سید رافع
محفلین
عقلی اور منطقی، تجزیہ آپ کو نظر آٰیا؟؟
مال پر زائد مال محض مدت بیچ کر کمانا جائز نہیں۔
عقلی اور منطقی، تجزیہ آپ کو نظر آٰیا؟؟
آپ ڈھونڈییے، اس وقت ٹک انتظار، جب تک آپ کو ریفرنس ملتا ہے
ایک غیر منطقی اصول کو درست ثابت کرنے کے لیے اتنی تاویلات؟
نامناسب ریفرنس اور ںآمناسب جواب
کاروبار کے منافع میں سے مرکزی حکومت کا حق ہے رباء یہ رباء کھانے والے ایسے اٹھیں گے
بھائی اپنے اصولوں کی بنیاد اور ثبوت میں اپنی کوئی مثال پیش کیجئے
اپ کا خیال ، قران سے پیش کردہ آیت سے ثابت نہیں
ایک غیر منطقی اصول کو درست ثابت کرنے کے لیے اتنی تاویلات؟
آپ یہ سب کچھ مانیں یا نا مانیں، سوال آپ سے یہ ہے کہ وہ کونسے جدید کمپیوٹر ماڈلز ، رسول اکرم محترم ، کے پاس تھے ، جن کی بنیاد پر 20 فی کا آپٹیمم (بہترین تر) ٹیکس کا حکم رب کریم نے دیا؟
یہ اس بات پر منحصر ہے کہ یہ 4 لاکھ ڈالر آپ نے کس مقصد کیلئےلئے ہیں اور کب واپس کریں گے۔ اگر یہ 4 لاکھ ڈالر 30 سال بعد واپس کرنے ہیں تو اس دوران ڈالر کا افراط زر جو ہوگا، اس کا نقصان کون پورا کرے گا؟ کیا آج کے 4 لاکھ ڈالر 30 سال بعد بھی اتنی ہی مالی حیثیت رکھتے ہوں گے؟ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کی نیت سے لیا گیا قرض جب طویل عرصہ بعد بینک کو واپس کرنا ہوتا ہے تو اس پر کچھ فیصد سود لیا جاتا ہے تاکہ اتنے سالوں میں جو مقروض نے اس قرض سے مالی فائدہ اٹھایا ہے اس میں بینک بھی حصہ دار بن سکے۔یہی حال 4 لاکھ ڈالر قرض کا ہے۔ آپ نے جب 4 لاکھ ڈالر مجھے دے دیے تو وہ میری ملکیت ہیں۔ آپ 4 لاکھ ڈالر قرض دینے پر راضی تھے اور میں 4 لاکھ ڈالر قرض لینے پر راضی تھا۔ میری مرضی ہے اب کہ میں 4 لاکھ ڈالر سے ایک مکان لوں یا 2 فلیٹ۔ اور اس مکان میں میں خود رہوں یا کسی دوسرے کو کرایہ پر دوں اور اس سے نفع حاصل کروں۔ آپ کو میں 4 لاکھ ڈالر دینے کا ہی مکلف ہوں۔ اگر آپ مجھ سے 5 لاکھ ڈالر ' زائد طلب' کرتے ہیں تو سود اور اگر 4 لاکھ ڈالر 'طلب' کرتے ہیں تو بلا سود۔
2010 میں ڈالر کی قوت خرید یا افراط زر اور تھی۔ 2020 میں کچھ اور ہے۔ آپ کے اس سخت بغیرسودی اصول کے تحت کہ وقت بدل جائے لیکن تنخواہیں یا معاوضہ بالکل نہ بدلے تو مزدور اور ملازمتی طبقہ کو ہر سال غریب سے غریب تر کر دیا کریں گی۔یہاں بھی بات سادی سی ہے۔ مزدور کی مزدوری طے ہوتی ہے۔ اگر سن 2010 میں کسی مزدور نے میرے لیے کوئی مزدوری کی اور اسکا معاوضہ 500 ڈالر ہے۔ اب اگر میں اسکی مزدوری 2010 میں دے دیتا ہوں تب بھی 500 ڈالر دینے ہوں گے اور اگر 2020 میں دیتا ہوں تب بھی 500 ڈالر واجب ادا ہوں گے۔ یہ 2020 میں دس سال بعد مزدوری ادا کرنا اخلاقی طور پر معیوب ہے۔
