لیکن مسلمانوں نے اس نظام کو چھوڑ دیا اور "سنی مت" کہ "شیعہ مت" کو اپنا لیا۔
آپکی لفظ غنیمت کی تحقیق سے مجھے بے حد فائدہ ہوا ہے۔ میں نے آیت اللہ سیستانی کی خمس کی
تحقیق اور
فتویٰ کا دوبارہ مطالعہ کیا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اب لفظ لفظ کی تحقیق میں جانا ہو گا اور بین بین راستہ حقیقت میں ہدایت کا راستہ ہے۔ وہ راستہ نہ ہی اہل سنت کا راستہ ہے اور نہ ہی شیعہ کا راستہ ہے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان دونوں راستوں سے کے ظاہر ہونے سے پہلے ہیں۔ مجھے ایک آیت ناجانے کیوں دل چاہ رہا ہے کہ ہدیہ کروں۔
سورہ 3 آیت 67: مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیًّا: «(تمہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ) ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی»
وَّلٰ۔۔کِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا: «بلکہ وہ تو بالکل یکسو ہو کر اللہ کے فرماں بردار تھے۔»
وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ: «اور نہ وہ مشرکوں میں سے تھے۔»
ویسے تو عربی زبان میں بہت وسعت ہے۔ لفظ غَنِمْتُمْ کی جڑ غنم ہے جس کے معنیٰ مال غنیمت ہیں۔
یہاں دیکھیں
مجھے اہل سنت کی طرف سے وہی مسئلہ دکھائی دیا جو آپ نے عرض کیا کہ ان کے بادشاہوں نے خمس اہل بیت کو دینا بند کر دیا۔ ظاہر ہے جب کسی اہل بیت کے امام کو شہید کریں اور کسی کو زہر دیں تو کیونکر ممکن ہے کہ ایسے فاسق خمس رسول اللہ ﷺ کے قرابتداروں کو خمس دیں۔ جتنی جنگیں ان بادشاہوں کے زمانے میں ہوتی ہوں گی اس سے کثیر مال غنیمت ہاتھ لگتا ہو گا لیکن وہ رسول اللہ ﷺ کے قربت داروں کو ایک نہ دیتے ہوں گے۔
شیعہ مذہب کی بنیاد اہل سنت کے الٹ پر ہے۔ اسکے ذریعے وہ امت کو یاد دھانی کراتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا حق واضح کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ جانتے ہوئے بھی اہل سنت کے الٹ کام کرتے ہیں۔ جیسے کہ شیعہ عالم سے پوچھیں تو انہیں معلوم ہے کہ پانچ نمازوں کے اوقات ہیں لیکن کیونکہ رسول اللہ ﷺ نمازیں ملا کر بھی پڑھتے سو انہوں نے اہل سنت سے ہٹ کر تین نمازیں پڑھیں۔ اہل سنت مکہ سے عمرے کے لیے داخل ہوتے ہیں اور شیعہ مدینے سے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انکا یہ عمل امت کے لیے باعث رحمت ہے کہ پورا کا پورا دین ایک جوڑے کی شکل میں موجود ہے۔ آج لفظ غنیمت میں یہی ہوا۔
ہوا یہ ہو گا کہ غنیمت ہے دوران جنگ حاصل ہونے والا مال ہی لیکن کیونکہ شیعہ کو گیارہ سو سال قبل اور اس سے بھی پہلے غنیمت کے مال کا خمس نہ ملتا ہو گا تو انہوں نے خمس کی مراد ہی بدل دی۔ بلکہ اپنے مذہب کے پیروکاروں کو سال گزرنے پر خمس سے ایک کثیر رقم جو کہ 20 فیصد ہے وصول کرنے کا فتوی دے دیا۔ اس وجہ سے شیعہ آبادیوں سے اہل سنت کے عمال کے پاس ڈھائی فیصد زکوٰۃ یا دس فیصد عشر وصول کرنے کو بچتا ہی نہ ہو گا۔ یا ہو گا بھی تو کم۔ یوں مذہب شیعہ چلتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل شیعہ زکوۃ تھوڑی لیکن خمس کثیر ادا کرتے ہیں جبکہ اہل سنت زکوۃ کثیر لیکن خمس میں ایک ڈھیلا نہیں دیتے۔
آپ کو بتایا آپ جس کو سود قرار دیتے ہیں۔ وہ سود ہے ہی نہیں۔ سود، در اصل منافع کا وہ حصہ ہے جسے مسلمان نے بطور ٹیکس بیت المال کو ادا کرنا تھا۔ لیکن کھا گیا۔
میرا خیال ہے کہ آپ اس معاملے میں شیعہ مذہب قبول کر کے راہ حق سے دور ہو گئے۔ جیسے اہل سنت نے خمس سے کھلواڑ کیا تھا ویسے ہی شیعہ علماء نے بھی خمس کی مراد ہی بدل دی۔ سود سے مراد قرضے پر منافع لینا ہے جس پر سال پورا ہونے کی بھی کوئی شرط نہیں۔ خمس کے لیے سال پورا ہونے کی شرط ہے۔ سو سود سے حاصل ہونے والے منافع کو خمس یا زکوۃ کے ٹیکس سے ملانا گندم کو چنا بتلانا ہے۔
بالکل غلط، مسلمان نہیں۔ "سنی مت " کے پیرو کار سارے منافع کو سود قرار دیتے ہیں، مسلمان ، قرآن حکیم کے احکامات مانتا ہے ، اس لئے کسی بھی شے سے ہوئے منافع کا پانچواں حصہ بیت المال کا حق سمجھتا ہے۔
یہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے شیعہ مت قبول کر لیا ہے۔ آپ کا غالباً کہنا ہے کہ کیونکہ موجودہ امریکی معاشرے میں بیت المال ممکن نہیں۔ اس لیے اگر میں بینک میں اپنی رقم رکھوں تو اس پر نفع لینا حلال ہے۔ اسی طرح کیونکہ امریکہ میں زکوۃ و خمس تو ادا نہیں ہوتا اس لیے حکومت کا ٹیکس لگانا جو 20، 30 یا 40 فیصد ہوتا ہے حلال ہے۔
مجھے تو لگتا ہے آپ نے بیت المال، ٹیکس، سود، خمس، زکوۃ، رباء، منافع سب کو خمس کے 20 فیصد میں گڈ مڈ کر دیا۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میرا مقصد حصول علم اور فروغ علم ہے۔ اگر میں کوئی جواب لاتا ہوں تو وہ گفتگو کے اور پہلوں پر روشنی ڈالنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ اپنے ہی موقف کو درست تسلیم کرانا ہے۔ آپ کے لیے گفتگو دلچسپ نہیں تو آپ جواب نہ دیں۔