کیا ڈاکٹر صاحب ٹھیک کر رہے ہیں؟.

ساجد

محفلین
جیسا کہ ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ پاکستان کے معروف ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سیاست میں فعال ہو رہے ہیں اور اس مقصد کے پیشِ نظر انہوں نے اپنی ایک سیاسی جماعت تحریکِ تحفظِ پاکستان کے نام سے بنائی ہے جس کی رجسٹریشن 17 جولائی 2012 کو الیکشن کمشن آف پاکستان میں کروا دی گئی ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک معروف علمی شخصیت ہیں اور سائنس کے حوالے سے اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں ان کا کردار بہت اہم مانا جاتا ہے جبکہ امریکہ اور مغربی دنیا ان پر ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف مواقع پر الزامات لگاتے رہے ہیں ۔ اسی بنا پر انہیں طویل نظر بندی کا سامنا بھی رہا۔
پاکستان کے ہر شہری کی طرح آئینِ پاکستان انہیں کسی بھی سیاسی جماعت کو ووٹ دینے یا اپنی جماعت بنانے کا حق دیتا ہے لیکن معروضی حالات کے پیشِ نظر ان کا یہ فیصلہ مغربی دنیا اور امریکہ میں دوسرے پہلو سے دیکھا جا رہا ہے اور وہ پہلو ہے ان کا ایران اور لیبیا کو ایٹمی مدد فراہم کرنے کا اعتراف۔ اور مذکورہ ممالک نے بھی عالمی برادری کے سامنے ان کی مدد لئے جانے کا اعترف کیا تھا۔
اب جبکہ مغربی میڈیا میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے سیاست میں آنے پر ان پر تنقید اور پاکستان پر ایک بار پھر سے دباؤ بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا سیاست میں آنے کا فیصلہ دانشمندانہ اقدام ہے یا انہیں ابھی تھوڑا انتظار کرنا چاہئیے تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس میں اس حوالے سے شائع ہونے والی ”بدنام پاکستان“ کے نام سے ایک خبر ملاحظہ کیجئے اور اسی سے ملتے جلتے تجزئے دیگر امریکی و مغربی اخبارات میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اسے پاکستان میں زوال کی انتہائی حدوں کو چھوتے سیاسی کلچر کا شاخسانہ کہئے یا کچھ اور کہ ڈاکٹر قدیر کے سیاست میں آنے پر تحفظات کا شکار سیاستدان اپنی بیان بازی میں مجرمانہ حد تک بے احتیاطی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہو رہا کہ ڈاکٹر صاحب کی سیاست میں آمد اور ہماری سیاستدانوں کی عاقبت نا اندیشی عالمی برادری کو ہمارے خلاف ایک اور ایف آئی آر کاٹنے کا موقع دینے جا رہی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ساجد بھائی عالمی برادری کبھی بھی پاکستان کو مضبوط پاکستان دیکھنے کے حق میں نہیں۔

ڈاکٹر صاحب کو سیاست میں آنا چاہیے اور بڑے دھڑلے سے آنا چاہیے۔
 
نئی نئی پارٹیاں بنانے سے بہتر ہے کہ ایک قدرے بہتر پارٹی کو مضبوط کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو یعنی یہ عمل صالح نہ ہو تو " وتواصو بالحق واتواصو بالصبر" پر عمل کیا جائے :)
 
جتنی غلیظ سیاست پاکستان میں ہے اس لحاظ سے ڈاکٹر صاحب کو نہیں آنا چاہئیے لیکن دوسری طرف اگر کوئی اچھی بندہ نہیں آئے گا تو سیاست صاف کیسے ہوگی لہذا میرا ووٹ یہی ہےکہ ڈاکٹر سیاست میں ضرور آئیں۔
رہی بات امریکہ وغیرہ کی تو کیا وہ کبھی پاکستان کی بہتری میں خوش ہوئے ہیں؟
 

نایاب

لائبریرین
پاکستان میں گندی سیاست میں مہارت رکھنے والوں میں اک سے بڑھ کر اک مداری شامل ہے ۔ وہی بازیگر ڈاکٹر صاحب کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیئے بطور " بچہ جمہورا " استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ اور منظر نامہ کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان مداریوں کے ہاتھوں میں کھیلتے اپنی شہرت و عظمت کو داؤ پر لگا دیں گے ۔ پاکستان کے موجودہ ہمہ قسم بگڑے حالات بلا شبہ اک ڈکٹیٹر ٹائپ محب الوطن لیڈر ہی درست کر سکتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اور عمران خان اس وقت ایسی شخصیات ہیں جن سے امید وابستہ کی جا سکتی ہے ۔ مگر ان دونوں کے آس پاس وہی مداری منڈلاتے نظر آتے ہیں ۔ جن کی پہلی غرض ذاتی مفاد کا حصول ہے ۔ اگر یہ دونوں خان مل جائیں اور جھوٹے مداریوں سے سہارے کی امید چھوڑ کر سیاست کو صرف سیاست سے دور رکھتے " عبادت " کی نیت سے سامنے آئیں تو ناممکن نہیں کہ انہیں ایسی بہترین ٹیم مل جائے جو کہ پاکستان کے حالات کو بدل دے ۔ موجودہ سیٹ اپ میں تو ان دونوں خانوں کے آس پاس وہی مفاد پرست مداریوں کا ٹولہ ہے ۔
 

سید ذیشان

محفلین
TTP کے جملہ حقوق تو تحریک طالبان پاکستان کے پاس محفوظ ہیں۔ طالبان کو اس پارٹی کے مخفف کو استعمال کرنے پر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنا چاہیے۔

باقی ان کے سیاست میں آنے کے بارے میں نے کسی آرٹیکل میں پڑا تھا کہ شفیق الرحمٰن، پطرس بخاری اور مشتاق احمد یوسفی کے بعد اب قدیر صاحب ملے ہیں پاکستان کو، جس پر پاکستان کو فخر کرنا چاہیے۔
 
Top