محمد ندیم پشاوری
محفلین
موٹر وے پر گاڑی 160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی فتار سے اپنی منزل کی طرف دوڑتی بلکہ اڑتی چلی جارہی تھی کہ اچانک گاڑی کا ’’دوسرا پہیہ‘‘خراب ہو جاتا ہے گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی اپنی منزل کی طرف تو بڑھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن طویل سفر اور پھر آدھی رات اس بات کا تقاضا کررہی تھی کہ گاڑی کی دوسرے پہیے کی جلد از جلد مرمت کی جائے ۔پھر زندگی کے سفر میں میاں بیوی کی مشترکہ گاڑی کا دوسرا پہیہ ’’زوجہ محترمہ‘‘اگر بیمار پڑھ جائے یا طبیعت بگڑ جائے تو یقیناًبیماری کی تدارک اور علاج کے لیے کسی اچھے ڈاکٹر یا ہسپتال جانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے خدا نخواستہ ہماری سستی، کاہلی یا لاپرواہی ہمیں اپنی زندگی کے اِس طویل سفر میں اکیلا چھوڑ کر نہ چلا جائے اور پھر ساری زندگی ہم اپنے آپ کو کوستے اور افسوس کرتے رہ جائیں۔
چند روز پہلے تقریباً رات کے 03:00 بجے’’زوجہ محترمہ‘‘کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اُنہوں نے آہستہ سے میرے کان میں سرگوشی کی اور بولی ’’ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی‘‘ ہوش و حواس کو برقرار رکھتے ہوئے اس موقع پر مجھے ایک مخلص دوست ’’کتاب‘‘کا مشورہ یاد آیا ’’صحت پر کمپرومائز نہ کیجئے‘‘اِسے آپ حکم سمجھیں یا درخواست، نصیحت سمجھیں یا مشورہ ،ہمارے لیے انتہائی مفید اور قابل احترام ہے اور قابل احترام کیوں نہ ہو کہ اِس کی بنیاد تجربہ پر ہے اور تجربہ کبھی گمراہ کرتا ہے نہ جھوٹ بولتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’ہر بات حکیم صاحب سے نہ پوچھو تجربہ کرنے والے سے بھی پوچھ لیا کرو ‘‘ کسی مشورے یا نصیحت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب کوئی ہمدرد اور انتہائی حد تک خیر خواہ آپ کو مخاطب کر رہا ہوتا ہے۔جی ہاں ! میری مراد استاد جی ’’مولانا انور غازی صاحب‘‘ ہیں جو اپنے احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈال کر ہم تک منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کر چکے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ آپ ’’زندگی ایسے گزاریں‘‘ سیریز کی پہلی کتاب ’’خاندانی نظام ایسے بچائیں‘‘ میں ’’صحت پر کمپرومائز نہ کیجئے‘‘ کی بات اپنے ایک واقعے سے ہمیں سکھا گئے۔
مفید مشورے پر عمل کرتے ہوئے فوراً سائیڈ ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھائی دروازہ کھولا گھر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھا اور چابی گھمائی۔ مقامی ڈاکٹر کی بجائےمرکزی ہسپتال جانے کا ارادہ کیا ہسپتال پہنچ کر جلدی جلدی گاڑی کو پارک کر کے بھاگم بھاگ مریض کے لیے پرچی لینے ونڈو کے سامنے لائن میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا ۔