امکانات
محفلین
]قوم کا عزم’’ ۔ تحریر ۔ زبیر احمد ظہیر
کیا پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں؟امریکہ کی القاعدہ کے خلاف جنگ عملاًناکام ہوگئی ہے یہ وہ زمینی حقیقت ہے جس نے امریکا کو نیا ایشو کھڑا کرنے پر اکسایا اوراسلامی ایٹم بم سے بڑا کوئی ایشو نہیں۔ پاکستان واحدایٹمی اسلامی ملک ہے۔ امریکا پاکستان کو عبرت کی مثال بنانے پر تل گیا ہے تاکہ کو ئی مسلم ملک جوہری ہتھیار بنانے کی جرات نہ کرسکے۔ قبائلی علاقوں میں شورش ہماری وہ دکھتی رگ ہے جس کی درد ناک لہروں نے ملک کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیااس کمزوری کو امریکا نے یہاں تک استعمال کیاکہ پاکستان کے اندر کارروائی کی دھمکی دی اور قبائلی علاقوں میں مشترکہ کاروائی کی پیشکش تک کر دی ۔ جوہری اثاثوںپر پاکستان کوکسی بھی لمحے بلیک میل کیا جاسکتا ہے لہذا پاکستان نے جو ںہی امریکا کی جنگ سے جان چھڑانے کی کوشش کی ،امریکا نے جوہری اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا ۔ جوہری ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہاتھوں میں جانے کا پروپیگنڈا اس کثرت سے ہونے لگا کہ جوہری اثاثے نہیں کھلونہ پٹاخے معلوم ہوتے ہیں جنہیں جس بچے نے چاہا پھوڑ دیا ۔سچ تویہ ہے کہ ہمارے جوہری اثاثے ایسے محفوظ ہیں کہ خود امریکا تک کومعلوم نہیں یہ لاعلمی اسے تشویش میں مبتلا کرگئی اس نے لاکھ کوشش کر لی مگر وہ مفروضوں سے باہر نہ نکل سکا ان مفروضوںنے اسے خوف میں مبتلا کردیا اوریہ تشویش آگے چل کر فوبیا بن گئی۔
پاکستان کے جوہری اثاثوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کتنا مضبوط ہے یہ جاننے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ان کے تحفظ کے لیے پاک فوج کے کئی جانبازوں نے اپنی ساری زندگیاں اس ہی مقصد کے لیے وقف کردی ہیں۔ قوم نے پیٹ کاٹ کر یہ دولت حاصل کی، فوج نے قوم کی اس قربانی کی لاج رکھی اوراسکے تحفظ میں کوئی کمی نہ آنے دی لہذا پاکستانی قوم آج فوج کے جن کارناموں پر فخر کرسکتی ہے ان میںایٹمی اثاثوں کی رازداری اور حفاظت سرفہرست ہے قوم نے اس احسان کے بدلے میںسقوط ڈھاکہ پر خاموشی اختیار کر لی پاکستانی قوم فوج کے ماضی کا ہر قصور معاف کرسکتی ہے لیکن ایٹمی اثاثوں کے نقصان کاجرم کبھی معاف نہ ہوگا،سقوط ڈھاکہ کی ناکامی نے ہمیں ایٹمی قوت بنایااورایٹمی قوت کی حفاظت میں ناکامی کے بعدتاریخ ہمیں کوئی موقع دینے کو تیار نہیں ،اس نزاکت اورقومی فریضے کا پاک فوج کو احساس ر ہا ۔ ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کی پاداش میں فوج نے بدنامی مول لی ،ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور رازداری کی دکھی داستان کی گہرائیوں میں اگر ہم جائیں تو فوج کے حکومت میں آنے کی غلطی کو مجبوری تسلیم کرتے بنے گی ۔ ایٹمی اثاثوں کی محافظ فوج کو اس کی پاداش میں کتنی سازشوں کا شکار ہونا پڑا، آمریت کی آڑ میں فوج کے خلاف رائے عامہ اتنی ہموار کردی گئی کہ فوج کو نفرت کی علامت بنانے کی سازش کامیاب معلوم ہوتی دکھائی دے رہی ہے ان سازشوں کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہماری فوج آج ان لوگوں کے خلاف لڑنے پر مجبور ہے جنہوں نے کسی بھی بیرونی جارحیت میں ہمیشہ پاک فوج کا شانہ بشانہ ساتھ دیا
