کیا پرانی چیز صدقہ کی جا سکتی ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ​
’’کیا پرانی چیز صدقہ کی جا سکتی ہے ؟ ‘‘
یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر اکثر بحث ہوتی ہے ۔۔۔ اس کے حامی اور مخالف بہت زوردار دلائل لاتے ہیں اور انسان سوچتا رہ جاتا ہے کس کی مانیے کس کی نہ مانیے ۔۔۔
اس موضوع میں ہم سب مل کر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صدقہ و خیرات میں پرانی چیز دینی چاہیے یا نئی؟
آپ سب کو اظہار خیال کی دعوت عام ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک بھکاری نے ریڑھی پر آم بیچنے والے سے اللہ کے نام پر مانگا تو ریڑھی والے نے ایک گلا سڑا آم بھکاری کو دے دیا۔

تھوڑی دیر بعد اُسی بھکاری نے پیسے دے کر آم خریدا تو ریڑھی والے نے ایک اچھا سا آم تول کر اسے دے دیا۔

بھکاری کہنے لگا "اے اللہ دیکھ لے اس نے تیرے نام پر کیا دیا اور چند روپوں کے عوض کیا دیا۔"


لہذا اللہ کے نام پر دینے کے لیے آپ کو چاہیے کہ دوسرے کو وہی دیں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔

یہ میری رائے ہے جس سے دوسروں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
جو کچھ بھی انسان اپنی استطاعت کے مطابق کر سکتا ہے، وہ کرنا چاہئیے۔ چیز نئی ہو یا پرانی، دی جاسکتی ہے کیونکہ قبول کرنے والی ذات بڑی کریم ہے وہ تو ایک ذرّے جتنی نیکی کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیتا بشرطیکہ وہ نیکی ہو۔۔
لیکن جب دین کے مرتبہِ احسان کے حوالے سے دیکھیں، تو اسکے بارے میں مشعلِ راہ تیسرے پارے کی پہلی آیت ہے۔ یعنی:
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ
تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
سُوۡرَةُ آل عِمرَان:لَن تَنَالُواْ ٱلۡبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ‌ۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَىۡءٍ۬ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ۬ (٩٢)
ترجمہ: تم لوگ جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں سے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے نیکی اور بھلائی کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے ، تم جو کچھ بھی خیر و خیرات کرتے ہو یقین رکھو اللہ اس سے آگاہ ہے۔

یہ درست ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی پسندیدہ شئے خرچ کرنے کا اجر بھی بڑا ہے،لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ اپنی استعمال شدہ پرانی اشیا ء صدقہ نہیں کی جاسکتیں۔ پرانی مگر قابل استعمال اشیاء کے ”ڈسپوزل“ کے ممکنہ طور پر حسب ذیل طریقے ہیں۔
  1. کسی ایسے ضرورتمند کو صدقہ کردیا جائے، جسے اس کی ضرورت ہو۔ اور وہ اسے لیتے ہوئے عار محسوس نہ کرے
  2. مارکیٹ ًٰ میں فروخت کردیا جائے کہ تاکہ غریب لوگ جو نئی اشیاء نہیں خرید سکتے، انہیں خرید کر اپنی ضرورت پوری کرسکیں۔
  3. اس طرح”ضائع“ کردیا جائے کہ کسی کے لئے بھی قابل استعمال نہ رہ سکے۔
  4. اپنے پاس ہی رکھا رہنے دیاجائے، خواہ ہمارے کام آئے یا نہ آئے۔
پرانی اشیاء کے ساتھ یہی چار ”سلوک“ کیا جاسکتا ہے اور ان میں سب سے عمدہ بہر حال صدقہ ہی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

انتہا

محفلین
نیا لباس پہننے کی ایک دعا کی فضیلت میں کچھ یوں ہے کہ پرانا صدقہ کر دیا جائے۔
ترمذی، الدعوات، احادیث شتی: ج2، ص196
 

