کیا کوئی مجھے "ولی دکنی۔ سودا۔ درد کے غزلوں کو سمجھا یا تشریح کر سکتا ہے؟

"فارقلیط" اردو زبان کا لفظ ہے تو اس کی انگلشTriumph
بمعنی
شفیع, میانجی, روح القدس
عربی: المعزی
فارسی: پیروزی بمعنی فتح

"فارقلیط" فارسی زبان کا لفظ ہے تو اس کی انگلشParaclete
عربی: روح القدس
 
ماشاء اللہ اللہ آپ سبھی کو جزائے خیر دے۔ بہت اچھی تشریح کی گئی ہے۔۔
میں اسکے لیے محمد یعقوب آسی و فارقلیت رحمانی صاحب کا بہت بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس غزل کی تشریح کی۔۔
میں اب ولی کی دوسری غزل پوسٹ کرنے جا رہا ہوں۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ماشاء اللہ اللہ آپ سبھی کو جزائے خیر دے۔ بہت اچھی تشریح کی گئی ہے۔۔
میں اسکے لیے محمد یعقوب آسی و فارقلیط رحمانی صاحب کا بہت بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس غزل کی تشریح کی۔۔
میں اب ولی کی دوسری غزل پوسٹ کرنے جا رہا ہوں۔۔۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
بہت بہت شکریہ ! اس جانب توجہ دلانے کے لیے۔
اب تک تو میں بھی عبرانی کالفظ سمجھتا تھا؟
لیکن آپ کے دریافت کرنے پر جب تحقیق کی تو
پتہ چلا کہ یہ لفظ "فارقلیط" یونانی زبان کا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے:
A Comorehensive Persian-English Dictionary Page No.903 Column 2 Line 18
یہاں اسے یونانی کا لفظ بتایا گیا ہے۔
اس کی کچھ تفصیل قصص القرآن مرتبہ حفظ الرحمٰن سیوہاروی جلد چہارم صفحۃ نمبر 244 پر بھی موجود ہے۔
 

الشفاء

لائبریرین
عجب کچھ لطف رکھتا ہے' شب خلوت میں گلرو‘ سوں
خطاب آہستہ آہستہ' جواب آہستہ آہستہ


شب خلوت میں گلرو سوں خطاب و جواب ، آہستہ آہستہ۔۔۔ واہ۔ واہ۔۔واہ۔۔۔

اتنی اچھی غزل پہ تھوڑی داد وغیرہ بھی ہونی چاہیئے کہ نہیں۔۔۔:)
 
عجب کچھ لطف رکھتا ہے' شب خلوت میں گلرو‘ سوں
خطاب آہستہ آہستہ' جواب آہستہ آہستہ


شب خلوت میں گلرو سوں خطاب و جواب ، آہستہ آہستہ۔۔۔ واہ۔ واہ۔۔واہ۔۔۔

اتنی اچھی غزل پہ تھوڑی داد وغیرہ بھی ہونی چاہیئے کہ نہیں۔۔۔:)

جب ہم کہتے ہیں کہ یہ میر کی غزل ہے تو داد کیا، سارے اعتراف اس ایک نام میں آ جاتے ہیں۔ ادب میں کتنے ہی میر اور رہے ہوں گے، پر ایک لفظ کے نام والا میر ایک ہی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
جب ہم کہتے ہیں کہ یہ میر کی غزل ہے تو داد کیا، سارے اعتراف اس ایک نام میں آ جاتے ہیں۔ ادب میں کتنے ہی میر اور رہے ہوں گے، پر ایک لفظ کے نام والا میر ایک ہی ہے۔
اور اس " ایک " میر کی غزل ۔۔۔۔۔۔۔ اور تشریح اتنی آسان ۔۔۔۔۔؟
استاد محترم کیا اس غزل کے پہلے مصرع کا ہر لفظ ہی اپنی تشریح میں دیوان سے بڑھ کر وسعت نہیں رکھتا ۔۔ ؟
" کیا " مجھ " عشق"نے " ظالم "کوں " آب" آہستہ آہستہ "
یہ صرف مجاز کا بیان نہیں ۔۔۔
"یہ میرے عشق نے کس ظالم کو آہستگی سے پانی کر دیا " کتنی پرتیں ہیں اس مصرعے کی ۔ کتنی پرتوں کو کھولے سامع و قاری ۔
سبحان اللہ
بلاشک " میر" میر ہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں

کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
 
اور اس " ایک " میر کی غزل ۔۔۔۔۔۔۔ اور تشریح اتنی آسان ۔۔۔۔۔؟
استاد محترم کیا اس غزل کے پہلے مصرع کا ہر لفظ ہی اپنی تشریح میں دیوان سے بڑھ کر وسعت نہیں رکھتا ۔۔ ؟
" کیا " مجھ " عشق"نے " ظالم "کوں " آب" آہستہ آہستہ "
یہ صرف مجاز کا بیان نہیں ۔۔۔
"یہ میرے عشق نے کس ظالم کو آہستگی سے پانی کر دیا " کتنی پرتیں ہیں اس مصرعے کی ۔ کتنی پرتوں کو کھولے سامع و قاری ۔
سبحان اللہ
بلاشک " میر" میر ہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں

آپ کی محبت ہے صاحب۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
وہ صنم جب سوں بسا دیدہ حیراں میں آ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آتش عشق پڑی عقل کے ساماں میں آ
صنم- (بمعنی بُت جمع اَصنام) یہاں اس کے مجازی یا مقصودی معنیٰ ہوں گے معشوق کے
جب سوں - جب سے
دیدہ حیراں- حیرت زدہ آنکھیں یا تعجب خیز آنکھیں یا حیرت و تعجب سے خیرہ آنکھیں
آتش عشق - عشق کی آگ، محبت کی آگ
عقل کا سامان- وہ اجزاء جن کے مجموعہ کو عقل کا نام دیا جاتا ہے۔ ہشیاری، سمجھ داری، فہم وادراک وغیرہ
عقل کا سامان - یا حواس خمسہ جو عقل کو کسی شے کا مکمل ادراک کرنے یعنی کسی چیز کو پوری طرح سمجھنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
وہ صنم جب سوں بسا دیدہ حیراں میں آ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آتش عشق پڑی عقل کے ساماں میں آ
صنم- (بمعنی بُت جمع اَصنام) یہاں اس کے مجازی یا مقصودی معنیٰ ہوں گے معشوق کے
جب سوں - جب سے
دیدہ حیراں- حیرت زدہ آنکھیں یا تعجب خیز آنکھیں یا حیرت و تعجب سے خیرہ آنکھیں
آتش عشق - عشق کی آگ، محبت کی آگ
عقل کا سامان- وہ اجزاء جن کے مجموعہ کو عقل کا نام دیا جاتا ہے۔ ہشیاری، سمجھ داری، فہم وادراک وغیرہ
عقل کا سامان - یا حواس خمسہ جو عقل کو کسی شے کا مکمل ادراک کرنے یعنی کسی چیز کو پوری طرح سمجھنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
وہ معشوق آ کر جب سے میری حیران و پریشان آنکھوں میں بس گیا ہے۔
آنکھوں میں بسنا سے مراد پسند آنا ، وہ حسین وجمیل معشوق جب سے مجھے پسند آ گیا ہے،
یعنی جب سے مجھے اُس سے محبت ہو گئی ہے،ایسا لگتا ہےگویا میرےحواس پر محبت کی آگ
پڑگئی ہو، جس کے نتیجہ میں اب میں حواس باختہ ہو چکا ہوں، محبت کی آگ میری عقل
کے سامان پر کچھ اس طرح سے پڑی کہ اب میری عقل ناکارہ ہو چکی ہے، میں کچھ سمجھنے
کے قابل نہیں رہا۔
 
میں نے آپ حضرات سے اس غزل کی تشریح سیکھ کر اس کی تشریح خود سے کرنے جا رہا ہوں اگر کوئی کمی یا غلطی ہو تو برائے مہربانی نشاندہی کریں۔۔ خاص کر کہ میری درخواست استاد محترم محمد یعقوب آسی سے ہے۔۔
کیا مجھ عشق نے ظالم کٗوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوٗں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ۔

اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ بے رحم یا سنگ دل محبوب نے مجھ جیسے عاشق کو آہستہ آہستہ پگھلا دیا ہے۔۔ یہاں آب سے مراد پگھلا دینا ہے۔۔
جیسے آگ گل کو اپنے تپش سے پگھلا کر پانی بنا دیتی ہے۔ یہاں گلاب سے مراد پھول کا پانی یا عرق ہے۔ اسی طرح سنگ دل محبوب کے عشق نے مجھ کو پگھلا دیا ہے۔۔

