کیا یورپ کی ترقی مذہب کو ترک کرنے کی مرہون منت ہے؟

سید رافع

محفلین
آپ ڈھونڈییے، اس وقت ٹک انتظار، جب تک آپ کو ریفرنس ملتا ہے

آپ نے سنی اصول سے سود کی تعریف ثابت کی ہے تو ثبوت تو آپ کی ذمہ داری ہوئی نہ کہ میری۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ میں منطق یا عقلی تعریف کی بات کر رہا ہوں نہ کہ شرعی۔
 

سید رافع

محفلین
ایک غیر منطقی اصول کو درست ثابت کرنے کے لیے اتنی تاویلات؟

اصول تو منطقی ہے کہ قرض شدہ مال پر واپسی کے وقت زیادہ مال طلب کرنا دولت کے ارتکاز کا باعث ہے۔ مدت کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو بیچی جائے۔ خریدنے اور بیچنے کے عمل میں صرف ٹائم یا وقت نہیں بیچا جا سکتا۔
 

سید رافع

محفلین
نامناسب ریفرنس اور ںآمناسب جواب
کاروبار کے منافع میں سے مرکزی حکومت کا حق ہے رباء یہ رباء کھانے والے ایسے اٹھیں گے

بھائی اپنے اصولوں کی بنیاد اور ثبوت میں اپنی کوئی مثال پیش کیجئے

اپ کا خیال ، قران سے پیش کردہ آیت سے ثابت نہیں

آپ کے املاء کی غلطیوں اور تحریر میں تھرک کی وجہ سے آپکا مدعا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ اپنے خیالات کو عام بول چال کے انداز میں لکھیں تو اچھی گفتگو رہے گی۔

بہرحال قرآن تو قرض کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ اصل سے زائد ہی ظلم ہے:

اب بھی توبہ کرلو تواپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔سوۃبقرہ (278-79)


شیعہ ہوں یا اہل سنت، مغرب ہو یا مشرق، چین ہو یا ہند ہر جگہ قَرْضہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو واپس کرنے کی شرط پر کسی کو دیا جاتا ہے۔

شیعہ ہوں یا اہل سنت کہتے ہیں کہقرض میں سود اور ربا، قرض کی مطلوبہ مقدار سے کچھ زیادہ ادا کرنے کی شرط رکھنے کو کہا جاتا ہے خواہ قرض دیتے وقت اس کی تصریح کی گئی ہو یا نہیں۔[17] البتہ قرض لینے واپس کرتے وقت اپنی مرضی سے کوئی اضافی چیز دے دے تو یہ چیز شیعہ اور اہل سنت تمام فقہاء کے نزدیک نہ ربا اور سود میں شامل ہے اور نہ حرام ہے۔[18]

آپ کو سود کے بارے میں بنی اسرائیل کی گائے والی میری بات تو یا دہے نا؟
 

سید رافع

محفلین
آپ یہ سب کچھ مانیں یا نا مانیں، سوال آپ سے یہ ہے کہ وہ کونسے جدید کمپیوٹر ماڈلز ، رسول اکرم محترم ، کے پاس تھے ، جن کی بنیاد پر 20 فی کا آپٹیمم (بہترین تر) ٹیکس کا حکم رب کریم نے دیا؟

بھائی آپ کو غلط فہمی لگی ہے۔ آپ خمس کو زکوۃ سمجھ رہے ہیں۔ خمس بیشک پانچواں حصہ ہے اور یہ شیعہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن شیعہ زکوۃ بھی دیتے ہیں۔