باری آنے پر آپریٹر نے پرچی ہاتھ میں پکڑائی اور’’ کمرہ نمبر ۱۰‘‘ جانے کو کہا کچھ دیر اِدھر اُدھر کمرہ نمبر دس کی تلاش میں پھرتا رہا لیکن انگور بہر حال کٹھے تھے کیونکہ وہاں نہ تو کوئی کمرہ کھلا تھا تمام کے تمام کمرے بند تھے نہ کوئی ڈاکٹر موجود تھا اور نہ ہی کوئی انسٹرکٹر جو ہمیں راستہ بتا سکیں سوائے چند ایک لوگوں کے جو شاید اپنے اپنے مریض کی بیماری پرسی کرنے کے بعد زمین پر لیٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے ایسے میں اچانک ایک کمرے پر نظر پڑی جس میں تمام تر لائٹیں آن تھیں کمرے کے دروازے کے قریب گیا اور دستک دی اجازت ملنے کے بعد اندر داخل ہوا تو میز کے ساتھ دو کرسیوں پر نوجوان لیڈی ڈاکٹر جن کی عمریں محتاط اندازے کے مطابق پچیس سے اٹھائیس سال کے درمیان تھیں پر براجمان تھیں جبکہ سامنے والی کرسی پر محتاط اندازے کے مطابق تیس سال کی عمر کا ایک شخص یا ڈاکٹر لہلہاتا، مسکراتا، اور قہقہہ لگاتا ہوا دکھائی دیا تینوں آپس میں گپ شپ میں مصروف سرگوشیاں اور چہ میگوئیاں کر رہے تھے میں نے ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے مطلوبہ کمرہ کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے بغیر کوئی دقیقہ فروگزاشت کرتے ہوئے ہاتھ سے پرچی کھینچی اور ایک خاص انداز میں پوچھا ’’مریض کون ہے اُسے بلاؤ‘‘ڈاکٹر صاحب کی اندازِ گفتگو سے یوں محسوس ہونے لگا کہ شاید میں نے بہت بڑی غلطی کر دی جو یہاں اِن کی گپ شپ کے درمیان کباب کی ہڈی بن کر گھس آیا ہوں بہر حال مریض سے پوچھ گجھ کے بعد پرچے پر اپنے ڈاکٹری انداز میں کچھ لکیریں لگا کر یہ بتائے بغیر کہ ’’دس نمبر کمرہ‘‘ کہاں ہے کی طرف روانہ کر دیا میں بھی کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر وہاں سے روانہ ہو کر راستے میں دو تین بار پوچھنے کے بعد مطلوبہ جگہ یعنی ’’کمرہ نمبر دس‘‘پہنچنے میں کامیاب ہو گیا لیکن وہاں بھی معاملہ کچھ اور ہی تھا ڈاکٹر صاحب اور دوسرے مریض کے سرپرست کے درمیان ایک بحث شروع تھی جبکہ وہاں ہمارے سمیت ہم جیسے بے شمار مریض خصوصاً مستورات اپنے نمبر کا انتظار کر رہی تھیں تاکہ اِنکا بروقت علاج ممکن ہو سکے اور اُن کو جلدی رُخصت کیا جا سکے ۔مریض کے سرپرست کی زبان پر بار بار ایک ہی جملہ تھا کہ’’آپ سے میں نے پوچھا کہ فلاں کمرہ کہاں ہے آپ نے مجھے فلاں فلاں راستے پر جانے کو کہا میں دو تین مرتبہ اس راستے پر چلا لیکن وہاں مطلوبہ کمرے کا نام و نشان تک نہیں ہے آپ نے مجھے غلط راستہ کیوں بتایا‘‘ اپنے ارد گرد مریضوں کی بھیڑ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب پر سکتہ جاری ہو گیا تھا لیکن اتنے لوگوں کے سامنے اپنی عزت کی دھجیاں اڑتے ہوئے دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے ہونٹ ہلانے کی زحمت کی اور ارشاد فرمایا ’’مجھے نہیں پتہ یہ میری ذمہ داری نہیں ہے کہ میں تمہیں کمرہ دکھاؤں وہاں جاؤ اور دیکھ لو‘‘ ابھی ڈاکٹر صاحب اور مذکورہ شخص مشت و گریبان ہونے والے ہی تھے کہ میں نے مذکورہ شخص کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا ’’اللہ خیر کرے گا‘‘اتنے میں چوکیدار ایک طرف سے نمودار ہوا اور اُسے ہاتھ سے پکڑ کر کہا ’’آؤ میں تمہیں فلاں کمرہ دکھا دوں کیا شور مچایا رکھا ہے ‘‘
