھنٹے قبل پیپلز پارٹی کے رہنما اورقائد حزب سید خورشید شاہ نے اپنے نئے آقا بلاول کو خوش کرنےکےلیے فرمادیا کہ لفظ ’مہاجر‘ ان کے لیے گالی ہے اور سندھ میں رہنے والوں کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جب ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی نے ایک پریس کانفرنس میں خورشید شاہ کو اُنکی اوقات بتائی اور مہاجر رابطہ کونسل نے بھی احتجاج شروع کیا تو خورشید شاہ نے نہ صرف معافی مانگ لی بلکہ خود کو بھی مہاجر کہہ ڈالا۔
کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اگر اُسکو بلاول یا زرداری پسند نہیں یا اُن سے سیاسی اختلاف ہے تو وہ پوری سندھی قوم کو برا کہے، یا جو نواز شریف کے خلاف ہیں وہ پوری پنجابی قوم کو برا کہیں اور یہ ہی دوسری قوموں کےلیے بھی ضروری ہے۔خورشید شاہ اور اُن جیسے لوگوں کو ایک مشورہ ہے کہ اگر آپکے اور آپکی پارٹی کے اختلافات الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے ہیں تو بات ایم کیو ایم اور الطاف حسین تک ہی رہے تو اچھا ہے، آپکو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ پوری مہاجر قوم کو آپ گالی قرار دیں، الطاف حسین سے بھی یہ کہنا ہے کہ ایم کیو ایم سے پہلے جماعت اسلامی اور جمیت علمائے اسلام مولانا نورانی نے بھی کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر کے نام پر سیاست کی اور اب ایک طویل عرصے سے آپ کررہے ہیں مگر آجتک مہاجروں کو سوائے نقصان کے کوئی فاہدہ نہیں ہوا، کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ لسانی کے بجائے مقامی یاقومی سطع کی سیاست کریں تاکہ یہ آئے دن وہ لوگ جنکے والدین نے ہجرت کی تھی نفرت اور ذہنی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔ خورشید شاہ نے تو اپنے گناہ کی معافی مانگ لی لیکن شاید ذوالفقار مرزا اپنی گندی ذہنیت کو مسلسل جاری رکھنا چاہتا ہے، زرداری کو چاہیے کہ اُس کو قابو کرئے، کیونکہ اس طرح کے بیانات سے صرف نقصان ہوتا ہے۔ عام پاکستانیوں سے بھی ایک سوال ہے کہ "کیا لفظ مہاجر ایک گالی ہے؟"۔
کیا لفظ مہاجرایک گالی ہے؟
تحریر: سید انور محمودبرصغیر کے مسلمانوں کی عظیم الشان جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والے نئے ملک پاکستان کا دارالحکومت جب کراچی بنا تو تین لاکھ کی آبادی کا یہ شہر ساری دنیا کی نظروں میں آگیا۔ 1971ء تک مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک کا دارالحکومت ہونے کے سبب کراچی برصغیر جنوبی ایشیا ہی کا نہیں، ساری مسلم دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے مسلم کُش فسادات، کانگریس کی مسلم بیزار پالیسیوں اور مستقبل کے خدشات و خطرات کے علاوہ، نئے ملک میں دستیاب امکانات کے پیشِ نظر بھی لاکھوں کی تعداد میں پاکستان ہجرت کی۔ تقریباً اَسی لاکھ انسان بھارت سے نکل کر موجودہ پاکستان میں آبسے۔ مہاجرین کی نصف تعداد پاکستانی پنجاب میں آباد ہوئی۔ ان میں سے بیشتر پنجابی بولنے والے تھے۔ مگر اردو بولنے والے بھی خاصی بڑی تعداد میں پنجاب کے شہروں میں جابسے۔ جبکہ مہاجروں کی بقیہ نصف تعداد سندھ میں آباد ہوئی اور ان میں سے بھی اکثر کراچی و حیدرآباد اور سندھ کے جنوبی شہروں میں۔ ان مہاجروں کی نوے فیصد تعداد اردو، گجراتی اور میمنی بولنے والی تھی۔ پاکستان میں نئے آباد ہونے والے مہاجروں میں سے جو لوگ سندھ میں آباد ہوئے وہ بوجوہ مقامی آبادی میں ضم نہ ہو سکے۔ ان ’’مہاجروں‘‘ کی آبادی سندھ کی مجموعی آبادی میں پینتیس چالیس فیصد کے قریب ہے۔ اگر سندھ کے پرانے پنجابی آبادکاروں اور بعد میں آنے والے پختونوں کو ملا لیا جائے تو یہ تعداد سندھی و بلوچی آبادی کے قریب پہنچ جاتی ہے۔