یوسف-2

محفلین
نیا لباس پہننے کی ایک دعا کی فضیلت میں کچھ یوں ہے کہ پرانا صدقہ کر دیا جائے۔
ترمذی، الدعوات، احادیث شتی: ج2، ص196
نیا لباس پہننے کی دعا : اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی کَسَانِی مَآ اُوَارِی بِہ عَو رَتَی وَ اَ تَجَمَّلُ بِہ فِی حَیَاتِی (مشکوۃ)
ہر قسم کی تعریف کے لئے ہے جس سے میں اپنا ستر چھپاتا ہوں اور اسی سے میں اپنی زندگی میں زینت حاصل کرتا ہوں۔
 

نایاب

لائبریرین
بلاشک اللہ انسان کی نیت کے ابھرنے سے پہلے اس پر مطلع ہے ۔
صدقہ " بلاؤں " کو ٹال دیتا ہے ۔
جس کی جو استطاعت ہو رضائے الہی کے لیئے اتنا ہی صدقہ کر دینا مناسب امر ہے ۔
سخت سردی میں کوئی کمبل و چادر کا محتاج ہو تو نئی کی استطاعت نہ ہوتے پرانی چادر و کمبل صدقہ کر دینا اچھا عمل ہے ۔
اور اللہ کی ذات ہی نیتوں پر مبنی اعمال کی جزا دینے پر قادر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری ذاتی سوچ جس سے اختلاف کا حق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
میرے خیال سے اگر آپ کے پاس ایک سے زیادہ چیزیں ہوں اور وہ آپ کے کام بھی نہ آ رہی ہوں انہیں کسی کو دے دینا بہتر ہے کہ وہ اس کے کام آ سکے۔ انسان لالچ یا دکھاوے کو ایسی بہت سے اشیاء جمع کر لیتا ہے جو پہلے بھی اس کے پاس موجود ہوتی ہیں۔
 

انتہا

محفلین
نیا لباس پہننے کی دعا : اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی کَسَانِی مَآ اُوَارِی بِہ عَو رَتَی وَ اَ تَجَمَّلُ بِہ فِی حَیَاتِی (مشکوۃ)
ہر قسم کی تعریف کے لئے ہے جس سے میں اپنا ستر چھپاتا ہوں اور اسی سے میں اپنی زندگی میں زینت حاصل کرتا ہوں۔
یوسف بھائی، اس کی اگر فضیلت بھی کوٹ کر دیں جو کہ حدیث کے الفاظ ہیں، تو مہربانی ہو گی۔
 

یوسف-2

محفلین
یوسف بھائی، اس کی اگر فضیلت بھی کوٹ کر دیں جو کہ حدیث کے الفاظ ہیں، تو مہربانی ہو گی۔
برادرم! مجھے اس کی فضیلت والے الفاظ نہیں ملے تو گیند میں نے آپ کے کورٹ میں ڈال دی کہ آپ نے حوالہ دیا ہے تو آپ کو وہ الفاظ بھی معلوم ہوں گے۔ :) آپ بھی ڈھونڈئیے، میں بھی دیکھتا ہوں۔ جسے مل جائے، وہ پوسٹ کردے
 