ڈاکٹر صاحب انتہائی کنفیوز دکھائی دے رہے تھے یہاں تک کہ مریضوں سے بات چیت کرتے ہوئے اُن پر کپکپی طاری تھی اتنے میں ہم نے اُن کے چُپ کا روزہ تھوڑتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ہماری پرچی پر دوائی لکھی جا چکی ہے ہم کہاں جائیں تاکہ بروقت علاج ممکن ہو سکے اور واپس گھر کو لوٹ چلیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’وہاں چلے جاؤ تمہارا کام ہو جائے گا‘‘۔
جس جگہ ’’زوجہ محترمہ‘‘ کا معائنہ اور علاج ہونا تھا آخر کار ہم اُس منزل تک بمشکل ہی سہی لیکن پہنچ گئےوہ ایک بڑا سا ہال تھا جسے ایمرجنسی وارڈ کہا جاتا ہے۔ ایمر جنسی وارڈ کو درمیان میں مصنوعی آڑ کی مدد سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک حصے پر لکھا تھا ’’میل سیکشن‘‘ اور دوسرے حصے پر’’فی میل سیکشن‘‘ پہلے حصے میں مرد حضرات بستروں پر لیٹے ہوئے بیماری سے شفا یاب ہونے کا انتظار کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب مریض عورتیں گریہ و زاری میں مصروف نظر آرہی تھیں لیکن ابتدائی طور پر حیران کن اور اخلاق سوز بات یہ تھی کہ ’’میل سیکشن‘‘ میں بیمار مرد حضرات کی تیماری داری اور علاج میں نرسیں مصروف تھیں جبکہ ’’فی میل سیکشن‘‘ میں نا محرم اور جوان عورتوں کو ڈاکٹر صاحب پورا آستین اوپر کرنے کو کہتے اور اپنے ایک ہاتھ سے نا محرم کا بازو پکڑ کر ارشاد فرماتے ’’بہن یہ جگہ مضبوطی سے پکڑو‘‘ ’’بہن یہ جگہ مضبوطی سے پکڑو‘‘ کہاں کی بہن اور کیسی بہن بس اِس مقدس رشتے کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش ہے اور کچھ نہیں۔ ہم سے تو یہ سب رہا نہ گیا فوراً ’’ میل سیکشن‘‘ سے فی میل ڈاکٹر کو بلوا کر اپنی محترمہ کا علاج کرنے کو کہا ڈاکٹر نے پرچی دیکھی اور ہماری محترمہ سے کہا ’’ہاتھ آگے کریں انجکشن لگانی ہے‘‘
چار بار انجکشن لگانے کی ناکام کوشش کی گئی بعد ازاں دوسری لیڈی ڈاکٹر نے انجکشن تو لگوالیا لیکن سابقہ ڈاکٹرصاحبہ کی کارکردگی کو نظر انداز کرنا اتنا آسان نہ تھا اُن کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انجکشن لگوانے سے تکلیف ختم ہونے کی بجائے ابھی کچھ اور ہی خطرناک قسم کی تکلیف کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