مذہبی عناصرکے ایٹمی اثاثوں تک رسائی کے پروپیگنڈے کی کوئی حقیقت نہیں، اسلامی تحریکیں جہاں کہیں اپنی حکومتوں کے خلاف صف آراء ہیں ان کی نفسیات یہ رہی ہے کہ یہ علیحدگی پسند نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں کسی مذہبی جماعت یا تحریک پر علیحدگی پسندی کا الزام نہیں۔ یہ جب علیحدگی پسند نہیں اورانہوں نے ملکی تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچا یا تو پھرایٹمی اثاثوں پر قبضہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ،بلوچستان کی طرح کبھی سرحد اور قبائلی علاقوں میں یہ سننے میں نہیں آیا کہ ان لوگوں نے کبھی ڈیم توڑ دیئے ہوں، ٹیلی فون، بجلی اور مواصلات کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا ہو۔ بلوچستان میں گیس سے لے کر ریل کی پٹریوں تک عوامی مفاد کی کوئی چیز محفوظ نہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو پرحملہ ہوا ،ان کے اس المناک سانحہ کی آڑ میں دو چار دنوں میں قومی املاک کوناقابل تلافی نقصان پہنچااتنا نقصان سوات سے قبائلی علاقوں تک جنگ زدہ ماحول میں پانچ برس میں نہیں ہوا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں مذہب پر انتقام کی آگ غالب آگ چکی ہے اس انتقام کو قبائلی روایات میں رچی اسلام پسندی نے ایسی جنگ بنا دیا ہے جو نظر آنے میں مذہبی جنگ دکھائی دیتی ہے مگرہے وہ قبائل کی صدیوں پرانی روایت ،جس کسی نے ان کے معاملات میں مداخلت کی اس نے مفت کی جنگ مول لی ۔
جہاں تک ایٹمی اثاثوں تک القاعدہ کی رسائی کا پروپیگنڈا ہے۔القاعدہ نے کوئی جنگی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں کی جسکی بنیاد پر اس پر شک کیا جاسکے جو تنظیم ایک جدید کلاشن کوف تک نہ بنا سکے وہ تنظیم دنیا کی سب سے بڑی اور مشکل ترین‘‘ ٹکڑوں میںبٹی ،خفیہ کوڈز میں چھپی ،سیکڑوں بھول بھلیوں میں دبی، ہزاروں حصاروں میں جکڑی اور نہ جانے کتنی جگہوں میں بکھری ‘‘ایٹم بم جیسی پُراسرارٹیکنالوجی تک رسائی کیسے حاصل کرسکتی ہے ۔القاعدہ نے کسی ایجاد کی بجائے عام ٹیکنالوجی کا استعمال ہی کیا ہے اور ایٹم وہ ٹیکنالوجی ہے جو اسے بنا نہ سکے وہ اسکی چوری بھی نہیں کرسکتا۔خودکش حملوں کے لیے ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں پڑتی یہ اس وقت دنیا کا سب سے سستا اور دنیا کا سب سے مہلک ہتھیا ر ہے اگر اسمیں ٹیکنالوجی کا عمل دخل ہوتا تو ماضی کی تاریخ کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور میں اس کا موثر توڑ نکالا جاسکتا ۔اصل معاملہ یہ ہے کے یہ سو فیصد موت کی بنیاد پر رسک کا کھیل ہے اور فضائی جنگی برتری کے موجودہ دور میں جنگ سو فیصد کامیابی کی بنیا د پرشروع کی جاتی ہے اگران عناصر کی ایڈوانس نہ سہی معمولی جنگی ٹیکنالوجی تک رسائی ہوتی تو یہ لوگ سو فیصد موت کی بنیاد پر جنگ نہ لڑتے اور اپنی افرادی قوت ضائع نہ کرتے، افرادی قوت کا ضیاع ٹیکنالوجی سے ناواقفی نہیں تو اور کیا ہے۔ مغربی میڈیا نے کل تک جن کے لیے ان پڑھ ،جاہل اور گنوار کے لقب کے مخصوص کر دیے تھے آج ان سے ہی ایٹمی اثاثوں پر قبضے کی اُمیدلگا لی ہے ۔ہماری ایٹمی تاریخ کا سچ یہ کہ جوہری اثاثوں کو ان جاہلوں سے کبھی خطرہ نہیں رہابلکہ ایڈوانس ٹیکنالوجی رکھنے والی ’’سی آئی اے ‘‘موساد اور’’ را‘‘ نے ہمیشہ سنگین خطرے سے دوچا رکیے رکھا لہذاپاکستانی قوم ماضی کی خطروں بھری واضح حقیقت پرایٹمی اثاثوں پر قبضے کے خیالی تصور کو ترجیح نہیں دے سکتی ۔
ایٹمی اثاثوں کے خلاف پروپیگنڈے کا سچ تو یہ ہے امریکا کو القاعدہ کے خلاف ناکام جنگ کے لیے مزیدسہارے کی ضرورت ہے امریکا نے القاعدہ کے خلاف جنگ پاکستان کے کندھوں پر لڑی ،امریکا کے لیے پاکستان جیسا تعاون کو ئی مغربی ملک بھی پیش نہ کر سکا ،پاکستان نے القاعدہ کے سیکڑوں کلیدی عہدیدار گرفتار کیے،درجنوں مارڈالے اور یوں اس کی کمر توڑ دی،نیٹ ورک ٹوٹنے اور مفلوج ہونے کے بعداب امریکا کو القاعدہ سے کوئی حقیقی خطرہ نہیں رہا اور اصولی طور پر پاکستا ن کے تعاون کی ذمے داری ختم ہو گئی ہے یہ بات امریکا نے بھی سفارتی زبان میں دبے ا ور میڈیا کے ذریعے دو ٹوک لفظوں میں سمجھ لی مگر امریکا کو مسلمہ اصولوں کی نہیں مفادات کی فکر ہے اس لیے اس نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی اور قبائلی علاقوں میں بار بارامریکی مداخلت سے پیدا ہونے والی شورش نے اس پروپیگنڈے کوتقویت دی اس بہانے امریکا نے اپنی دھونس جمانے کا جوازڈھونڈ لیا ۔دراصل نام نہاددہشت گردی کے خلاف جنگ امریکاہار گیا ہے ۔افغانستان اور عراق کے عوام نے دنیا کی سب سے بہترین فوج کو دوبدو جنگ میں بری طرح مات دے دی ہے۔ جنگ ساری عمر فضاوں میں نہیں لڑی جاتی اور فتح بالاخر فضاوں سے زمیں پر اتر کرہی ملتی ہے اسی فتح کو دیہاتی شکست میں بدل دیتے ہیں ۔ محدود وسائل اورلمبی مدت کی جنگ یہ’’ دو ‘‘ وہ سبب ہیں جن کی کوکھ سے ہمیشہ گوریلا جنگ نے جنم لیا امریکا اور اتحادی افواج کی طاقت اور دنیا کے بہترین جنگی وسائل نے افغان اورعراقی عوام کو گوریلا جنگ کی راہ خودبخود دکھلادی۔اب القاعدہ کا صرف نام رہ گیا ہے اس نام کی دھاک سے عام افغانی اور عراقی نے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے اور امریکا کواسی دھاک نے انجانے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ انجانے خوف کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی ۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی بھی امریکا کا ایسا انجانا خوف ہے جس کی کوئی تعبیرنہیں، دراصل امریکیوں کے شعور میں القاعدہ کا خوف بیٹھ گیا ہے، جو انہیں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ پاکستان اورایٹمی اثاثوں کا ساتھ چولی دامن جیسا ہے،غیر ایٹمی پاکستان محفوظ نہیں ، مذہبی قوتوں کی اہمیت پاکستان سے وابستہ ہے آبادی میں بھارتی مسلمان ہم سے زیادہ ہیں لیکن انکی کوئی اہمیت نہیں لہذا کوئی ادنی مذہبی فرد بھی اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کی جرات نہیں کر سکتا ۔
