نوید صادق
محفلین
مملکت اے مملکت--- محمود شام
اللہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت دے۔ خالق حقیقی جب نوازنے پر آتے ہیں تو مہربانی اور کرم کی کوئی حد نہیں رہتی۔ وہی مسند، جو قائداعظم کا نصیب تھی، ذوالفقار علی بھٹو کا بخت تھی، اب ملک کا وہی اعلیٰ ترین منصب باضابطہ الیکشن کے ذریعے، آئین کی روح کے مطابق جناب آصف علی زرداری کا مقدر بن گیا ہے۔ ہر طرف مبارک سلامت کا شور ہے۔ اس چوٹی پر پہنچنے کے بعد وہ اپنے آپ کو تنہا بھی محسوس کر رہے ہوں گے۔ اب وہ اپنے قریبی لوگوں سے بہت دور چلے جائیں گے۔ وہ زیادہ تر ملٹری سیکرٹری، ڈپٹی ملٹری سیکرٹری تینوں، اے ڈی سی اور پرنسپل سیکرٹری کے چہرے ہی دیکھیں گے۔ اہل خانہ اور قریبی دوستوں سے بھی ملاقاتیں اسی تواتر سے نہیں ہو سکیں گی۔ ان کے سامنے 5 سال کا ایک طویل عرصہ ہے، لیکن ملک کو جن مسائل اور پیچیدگیوں کا سامنا ہے، وہ گزشتہ 60 سال سے الجھتے آ رہے ہیں، ممکن نہیں لگتا کہ یہ 5 سال میں سلجھائے جا سکیں گے۔ ماضی میں بڑی بڑی قد آور شخصیتیں اہم ترین عہدوں پر فائز رہ کر اور انتہائی قابل اہل ساتھیوں کے باوجود ان مسائل کو حل کیے بغیر ہی آنے والوں کے لیے ورثے میں چھوڑ گئیں۔ یہ تمام مشکلات اور ان میں گھرے ہوئے 18 کروڑ عوام اب آصف زرداری صاحب کی طرف دیکھ رہے ہیں، جو اب ملک کے سربراہ بھی ہیں اور حکمراں پارٹی کے بھی۔ آج سب سے سنگین چیلنج دہشت گردی اور بگڑتی ہوئی معیشت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یقیناً انہیں یہ عزت یہ وقار اور اختیار اسی لیے دیا ہوگا کہ وہ لاکھوں انسانی قربانیوں سے حاصل کیے گئے پاکستان کو بحرانوں سے نکال کر عوام کو ایک بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کر سکیں۔ انہوں نے پاکستان کی مختلف جیلوں میں بہت سے خواب دیکھے۔ اب انہیں حقیقت میں بدلنے کا وقت ہے۔ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اب تک وہ بندوں کی گنتی پر اپنی پوری کامیاب منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ بی بی کی شہادت سے لے کر آج تک ہر دن ان کی سیاسی فراست کا شاہد ہے۔ لیکن صدر مملکت بننے کے بعد اب انہیں بندوں کو تولنا ہو گا، جس طرح الیکشن تک لوگ انہیں تول رہے تھے، کسی بھی تقرری، کسی بھی فیصلے سے پہلے انہیں بہت کچھ تولنا ہوگا۔ سب سے پہلی حاضری بانیٴ پاکستان بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ پر ہونی چاہئے کہ یہ مملکت انہی کی قیادت میں ایک طویل جدوجہد سے حاصل ہوئی تھی۔ پھر لاڑکانہ شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بے نظیر بھٹو کی قبروں پر۔ کہ یہ صدارت انہی کی قیادت اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ مملکت کے سربراہ کو کسی بھی سیاسی جانبداری اور جماعتی وابستگی سے بالاتر ہونا چاہئے۔ اسے ہر پاکستانی کا صدر ہونا چاہئے۔ چاہے وہ کسی صوبے کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ پارٹی سے استعفیٰ یقیناً بہت مشکل ہو گا۔ جس ادارے سے اتنی طویل وابستگی ہو، اس سے قطع تعلق خواہ کتنا ہی عارضی ہو، ہمت کا تقاضا کرتا ہے، مگر یہ قربانی بھی جمہوری جدوجہد کا حصہ ہے۔ پارٹی کی قیادت کسی اور اپنے جیسی فعال شخصیت کے سپرد کر دیں۔ اب اس کی پوری تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ سارے سرگرم رہنما اب سرکاری عہدوں پر فائز ہوگئے ہیں۔ اس لیے اب جماعتی عہدے نئے لوگوں کو سونپے جائیں جو آئندہ سرکاری ذمہ داریوں کے لیے تیار ہو سکیں۔ ایک الوداعی میٹنگ اپنی پارٹی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے کریں۔ ان سے رہنمائی بھی حاصل کریں۔ پھر ایک سیر حاصل مشاورت وزیراعظم سے، انہیں ملکی امور چلانے کے لیے رہنما خطوط بتائے جائیں۔ یہ رابطہ تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہئے تاکہ مملکت اور حکومت کے سربراہوں کے درمیان ہم آہنگی رہے۔ صدر سب کا صدر ہے۔ اس لیے اس سے ہر پاکستانی فرد، ادارے اور سیاسی جماعت کو ملاقات کا موقع ملنا چاہئے۔ انہیں ہر ایک کی بات سننی چاہئے۔ یہ آصف زرداری صاحب کے لیے یقیناً دشوار بھی ہو گا، غیر فطری بھی کہ وہ سب کی قابل قبول شخصیت بنیں، لیکن عہدئہ صدارت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس خطرناک پل کو عبور کریں۔ وہ اب تک جس طرح تمام مرحلوں سے کامیابی سے گزرتے آ رہے ہیں، اپنے آپ پر جبر کرکے انہیں ایسی شخصیت بن کر دکھانا ہوگا کہ پورا ملک انہیں اپنا سمجھے اور ایک ایسی شخصیت جس کے پاس وہ آخر میں جائیں اور ان کا مسئلہ حل ہو جائے۔ یہ اعزاز بھی پی پی پی کے صدر کو حاصل ہو کہ ساری سیاسی جماعتیں، عدلیہ، میڈیا، علماء اور معاشرے کا ہر طبقہ اس پر اعتماد کرے۔ وہ کسی کے نزدیک متنازع نہ ہو، کسی بھی مشورے، شکایت کے لیے ہفتے میں ایسا دن اور دن میں ایسے اوقات طے ہوں، جب عام ملاقات ہو سکے۔ حالات مطالبہ کر رہے ہیں، تاریخ کا یہ تقاضا ہے کہ اب ملک میں محاذ آرائی ختم ہو، تنازعات طے ہوں، فرد، معاشرہ، صوبے، علاقے کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت سے باہر آئیں اور منصب صدارت پر فائز شخصیت کا کردار، شفقت، مفاہمت، محبت، الفت کا مظہر ہونا چاہئے۔
علم آج کے دور کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ صاحبان علم اس ملک کا گہرا درد رکھتے ہیں۔ وہ قوم کو درپیش انتہائی پیچیدہ، حساس اور سنگین مسائل پر دن رات پیچ و تاب میں مبتلا بھی رہتے ہیں۔ اپنے علم اور تحقیق کی بنا پر ان کے پاس کچھ حکمت عملی بھی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوکہ صدر مملکت ملک بھر کی تمام سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو ایوان صدر میں مدعو کریں کہ وہ درد دل، سوز جگر سے لیس ہو کر آئیں۔ ان اہل فضل سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنی درسگاہوں میں پڑھائے جانے والے جدید اور قدیم علوم کی روشنی میں رہنمائی کریں کہ عوام کو پریشان کرتے مسائل کا حل کیسے تلاش کیا جائے۔ وہ ایسی سفارشات مرتب کریں جس سے مقامی سطح سے قومی تک تبدیلی کی ایک لہر برپا کی جا سکے۔