عجب کچھ لطف رکھتا ہے' شب خلوت میں گلرو‘ سوں
خطاب آہستہ آہستہ' جواب آہستہ آہستہ

اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ پھول جیسے چہرے والا یعنی محبوب کی یاد یا اسکا وجود رات کی تنہائی میں عجب مزا دیتا ہے کہ محبوب سے اسی
شب تنہائی میں آہستہ آہستہ باتیں بھی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ جواب بھی ملتا رہتا ہے۔۔

مرے دل کوںٗ کیا بے خود' تری انکھیاں نے آخر کوٗں
کہ جیٗوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ

اس مصرعے میں شاعر اپنی دلی کیفیت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ بلآخر تیری آنکھوں نے میرے دل کو بے خود یعنی مدہوش کر دیا ہے جیسے شراب اپنے پینے والوں
کو آہستہ آہستہ بے ہوش و بےخود کر دیتی ہے۔ ٹھیک وہی کیفیت مجھ پہ بھی طاری ہے۔۔


ادا و ناز سوٗں آتا ہے وہ روشن جبیں گھر سوٗں

کہ جیوٗں مشرق سے نکلے آفتاب آہستہ آہستہ
اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے مشرق سے آفتاب آہستہ آہستہ نکلتا ہے اسی طرح میرا (روشن جبیں معنی روشن پیشانی والا مراد) محبوب ادا و ناز سے
گھر سے آتا ہے۔


ولی! مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا
کہ جیوٗں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
غزل کے مقطع میں شاعر کہتا ہے کہ ولی! جیسے آنکھوں میں خواب آہستہ آہستہ آتا ہے ٹھیک اسی طرح میرے دل میں یار کا یعنی محبوب کا خیال بغیر پوچھے گچھے یا بغیر دریافت کیے ہوئے آتا ہے۔
 
کیا مجھ عشق نے ظالم کٗوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوٗں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ۔

اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ بے رحم یا سنگ دل محبوب نے مجھ جیسے عاشق کو آہستہ آہستہ پگھلا دیا ہے۔۔ یہاں آب سے مراد پگھلا دینا ہے۔۔
جیسے آگ گل کو اپنے تپش سے پگھلا کر پانی بنا دیتی ہے۔ یہاں گلاب سے مراد پھول کا پانی یا عرق ہے۔ اسی طرح سنگ دل محبوب کے عشق نے مجھ کو پگھلا دیا ہے۔۔
پہلے مصرع میں فاعل اور مفعول کو الٹ پلٹ کردیا ہے آپ نے شاید۔
بے رحم یا سنگ دل محبوب کو مجھ جیسے عاشق نے

اسی طرح دوسرے مصرع میں تپش کلی کو گلاب بنا دیتی ہے
عجب کچھ لطف رکھتا ہے' شب خلوت میں گلرو‘ سوں
خطاب آہستہ آہستہ' جواب آہستہ آہستہ

اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ پھول جیسے چہرے والا یعنی محبوب کی یاد یا اسکا وجود رات کی تنہائی میں عجب مزا دیتا ہے کہ محبوب سے اسی
شب تنہائی میں آہستہ آہستہ باتیں بھی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ جواب بھی ملتا رہتا ہے۔۔

پھول جیسے چہرے والا یعنی محبوب سے رات کی ملاقات عجب مزا دیتی ہے کہ محبوب سے اسی
شب وصل میں آہستہ آہستہ باتیں بھی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ جواب بھی ملتا رہتا ہے۔۔
 
آخری تدوین:
میں نے آپ حضرات سے اس غزل کی تشریح سیکھ کر اس کی تشریح خود سے کرنے جا رہا ہوں اگر کوئی کمی یا غلطی ہو تو برائے مہربانی نشاندہی کریں۔۔ خاص کر کہ میری درخواست استاد محترم محمد یعقوب آسی سے ہے۔۔
کیا مجھ عشق نے ظالم کٗوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوٗں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ۔

اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ بے رحم یا سنگ دل محبوب نے مجھ جیسے عاشق کو آہستہ آہستہ پگھلا دیا ہے۔۔ یہاں آب سے مراد پگھلا دینا ہے۔۔
جیسے آگ گل کو اپنے تپش سے پگھلا کر پانی بنا دیتی ہے۔ یہاں گلاب سے مراد پھول کا پانی یا عرق ہے۔ اسی طرح سنگ دل محبوب کے عشق نے مجھ کو پگھلا دیا ہے۔۔

