جائے۔کشف ہی کیا، اسے الہام بھی کہا جا سکتا ہے، تو کیا
سلمان دانش جی پیغمبری کا دعویٰ کہیں گے!!! ہر لفظ کو اس کے لغوی معنوں میں نہیں لیا جاتا۔
ترمیم شدہ اشعار کی اصلاح۔۔
جو لکھ دیا دمِ مستی میں پہلا حرفِ دل
تو پھر بپا ہوا محشر لگی یوں ضربِ دل
۔۔قوافی یہاں بھی نہیں رہے۔ صوتی قوافی بھی اس وت کہا جائے گا انہیں اگر ان کو حرفے اور ضربے لکھا جائے
بدن کی قید میں مانند موم دل پگھلا
ترے حضور میں جو حرف حرف دل کا جلا ۔
پگھلا اور جلا بھی قافئے نہیں درست۔
مرے سبھی سیہ اعمال کا ملا نامہ
جھکا ہے شرم سے سر اب کہ میرا کیا ہو گا
سیہ اعمال‘ وزن میں درست نہیں آتا۔ اس مصرع میں روانی بھی نہیں۔ دوسرا مصرع کہو۔
مرے وجود کا شافی جو ہے ربِ دو جہاں
رب جب اضافت کے ساتھ آتا ہے تو درست تلفظ کا خیال رکھنا چاہئے۔ کہ بے مشدد ہے۔وجود کا شافی بھی مجہول سی ترکیب ہے۔
مٹائی آئینہِ دل سے گرد جو تم نَے
تمھارا کیا ہو مقدر جمالِ یار کی مَے
۔۔نے کے نون پر زبر لگا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ زبر والا نَے مفہوم میں دوسرا ہوتا ہے، بمعنی لَے۔