حکومت پالیسیوں کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ بیان دیتی رہتی ہے، لیکن یہ جائزہ نہیں لیا جاتا کہ ان کے ثمرات نچلی سطح تک پہنچ رہے ہیں یا نہیں۔ غیر سرکاری سطح پر ہر ضلع میں دانشوروں، ماہرین معیشت، تاجروں، صنعتکاروں، علماء ، ریٹائرڈ فوجیوں، اساتذہ پر مشتمل ایسی کمیٹیاں قائم ہوں، جو مسلسل مانیٹرنگ کریں کہ حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد پوری طرح ہو رہا ہے یا نہیں۔ کیا یہ اقدامات عوام کو واقعی ریلیف دے رہے ہیں۔ کیا ان میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ان کی سفارشات ماہانہ یا سہ ماہی تواتر سے مرتب کی جانی چاہئیں۔ پھر قومی سطح پر سالانہ جامع جائزے کے لیے دو تین روزہ سیمینار منعقد کیے جانے چاہئیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں عوام کے منتخب ارکان اپنی سیاسی بصیرت اور تدبر سے ملکی معاملات کی الجھی زلفیں سنواریں گے تو دوسری طرف قوم کے بہترین دماغ، اپنی دانش، اپنی استعداد سے اس سرزمین پر منڈلاتی سیاہیاں مٹانے کے لیے اپنا وقت مختص کریں۔ اس کے لیے پرائیویٹ سیکٹر، کارپوریٹ سیکٹر، دانشوروں، تجزیہ کاروں، ٹیکنو کریٹس کی مشاورتی کمیٹیاں ہر سطح پر قائم کی جائیں۔ اسی طرح کی ایک کمیٹی قومی سطح پر صدر کی مشاورت کے لیے تشکیل دی جائے۔ وزیراعظم ایک طرف پورے منتخب ڈھانچے کو متحرک رکھیں۔ دوسری طرف صدر پارلیمنٹ سے باہر اہل درد کو سرگرم رکھیں۔ پھر سپریم کمانڈر کی حیثیت سے فوج کی بہترین صلاحیتوں کو بھی ملکی امور کے لیے استعمال کیا جائے، فوج کا اپنا ایک نظام ہے۔ وہاں ماضی کے اقدامات، مستقبل کے امکانات کی غیر جانبدارانہ تحقیق کی جاتی ہے۔ تجزیہ کیا جاتا ہے۔ نیشنل ڈیفنس کالج میں قابل قدر تحقیقی مقالات پیش کیے جاتے ہیں۔ ان سب سے استفادے کے لیے صدر پاکستان باقاعدہ کوئی نظم و ضبط طے کر سکتے ہیں۔ اس طرح عسکری اور سیاسی حلقوں کی سوچ ایک دوسرے کے نزدیک آ سکتی ہے۔ اس فکر میں تصادم اور محاذ آرائی کے امکانات بتدریج ختم ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں بے شمار المیے، تنازعات، واقعات ایسے ہیں جن کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، کردار کشی کی جاتی رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جب سویلین ایوان صدر میں بھی ہیں، ایوان وزیراعظم میں بھی، ملک میں آئین کے مطابق پورا ڈھانچہ قائم ہو گیا ہے تو گزشتہ تمام متنازع امور کو بھی حقائق کی روشنی میں طے کیا جائے۔ اس کا ایک راستہ یہ ہے کہ صدر مملکت ایک ” سچائی کمیشن “ قائم کریں، جس میں صرف اور صرف مسلّمہ طور پر غیر جانبدار شخصیتیں ہوں۔
سابق جج، ماہرین قانون، دانشور مختلف سابقہ ادوار کی غلطیوں، کوتاہیوں، خطاؤں پر تحقیق کر کے اصل ذمہ داروں کا تعین کر کے حقائق عوام کے سامنے لائیں۔