یوسف-2

محفلین
پرانی چیز دے کر اللہ پر احسان ضرور کرنا ہے، ویسے ہی کسی کو دے دیں۔
سر جی بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ”ویسے ہی“ کسی کو دینا کیا ” کارِ ثواب“ نہیں ہے؟ شاید یہاں ہم لوگ ”صدقہ“ کے مفہوم میں کچھ کنفیوز ہو رہے ہیں۔صدقہ کی متعدد اقسام ہیں۔ جیسے
  1. فرض زکوٰۃ (قرآن میں زکوٰۃ کے لئے ”صدقہ“ کے الفاظ بھی آئے ہیں، دیکھئے سورۃ توبہ: 60 )
  2. عید الفطر کے موقع پر دیا جانے والا صدقہ فطر ، یہ بھی فرض ہے۔
  3. خالص اللہ کے لئے مانی گئی نذر یا منت۔ یہ بھی فرض ہے اور اس کا شمار بھی صدقہ ہی کے ضمن میں کیا جاسکتا ہے۔
  4. حج تمتع اور عید الاضحیٰ کے موقع پراللہ کی راہ میں جانور قربان کر کے اس کا گوشت مستحقین یا عزیز و اقارب میں تقسیم کرنا۔یہ قربانی تو فرض ہے، مگر اس فرض قربانی کا گوشت تقسیم کرنا فرض نہیں ہے۔ البتہ افضل ضرور ہے۔
  5. حج تمتع اور عید الاضحیٰ کے علاوہ نفلی قربانی کرکےمستحقین میں گوشت تقسیم کرنا، نفلی صدقہ ہے۔
  6. عام صدقہ خیرات کی تقسیم۔ مانگنے والوں کو یا ضرورتمندوں کو اللہ کی رضا کی خاطر کچھ بھی دینا، خواہ ان کی ضرورت کے مطابق ہو، یا اپنی ضرورت سے زائد ہو۔ یہ نفلی صدقہ ہے۔
فرض صدقات کے بارے میں مختلف احادیث میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ کہ اچھی سے اچھی چیز راہِ خدا میں دی جائے، جیسے مال و اسباب یا مویشیوں کی زکوٰۃ نکالتے وقت اچھا مال اور عمدہ مویشی دئے جائیں، چھانٹ چھانٹ کر خراب مال مویشی نہ دیے جائیں۔ اسی طرح قربانی کے گوشت میں بھی ملا جلا گوشت صدقہ کیا جائے۔ یہ نہیں کہ اچھی اچھی بوٹیاں اپنے لئے اور چھیچھڑے اور ہڈیاں غرباء کے لئے۔ لیکن آخر الذکر اقسام کے نفلی صدقات میں تو کچھ بھی دیا جاسکتا ہے۔حتیٰ کہ اپنی استعمال شدہ پرانی (مگر غرباء کے لئے کارآمد) اشیا ءبھی۔بالخصوص جب مانگنے والے پرانی اشیاء کے طالب ہوں، یا لینے پر بخوشی آمادہ ہوں۔ یہ بھی صدقہ ہے اور اس کا بھی اجر ہے۔ اور اس قسم کے صدقات دینے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ پرانی اور اپنی ضرورت سے زائد ہوجانے والی کارآمد اشیاء کو فروخت کرنا (جبکہ آپ کو رقم کی ضرورت بھی نہ ہو)، اسے تلف کردینا یا اسے ناقابل استعمال اسٹور میں ڈمپ کردینے سے بہتر یہ ہے کہ اسے کسی ضرورتمند کو ”صدقہ“ کردیا جائے۔صدقہ کو یہاں واوین میں اس لئے لکھا گیا ہے کہ بعض لوگ ”اس عمل“ کو صدقہ ہی نہیں سمجھتے۔ جیسے ہم عجمی بالعموم ”زکوٰۃ“ کو ”صدقہ“ نہیں سمجھتے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
پسِ نوشت: اگر کسی صاحب علم کو اوپر کوئی بات خلاف شرع نظر آئے تو حوالہ جات کے ساتھ تصحیح ضرور کرے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
لیکن جب دین کے مرتبہِ احسان کے حوالے سے دیکھیں، تو اسکے بارے میں مشعلِ راہ تیسرے پارے کی پہلی آیت ہے۔ یعنی:
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ
تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
مذکورہ آیت تیسرے نہیں بلکہ چوتھے پارے کی پہلی آیت ہے۔ تیسرا پارہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 253 سے شروع ہوتا ہے جو درج ذیل ہے:
2_253.gif
 

