سید اسد محمود
محفلین
کیا نواز شریف فوج کے سامنے ڈٹ جائیں گے؟
لنک
پاکستان کی فوج کتنی طاقتور اس کا اندازہ نواز شریف سے بہتر کون لگا سکتا ہے۔ انیس سو ننانونے میں فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ لیکن سوال اب یہ ہے کہ نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد درحقیقت ملک کو کون چلائے گا۔
پاکستان میں ان دنوں سیاسی بحث میں سب سے زیادہ بات اس پر کی جا رہی ہے کہ کیا نواز شریف نے ماضی سے سبق سیکھا ہے؟
نوے کی دہائی میں نواز شریف نے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد فوج کے ایک سربراہ کو ان کے عہدے سے برطرف کیا۔ دوسرے فوجی سربراہ کو وہ برطرف کرنے ہی والے تھے کہ فوج نے اُن کی حکومت کا ت۔ختہ الٹ دیا اور نواز شریف کو سعودی عرب میں جلاوطنی کاٹنا پڑی۔
نواز شریف پاکستان کے پرانے حریف بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ انہیں دنوں فوج نے بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں کارگل آپریشن شروع کر دیا۔
نواز شریف کا موقف ہے کہ فوج نے کارگل آپریشن اُن کی اجازت کے بغیر شروع کیا تھا۔
مئی دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں نواز شریف بہتر اکثریت کے ساتھ اقتدار میں دوبارہ آ رہے ہیں لیکن اس بار انہیں بھارت سے تعلقات میں بہتری کے علاوہ اور بھی بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا۔
عسکری اُمور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ نواز شریف کے لیے تھوڑا وقت قدرے آسان ہے۔ ’جنرل کیانی اگلے چھ ماہ میں ریٹائر ہونے والے ہیں اور فوج کے نئے سربراہ کو عہدہ سنھبالنے کے بعد کچھ ماہ درکار ہوں گے۔‘
نواز شریف کے لیے سب سے اہم چیلنج گرتی ہوئی معشیت کو دوبارہ کھڑا کرنا ہے لیکن معشیت کی بحالی کے لیے ملک کے جغرافیائی حکمت کے ذریعے فضا سازگار کرنا ہو گی۔
ملک کی معاشی ترقی امن و امان کے قیام کے بغیر ناممکن ہے اور ملک کا امن و امان کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے تباہ کر رکھا ہے۔ ملک میں امن و امان کے لیے کی جانے والی کوششوں اور شدت پسندوں کے خلاف لڑائی کے موثر نتائج نہ نکلنے پر نواز شریف نے کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔
وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کے سیکریٹیریٹ کے سابق سیکرٹری بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی مذاکرات ناکام رہے ہیں اور ان کو پورا یقین ہے کہ میاں نواز شریف کو اس بات کا جلد ہی علم ہو جائے گا۔
’فوج جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنا چاہتی ہے اور فوج کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے۔ فوج صرف یہ چاہتی ہے اس کو سیاسی حمایت حاصل ہو۔‘
اگر یہ درست ہے تو کیا یہ نئی تبدیلی ہے؟
دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے ’نواز شریف کی طرح فوج بھی کنفیوژڈ ہے۔ وہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف تو سیاسی پابندیاں چاہتے ہیں لیکن وہ تمام عسکری گروہوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ وہ اب بھی یہ سوچتے ہیں کہ 2014 میں امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں ان کی ضرورت پڑے گی۔‘
بھارت کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری نواز شریف اور فوج کے تعلقات کا ایک اور امتحان ہو گی۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ اقتصادی تعاون قلیل مدت میں پاکستانی معشیت کو سنھبالہ دے سکتا ہے۔
پاکستانی فوج بھارت کو اپنا دشمن تصور کرتی ہے اور دونوں ملکوں کی تاریخ میں تین جنگیں ہوئیں، کارگل آپریشن ہوا ہے اور پندرہ برس تک پاکستانی فوج کشمیر کی لڑائی میں بلواسطہ طور پر ملوث رہی ہے۔
گزشتہ برسوں میں سیاست دانوں کی جانب سے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں نے فوج نے مخالفت کی ہے۔ لیکن ملک کے کئی حلقوں کے خیال میں اب ایسا نہیں ہو گا۔
دفاعی تخریہ کار طلعت مسعود کہتے ہیں ’مجھے یقین ہے کہ فوج سوچتی ہے کہ بھارت اب بدل چکا ہے وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین لڑائی کی وجہ مسئلہِ کشمیر اب جلد حل ہونے والا نہیں ہے۔ اس لیے بھارت کے ساتھ محاذ آرائی سے معشیت کو نقصان پہنچے گا ، بھارت اور مغرب سے ہونے والا فائدہ بھی نہیں مل سکے گا۔‘
مغربی طاقتیں خاص کر امریکہ جو پاکستان کو امداد دیتا ہے وہ بھی چاہتا ہے کہ جوہری طاقت سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات بہتر ہو سکیں۔
