میں نے آپ حضرات سے اس غزل کی تشریح سیکھ کر اس کی تشریح خود سے کرنے جا رہا ہوں اگر کوئی کمی یا غلطی ہو تو برائے مہربانی نشاندہی کریں۔۔ خاص کر کہ میری درخواست استاد محترم محمد یعقوب آسی سے ہے۔۔
کیا مجھ عشق نے ظالم کٗوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوٗں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ۔
اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ بے رحم یا سنگ دل محبوب نے مجھ جیسے عاشق کو آہستہ آہستہ پگھلا دیا ہے۔۔ یہاں آب سے مراد پگھلا دینا ہے۔۔
جیسے آگ گل کو اپنے تپش سے پگھلا کر پانی بنا دیتی ہے۔ یہاں گلاب سے مراد پھول کا پانی یا عرق ہے۔ اسی طرح سنگ دل محبوب کے عشق نے مجھ کو پگھلا دیا ہے۔۔
عجب کچھ لطف رکھتا ہے' شب خلوت میں گلرو‘ سوں
خطاب آہستہ آہستہ' جواب آہستہ آہستہ
اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ پھول جیسے چہرے والا یعنی محبوب کی یاد یا اسکا وجود رات کی تنہائی میں عجب مزا دیتا ہے کہ محبوب سے اسی
شب تنہائی میں آہستہ آہستہ باتیں بھی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ جواب بھی ملتا رہتا ہے۔۔
مرے دل کوںٗ کیا بے خود' تری انکھیاں نے آخر کوٗں
کہ جیٗوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ
اس مصرعے میں شاعر اپنی دلی کیفیت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ بلآخر تیری آنکھوں نے میرے دل کو بے خود یعنی مدہوش کر دیا ہے جیسے شراب اپنے پینے والوں
کو آہستہ آہستہ بے ہوش و بےخود کر دیتی ہے۔ ٹھیک وہی کیفیت مجھ پہ بھی طاری ہے۔۔
ادا و ناز سوٗں آتا ہے وہ روشن جبیں گھر سوٗں
کہ جیوٗں مشرق سے نکلے آفتاب آہستہ آہستہ
اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ جیسے مشرق سے آفتاب آہستہ آہستہ نکلتا ہے اسی طرح میرا (روشن جبیں معنی روشن پیشانی والا مراد) محبوب ادا و ناز سے
گھر سے آتا ہے۔
ولی! مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا
کہ جیوٗں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
غزل کے مقطع میں شاعر کہتا ہے کہ ولی! جیسے آنکھوں میں خواب آہستہ آہستہ آتا ہے ٹھیک اسی طرح میرے دل میں یار کا یعنی محبوب کا خیال بغیر پوچھے گچھے یا بغیر دریافت کیے ہوئے آتا ہے۔
مناسب ہے۔ تاہم ایک دو باتیں نوٹ کر لیجئے۔
آپ نے ہر جگہ شعر کو مصرع کہا ہے۔ یہ جملہ بار بار دہرانے کی ضرورت عام طور پر نہیں ہوتی، مگر ہمارے کالجوں میں یہی انداز مستعمل ہے، کلاس ٹیچر کی ترجیح بہر حال اپنی اہمیت رکھتی ہے۔
کچھ بات املاء کی بھی ہو جائے۔
بِالآخر، بِالکل، بِالمشافہ، بِالاِتفاق، بِالاِستعیاب، بِالجبر، امر بِالمعروف ۔۔ ان میں ب (بمعنی: ساتھ، سے) پر زیر ہے، اور الف لام تعریفی کا الف بولتا نہیں، لکھنے میں لازماً آئے گا۔
اس سے ملتا جلتا معاملہ ان تراکیب کا ہے: نہی عَنِ المنکَر، علَی الرغم، علَی الاِطلاق، تسہیلُ الاِملاء، بدیعُ الزمان، عبدُ الستار، شمسُ الحق؛ معتصم بِاللہ، بِسمِ اللہ۔
بِسمِ اللہ میں ب کے بعد کا الف لکھنے میں نہیں آیا۔ یہ لکھنے میں آتا بھی ہے تو بولتا نہیں: اِقرَاءْ بِاسمِ رَبِّکَ الَّذی خَلَقَ۔
یاد رہے کہ لِلّٰہ میں لفظ اللہ کا الف لکھنے میں بھی نہیں آتا: الحمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلمین۔