انتہا

محفلین
حدثنا يحيی بن موسی وسفيان بن وکيع المعنی واحد قالا حدثنا يزيد بن هارون حدثنا الأصبغ بن زيد حدثنا أبو العلا عن أبي أمامة قال لبس عمر بن الخطاب رضي الله عنه ثوبا جديدا فقال الحمد لله الذي کساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي ثم عمد إلی الثوب الذي أخلق فتصدق به ثم قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول من لبس ثوبا جديدا فقال الحمد لله الذي کساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي ثم عمد إلی الثوب الذي أخلق فتصدق به کان في کنف الله وفي حفظ الله وفي ستر الله حيا وميتا قال أبو عيسی هذا حديث غريب وقد رواه يحيی بن أيوب عن عبيد الله بن زحر عن علي بن يزيد عن القاسم عن أبي أمامة
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1516 حدیث مرفوع مکررات 2
یحیی بن موسیٰ وسفیان بن وکیع، یزید بن ہارون، اصبغ بن زید، ابوالعلاء، حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نئے کپڑے پہن کر یہ دعا پڑھی الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي کَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي ثُمَّ عَمَدَ إِلَی الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي کَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي (یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ ستر ڈھانپنے اور زندگی سنوارنے کے لئے کپڑے پہنائے) اور پھر فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جس نے نیا کپڑا پہننے پر یہ دعا پڑھی اور پھر پرانا کپڑا صدقے میں دے دیا وہ اللہ کی حفاظت، اس کی پناہ اور پردے میں رہے گا۔ خواہ وہ زندہ رہے یا مرجائے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ یحیی بن ایوب اس حدیث کو عبید بن زحر سے وہ علی بن یزید سے وہ قاسم سے اور وہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
ہر عمل میں مطلوب و مقصود تو نیت ہے ۔۔
اب اگر کوئی صاحبِ حیثیت انسان ہے تو اسے یقینا اللہ کی راہ میں کوئی چیز دینی ہے تو بہترین سے بہترین دیں۔۔۔
اس کے بر عکس کسی کی اتنی حیثیت نہیں مگر انہیں اللہ کی راہ میں دے کر ثواب حاصل کرنا مقصود ہے تو بلاشبہ وہ کوئی پرانی چیز بھی دے سکتے ہیں اور نیت کے مطابق انہیں اس کا زیادہ ثواب ملے گا ۔۔
تیسری صورت کوئی صاحبِ حیثیت انسان ہے لیکن وہ اپنی حثیت کے مطابق نہیں دے رہا پرانی چیز دے رہا ہے تو اس صورت میں ان کا یہ عمل محتسن نہیں سمجھا جائے گا ۔۔لیکن بہر حال ضرورت مند اس سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں تو اس بات کا ثواب تو ملنا ہی ہے ۔۔۔
 

انتہا

محفلین
میرے خیال سے دھاگے کا عنوان ”کیا پرانی چیز صدقہ کی جا سکتی ہے“ ہے، جس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ پرانی چیز کا استعمال کے بعد کیا کیا جائے اور اگر اسے صدقہ کر دیا جائے تو اس کا ثواب ہو گا کہ نہیں۔ ہم شاید اس سے آگے جا رہے ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
جزاک اللہ انتہا!
جی ہاں! آپ نے درست نشاندہی کی کہ دھاگہ کا مقصد صرف یہی معلوم کرنا نظر آتا ہے کہ:
  1. پرانی اشیاء کو صدقہ کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
  2. اگر پرانی اشیاء فقرا و مساکین کو دیا جائے تو اس سے ثواب ملے گا یا نہیں۔
میرا خیال ہے کہ اب تک کے مکالموں سے دونوں باتیں واضح ہوگئی ہیں کہ ایسا کیا جاسکتا ہے اور اس عمل سے ثواب بھی ضرور ملے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔گو کہ پرانی اشیاء کا ”ڈسپوزل“ اصل موضوع بحث نہ تھا، مگر اس جانب بھی بات چیت ہوئی اور صدقہ کے وسیع مفہوم کو بھی کسی نہ کسی حد تک سمیٹا گیا۔ کسی کو تحفہ یا ہدیہ دینا بھی ”صدقہ“ ہی کی ایک قسم میں شمار ہوگا بشرطیکہ یہ کسی دنیوی مقصد کے لئےنہیں بلکہ رضائے الٰہی کے حصول کی نیت سے کیا گیاہو۔ جن احادیث میں ہدیہ اور صدقہ میں ”فرق“ بتلایا گیا ہے (جیسے اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدیہ توقبول کرلیا لیکن صدقہ کو قبول نہیں کیا)، وہاں ”صدقہ“ سے مراد یقیناً ” زکوٰۃ“ ہے، جس کا لینا اہل بیت کے لئے جائز نہ تھا۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top