بہر حال ہمارا قضیہ ختم ہوا ہم وہاں سے نکل ہی رہے تھے کہ اتنے میں ایک عورت جسے نہ جانے کیا تکلیف تھی انتہائی بے حال اور سہیلیوں کے کاندھوں پر دونوں ہاتھ ڈالے پیروں کو کش کش کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبہ تک پہنچی اور اپنی تکلیف بیان کی تو ڈاکٹر صاحبہ نے کہا ’’ابھی تو اس کا علاج نہیں ہو سکتا اس وقت پین ریلیف انجکشن لگوا کر گزارہ کر لیں باقاعدہ علاج کے لیے آپ مریض کو کل صبح کے وقت لے آئیں‘‘مریض کو بیماری کے ساتھ سمجھوتہ کر کے بہر حال ’’گزارہ‘‘ ہی کرنا پڑا۔ ہمارے نکلتے ہی جب ’’میل سیکشن‘‘ پر نظر پڑی تو وہاں ایک نوجوان شخص بستر پر پڑا دکھائی دیا تمام کے تمام ’’ہائی کوالیفائیڈ‘‘ ہاں جی ’’ہائی کوالیفائیڈ‘‘ میل اور فی میل سٹاف نوجوان کے ارد گرد جمع تھے اور اپنا اپنا تجربہ آزمانے کی کوشش کر رہے تھے یہاں تک کہ نوجوان اپنی زندگی کی آخری سانسیں پوری کر کے دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے اللہ میاں کے پاس جا پہنچا لیکن گھر پہنچنے تک میں خود کو ایک ہی بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مذکورہ شخص اپنی موت مرا ،مسیحاؤں کی نالائقی نے اُسے مار ڈالا ہے یا سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ کی بے حسی نے اُسے مرنے پر مجبور کیا جو ایسے نالائق، نا تجربہ کار اور اخلاقیات سے عاری لوگوں کو سفید گاؤن پہنا کر ’’مسیحا‘‘ کا ٹائٹل دے دیتے ہیں جو ’’مسیحائی‘‘ کے ماتھے پر بد نما داغ اور اِس معزز پیشے کو بدنام اور انسانیت جیسی عظیم ذمہ داری کو سرانجام دینے کے اہل نہیں ہوتے۔
محترم استاد جی ’’مولانا انور غازی صاحب‘‘ اپنی بیماری کا ایسا ہی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مرکزی ہسپتالوں کی کارکردگی پر حسن ظن یا بھروسہ کر کے اپنے قارئین کو وہاں جانے کا مشورہ اور ترغیب دیتے ہیں لیکن اگر مرکزی ہسپتالوں کی حالت کچھ یوں ہو جس کی تصویر آپ کے سامنے پیش کی گئی ایسے میں اگر اللہ نہ کرے استاد جی ’’مولانا انور غازی صاحب‘‘ بیمار پڑھ گئے تو ہم اُن کو کہاں لے جائیں گے یا ہم جیسے متوسط طبقے ،دیندار اور اپنی عزت پر مر مٹنے والے لوگ اگر جائیں تو کہاں جائیں۔کیا مسیحا ایسے ہوتے ہیں۔۔۔۔؟
چند روز پہلے تقریباً رات کے 03:00 بجے’’زوجہ محترمہ‘‘کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اُنہوں نے آہستہ سے میرے کان میں سرگوشی کی اور بولی ’’ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی‘‘ ہوش و حواس کو برقرار رکھتے ہوئے اس موقع پر مجھے ایک مخلص دوست ’’کتاب‘‘کا مشورہ یاد آیا ’’صحت پر کمپرومائز نہ کیجئے‘‘اِسے آپ حکم سمجھیں یا درخواست، نصیحت سمجھیں یا مشورہ ،ہمارے لیے انتہائی مفید اور قابل احترام ہے اور قابل احترام کیوں نہ ہو کہ اِس کی بنیاد تجربہ پر ہے اور تجربہ کبھی گمراہ کرتا ہے نہ جھوٹ بولتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’ہر بات حکیم صاحب سے نہ پوچھو تجربہ کرنے والے سے بھی پوچھ لیا کرو ‘‘ کسی مشورے یا نصیحت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب کوئی ہمدرد اور انتہائی حد تک خیر خواہ آپ کو مخاطب کر رہا ہوتا ہے۔