فاتح
لائبریرین
دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
سن لیجیو کہ عرش کا ایوان بہہ گیا
بل بے گدازِ عشق کہ خوں ہو کے دل کے ساتھ
سینے سے تیرے تیر کا پیکان بہہ گیا
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ہے موجِ بحرِ عشق وہ طوفاں کہ الحفیظ
بے چارہ مشتِ خاک تھا انسان بہہ گیا
دریائے اشک میں دمِ تحریر حالِ دل
کشتی کی طرح میرا قلم دان بہہ گیا
یہ روئے پھوٹ پھوٹ کے پاؤں کے آبلے
نالہ سا ایک سوئے بیابان بہہ گیا
تھا تو بہا میں بیش پر اس لب کے سامنے
سب مول تیرا لعلِ بدخشان بہہ گیا
کشتی سوارِ عمر ہوں، بحرِ فنا میں جسم
جس دم بہا کے لے گیا طوفان بہہ گیا
تھا ذوقؔ پہلے دہلی میں پنجاب کا سا حسن
پر اب وہ پانی کہتے ہیں ملتان بہہ گیا *
* آبِ حیات میں محمد حسین آزاد نے مقطع اس شکل میں لکھا ہے:
پنجاب میں بھی وہ نہ رہی آب و تابِ حسن
اے ذوقؔ پانی اب تو وہ ملتان بہہ گیا
محمد ابراہیم ذوقؔ