کیا کیجیے؟؟

محمد امین

لائبریرین
مغل بھائی آجکل تو میں ہر شئے کو اس کے ممکنہ مفاد کے پیشِ نظر پرکھتا ہوں۔ حتیٰ کہ آسائش کو بھی گلے لگانے سے قبل دس سوال کرتا ہوں خود سے کہ کیا فائدہ ہوگا۔
یوں لگتا ہے جیسے کسی چیز کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ پتا نہیں کیوں۔ ملکی حالات غالباً،،،
 

محمد امین

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے امین صاحب اور سبھی اشعار اچھے ہیں۔

ایک آدھ سخن گسترانہ بات یہ کہ:

اول تو ردیف کو "کیجیے" کی بجائے "کیجے" کریں وگرنہ یہ وزن خراب کر رہا ہے، بقولِ غالب

درد ہو دل میں تو دعا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

گو غالب کی غزل اور آپکی غزل کی بحر مختلف ہے لیکن آخری رکن مشترک ہے یعنی 'فعلن' سو آپ کی غزل کی ردیف بھی 'کیجے' ہونا چاہتی ہے۔

دوسرا یہ کہ ایک بے وزن مصرعے کی نشاندہی سعود صاحب نے کر دی ہے، دوسرا مصرع جو بے وزن ہے

دل تو اظہار مدّعا چاہے

اس میں بھی 'مدعا' گڑ بڑ کر رہا ہے۔

دراصل بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع (جس میں غالب کی غزل ہے) اور بحر رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع (جس میں آپ کی غزل ہے) دونوں میں بہت تھوڑا سا فرق ہے، مذکورہ مصرع بحر خفیف میں چلا گیا ہے جب کہ باقی غزل رمل میں ہے! باقی اشعار وزن میں ہیں۔

درستگی اور اصلاح اعجاز صاحب کرتے ہیں اور انشاءاللہ وہی کریں گے۔

والسلام

شکریہ وارث۔۔۔ میں نے تو اسے پہلی بار میں ’کیجے‘ ہی پڑھا تھا۔
غور سے دیکھنے پر تین باتیں مزید کھٹکی ہیں۔ دو مصرعوں میں ’ہے‘ یا ’ہیں‘ کی کمی ہے (بلبلیں ۔۔۔ اور دل مرا والے مصرعے۔ ہاں مطلع میں نالہ شور اور فغاں تقریبآ ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس کو یوں کہا جائے تو تاثر بڑھ جاتا ہے۔
نالی کیا کیجے، فغاں کیا کیجے
دل تو اظہار مدعا چاہے کو اس بحر میں فٹ کرنے کے لئے ایک سادہ مصرع تو یوں ہو سکتا ہے۔
دل تو اظہار بیاں چاہتا ہے
لیکن پھر دوسرے مصرعے میں بھی ’بیاں‘ ہے۔ کچھ اور سوچنا پڑے گا۔
آخری مصرعے کو (پہلے مصرع میں سعود کی اصلاح کے بعد) یوں کہا جائے تو۔۔۔
دل مرا ڈوب گیا۔کیا کیجے
یوں بھی یہ ’میرا‘ نہیں، ’مرا‘ وزن میں آتا ہے۔


آج تھوڑا سا "دھول دھپا" اس غزل کے ساتھ۔۔۔ سرخ اشعار نئے ہیں۔۔۔بھرتی کے ہی سہی

وارث بھائی کے بلوگ سے اقتباس کیا ہے ان کی بتائی ہوئی بحر کو:

بحر رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعلاتن فعلاتن فعلن

نالہ و شور و فغاں کیا کیجے،
دل نہیں لگتا یہاں، کیا کیجے،

دل تو اظہارِ تمنّا چاہے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ÷÷وارث بھائی کے حکم پر "مدعا" پر نظرِ ثانی کی تو مظفر وارثی کے "لبِ خاموش سے اظہارِ تمنا چاہیں" پر سرقہ ہوگیا۔۔۔۔÷÷
وہ نہیں سنتے، بیاں کیا کیجے،

شوخیٔ گل کا خدا حافظ ہو،
بلبلیں گریہ کناں،کیا کیجے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ÷÷اعجاز چاچو کے حکم پر اس میں "ہیں" نہیں لا پا رہا"÷÷

جام سب خالی پڑے ہیں دل کے،
چل دیا پیرِ مغاں، کیا کیجے،

کب ملے ہیں حسینوں کے خطوط؟
چند تصویرِ بُتاں کیا کیجے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ÷÷ایک مشہور مصرعے میں تصرف÷÷


چھوڑ کر بیٹھ گیا جو ہم کو،
اس کے بن جائیں کہاں، کیا کیجے،

شب سی تاریکی سرِ شام ہے کیوں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ÷÷بشکریہ برادرم سعود÷÷
دل مرا ڈوب گیا، کیا کیجے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ÷÷بشکریہ اعجاز چاچو (الف عین)÷÷



قافیے:
فغاں۔ بتاں۔ یہاں- وہاں۔ کناں۔ نما ۔ جہاں۔ کہاں۔ پیرِ مغاں
 
کب ملے ہیں حسینوں کے خطوط؟

اس مصرع کا طول عرض ذرا ناپ لیجئے۔ کیں یہ لیلیٰ کے زلف سے دو چار ہاتھ کم زیادہ نہ ہو۔ :)
 

محمد امین

لائبریرین
کب ملے ہیں حسینوں کے خطوط؟

اس مصرع کا طول عرض ذرا ناپ لیجئے۔ کیں یہ لیلیٰ کے زلف سے دو چار ہاتھ کم زیادہ نہ ہو۔ :)

وارث بھائی کے بلوگ سے:
افاعیل - فاعلاتن فعلاتن فعلن
پہلے رکن میں فاعلاتن کی جگہ فعلاتن اور آخری رکن میں فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آ سکتا ہے یوں اس بحر میں آٹھ اوزان جمع ہو سکتے ہیں۔

اخری لفظ میں نے رکن فَعِلان کے وزن پر باندھا ہے۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
اس کے بن جائیں کہاں کیا کیجے

اس میں "بن" کی جگہ "جز" لکھا تھا میں نے۔۔۔ مگر تذبذب میں "بن" کردیا، حالانکہ مجھے یہ لفظ پسند نہیں۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
لگے رہو امین بھیاء، یہ شاہراہ اپنے مطلب کی نہیں۔

میں نے پہلے ہی اردو شاعری پر بہت بڑا احسان کر رکھا ہے بلکہ احسان عظیم کر رکھا ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
ارے آپ نے کیوں احسان کیا ہوا ہے؟؟
آپ بھی فرحت عباس شاہ، وصی شاہ، سعد اللہ شاہ وغیرہم کی طرح شاعری پر "احسان" کریں نا۔۔۔ایسا احسان کہ جس کے بارے میں کہیں میں نے ایک پیروڈی پڑھی:

تم نے دیکھا ہے کوئی ایسا "چَوَل" شام کے بعد؟
روز کہتا ہے جو اک تازہ غزل شام کے بعد۔۔۔۔۔
 
Top