سونے کی عالمی مارکیٹ میں مقدار ہر سال بڑھ جاتی ہے۔ یوں سونے پرمبنی کرنسی بھی افراط زر کا شکار ہوتی ہے۔ آپ سے اسی لئے کہا تھا کہ بجائے یہاں اُلٹی سیدھی باتیں لکھنے کہ کسی ایسی کرنسی پر کام کرنے کی کوشش کریں جس کی گزرتے وقت کے ساتھ قوت خرید میں کمی نہ آتی ہو۔ یعنی ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار نہ ہوتی ہو۔ لیکن آپ بجائے اس پر محنت کرنے کے پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ کہ بس سود کو ختم کردو۔ موجودہ قومی کرنسیوں پر استوار مالی نظام کے ہوتے ہوئے سود کیسے ختم ہوگا جب ہر کرنسی (سونے سمیت) مسلسل افراط زر یا قوت خرید میں کمی کا شکار ہو رہی ہے؟1970 میں فریکشنل ریزرو سسٹم اسی لیے لایا گیا کہ سونے کے بجائے اب ڈالر سونے کی مقدار سے لاکھوں گنا زیادہ چھاپا جا سکتا ہے۔
آپ سودی ذہن کے دائروں مثلا افراط زر میں گھومتے رہیں۔ جب ٣٠ سال بلا سودی قرضہ ہو گا تو اتنی لمبی مدت کا قرضہ دے گا کون؟ کوئی نہیں دے گا۔ اور اگر دے گا تو ذہن قرض حسنہ کا ہو گا۔یہ اس بات پر منحصر ہے کہ یہ 4 لاکھ ڈالر آپ نے کس مقصد کیلئےلئے ہیں اور کب واپس کریں گے۔ اگر یہ 4 لاکھ ڈالر 30 سال بعد واپس کرنے ہیں تو اس دوران ڈالر کا افراط زر جو ہوگا، اس کا نقصان کون پورا کرے گا؟ کیا آج کے 4 لاکھ ڈالر 30 سال بعد بھی اتنی ہی مالی حیثیت رکھتے ہوں گے؟ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کی نیت سے لیا گیا قرض جب طویل عرصہ بعد بینک کو واپس کرنا ہوتا ہے تو اس پر کچھ فیصد سود لیا جاتا ہے تاکہ اتنے سالوں میں جو مقروض نے اس قرض سے مالی فائدہ اٹھایا ہے اس میں بینک بھی حصہ دار بن سکے۔
فاروق سرور خان
اگرکسی کرنسی کی قوت خرید طویل وقت گزرنے کے باوجود مسلسل ایک جیسی رہے تو آپ کی یہ دلیل درست ثابت ہوگی۔ لیکن ایک ایسے عالمی مالیاتی نظام میں جہاں ڈالر اور دیگر قومی کرنسیاں مسلسل افراط زر یا قوت خرید میں کمی کا شکار ہیں وہاں قرض پر سود لئے بغیر معیشت اور مالیاتی نظام کیسے چلے گا؟ قرض پر سود اس لئے لیا جاتا ہے تاکہ قرضہ واپسی کے دوران جو کرنسی کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے، اس نقصان کو پورا کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور معیشت والے ممالک میں افراط زر بہت زیادہ ہوتا ہے وہاں شرح سود بھی اس حساب سے بہت زیادہ رکھا جاتا ہے۔اور اسی لئے ان ممالک میں سرمایہ کاری کے مواقع مضبوط معیشت والے ممالک سے کم ہوتے ہیں۔اصول تو منطقی ہے کہ قرض شدہ مال پر واپسی کے وقت زیادہ مال طلب کرنا دولت کے ارتکاز کا باعث ہے۔ مدت کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو بیچی جائے۔ خریدنے اور بیچنے کے عمل میں صرف ٹائم یا وقت نہیں بیچا جا سکتا۔
آپ نے سنی اصول سے سود کی تعریف ثابت کی ہے تو ثبوت تو آپ کی ذمہ داری ہوئی نہ کہ میری۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ میں منطق یا عقلی تعریف کی بات کر رہا ہوں نہ کہ شرعی۔