جی ہاں ! میری مراد استاد جی ’’مولانا انور غازی صاحب‘‘ ہیں جو اپنے احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈال کر ہم تک منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کر چکے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ آپ ’’زندگی ایسے گزاریں‘‘ سیریز کی پہلی کتاب ’’خاندانی نظام ایسے بچائیں‘‘ میں ’’صحت پر کمپرومائز نہ کیجئے‘‘ کی بات اپنے ایک واقعے سے ہمیں سکھا گئے۔
مفید مشورے پر عمل کرتے ہوئے فوراً سائیڈ ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھائی دروازہ کھولا گھر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھا اور چابی گھمائی۔ مقامی ڈاکٹر کی بجائےمرکزی ہسپتال جانے کا ارادہ کیا ہسپتال پہنچ کر جلدی جلدی گاڑی کو پارک کر کے بھاگم بھاگ مریض کے لیے پرچی لینے ونڈو کے سامنے لائن میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا ۔باری آنے پر آپریٹر نے پرچی ہاتھ میں پکڑائی اور’’ کمرہ نمبر ۱۰‘‘ جانے کو کہا کچھ دیر اِدھر اُدھر کمرہ نمبر دس کی تلاش میں پھرتا رہا لیکن انگور بہر حال کٹھے تھے کیونکہ وہاں نہ تو کوئی کمرہ کھلا تھا تمام کے تمام کمرے بند تھے نہ کوئی ڈاکٹر موجود تھا اور نہ ہی کوئی انسٹرکٹر جو ہمیں راستہ بتا سکیں سوائے چند ایک لوگوں کے جو شاید اپنے اپنے مریض کی بیماری پرسی کرنے کے بعد زمین پر لیٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے ایسے میں اچانک ایک کمرے پر نظر پڑی جس میں تمام تر لائٹیں آن تھیں کمرے کے دروازے کے قریب گیا اور دستک دی اجازت ملنے کے بعد اندر داخل ہوا تو میز کے ساتھ دو کرسیوں پر نوجوان لیڈی ڈاکٹر جن کی عمریں محتاط اندازے کے مطابق پچیس سے اٹھائیس سال کے درمیان تھیں پر براجمان تھیں جبکہ سامنے والی کرسی پر محتاط اندازے کے مطابق تیس سال کی عمر کا ایک شخص یا ڈاکٹر لہلہاتا، مسکراتا، اور قہقہہ لگاتا ہوا دکھائی دیا تینوں آپس میں گپ شپ میں مصروف سرگوشیاں اور چہ میگوئیاں کر رہے تھے میں نے ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے مطلوبہ کمرہ کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے بغیر کوئی دقیقہ فروگزاشت کرتے ہوئے ہاتھ سے پرچی کھینچی اور ایک خاص انداز میں پوچھا ’’مریض کون ہے اُسے بلاؤ‘‘ڈاکٹر صاحب کی اندازِ گفتگو سے یوں محسوس ہونے لگا کہ شاید میں نے بہت بڑی غلطی کر دی جو یہاں اِن کی گپ شپ کے درمیان کباب کی ہڈی بن کر گھس آیا ہوں بہر حال مریض سے پوچھ گجھ کے بعد پرچے پر اپنے ڈاکٹری انداز میں کچھ لکیریں لگا کر یہ بتائے بغیر کہ ’’دس نمبر کمرہ‘‘ کہاں ہے کی طرف روانہ کر دیا میں بھی کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر وہاں سے روانہ ہو کر راستے میں دو تین بار پوچھنے کے بعد مطلوبہ جگہ یعنی ’’کمرہ نمبر دس‘‘پہنچنے میں کامیاب ہو گیا لیکن وہاں بھی معاملہ کچھ اور ہی تھا ڈاکٹر صاحب اور دوسرے مریض کے سرپرست کے درمیان ایک بحث شروع تھی جبکہ وہاں ہمارے سمیت ہم جیسے بے شمار مریض خصوصاً مستورات اپنے نمبر کا انتظار کر رہی تھیں تاکہ اِنکا بروقت علاج ممکن ہو سکے اور اُن کو جلدی رُخصت کیا جا سکے ۔