"مجھے یقین ہے کہ فوج سوچتی ہے کہ بھارت اب بدل چکا ہے وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین لڑائی کی وجہ مسئلہِ کشمیر اب جلد حل ہونے والا نہیں ہے۔ اس لیے بھارت کے ساتھ محاذ آرائی سے معشیت کو نقصان پہنچے گا ، بھارت اور مغرب سے ہونے والا فائدہ بھی نہیں مل سکے گا۔"
طلعت مسعود
لیکن اگر پاکستان افغانستان اور بھارت میں شدت پسندوں کو مستقل تعاون فراہم کرتا رہا تو بھارت پاکستان کو اپنے لیے خطرہ تصور کرے گا۔ بھارت نے دو ہزار آٹھ میں ممبئی حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی تیز کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
تحزیہ کاروں کے خیال میں ممبئی حملوں کی تحقیقات میں بھارت کے ساتھ تعاون پاکستانی فوج اور اُس کے ساتھیوں کو پسند نہیں ہے۔
نواز شریف کے لیے راستہ کافی کٹھن ہے لیکن وہ فوج پر تھوڑا سا بھی دباؤں ڈال سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کر پائے تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ فوجی قیادت کے خیال میں پاکستان کی سفارتی طور پر تنہائی کا شکار ہے اور معاشی صورتحال بھی ابتر ہے اسی وجہ سے فوج اب حکومت کا تختہ اُلٹنے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔
بعض ماہرین کے خیال میں انھوں نے اس سلسلے میں کام شروع کر دیا ہے۔ اپنے حالیہ بیان میں نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ کارگل کے واقعے کی تحقیقات کروائیں گے۔ نواز شریف اس واقعے کا ذمہ دار سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف اور فوج کے دیگر جنرلز کو ٹھہراتے ہیں۔
پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکوت کو ختم کیا اور اس وقت وہ بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی پر نظربند ہیں۔
بے نظیر بھٹو دو ہزار سات میں دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بنیں۔
فوج کے جنرل کے خلاف کاروائی اور کارگل آپریشن کے خلاف کاروائی جیسے واقعات فوج کے لیے خطرناک مثالیں ہو سکتی ہیں۔ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف ایسے ملک کی خارجہ پالیسی پر اختیار حاصل کرنے کے لیے دھمکی کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی فوج ہی مرتب کرتی ہے۔
لنک
پاکستان کی فوج کتنی طاقتور اس کا اندازہ نواز شریف سے بہتر کون لگا سکتا ہے۔ انیس سو ننانونے میں فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ لیکن سوال اب یہ ہے کہ نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد درحقیقت ملک کو کون چلائے گا۔
پاکستان میں ان دنوں سیاسی بحث میں سب سے زیادہ بات اس پر کی جا رہی ہے کہ کیا نواز شریف نے ماضی سے سبق سیکھا ہے؟
نوے کی دہائی میں نواز شریف نے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد فوج کے ایک سربراہ کو ان کے عہدے سے برطرف کیا۔ دوسرے فوجی سربراہ کو وہ برطرف کرنے ہی والے تھے کہ فوج نے اُن کی حکومت کا ت۔ختہ الٹ دیا اور نواز شریف کو سعودی عرب میں جلاوطنی کاٹنا پڑی۔
نواز شریف پاکستان کے پرانے حریف بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ انہیں دنوں فوج نے بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں کارگل آپریشن شروع کر دیا۔
نواز شریف کا موقف ہے کہ فوج نے کارگل آپریشن اُن کی اجازت کے بغیر شروع کیا تھا۔
مئی دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں نواز شریف بہتر اکثریت کے ساتھ اقتدار میں دوبارہ آ رہے ہیں لیکن اس بار انہیں بھارت سے تعلقات میں بہتری کے علاوہ اور بھی بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا۔
عسکری اُمور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ نواز شریف کے لیے تھوڑا وقت قدرے آسان ہے۔ ’جنرل کیانی اگلے چھ ماہ میں ریٹائر ہونے والے ہیں اور فوج کے نئے سربراہ کو عہدہ سنھبالنے کے بعد کچھ ماہ درکار ہوں گے۔‘
نواز شریف کے لیے سب سے اہم چیلنج گرتی ہوئی معشیت کو دوبارہ کھڑا کرنا ہے لیکن معشیت کی بحالی کے لیے ملک کے جغرافیائی حکمت کے ذریعے فضا سازگار کرنا ہو گی۔
ملک کی معاشی ترقی امن و امان کے قیام کے بغیر ناممکن ہے اور ملک کا امن و امان کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے تباہ کر رکھا ہے۔ ملک میں امن و امان کے لیے کی جانے والی کوششوں اور شدت پسندوں کے خلاف لڑائی کے موثر نتائج نہ نکلنے پر نواز شریف نے کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔
وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کے سیکریٹیریٹ کے سابق سیکرٹری بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی مذاکرات ناکام رہے ہیں اور ان کو پورا یقین ہے کہ میاں نواز شریف کو اس بات کا جلد ہی علم ہو جائے گا۔
’فوج جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنا چاہتی ہے اور فوج کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے۔ فوج صرف یہ چاہتی ہے اس کو سیاسی حمایت حاصل ہو۔‘
اگر یہ درست ہے تو کیا یہ نئی تبدیلی ہے؟
دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے ’نواز شریف کی طرح فوج بھی کنفیوژڈ ہے۔ وہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف تو سیاسی پابندیاں چاہتے ہیں لیکن وہ تمام عسکری گروہوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ وہ اب بھی یہ سوچتے ہیں کہ 2014 میں امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں ان کی ضرورت پڑے گی۔‘
بھارت کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری نواز شریف اور فوج کے تعلقات کا ایک اور امتحان ہو گی۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ اقتصادی تعاون قلیل مدت میں پاکستانی معشیت کو سنھبالہ دے سکتا ہے۔
پاکستانی فوج بھارت کو اپنا دشمن تصور کرتی ہے اور دونوں ملکوں کی تاریخ میں تین جنگیں ہوئیں، کارگل آپریشن ہوا ہے اور پندرہ برس تک پاکستانی فوج کشمیر کی لڑائی میں بلواسطہ طور پر ملوث رہی ہے۔
گزشتہ برسوں میں سیاست دانوں کی جانب سے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں نے فوج نے مخالفت کی ہے۔ لیکن ملک کے کئی حلقوں کے خیال میں اب ایسا نہیں ہو گا۔
دفاعی تخریہ کار طلعت مسعود کہتے ہیں ’مجھے یقین ہے کہ فوج سوچتی ہے کہ بھارت اب بدل چکا ہے وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین لڑائی کی وجہ مسئلہِ کشمیر اب جلد حل ہونے والا نہیں ہے۔ اس لیے بھارت کے ساتھ محاذ آرائی سے معشیت کو نقصان پہنچے گا ، بھارت اور مغرب سے ہونے والا فائدہ بھی نہیں مل سکے گا۔‘
مغربی طاقتیں خاص کر امریکہ جو پاکستان کو امداد دیتا ہے وہ بھی چاہتا ہے کہ جوہری طاقت سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات بہتر ہو سکیں۔
"مجھے یقین ہے کہ فوج سوچتی ہے کہ بھارت اب بدل چکا ہے وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین لڑائی کی وجہ مسئلہِ کشمیر اب جلد حل ہونے والا نہیں ہے۔ اس لیے بھارت کے ساتھ محاذ آرائی سے معشیت کو نقصان پہنچے گا ، بھارت اور مغرب سے ہونے والا فائدہ بھی نہیں مل سکے گا۔"
طلعت مسعود
لیکن اگر پاکستان افغانستان اور بھارت میں شدت پسندوں کو مستقل تعاون فراہم کرتا رہا تو بھارت پاکستان کو اپنے لیے خطرہ تصور کرے گا۔ بھارت نے دو ہزار آٹھ میں ممبئی حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی تیز کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
تحزیہ کاروں کے خیال میں ممبئی حملوں کی تحقیقات میں بھارت کے ساتھ تعاون پاکستانی فوج اور اُس کے ساتھیوں کو پسند نہیں ہے۔
نواز شریف کے لیے راستہ کافی کٹھن ہے لیکن وہ فوج پر تھوڑا سا بھی دباؤں ڈال سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کر پائے تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ فوجی قیادت کے خیال میں پاکستان کی سفارتی طور پر تنہائی کا شکار ہے اور معاشی صورتحال بھی ابتر ہے اسی وجہ سے فوج اب حکومت کا تختہ اُلٹنے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔
بعض ماہرین کے خیال میں انھوں نے اس سلسلے میں کام شروع کر دیا ہے۔ اپنے حالیہ بیان میں نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ کارگل کے واقعے کی تحقیقات کروائیں گے۔ نواز شریف اس واقعے کا ذمہ دار سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف اور فوج کے دیگر جنرلز کو ٹھہراتے ہیں۔
پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکوت کو ختم کیا اور اس وقت وہ بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی پر نظربند ہیں۔
بے نظیر بھٹو دو ہزار سات میں دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بنیں۔
فوج کے جنرل کے خلاف کاروائی اور کارگل آپریشن کے خلاف کاروائی جیسے واقعات فوج کے لیے خطرناک مثالیں ہو سکتی ہیں۔ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف ایسے ملک کی خارجہ پالیسی پر اختیار حاصل کرنے کے لیے دھمکی کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی فوج ہی مرتب کرتی ہے۔