امریکی دھمکیوں اور پروپیگنڈوں نے عوام کے حب الوطنی کے جذبات میں اضافہ کردیا۔ صدر مشرف کی مقبولیت میں کمی آرہی تھی ،امریکا کو دو ٹوک جواب دے کر انہوں نے عوام میں خاصی ساکھ بحال کرلی ہے۔ صدر مشرف جیسے امریکی اتحادی سے عوام کو ایسے جواب کی توقع نہیں تھی خلاف توقع جو بات پوری ہوجائے اس پر خوشی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا نہ کرنا ہر پاکستانی کا عزم ہے۔قوم کایہ عزم اتنا پختہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کی محض حمایت کر نے والی شخصیت اگر مذہبی کیوں نہ ہو قوم اسے محترم شخصیت نہیں مشکوک فرد سمجھتی ہے اس نفرت کی وجہ یہ ہے کہ قوم کے ذہن میں یہ بات جگہ بنا گئی ہے کہ برسوں پہلے اسرائیل نے ہمارے ایٹمی اثاثوں پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی ۔جو قوم ایک محترم مذہبی شخصیت کو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی حمایت کو جرم سمجھے اور اسکی سزا نفرت سے دے وہ قوم ایٹمی معاملے پر کسی دھوکے میں آنے والی نہیں۔ پاکستان کی معتبرترین مذہبی شخصیت ہاتھوں میں قرآن پاک اٹھائے اور ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتے کی بات کرے قوم اس کا اعتبار نہیں کرے گی جو قوم کسی مذہبی راہنما کی سمجھوتے کی بات برداشت نہیں کر سکتی وہ قوم پروپیگنڈوں کی آڑ میں ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتے کے لیے کسی بیرونی دباؤ کو بھی برداشت نہیں کرسکتی اورنہ ہی اس دباؤ میں آنے والے کسی حکمران کی تاویلوں کو قبول کرے گی۔ ایٹم بم پر سمجھوتے کے بعد پاکستان بچالینے کی تاویل میں رتی برابر وزن نہیں رہے گا ۔
کیا پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں؟امریکہ کی القاعدہ کے خلاف جنگ عملاًناکام ہوگئی ہے یہ وہ زمینی حقیقت ہے جس نے امریکا کو نیا ایشو کھڑا کرنے پر اکسایا اوراسلامی ایٹم بم سے بڑا کوئی ایشو نہیں۔ پاکستان واحدایٹمی اسلامی ملک ہے۔ امریکا پاکستان کو عبرت کی مثال بنانے پر تل گیا ہے تاکہ کو ئی مسلم ملک جوہری ہتھیار بنانے کی جرات نہ کرسکے۔ قبائلی علاقوں میں شورش ہماری وہ دکھتی رگ ہے جس کی درد ناک لہروں نے ملک کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیااس کمزوری کو امریکا نے یہاں تک استعمال کیاکہ پاکستان کے اندر کارروائی کی دھمکی دی اور قبائلی علاقوں میں مشترکہ کاروائی کی پیشکش تک کر دی ۔ جوہری اثاثوںپر پاکستان کوکسی بھی لمحے بلیک میل کیا جاسکتا ہے لہذا پاکستان نے جو ںہی امریکا کی جنگ سے جان چھڑانے کی کوشش کی ،امریکا نے جوہری اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا ۔ جوہری ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہاتھوں میں جانے کا پروپیگنڈا اس کثرت سے ہونے لگا کہ جوہری اثاثے نہیں کھلونہ پٹاخے معلوم ہوتے ہیں جنہیں جس بچے نے چاہا پھوڑ دیا ۔سچ تویہ ہے کہ ہمارے جوہری اثاثے ایسے محفوظ ہیں کہ خود امریکا تک کومعلوم نہیں یہ لاعلمی اسے تشویش میں مبتلا کرگئی اس نے لاکھ کوشش کر لی مگر وہ مفروضوں سے باہر نہ نکل سکا ان مفروضوںنے اسے خوف میں مبتلا کردیا اوریہ تشویش آگے چل کر فوبیا بن گئی۔
