میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث بغیر مذہب کے مکمل نہیں ہوسکتی ۔ ہم دنیاوی حقیتوں کیساتھ مذہب کا بھی کچھ حوالہ دے دیں تو شاید بحث کے مکمل ہونے کچھ امکانات روشن ہوجائیں ۔ عورت اور مرد کے فرق کو ہم صرف چند فلسفوں اور سروے تک محدود میں نہیں کرسکتے کیونکہ جب آپ انہیں سائنسی اور فلسفیانہ توجہات میں گھیسٹ کر عورت اور مرد کے فرق کو صرف اس بنیاد پر وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں تو مذہب بھی زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے اور اس کے بغیر یہ بحث نامکمل رہے گی ۔ کیونکہ بہرحال دنیا میں کم از کم 95فیصد لوگ کسی نہ کسی طور پر کسی خدا پر یقین تو رکھتے ہیں ۔ لہذا سائنسی ، فلسفیانہ اورتحقیقی سطح پر جب اس بحث کا آغاز کریں تو مذہب کا بھی نقطہِ نظر بھی جان لینا چاہیئے کہ وہ مرد اور عورت کے مابین کس قسم کا فرق روا رکھتا ہے ۔
پہلے تو یہ بات صحیح طور پر سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جتنی بھی مخلوقات پیدا کیں ہیں ۔ ظاہر ہے ان کے درمیان صلاحیت ، ذوق ، عادات ، جبلت ظاہری جسم و ساخت کے لحاظ سے فرق رکھا ہے ۔ انسان کی حیثیت سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ قرآن نے ہمیں یہ بتایا ہے اور اس سارے فلسفے کی جڑ ہی کاٹ دی ہے جس کی بنیاد پر آپ عورت و مرد میں کوئی فرق روا رکھ سکیں کہ " ہم نے انسان کو نفسِ واحدیہ سے پیدا کیا اور پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا ۔ " مگر یہ بات واضع ہے کہ اپنی طبیعت ، مزاج ، جسمانی ساخت وغیرہ میں عورت مرد سے مختلف ہے ۔ یعنی کمزور یا کمتر ہونا زیرِ بحث نہیں ہے ۔ " مختلف " ہونا زیرِ بحث ہے ۔ جب مختلف ہے تو نظریات اور سوچ میں بھی فرق ہوگا ۔ شرعی احکامات تو ایک طرف ، آپ دیکھیں کہ جبلی کیفتوں میں بھی فرق موجود ہے ۔ جنسی اور نفسیاتی بنیادوں میں بھی فرق موجود ہے ۔ مگر یہ فرق کسی کی برتری کا موجب نہیں ہے ۔ مردوں کے درمیان بھی فرق موجود ہے ۔ کوئی شاعر ہے ،کوئی سائنسدان ہے ، کوئی ڈاکٹر ہے اور کوئی صرف ایک محنت کش ہے جو ذہن سے زیادہ جسمانی مشقت کو ترجیح دیتا ہے۔ یعنی ذہنی سطح مردوں میں کسی بھی طور پر یکساں نہیں ہے ۔ بلکل اسی طرح کایہ فرق عورتوں میں بھی موجود ہے ۔
ہماری شریعت نے بھی عورتوں اور مردوں کے درمیان جو احکامات رکھے ہیں ۔ وہ مرد و عورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ فرقِ مراتب کے طور پر رکھے ہیں ۔ یعنی جوبھی اس سلسلے کے احکامات ہیں ۔ وہ ایک خاندان کے نظم و ضبط کو سامنے رکھ کر دیئے گئے ہیں ۔
مردوں کی جسمانی ساخت کی وجہ سے ان میں نفسیات اور جذباتیت کا جو تنوع ہے وہ عورت سے قدرے مختلف ہے اور اسی طرح عورت بھی اپنی ہیت میں مردوں سے مختلف ہے ۔ مگر یہ کہنا کہ ذہنی سطح کی بنیادپر عورت کسی بھی طور پر مرد سے کم تر ہے تو یہ بلکل غلط بات ہے ۔ عورت ذہنی طور پر ہر وہ کام کرسکتی ہے جو مرد کرسکتا ہے ۔ مگر عورت اپنی فطرت اور نفسیات کی بنیاد پر اس درجہ ان کاموں میں اتنی متحرک نظر نہیں آتی جتنا کہ مرد نظر آتے ہیں ۔ مگر ان میں معاشرتی عوامل میں شامل ہیں ۔ ثقافت اور اقدار بھی نمایاں ہے ۔ مگر جہاں عورت کو کھل کر اپنی صلاحیتوں دکھانے کا موقع ملا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مردوں سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہیں ۔ جب عورت انجنیئر ، ڈاکٹر اور دیگر علمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرلیتیں ہیں تو یہ تاثر کہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ ذہنی اعتبار سے مردوں سے کم ہیں ۔ اگر اس بنیاد پر کہ عورتیں ایسے علمی میدانوں میں کم نظر آتی ہے تو یہ بلکل غلط تاثر ہوگا کہ عورتیں وہ فہم نہیں رکھتیں جو مردوں کو حاصل ہے ۔ مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عورتیں اس میدان میں کم ہیں مگر میں اس کی وجہ بیان کرچکا ہوں ۔اگر ذہنی سطح میں کسی قسم کی کم و بیشی ہوتی ۔ تو عورت کسی ادارے کی ہیڈ ، کہیں ڈاکٹر ، کہیں انجینئر ، اور کہیں سائنسدان بن کر کسی بھی طور ابھر کر سامنے نہیں آتی ۔ ہم مہیز تعداد کی بنیاد پر مرد کو عورت پر اولیت نہیں دے سکتے ۔ کیونکہ ذہنی سطح میں اگر کوئی فرق ہوتا تو عورت وہ کام ہرگز کر نہیں پاتی جو مرد حضرات کر رہے ہیں ۔ عورت اور مرد اپنی بناوٹ و ساخت میں ایک تنوع رکھتے ہیں ۔ اس لیئے رحجانات کا بھی فرق وضع ہوگا ۔ اور فرق کی بنیاد پر وہ اپنی فطرت سے قریب تر کام کو ترجیح دیں گے ۔
یوسف ثانی صاحب نے ریاضی اور گائنا لوجی کے میدان میں عورت اور مرد کے جبلت کی بنیاد پر ان کےرحجانات کے فرق کو واضع کیا ہے ۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد و عورت کے مابین کسی ذہنی سطح پر کوئی فرق موجود ہے ۔
قرآن نے بھی اپنی جب دعوت کی طرف انسان کو پکارا ہے تو مرد و عورت کو یکساں پکارا ہے ۔ کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں روا رکھی ۔