مریض کے سرپرست کی زبان پر بار بار ایک ہی جملہ تھا کہ’’آپ سے میں نے پوچھا کہ فلاں کمرہ کہاں ہے آپ نے مجھے فلاں فلاں راستے پر جانے کو کہا میں دو تین مرتبہ اس راستے پر چلا لیکن وہاں مطلوبہ کمرے کا نام و نشان تک نہیں ہے آپ نے مجھے غلط راستہ کیوں بتایا‘‘ اپنے ارد گرد مریضوں کی بھیڑ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب پر سکتہ جاری ہو گیا تھا لیکن اتنے لوگوں کے سامنے اپنی عزت کی دھجیاں اڑتے ہوئے دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے ہونٹ ہلانے کی زحمت کی اور ارشاد فرمایا ’’مجھے نہیں پتہ یہ میری ذمہ داری نہیں ہے کہ میں تمہیں کمرہ دکھاؤں وہاں جاؤ اور دیکھ لو‘‘ ابھی ڈاکٹر صاحب اور مذکورہ شخص مشت و گریبان ہونے والے ہی تھے کہ میں نے مذکورہ شخص کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا ’’اللہ خیر کرے گا‘‘اتنے میں چوکیدار ایک طرف سے نمودار ہوا اور اُسے ہاتھ سے پکڑ کر کہا ’’آؤ میں تمہیں فلاں کمرہ دکھا دوں کیا شور مچایا رکھا ہے ‘‘
ڈاکٹر صاحب انتہائی کنفیوز دکھائی دے رہے تھے یہاں تک کہ مریضوں سے بات چیت کرتے ہوئے اُن پر کپکپی طاری تھی اتنے میں ہم نے اُن کے چُپ کا روزہ تھوڑتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ہماری پرچی پر دوائی لکھی جا چکی ہے ہم کہاں جائیں تاکہ بروقت علاج ممکن ہو سکے اور واپس گھر کو لوٹ چلیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’وہاں چلے جاؤ تمہارا کام ہو جائے گا‘‘۔
جس جگہ ’’زوجہ محترمہ‘‘ کا معائنہ اور علاج ہونا تھا آخر کار ہم اُس منزل تک بمشکل ہی سہی لیکن پہنچ گئےوہ ایک بڑا سا ہال تھا جسے ایمرجنسی وارڈ کہا جاتا ہے۔ ایمر جنسی وارڈ کو درمیان میں مصنوعی آڑ کی مدد سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک حصے پر لکھا تھا ’’میل سیکشن‘‘ اور دوسرے حصے پر’’فی میل سیکشن‘‘ پہلے حصے میں مرد حضرات بستروں پر لیٹے ہوئے بیماری سے شفا یاب ہونے کا انتظار کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب مریض عورتیں گریہ و زاری میں مصروف نظر آرہی تھیں لیکن ابتدائی طور پر حیران کن اور اخلاق سوز بات یہ تھی کہ ’’میل سیکشن‘‘ میں بیمار مرد حضرات کی تیماری داری اور علاج میں نرسیں مصروف تھیں جبکہ ’’فی میل سیکشن‘‘ میں نا محرم اور جوان عورتوں کو ڈاکٹر صاحب پورا آستین اوپر کرنے کو کہتے اور اپنے ایک ہاتھ سے نا محرم کا بازو پکڑ کر ارشاد فرماتے ’’بہن یہ جگہ مضبوطی سے پکڑو‘‘ ’’بہن یہ جگہ مضبوطی سے پکڑو‘‘ کہاں کی بہن اور کیسی بہن بس اِس مقدس رشتے کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش ہے اور کچھ نہیں۔ ہم سے تو یہ سب رہا نہ گیا فوراً ’’ میل سیکشن‘‘ سے فی میل ڈاکٹر کو بلوا کر اپنی محترمہ کا علاج کرنے کو کہا ڈاکٹر نے پرچی دیکھی اور ہماری محترمہ سے کہا ’’ہاتھ آگے کریں انجکشن لگانی ہے‘‘