صوبوں میں ایک دوسرے سے شکایتیں ہیں، وفاق سے شکوے ہیں، صدر وفاق کی علامت ہے، آئین کا استعارہ ہے۔ کسی بھی صوبے کا وفاقی حکومت سے کوئی تنازع ہو، تو اسے یہ اعتماد ہو کہ وہ صدر مملکت کے پاس فریاد لے کر جائیں گے، تو انصاف ملے گا۔ صوبوں میں محرومیاں، بے چینیاں جس شدت کو پہنچی ہوئی ہیں، ان کا تقاضا یہ ہے کہ صدر مملکت، ایک مشفق باپ مگر سخت گیر ایڈمنسٹریٹر کی طرح کارروائی کریں۔ سرسبز اسلام آباد سے نکل کر بنجر، خشک صوبوں میں جا کر بیٹھیں، درد بانٹیں، دلوں میں جھانکیں، سب سے پہلے بلوچستان جائیں، جہاں زخم زیادہ ہیں، خون زیادہ بہا ہے، دل زیادہ ٹوٹے ہوئے ہیں،کم از کم دو ہفتے وہاں قیام کریں، ہر طبقہٴ فکر سے، ہر قبیلے سے تفصیلی ملاقاتیں کریں۔ اپنی کم کہیں، ان کی زیادہ سنیں۔ پھر ایسے راستے تراشیں، جو سب کو قابل قبول ہوں۔ اب دیرینہ مسائل حل ہونے چاہئیں۔ چاہے اس کے لیے آئین میں ترامیم کرنی پڑیں۔ بلوچستان سب سے زیادہ توجہ اور محبت چاہتا ہے۔ اس کے بعد سندھ جو آصف زرداری صاحب کا اپنا صوبہ ہے یہاں بھی انہیں سب سے ملنا چاہئے۔ قوم پرستوں سے، اساتذہ سے، طلبہ، کسانوں، کاشتکاروں سے، برسوں سے سلگتی چنگاریوں کو بجھنا چاہئے۔ دلوں سے کدورتیں دور کرنی چاہئیں۔ سرحد، پنجاب، فاٹا، شمالی علاقے، آزاد کشمیر سب جگہ ہی ایک ایک ہفتہ قیام دل جیتنے کے لئے ضروری ہے۔ صدارت کے پہلے دو تین ماہ میں ہی اگر برسوں سے دلوں کو جلاتی، تڑپاتی محرومیاں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں، تو پورے پاکستان کو یہ محسوس ہو گا کہ واقعی کوئی اپنا صدر مل گیا ہے۔
شکریہ روزنامہ جنگ
اللہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت دے۔ خالق حقیقی جب نوازنے پر آتے ہیں تو مہربانی اور کرم کی کوئی حد نہیں رہتی۔ وہی مسند، جو قائداعظم کا نصیب تھی، ذوالفقار علی بھٹو کا بخت تھی، اب ملک کا وہی اعلیٰ ترین منصب باضابطہ الیکشن کے ذریعے، آئین کی روح کے مطابق جناب آصف علی زرداری کا مقدر بن گیا ہے۔ ہر طرف مبارک سلامت کا شور ہے۔ اس چوٹی پر پہنچنے کے بعد وہ اپنے آپ کو تنہا بھی محسوس کر رہے ہوں گے۔ اب وہ اپنے قریبی لوگوں سے بہت دور چلے جائیں گے۔ وہ زیادہ تر ملٹری سیکرٹری، ڈپٹی ملٹری سیکرٹری تینوں، اے ڈی سی اور پرنسپل سیکرٹری کے چہرے ہی دیکھیں گے۔ اہل خانہ اور قریبی دوستوں سے بھی ملاقاتیں اسی تواتر سے نہیں ہو سکیں گی۔ ان کے سامنے 5 سال کا ایک طویل عرصہ ہے، لیکن ملک کو جن مسائل اور پیچیدگیوں کا سامنا ہے، وہ گزشتہ 60 سال سے الجھتے آ رہے ہیں، ممکن نہیں لگتا کہ یہ 5 سال میں سلجھائے جا سکیں گے۔ ماضی میں بڑی بڑی قد آور شخصیتیں اہم ترین عہدوں پر فائز رہ کر اور انتہائی قابل اہل ساتھیوں کے باوجود ان مسائل کو حل کیے بغیر ہی آنے والوں کے لیے ورثے میں چھوڑ گئیں۔ یہ تمام مشکلات اور ان میں گھرے ہوئے 18 کروڑ عوام اب آصف زرداری صاحب کی طرف دیکھ رہے ہیں، جو اب ملک کے سربراہ بھی ہیں اور حکمراں پارٹی کے بھی۔ آج سب سے سنگین چیلنج دہشت گردی اور بگڑتی ہوئی معیشت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یقیناً انہیں یہ عزت یہ وقار اور اختیار اسی لیے دیا ہوگا کہ وہ لاکھوں انسانی قربانیوں سے حاصل کیے گئے پاکستان کو بحرانوں سے نکال کر عوام کو ایک بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کر سکیں۔ انہوں نے پاکستان کی مختلف جیلوں میں بہت سے خواب دیکھے۔ اب انہیں حقیقت میں بدلنے کا وقت ہے۔ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اب تک وہ بندوں کی گنتی پر اپنی پوری کامیاب منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ بی بی کی شہادت سے لے کر آج تک ہر دن ان کی سیاسی فراست کا شاہد ہے۔ لیکن صدر مملکت بننے کے بعد اب انہیں بندوں کو تولنا ہو گا، جس طرح الیکشن تک لوگ انہیں تول رہے تھے، کسی بھی تقرری، کسی بھی فیصلے سے پہلے انہیں بہت کچھ تولنا ہوگا۔ سب سے پہلی حاضری بانیٴ پاکستان بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ پر ہونی چاہئے کہ یہ مملکت انہی کی قیادت میں ایک طویل جدوجہد سے حاصل ہوئی تھی۔ پھر لاڑکانہ شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بے نظیر بھٹو کی قبروں پر۔ کہ یہ صدارت انہی کی قیادت اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ مملکت کے سربراہ کو کسی بھی سیاسی جانبداری اور جماعتی وابستگی سے بالاتر ہونا چاہئے۔ اسے ہر پاکستانی کا صدر ہونا چاہئے۔ چاہے وہ کسی صوبے کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ پارٹی سے استعفیٰ یقیناً بہت مشکل ہو گا۔ جس ادارے سے اتنی طویل وابستگی ہو، اس سے قطع تعلق خواہ کتنا ہی عارضی ہو، ہمت کا تقاضا کرتا ہے، مگر یہ قربانی بھی جمہوری جدوجہد کا حصہ ہے۔ پارٹی کی قیادت کسی اور اپنے جیسی فعال شخصیت کے سپرد کر دیں۔ اب اس کی پوری تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ سارے سرگرم رہنما اب سرکاری عہدوں پر فائز ہوگئے ہیں۔ اس لیے اب جماعتی عہدے نئے لوگوں کو سونپے جائیں جو آئندہ سرکاری ذمہ داریوں کے لیے تیار ہو سکیں۔ ایک الوداعی میٹنگ اپنی پارٹی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے کریں۔ ان سے رہنمائی بھی حاصل کریں۔ پھر ایک سیر حاصل مشاورت وزیراعظم سے، انہیں ملکی امور چلانے کے لیے رہنما خطوط بتائے جائیں۔ یہ رابطہ تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہئے تاکہ مملکت اور حکومت کے سربراہوں کے درمیان ہم آہنگی رہے۔ صدر سب کا صدر ہے۔ اس لیے اس سے ہر پاکستانی فرد، ادارے اور سیاسی جماعت کو ملاقات کا موقع ملنا چاہئے۔ انہیں ہر ایک کی بات سننی چاہئے۔ یہ آصف زرداری صاحب کے لیے یقیناً دشوار بھی ہو گا، غیر فطری بھی کہ وہ سب کی قابل قبول شخصیت بنیں، لیکن عہدئہ صدارت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس خطرناک پل کو عبور کریں۔ وہ اب تک جس طرح تمام مرحلوں سے کامیابی سے گزرتے آ رہے ہیں، اپنے آپ پر جبر کرکے انہیں ایسی شخصیت بن کر دکھانا ہوگا کہ پورا ملک انہیں اپنا سمجھے اور ایک ایسی شخصیت جس کے پاس وہ آخر میں جائیں اور ان کا مسئلہ حل ہو جائے۔ یہ اعزاز بھی پی پی پی کے صدر کو حاصل ہو کہ ساری سیاسی جماعتیں، عدلیہ، میڈیا، علماء اور معاشرے کا ہر طبقہ اس پر اعتماد کرے۔ وہ کسی کے نزدیک متنازع نہ ہو، کسی بھی مشورے، شکایت کے لیے ہفتے میں ایسا دن اور دن میں ایسے اوقات طے ہوں، جب عام ملاقات ہو سکے۔ حالات مطالبہ کر رہے ہیں، تاریخ کا یہ تقاضا ہے کہ اب ملک میں محاذ آرائی ختم ہو، تنازعات طے ہوں، فرد، معاشرہ، صوبے، علاقے کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت سے باہر آئیں اور منصب صدارت پر فائز شخصیت کا کردار، شفقت، مفاہمت، محبت، الفت کا مظہر ہونا چاہئے۔
علم آج کے دور کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ صاحبان علم اس ملک کا گہرا درد رکھتے ہیں۔ وہ قوم کو درپیش انتہائی پیچیدہ، حساس اور سنگین مسائل پر دن رات پیچ و تاب میں مبتلا بھی رہتے ہیں۔ اپنے علم اور تحقیق کی بنا پر ان کے پاس کچھ حکمت عملی بھی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوکہ صدر مملکت ملک بھر کی تمام سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو ایوان صدر میں مدعو کریں کہ وہ درد دل، سوز جگر سے لیس ہو کر آئیں۔ ان اہل فضل سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنی درسگاہوں میں پڑھائے جانے والے جدید اور قدیم علوم کی روشنی میں رہنمائی کریں کہ عوام کو پریشان کرتے مسائل کا حل کیسے تلاش کیا جائے۔ وہ ایسی سفارشات مرتب کریں جس سے مقامی سطح سے قومی تک تبدیلی کی ایک لہر برپا کی جا سکے۔
حکومت پالیسیوں کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ بیان دیتی رہتی ہے، لیکن یہ جائزہ نہیں لیا جاتا کہ ان کے ثمرات نچلی سطح تک پہنچ رہے ہیں یا نہیں۔ غیر سرکاری سطح پر ہر ضلع میں دانشوروں، ماہرین معیشت، تاجروں، صنعتکاروں، علماء ، ریٹائرڈ فوجیوں، اساتذہ پر مشتمل ایسی کمیٹیاں قائم ہوں، جو مسلسل مانیٹرنگ کریں کہ حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد پوری طرح ہو رہا ہے یا نہیں۔ کیا یہ اقدامات عوام کو واقعی ریلیف دے رہے ہیں۔ کیا ان میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ان کی سفارشات ماہانہ یا سہ ماہی تواتر سے مرتب کی جانی چاہئیں۔ پھر قومی سطح پر سالانہ جامع جائزے کے لیے دو تین روزہ سیمینار منعقد کیے جانے چاہئیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں عوام کے منتخب ارکان اپنی سیاسی بصیرت اور تدبر سے ملکی معاملات کی الجھی زلفیں سنواریں گے تو دوسری طرف قوم کے بہترین دماغ، اپنی دانش، اپنی استعداد سے اس سرزمین پر منڈلاتی سیاہیاں مٹانے کے لیے اپنا وقت مختص کریں۔ اس کے لیے پرائیویٹ سیکٹر، کارپوریٹ سیکٹر، دانشوروں، تجزیہ کاروں، ٹیکنو کریٹس کی مشاورتی کمیٹیاں ہر سطح پر قائم کی جائیں۔ اسی طرح کی ایک کمیٹی قومی سطح پر صدر کی مشاورت کے لیے تشکیل دی جائے۔ وزیراعظم ایک طرف پورے منتخب ڈھانچے کو متحرک رکھیں۔ دوسری طرف صدر پارلیمنٹ سے باہر اہل درد کو سرگرم رکھیں۔ پھر سپریم کمانڈر کی حیثیت سے فوج کی بہترین صلاحیتوں کو بھی ملکی امور کے لیے استعمال کیا جائے، فوج کا اپنا ایک نظام ہے۔ وہاں ماضی کے اقدامات، مستقبل کے امکانات کی غیر جانبدارانہ تحقیق کی جاتی ہے۔ تجزیہ کیا جاتا ہے۔ نیشنل ڈیفنس کالج میں قابل قدر تحقیقی مقالات پیش کیے جاتے ہیں۔ ان سب سے استفادے کے لیے صدر پاکستان باقاعدہ کوئی نظم و ضبط طے کر سکتے ہیں۔ اس طرح عسکری اور سیاسی حلقوں کی سوچ ایک دوسرے کے نزدیک آ سکتی ہے۔ اس فکر میں تصادم اور محاذ آرائی کے امکانات بتدریج ختم ہو سکتے ہیں۔
ماضی میں بے شمار المیے، تنازعات، واقعات ایسے ہیں جن کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، کردار کشی کی جاتی رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جب سویلین ایوان صدر میں بھی ہیں، ایوان وزیراعظم میں بھی، ملک میں آئین کے مطابق پورا ڈھانچہ قائم ہو گیا ہے تو گزشتہ تمام متنازع امور کو بھی حقائق کی روشنی میں طے کیا جائے۔ اس کا ایک راستہ یہ ہے کہ صدر مملکت ایک ” سچائی کمیشن “ قائم کریں، جس میں صرف اور صرف مسلّمہ طور پر غیر جانبدار شخصیتیں ہوں۔
سابق جج، ماہرین قانون، دانشور مختلف سابقہ ادوار کی غلطیوں، کوتاہیوں، خطاؤں پر تحقیق کر کے اصل ذمہ داروں کا تعین کر کے حقائق عوام کے سامنے لائیں۔
صوبوں میں ایک دوسرے سے شکایتیں ہیں، وفاق سے شکوے ہیں، صدر وفاق کی علامت ہے، آئین کا استعارہ ہے۔ کسی بھی صوبے کا وفاقی حکومت سے کوئی تنازع ہو، تو اسے یہ اعتماد ہو کہ وہ صدر مملکت کے پاس فریاد لے کر جائیں گے، تو انصاف ملے گا۔ صوبوں میں محرومیاں، بے چینیاں جس شدت کو پہنچی ہوئی ہیں، ان کا تقاضا یہ ہے کہ صدر مملکت، ایک مشفق باپ مگر سخت گیر ایڈمنسٹریٹر کی طرح کارروائی کریں۔ سرسبز اسلام آباد سے نکل کر بنجر، خشک صوبوں میں جا کر بیٹھیں، درد بانٹیں، دلوں میں جھانکیں، سب سے پہلے بلوچستان جائیں، جہاں زخم زیادہ ہیں، خون زیادہ بہا ہے، دل زیادہ ٹوٹے ہوئے ہیں،کم از کم دو ہفتے وہاں قیام کریں، ہر طبقہٴ فکر سے، ہر قبیلے سے تفصیلی ملاقاتیں کریں۔ اپنی کم کہیں، ان کی زیادہ سنیں۔ پھر ایسے راستے تراشیں، جو سب کو قابل قبول ہوں۔ اب دیرینہ مسائل حل ہونے چاہئیں۔ چاہے اس کے لیے آئین میں ترامیم کرنی پڑیں۔ بلوچستان سب سے زیادہ توجہ اور محبت چاہتا ہے۔ اس کے بعد سندھ جو آصف زرداری صاحب کا اپنا صوبہ ہے یہاں بھی انہیں سب سے ملنا چاہئے۔ قوم پرستوں سے، اساتذہ سے، طلبہ، کسانوں، کاشتکاروں سے، برسوں سے سلگتی چنگاریوں کو بجھنا چاہئے۔ دلوں سے کدورتیں دور کرنی چاہئیں۔ سرحد، پنجاب، فاٹا، شمالی علاقے، آزاد کشمیر سب جگہ ہی ایک ایک ہفتہ قیام دل جیتنے کے لئے ضروری ہے۔ صدارت کے پہلے دو تین ماہ میں ہی اگر برسوں سے دلوں کو جلاتی، تڑپاتی محرومیاں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں، تو پورے پاکستان کو یہ محسوس ہو گا کہ واقعی کوئی اپنا صدر مل گیا ہے۔
شکریہ روزنامہ جنگ