پاکستان کے جوہری اثاثوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کتنا مضبوط ہے یہ جاننے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ان کے تحفظ کے لیے پاک فوج کے کئی جانبازوں نے اپنی ساری زندگیاں اس ہی مقصد کے لیے وقف کردی ہیں۔ قوم نے پیٹ کاٹ کر یہ دولت حاصل کی، فوج نے قوم کی اس قربانی کی لاج رکھی اوراسکے تحفظ میں کوئی کمی نہ آنے دی لہذا پاکستانی قوم آج فوج کے جن کارناموں پر فخر کرسکتی ہے ان میںایٹمی اثاثوں کی رازداری اور حفاظت سرفہرست ہے قوم نے اس احسان کے بدلے میںسقوط ڈھاکہ پر خاموشی اختیار کر لی پاکستانی قوم فوج کے ماضی کا ہر قصور معاف کرسکتی ہے لیکن ایٹمی اثاثوں کے نقصان کاجرم کبھی معاف نہ ہوگا،سقوط ڈھاکہ کی ناکامی نے ہمیں ایٹمی قوت بنایااورایٹمی قوت کی حفاظت میں ناکامی کے بعدتاریخ ہمیں کوئی موقع دینے کو تیار نہیں ،اس نزاکت اورقومی فریضے کا پاک فوج کو احساس ر ہا ۔ ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کی پاداش میں فوج نے بدنامی مول لی ،ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور رازداری کی دکھی داستان کی گہرائیوں میں اگر ہم جائیں تو فوج کے حکومت میں آنے کی غلطی کو مجبوری تسلیم کرتے بنے گی ۔ ایٹمی اثاثوں کی محافظ فوج کو اس کی پاداش میں کتنی سازشوں کا شکار ہونا پڑا، آمریت کی آڑ میں فوج کے خلاف رائے عامہ اتنی ہموار کردی گئی کہ فوج کو نفرت کی علامت بنانے کی سازش کامیاب معلوم ہوتی دکھائی دے رہی ہے ان سازشوں کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہماری فوج آج ان لوگوں کے خلاف لڑنے پر مجبور ہے جنہوں نے کسی بھی بیرونی جارحیت میں ہمیشہ پاک فوج کا شانہ بشانہ ساتھ دیا
مذہبی عناصرکے ایٹمی اثاثوں تک رسائی کے پروپیگنڈے کی کوئی حقیقت نہیں، اسلامی تحریکیں جہاں کہیں اپنی حکومتوں کے خلاف صف آراء ہیں ان کی نفسیات یہ رہی ہے کہ یہ علیحدگی پسند نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں کسی مذہبی جماعت یا تحریک پر علیحدگی پسندی کا الزام نہیں۔ یہ جب علیحدگی پسند نہیں اورانہوں نے ملکی تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچا یا تو پھرایٹمی اثاثوں پر قبضہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ،بلوچستان کی طرح کبھی سرحد اور قبائلی علاقوں میں یہ سننے میں نہیں آیا کہ ان لوگوں نے کبھی ڈیم توڑ دیئے ہوں، ٹیلی فون، بجلی اور مواصلات کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا ہو۔ بلوچستان میں گیس سے لے کر ریل کی پٹریوں تک عوامی مفاد کی کوئی چیز محفوظ نہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو پرحملہ ہوا ،ان کے اس المناک سانحہ کی آڑ میں دو چار دنوں میں قومی املاک کوناقابل تلافی نقصان پہنچااتنا نقصان سوات سے قبائلی علاقوں تک جنگ زدہ ماحول میں پانچ برس میں نہیں ہوا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں مذہب پر انتقام کی آگ غالب آگ چکی ہے اس انتقام کو قبائلی روایات میں رچی اسلام پسندی نے ایسی جنگ بنا دیا ہے جو نظر آنے میں مذہبی جنگ دکھائی دیتی ہے مگرہے وہ قبائل کی صدیوں پرانی روایت ،جس کسی نے ان کے معاملات میں مداخلت کی اس نے مفت کی جنگ مول لی ۔
