میر کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں‌جان پر (میر تقی میر)

کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں‌جان پر
اطفالِ شہر لائے ہیں آفت جہان پر

کچھ ان دنوں اشارہء ابرو ہیں تیز تیز
کیا تم نے پھر رکھی ہے یہ تلوار سان پر

کس پر تھے بے دماغ کے ابرو بہت ہے خم
کچھ زور سا پڑا ہے کہیں اس گمان پر

چرچا سا کر دیا ہے مرے شورَ عشق نے
مذکور اب بھی ہے یہ ہر اک کی زبان پر

دامن میں آد میر کے داغِ شراب ہے
تھا اعتماد ہم کو بہت اس جوان پر

(میر تقی میر)​
 

مغزل

محفلین
کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں‌جان پر
اطفالِ شہر لائے ہیں آفت جہان پر

کیا کہنے جناب ، بہت شکریہ خدائے سخن کا کلام ہم تک پہنچانے کے لیے ، سدا خوش رہیں شناور صاحب
 
Top