عارف بھائی شکریہ اتنی اچھی تقریر شئیر کرنے کا، مگر اس کا عنوان آپ نے تھوڑا غلط رکھا ہے۔ معاشرے کو چلانے کے لیے حکمران تو بلا شبہ ضروری ہیں مگر وہ جن میں فاروق اعظم سلام اللہ علیہ کے کردار کی جھلک ہو، تبھی جا کر کسی ہاری کی بیٹی کی عزت محفوظ رہ سکتی ہے۔
شکریہ۔ آپکا یہ تبصرہ خوب ہے۔ لیکن ظفری بھائی کے جمہوری نظام میںاس کی کوئی حیثیت نہیںکیونکہ "اکثریت" انکے ساتھ ہے!
باقی جہاں تک عنوان کا سوال ہے تو وہ میں نے گزشتہ وموجودہ زمانہ کے بہترین حکمرانوں کے قتال کو دیکھتے ہوئے کیا تھا۔ اصل میں چکر یہ ہوتا ہے کہ ہر حکمران یا تو برا ہوتا ہے یا اچھا۔ جو برا ہوتا ہے جیسے چنگیز، ہٹلر، اسٹالین؛ یہ سب مرنے سے پہلے اپنے ساتھ ہزاروں، کروڑوں بے گناہوں کو مار کر مرتے ہیں۔ اور جو اچھے حکمران ہوتے ہیںجیسے: حضرت عمر فاروقؓ، گاندھی، صدر کینیڈی ؛ ان سب کو دشمن مار دیتے ہیں۔
اس لحاظ سے میرا عنوان بالکل درست ہے کہ انسانی معاشرہ کسی حاکم کے زیر سایہ زیادہ عرصہ چل ہی نہیںسکتا جبتک اسمیں پراپیگنڈا کی آمیزش نہ ہو۔ جبتک پراپیگنڈا جا ری رہے، اثر کرتا رہے، حاکم حکومت میںرہتا ہے۔ اسی وباء سے بچنے کیلئے مغرب نے اپنا چار سالہ جمہوری نظام متعارف کروایا تاکہ بھولے بھالے لوگ یہی سمجھیںکہ حکمران ’’انکے‘‘ ووٹ سے ۴ سالوں کیلئے منتخب ہوتے ہیں، اور ۴ سالوں بعد بالکل اسی قسم کے اور لوگ ان پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ مطلب ایجنڈا ایک ہی ہے اور چہرے بدل جاتے ہیں۔ جبکہ پرانے وقتوں میں حکمران کے خاتمے کیساتھ ہی ایجنڈا بھی بدل جاتا تھا۔ جو کہ اب نہیں ہے۔ کیسا؟