جہاں تک ایٹمی اثاثوں تک القاعدہ کی رسائی کا پروپیگنڈا ہے۔القاعدہ نے کوئی جنگی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں کی جسکی بنیاد پر اس پر شک کیا جاسکے جو تنظیم ایک جدید کلاشن کوف تک نہ بنا سکے وہ تنظیم دنیا کی سب سے بڑی اور مشکل ترین‘‘ ٹکڑوں میںبٹی ،خفیہ کوڈز میں چھپی ،سیکڑوں بھول بھلیوں میں دبی، ہزاروں حصاروں میں جکڑی اور نہ جانے کتنی جگہوں میں بکھری ‘‘ایٹم بم جیسی پُراسرارٹیکنالوجی تک رسائی کیسے حاصل کرسکتی ہے ۔القاعدہ نے کسی ایجاد کی بجائے عام ٹیکنالوجی کا استعمال ہی کیا ہے اور ایٹم وہ ٹیکنالوجی ہے جو اسے بنا نہ سکے وہ اسکی چوری بھی نہیں کرسکتا۔خودکش حملوں کے لیے ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں پڑتی یہ اس وقت دنیا کا سب سے سستا اور دنیا کا سب سے مہلک ہتھیا ر ہے اگر اسمیں ٹیکنالوجی کا عمل دخل ہوتا تو ماضی کی تاریخ کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور میں اس کا موثر توڑ نکالا جاسکتا ۔اصل معاملہ یہ ہے کے یہ سو فیصد موت کی بنیاد پر رسک کا کھیل ہے اور فضائی جنگی برتری کے موجودہ دور میں جنگ سو فیصد کامیابی کی بنیا د پرشروع کی جاتی ہے اگران عناصر کی ایڈوانس نہ سہی معمولی جنگی ٹیکنالوجی تک رسائی ہوتی تو یہ لوگ سو فیصد موت کی بنیاد پر جنگ نہ لڑتے اور اپنی افرادی قوت ضائع نہ کرتے، افرادی قوت کا ضیاع ٹیکنالوجی سے ناواقفی نہیں تو اور کیا ہے۔ مغربی میڈیا نے کل تک جن کے لیے ان پڑھ ،جاہل اور گنوار کے لقب کے مخصوص کر دیے تھے آج ان سے ہی ایٹمی اثاثوں پر قبضے کی اُمیدلگا لی ہے ۔ہماری ایٹمی تاریخ کا سچ یہ کہ جوہری اثاثوں کو ان جاہلوں سے کبھی خطرہ نہیں رہابلکہ ایڈوانس ٹیکنالوجی رکھنے والی ’’سی آئی اے ‘‘موساد اور’’ را‘‘ نے ہمیشہ سنگین خطرے سے دوچا رکیے رکھا لہذاپاکستانی قوم ماضی کی خطروں بھری واضح حقیقت پرایٹمی اثاثوں پر قبضے کے خیالی تصور کو ترجیح نہیں دے سکتی ۔
ایٹمی اثاثوں کے خلاف پروپیگنڈے کا سچ تو یہ ہے امریکا کو القاعدہ کے خلاف ناکام جنگ کے لیے مزیدسہارے کی ضرورت ہے امریکا نے القاعدہ کے خلاف جنگ پاکستان کے کندھوں پر لڑی ،امریکا کے لیے پاکستان جیسا تعاون کو ئی مغربی ملک بھی پیش نہ کر سکا ،پاکستان نے القاعدہ کے سیکڑوں کلیدی عہدیدار گرفتار کیے،درجنوں مارڈالے اور یوں اس کی کمر توڑ دی،نیٹ ورک ٹوٹنے اور مفلوج ہونے کے بعداب امریکا کو القاعدہ سے کوئی حقیقی خطرہ نہیں رہا اور اصولی طور پر پاکستا ن کے تعاون کی ذمے داری ختم ہو گئی ہے یہ بات امریکا نے بھی سفارتی زبان میں دبے ا ور میڈیا کے ذریعے دو ٹوک لفظوں میں سمجھ لی مگر امریکا کو مسلمہ اصولوں کی نہیں مفادات کی فکر ہے اس لیے اس نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی اور قبائلی علاقوں میں بار بارامریکی مداخلت سے پیدا ہونے والی شورش نے اس پروپیگنڈے کوتقویت دی اس بہانے امریکا نے اپنی دھونس جمانے کا جوازڈھونڈ لیا ۔دراصل نام نہاددہشت گردی کے خلاف جنگ امریکاہار گیا ہے ۔