عجب کچھ لطف رکھتا ہے' شب خلوت میں گلرو‘ سوں
خطاب آہستہ آہستہ' جواب آہستہ آہستہ

اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ پھول جیسے چہرے والا یعنی محبوب کی یاد یا اسکا وجود رات کی تنہائی میں عجب مزا دیتا ہے کہ محبوب سے اسی
شب تنہائی میں آہستہ آہستہ باتیں بھی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ جواب بھی ملتا رہتا ہے۔۔

مرے دل کوںٗ کیا بے خود' تری انکھیاں نے آخر کوٗں
کہ جیٗوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ

اس مصرعے میں شاعر اپنی دلی کیفیت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ بلآخر تیری آنکھوں نے میرے دل کو بے خود یعنی مدہوش کر دیا ہے جیسے شراب اپنے پینے والوں
کو آہستہ آہستہ بے ہوش و بےخود کر دیتی ہے۔ ٹھیک وہی کیفیت مجھ پہ بھی طاری ہے۔۔

ادا و ناز سوٗں آتا ہے وہ روشن جبیں گھر سوٗں
کہ جیوٗں مشرق سے نکلے آفتاب آہستہ آہستہ
اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے مشرق سے آفتاب آہستہ آہستہ نکلتا ہے اسی طرح میرا (روشن جبیں معنی روشن پیشانی والا مراد) محبوب ادا و ناز سے

گھر سے آتا ہے۔

ولی! مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا
کہ جیوٗں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
غزل کے مقطع میں شاعر کہتا ہے کہ ولی! جیسے آنکھوں میں خواب آہستہ آہستہ آتا ہے ٹھیک اسی طرح میرے دل میں یار کا یعنی محبوب کا خیال بغیر پوچھے گچھے یا بغیر دریافت کیے ہوئے آتا ہے۔

مناسب ہے۔ تاہم ایک دو باتیں نوٹ کر لیجئے۔
آپ نے ہر جگہ شعر کو مصرع کہا ہے۔ یہ جملہ بار بار دہرانے کی ضرورت عام طور پر نہیں ہوتی، مگر ہمارے کالجوں میں یہی انداز مستعمل ہے، کلاس ٹیچر کی ترجیح بہر حال اپنی اہمیت رکھتی ہے۔
کچھ بات املاء کی بھی ہو جائے۔
بِالآخر، بِالکل، بِالمشافہ، بِالاِتفاق، بِالاِستعیاب، بِالجبر، امر بِالمعروف ۔۔ ان میں ب (بمعنی: ساتھ، سے) پر زیر ہے، اور الف لام تعریفی کا الف بولتا نہیں، لکھنے میں لازماً آئے گا۔
اس سے ملتا جلتا معاملہ ان تراکیب کا ہے: نہی عَنِ المنکَر، علَی الرغم، علَی الاِطلاق، تسہیلُ الاِملاء، بدیعُ الزمان، عبدُ الستار، شمسُ الحق؛ معتصم بِاللہ، بِسمِ اللہ۔
بِسمِ اللہ میں ب کے بعد کا الف لکھنے میں نہیں آیا۔ یہ لکھنے میں آتا بھی ہے تو بولتا نہیں: اِقرَاءْ بِاسمِ رَبِّکَ الَّذی خَلَقَ۔
یاد رہے کہ لِلّٰہ میں لفظ اللہ کا الف لکھنے میں بھی نہیں آتا: الحمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلمین۔
 
آخری تدوین:
پہلے مصرع میں فاعل اور مفعول کو الٹ پلٹ کردیا ہے آپ نے شاید۔
بے رحم یا سنگ دل محبوب کو مجھ جیسے عاشق نے
اسی طرح دوسرے مصرع میں تپش کلی کو گلاب بنا دیتی ہے

پھول جیسے چہرے والا یعنی محبوب سے رات کی ملاقات عجب مزا دیتی ہے کہ محبوب سے شب وصل میں آہستہ آہستہ باتیں بھی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ جواب بھی ملتا رہتا ہے۔۔

بالکل درست نشان دہی کی ہے آپ نے۔
"آہستہ آہستہ باتیں بھی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ جواب بھی ملتا رہتا ہے" یہاں "سرگوشیاں" بہت مناسب رہے گا۔