کراچی کی موجودہ آبادی تقریبا دو کڑوڑ کے قریب ہے، 18 اکتوبر کوپاکستان پیپلزپارٹی کے کراچی کے جلسے میں ایک اندازئے کے مطابق تقریبا ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب لوگوں نے شرکت کی جس میں 95 فیصد لوگوں کواندرون ملک سے لایا گیا تھا اور اس بات کا خود جلسے کے مقررین نے ذکر بھی کیا۔ کیا وجہ ہے کہ کراچی کے رہنے والے عام طور پر اس جلسہ سے دور رہے، پیپلز پارٹی اور آصف زرداری نے بلاول کو لانچ کرنے کےلیے کڑوڑوں روپے خرچ کیے اور کراچی سے باہر کے لوگوں کو لانا پڑا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کی متعصب ترین سیاسی پارٹی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آج اس پارٹی میں مہاجر سرئے سے موجود ہی نہیں ہیں، کبھی معراج محمد خان، ڈاکٹر شمیم زین الدین، این ڈی خان، محمد احمد اور دوسرئے کافی مہاجر ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر شمیم زین الدین تو بھٹو صاحب کے برسراقتدار آنے کے بہت تھوڑئےعرصے بعد ہی اُنکے رویے سے مایوس ہوکر پیپلز پارٹی چھوڑ گیں تھیں، معراج محمد خان جن کو بھٹو صاحب نے اپنا جانشین قرار دیا تھا، بھٹو صاحب کے زمانے میں ہی جیل پہنچادیے گے اور جب جیل سے رہا ہوئے تو کافی عرصے تک آنکھوں کی بینائی سے محروم رہے۔ این ڈی خان آج بھی موجود ہیں، بےنظیر کے زمانے کچھ عرصے وزیر رہے، بچوں کو امریکہ میں تعلیم دلوالی اور لانڈھی سے اٹھکر گلشن اقبال پہنچ گے، مہاجر ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں دو ٹکے کی اوقات نہیں ہے۔
بھٹو صاحب نے اپنے بےانتہا متعصب بھائی ممتاز بھٹو کو جو اب مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں سندھ کا وزیراعلی بنایا تو اُن مہاجروں کو جو پیپلز پارٹی میں تھے اپنی اوقات کا پتہ چل گیا تھا، آہستہ آہستہ مہاجر پیپلز پارٹی سے دور ہوتے چلے گے۔ 1972ء میں سندھہ کی صوبائی اسمبلی نے ایک زبان بل کی منظوری دی جس میں اردو کے ساتھ سندھی کو صوبائی زبان قرار دیا۔ اگلے سال 1973ء میں بھٹو صاب کا جہاں یہ بہت بڑا کارنامہ تھا کہ انہوں نے ایک متفقہ آئین پاکستان بنایا وہاں ایک سیاہ باب یہ بھی ہے کہ انہوں نے کوٹا سسٹم کو آئین کا حصہ بنایا۔ مہاجروں کے نام پر ایک عرصے تک سیاست کرنے والے پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی اور شاہ احمد نورانی بھی اس ظلم میں برابر کے شامل تھے۔ یاد رہے کوٹا سسٹم کی میعاد دس سال تھی مگر افسوس کہ آج بھی اُس پر عمل ہورہا ہے، کوٹا سسٹم سے سب سے زیادہ کراچی اور حیدرآباد متاثر ہوئے۔ 1978ء میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹ آرگنا ئزیشن [موجودہ آل پاکستان متحدہ اسٹوڈینٹ آرگنا ئزیشن] کا بھی کراچی یونیورسٹی میں اعلان ہوگیا۔ کراچی میں اسلامی جمیت طلبا میں اکثریت مہاجروں کی تھی،اے پی ایم ایس او بننے کے بعد جمیت کی ایک بڑی تعداد نےاس میں شمولیت اختیار کرلی- اب نعرے کچھ یوں تھے۔ جیے مہاجر، جیے پختون، جاگ پنجابی جاگ یعنی کراچی کو برباد کرنے کے لیے تعصب کی ہانڈی پوری طرح تیار۔ کراچی میں لسانی تعصب سے پہلے ایک فرقہ وارانہ شیعہ سنی تعصب پہلے ہی موجود تھا اور ہر سال ان دونوں فرقوں کی لڑای سے کافی لوگوں کی جانیں جاتی تھیں ۔ پہلے ان دونوں فرقے کے لوگ پوری کراچی میں رہ رہے تھے مگر آہستہ آہستہ ان کے علاقے بھی علیدہ علیدہ ہو گے۔18 مارچ 1984ء کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹ آرگنا ئزیشن [موجودہ آل پاکستان متحدہ اسٹوڈینٹ آرگنا ئزیشن] کے سربراہ الطاف حسین نے مہاجر قومی مومنٹ [ایم کیو ایم] کے نام سے ایک سیاسی جماعت کا اعلان کیا اور یہ اعلان عین اس وقت ہوا جب ضیا الحق کے اس فیصلے کو محض چھ دن ہی گزرے تھے، جس میں دیہاتی شہری کوٹہ سسٹم کو مزید 10 سال کے لیے بڑھا دیاگیا تھا۔
بےنظیر بھٹو 1988ء میں وزیراعظم بنیں تب سے آجتک ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے گٹھ جوڑ نے سندھ اور خصوصا کراچی اور حیدرآباد کو بےانتہا نقصان پہنچایا ہے۔ پیپلز پارٹی نے مہاجروں کو اپنے آپ سے دور کرلیا اور ایم کیو ایم نے جو کبھی صرف مہاجروں کی جماعت بن جاتی اور کبھی پورئے پاکستان کے غریبوں کی ہمدرد اور جاگیرداروں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی ہے، مگر مہاجر پیپلز پارٹی اور متحدہ کے بیچ میں پستے رہتے ہیں، کبھی ذوالفقار مرزا مہاجروں کو بھوکا ننگا کہتا ہے تو کبھی کہتا ہےکسی کے باپ میں بھی ہمت نہیں ہے کہ سندھ کو تقسیم کر سکے، پیپلز پارٹی کے کراچی میں ہونے والے جلسے سے صرف چوبیس گھنٹے قبل پیپلز پارٹی کے رہنما اورقائد حزب سید خورشید شاہ نے اپنے نئے آقا بلاول کو خوش کرنےکےلیے فرمادیا کہ لفظ ’مہاجر‘ ان کے لیے گالی ہے اور سندھ میں رہنے والوں کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جب ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی نے ایک پریس کانفرنس میں خورشید شاہ کو اُنکی اوقات بتائی اور مہاجر رابطہ کونسل نے بھی احتجاج شروع کیا تو خورشید شاہ نے نہ صرف معافی مانگ لی بلکہ خود کو بھی مہاجر کہہ ڈالا۔
کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اگر اُسکو بلاول یا زرداری پسند نہیں یا اُن سے سیاسی اختلاف ہے تو وہ پوری سندھی قوم کو برا کہے، یا جو نواز شریف کے خلاف ہیں وہ پوری پنجابی قوم کو برا کہیں اور یہ ہی دوسری قوموں کےلیے بھی ضروری ہے۔خورشید شاہ اور اُن جیسے لوگوں کو ایک مشورہ ہے کہ اگر آپکے اور آپکی پارٹی کے اختلافات الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے ہیں تو بات ایم کیو ایم اور الطاف حسین تک ہی رہے تو اچھا ہے، آپکو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ پوری مہاجر قوم کو آپ گالی قرار دیں، الطاف حسین سے بھی یہ کہنا ہے کہ ایم کیو ایم سے پہلے جماعت اسلامی اور جمیت علمائے اسلام مولانا نورانی نے بھی کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر کے نام پر سیاست کی اور اب ایک طویل عرصے سے آپ کررہے ہیں مگر آجتک مہاجروں کو سوائے نقصان کے کوئی فاہدہ نہیں ہوا، کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ لسانی کے بجائے مقامی یاقومی سطع کی سیاست کریں تاکہ یہ آئے دن وہ لوگ جنکے والدین نے ہجرت کی تھی نفرت اور ذہنی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔ خورشید شاہ نے تو اپنے گناہ کی معافی مانگ لی لیکن شاید ذوالفقار مرزا اپنی گندی ذہنیت کو مسلسل جاری رکھنا چاہتا ہے، زرداری کو چاہیے کہ اُس کو قابو کرئے، کیونکہ اس طرح کے بیانات سے صرف نقصان ہوتا ہے۔ عام پاکستانیوں سے بھی ایک سوال ہے کہ "کیا لفظ مہاجر ایک گالی ہے؟"۔