افغانستان اور عراق کے عوام نے دنیا کی سب سے بہترین فوج کو دوبدو جنگ میں بری طرح مات دے دی ہے۔ جنگ ساری عمر فضاوں میں نہیں لڑی جاتی اور فتح بالاخر فضاوں سے زمیں پر اتر کرہی ملتی ہے اسی فتح کو دیہاتی شکست میں بدل دیتے ہیں ۔ محدود وسائل اورلمبی مدت کی جنگ یہ’’ دو ‘‘ وہ سبب ہیں جن کی کوکھ سے ہمیشہ گوریلا جنگ نے جنم لیا امریکا اور اتحادی افواج کی طاقت اور دنیا کے بہترین جنگی وسائل نے افغان اورعراقی عوام کو گوریلا جنگ کی راہ خودبخود دکھلادی۔اب القاعدہ کا صرف نام رہ گیا ہے اس نام کی دھاک سے عام افغانی اور عراقی نے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے اور امریکا کواسی دھاک نے انجانے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ انجانے خوف کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی ۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی بھی امریکا کا ایسا انجانا خوف ہے جس کی کوئی تعبیرنہیں، دراصل امریکیوں کے شعور میں القاعدہ کا خوف بیٹھ گیا ہے، جو انہیں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ پاکستان اورایٹمی اثاثوں کا ساتھ چولی دامن جیسا ہے،غیر ایٹمی پاکستان محفوظ نہیں ، مذہبی قوتوں کی اہمیت پاکستان سے وابستہ ہے آبادی میں بھارتی مسلمان ہم سے زیادہ ہیں لیکن انکی کوئی اہمیت نہیں لہذا کوئی ادنی مذہبی فرد بھی اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کی جرات نہیں کر سکتا ۔
امریکی دھمکیوں اور پروپیگنڈوں نے عوام کے حب الوطنی کے جذبات میں اضافہ کردیا۔ صدر مشرف کی مقبولیت میں کمی آرہی تھی ،امریکا کو دو ٹوک جواب دے کر انہوں نے عوام میں خاصی ساکھ بحال کرلی ہے۔ صدر مشرف جیسے امریکی اتحادی سے عوام کو ایسے جواب کی توقع نہیں تھی خلاف توقع جو بات پوری ہوجائے اس پر خوشی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا نہ کرنا ہر پاکستانی کا عزم ہے۔قوم کایہ عزم اتنا پختہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کی محض حمایت کر نے والی شخصیت اگر مذہبی کیوں نہ ہو قوم اسے محترم شخصیت نہیں مشکوک فرد سمجھتی ہے اس نفرت کی وجہ یہ ہے کہ قوم کے ذہن میں یہ بات جگہ بنا گئی ہے کہ برسوں پہلے اسرائیل نے ہمارے ایٹمی اثاثوں پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی ۔جو قوم ایک محترم مذہبی شخصیت کو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی حمایت کو جرم سمجھے اور اسکی سزا نفرت سے دے وہ قوم ایٹمی معاملے پر کسی دھوکے میں آنے والی نہیں۔ پاکستان کی معتبرترین مذہبی شخصیت ہاتھوں میں قرآن پاک اٹھائے اور ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتے کی بات کرے قوم اس کا اعتبار نہیں کرے گی جو قوم کسی مذہبی راہنما کی سمجھوتے کی بات برداشت نہیں کر سکتی وہ قوم پروپیگنڈوں کی آڑ میں ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتے کے لیے کسی بیرونی دباؤ کو بھی برداشت نہیں کرسکتی اورنہ ہی اس دباؤ میں آنے والے کسی حکمران کی تاویلوں کو قبول کرے گی۔ ایٹم بم پر سمجھوتے کے بعد پاکستان بچالینے کی تاویل میں رتی برابر وزن نہیں رہے گا ۔