shaokar11
محفلین
گذشۃ ساڑے چار سالوں میں ہمارے کتنے ہی رنگوں، خوشبووں ، آرزووں اور خوابوں کی توہین ہوتی رہی اور ہم چپ رہے۔ سو ہم پر بےچارگی، مردنی، بےحسی، حزیمت، شکست خوردگی اور بے توقیری کے عذاب مسلط کر دیے گئے۔ لیکن تازہ سانحہ تو سب سے بڑا سانحہ ہے۔ ہمارے لیے اسم محمدً سے زیادہ گہرے رنگ، اس سے زیادہ مسحورکن خشبو، اس سے زیادہ شیریں آواز اور اس سے زیادہ حسیں خواب کا تصور بھی ممکن نہیں۔کیا ہم اب نہیں جاگیں گے؟ کیا ہم اب بھی ساڑے چار سالوں پر محیط سفر رائیگاں کی بے ثمری کا تجزیہ نہیں کریں گے؟ کیا ہم اب بھی ان کے کندھوں سے کندھا ملا کر کھڑے رہیئں گے جو محمد عربیً کے ناموس سے کھیل رہے ہیں؟ کیا ہم اس رنگ، اس خوشبو، اس آواز اور اس خواب کی توہین بھی برداشت کر لیں گے؟ اگر نہیں کریں گے تو کیا کریں؟ اور کچھ نہ بھی کریں صرف ہم اپنی قوم میں اخلاق حسنہ ( یہاں میری مراد صرف سچ بولنا ہے) پختہ کر لیں تو حضورً کے متعلق تو کیا یہود و نصاریٍ عام مسلمان کی توہین کے خیال تک سے پسینہ میں شرابور ہو جایا کیں گے۔