آپ سودی ذہن کے دائروں مثلا افراط زر میں گھومتے رہیں۔ جب ٣٠ سال بلا سودی قرضہ ہو گا تو اتنی لمبی مدت کا قرضہ دے گا کون؟ کوئی نہیں دے گا۔ اور اگر دے گا تو ذہن قرض حسنہ کا ہو گا۔
اسی فرسودہ سوچ کی وجہ سے زیادہ تر مسلم ممالک کی معیشتیں بدحالی کا شکار ہیں۔ کیونکہ وہاں نہ قرض دینے والا نفع نقصان میں رسک لینا چاہتا ہے اور نہ ہی قرض لینے والا۔ اس سوچ کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سب ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر عالمی مالیاتی اداروں سے بھیک اور قرضوں کے محتاج ہو چکے ہیں۔گھر چھوٹے اور کم قیمت بنیں گے۔ جیسے اس زمانے میں بنتے تھے۔ ایسے لگژری گھر اور فلیٹ نہیں بنیں گے کہ آدمی ساری زندگی قرض جیسی گھن کھانے والی چیز میں گزارے۔ بلکہ قرض ہی نہیں حرام سود کے قرضے کے گھر میں گزارے۔
جیو لفافہ نیوز
مزید کتنا ترک کرنا ہے مذہب ؟؟؟
سنی اقوام اگر مغربی اقوام جتنا ٹیکس دیتے ہوتے تو ان کے معاشی اور مالی حالات آج سے یکسر مختلف ہوتے۔آپ کے جوابات میں 'اضافی رقم ' کو 'تحفہ' قرار دینے سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح آپ ایک طرف منافع کی تعریف غیر ضروری طور پر بدل رہے ہیں۔ اور دوسری طرف آپ، عوام یا پبلک کے لئے رفاحی کاموں اور ترقیاتی کاموں کے لئے کچھ بھی دینا نہیں چاہتے۔ یہ درست بھی ہے، اس لئے کہ انہی نظریات پر چل کر آج سنی اقوام، قرآن سے دور اور ترقیات سے محروم ہیں۔
ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار ہی نہ ہو، نہ آج ہے اور نہ کل ہو گی۔ البتہ سونے اور چاندی ذاتی حیثیت میں اپنی قدر رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کی دی ہوئی کرنسی ہے۔ پیپر کرنسی کی کوئی ذاتی قدر نہیں۔ ردی ہے۔سونے کی عالمی مارکیٹ میں مقدار ہر سال بڑھ جاتی ہے۔ یوں سونے پرمبنی کرنسی بھی افراط زر کا شکار ہوتی ہے۔ آپ سے اسی لئے کہا تھا کہ بجائے یہاں اُلٹی سیدھی باتیں لکھنے کہ کسی ایسی کرنسی پر کام کرنے کی کوشش کریں جس کی گزرتے وقت کے ساتھ قوت خرید میں کمی نہ آتی ہو۔ یعنی ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار نہ ہوتی ہو۔ لیکن آپ بجائے اس پر محنت کرنے کے پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ کہ بس سود کو ختم کردو۔ موجودہ قومی کرنسیوں پر استوار مالی نظام کے ہوتے ہوئے سود کیسے ختم ہوگا جب ہر کرنسی (سونے سمیت) مسلسل افراط زر یا قوت خرید میں کمی کا شکار ہو رہی ہے؟
جیو لفافہ نیوز
اس سوال کا جواب پہلے بھی دیا چکا ہے کہ کچھ سالوں بعد جب بٹ کائن نامی کرپٹو کرنسی کی مزید سپلائی رُک جائے گی تو اس کی افراط زر صفر فیصد ہوگی۔ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار ہی نہ ہو، نہ آج ہے اور نہ کل ہو گی۔ البتہ سونے اور چاندی ذاتی حیثیت میں اپنی قدر رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کی دی ہوئی کرنسی ہے۔ پیپر کرنسی کی کوئی ذاتی قدر نہیں۔ ردی ہے۔