محمد دانش اقبال
 
اب میں ولی کی دوسری غزل پوسٹ کر رہا ہوں۔۔۔

وہ صنم جب سوں بسا دیدۂ حیران میں آ
آتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آ

ناز دیتا نہیں گر رخصت گلگشت چمن
اے چمن زار حیا دل کے گلستان مین آ

یاد آتا ہےمجھے جب' وو گل باغ وفا
اشک کرتے ہیں مکاں گوشۂ دامان میں آ

موج بے تابی دل' اشک میں ہئی جلوہ نما
جب بسی زلف صنم' طبع پریشان میں آ

نالہ و آہ کی تفصیل نہ پٗوچھ مجھ سوں
دفتر درد بسا عشق کے دامان میں آ

پنجۂ عشق نے بے تاب کیا جب سوٗں مجھے
چاک دل تب سوٗں بسا چاک گریبان میں آ

حسن تھا پردہ تجرید میں سب سوٗں آزاد
طالب عشق ہوا ' پردۂ انسان میں آ

غم سوٗں تیرے ہے ترحم کا محل حال ولی
ظلم کوٗں چھوڑ سجن ! شیوۂ احسان میں آ​
 
مدیر کی آخری تدوین:
وہ صنم جب سوں بسا دیدۂ حیران میں آ
آتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آ
سوں، کوں سے تو آپ شناسا ہو چکے ہیں۔ اب بات آسان ہو جانی چاہئے۔
جب سے وہ صنم (محبوب کو بُت کہنا اردو شعر کی روایات میں شامل ہے) میری چشمِ حیران میں میں آن بسا ہے (آنکھوں میں بسنا: اچھا لگنا، محبوب ہونا) عشق کی آگ عقل کے سامان میں آ پڑی ہے، یعنی عقل کام نہیں کر رہی۔ مختصر الفاظ میں: عشق نے مت مار دی ہے۔
 
آخری تدوین:
ناز دیتا نہیں گر رخصت گلگشت چمن
اے چمن زار حیا دل کے گلستان میں آ
خطاب محبوب سے ہی کہ اگر تیرا ناز (نخرہ) باغ میں ٹہلنے کی اجازت نہیں دیتا تو اے حیا کے چمن زار میرے دل کے گلستان میں آ جا۔
رخصت: اجازت، گل گشت: پھولوں کی سیر، باغ کی سیر، چمن زارِ حیا: محبوب کے لئے استعارہ ہے کہ وہ حسن میں پھولوں بلکہ باغوں سے بڑھ کر ہے اور اس کی حیا اسے اور حسین بنا رہی ہے۔
 
یاد آتا ہےمجھے جب' وو گل باغ وفا
اشک کرتے ہیں مکاں گوشۂ دامان میں آ
گُلِ باغِ وفا: دوہری ترکیب ہے، وفا کے باغ کا پھول، یہ بھی محبوب کی طرف اشارہ ہے۔ مکاں کرنا: بسیرا کرنا، ٹھکانا اختیار کرنا، گوشہء دامان: دامن کا پلو، سرا، گود کچھ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ وو : وُہ۔ آ : آکر جیسے پہلے شعر میں آیا ہے۔
مجھے وفا کے باغ کا وہ پھول (جس سے وفا کا حسن ہے) یاد آتا ہے تو میرے دامن میں آنسو بسیرا کر لیتے ہیں، میں زار و قطار روتا ہوں۔
 
آخری تدوین:
موج بے تابی دل' اشک میں ہئی جلوہ نما
جب بسی زلف صنم' طبع پریشان میں آ
موجِ بے تابیء دل: دل کی بے تابی کی موج ۔ ہئی : یہ ممکنہ طور پر "ہوئی" کی تخفیف ہے۔ جلوہ نما: جو جلوہ دکھائے، ظاہر ہو۔ طبعِ پریشان : پریشان طبیعت۔ زلفِ صنم: محبوب کی زلفیں۔
جب سے محبوب کی زلفیں میری پریشان طبیعت میں بس گئی ہیں یعنی بھا گئی ہیں اچھی لگ گئی ہیں، تب سے دل کی بے تابی کی موج آنسوؤں کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔
اس شعر میں زلفِ پریشان (بے پروائی کے سبب بکھری ہوئی زلفیں) کہے بغیر اس کی رعایت سے طبعِ پریشان کی ترکیب لائی گئی ہے۔
 
Top