چار بار انجکشن لگانے کی ناکام کوشش کی گئی بعد ازاں دوسری لیڈی ڈاکٹر نے انجکشن تو لگوالیا لیکن سابقہ ڈاکٹرصاحبہ کی کارکردگی کو نظر انداز کرنا اتنا آسان نہ تھا اُن کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انجکشن لگوانے سے تکلیف ختم ہونے کی بجائے ابھی کچھ اور ہی خطرناک قسم کی تکلیف کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
بہر حال ہمارا قضیہ ختم ہوا ہم وہاں سے نکل ہی رہے تھے کہ اتنے میں ایک عورت جسے نہ جانے کیا تکلیف تھی انتہائی بے حال اور سہیلیوں کے کاندھوں پر دونوں ہاتھ ڈالے پیروں کو کش کش کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبہ تک پہنچی اور اپنی تکلیف بیان کی تو ڈاکٹر صاحبہ نے کہا ’’ابھی تو اس کا علاج نہیں ہو سکتا اس وقت پین ریلیف انجکشن لگوا کر گزارہ کر لیں باقاعدہ علاج کے لیے آپ مریض کو کل صبح کے وقت لے آئیں‘‘مریض کو بیماری کے ساتھ سمجھوتہ کر کے بہر حال ’’گزارہ‘‘ ہی کرنا پڑا۔ ہمارے نکلتے ہی جب ’’میل سیکشن‘‘ پر نظر پڑی تو وہاں ایک نوجوان شخص بستر پر پڑا دکھائی دیا تمام کے تمام ’’ہائی کوالیفائیڈ‘‘ ہاں جی ’’ہائی کوالیفائیڈ‘‘ میل اور فی میل سٹاف نوجوان کے ارد گرد جمع تھے اور اپنا اپنا تجربہ آزمانے کی کوشش کر رہے تھے یہاں تک کہ نوجوان اپنی زندگی کی آخری سانسیں پوری کر کے دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے اللہ میاں کے پاس جا پہنچا لیکن گھر پہنچنے تک میں خود کو ایک ہی بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مذکورہ شخص اپنی موت مرا ،مسیحاؤں کی نالائقی نے اُسے مار ڈالا ہے یا سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ کی بے حسی نے اُسے مرنے پر مجبور کیا جو ایسے نالائق، نا تجربہ کار اور اخلاقیات سے عاری لوگوں کو سفید گاؤن پہنا کر ’’مسیحا‘‘ کا ٹائٹل دے دیتے ہیں جو ’’مسیحائی‘‘ کے ماتھے پر بد نما داغ اور اِس معزز پیشے کو بدنام اور انسانیت جیسی عظیم ذمہ داری کو سرانجام دینے کے اہل نہیں ہوتے۔
محترم استاد جی ’’مولانا انور غازی صاحب‘‘ اپنی بیماری کا ایسا ہی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مرکزی ہسپتالوں کی کارکردگی پر حسن ظن یا بھروسہ کر کے اپنے قارئین کو وہاں جانے کا مشورہ اور ترغیب دیتے ہیں لیکن اگر مرکزی ہسپتالوں کی حالت کچھ یوں ہو جس کی تصویر آپ کے سامنے پیش کی گئی ایسے میں اگر اللہ نہ کرے استاد جی ’’مولانا انور غازی صاحب‘‘ بیمار پڑھ گئے تو ہم اُن کو کہاں لے جائیں گے یا ہم جیسے متوسط طبقے ،دیندار اور اپنی عزت پر مر مٹنے والے لوگ اگر جائیں تو کہاں جائیں۔کیا مسیحا ایسے ہوتے ہیں۔۔۔۔؟