شیعہ کے زکوۃ کا نصاب ہر ہر شئے پر الگ الگ ہے، یہ نہیں کہ سونا، چاندی، اونٹ، کھیتی ہر چیز پر 20 فیصد ہے۔ اس لنک پر آیت اللہ سیستانی کے فتویٰ دیکھیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہی حال 4 لاکھ ڈالر قرض کا ہے۔ آپ نے جب 4 لاکھ ڈالر مجھے دے دیے تو وہ میری ملکیت ہیں۔ آپ 4 لاکھ ڈالر قرض دینے پر راضی تھے اور میں 4 لاکھ ڈالر قرض لینے پر راضی تھا۔ میری مرضی ہے اب کہ میں 4 لاکھ ڈالر سے ایک مکان لوں یا 2 فلیٹ۔ اور اس مکان میں میں خود رہوں یا کسی دوسرے کو کرایہ پر دوں اور اس سے نفع حاصل کروں۔ آپ کو میں 4 لاکھ ڈالر دینے کا ہی مکلف ہوں۔ اگر آپ مجھ سے 5 لاکھ ڈالر ' زائد طلب' کرتے ہیں تو سود اور اگر 4 لاکھ ڈالر 'طلب' کرتے ہیں تو بلا سود۔
یہ اس بات پر منحصر ہے کہ یہ 4 لاکھ ڈالر آپ نے کس مقصد کیلئےلئے ہیں اور کب واپس کریں گے۔ اگر یہ 4 لاکھ ڈالر 30 سال بعد واپس کرنے ہیں تو اس دوران ڈالر کا افراط زر جو ہوگا، اس کا نقصان کون پورا کرے گا؟ کیا آج کے 4 لاکھ ڈالر 30 سال بعد بھی اتنی ہی مالی حیثیت رکھتے ہوں گے؟ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کی نیت سے لیا گیا قرض جب طویل عرصہ بعد بینک کو واپس کرنا ہوتا ہے تو اس پر کچھ فیصد سود لیا جاتا ہے تاکہ اتنے سالوں میں جو مقروض نے اس قرض سے مالی فائدہ اٹھایا ہے اس میں بینک بھی حصہ دار بن سکے۔
فاروق سرور خان
 

جاسم محمد

محفلین
یہاں بھی بات سادی سی ہے۔ مزدور کی مزدوری طے ہوتی ہے۔ اگر سن 2010 میں کسی مزدور نے میرے لیے کوئی مزدوری کی اور اسکا معاوضہ 500 ڈالر ہے۔ اب اگر میں اسکی مزدوری 2010 میں دے دیتا ہوں تب بھی 500 ڈالر دینے ہوں گے اور اگر 2020 میں دیتا ہوں تب بھی 500 ڈالر واجب ادا ہوں گے۔ یہ 2020 میں دس سال بعد مزدوری ادا کرنا اخلاقی طور پر معیوب ہے۔
2010 میں ڈالر کی قوت خرید یا افراط زر اور تھی۔ 2020 میں کچھ اور ہے۔ آپ کے اس سخت بغیرسودی اصول کے تحت کہ وقت بدل جائے لیکن تنخواہیں یا معاوضہ بالکل نہ بدلے تو مزدور اور ملازمتی طبقہ کو ہر سال غریب سے غریب تر کر دیا کریں گی۔
US-CPI-2018-05-purchasing-power-dollar.png
 

جاسم محمد

محفلین
1970 میں فریکشنل ریزرو سسٹم اسی لیے لایا گیا کہ سونے کے بجائے اب ڈالر سونے کی مقدار سے لاکھوں گنا زیادہ چھاپا جا سکتا ہے۔
سونے کی عالمی مارکیٹ میں مقدار ہر سال بڑھ جاتی ہے۔ یوں سونے پرمبنی کرنسی بھی افراط زر کا شکار ہوتی ہے۔ آپ سے اسی لئے کہا تھا کہ بجائے یہاں اُلٹی سیدھی باتیں لکھنے کہ کسی ایسی کرنسی پر کام کرنے کی کوشش کریں جس کی گزرتے وقت کے ساتھ قوت خرید میں کمی نہ آتی ہو۔ یعنی ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار نہ ہوتی ہو۔ لیکن آپ بجائے اس پر محنت کرنے کے پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ کہ بس سود کو ختم کردو۔ موجودہ قومی کرنسیوں پر استوار مالی نظام کے ہوتے ہوئے سود کیسے ختم ہوگا جب ہر کرنسی (سونے سمیت) مسلسل افراط زر یا قوت خرید میں کمی کا شکار ہو رہی ہے؟
Annualgoldproduction004.png
 

سید رافع

محفلین
یہ اس بات پر منحصر ہے کہ یہ 4 لاکھ ڈالر آپ نے کس مقصد کیلئےلئے ہیں اور کب واپس کریں گے۔ اگر یہ 4 لاکھ ڈالر 30 سال بعد واپس کرنے ہیں تو اس دوران ڈالر کا افراط زر جو ہوگا، اس کا نقصان کون پورا کرے گا؟ کیا آج کے 4 لاکھ ڈالر 30 سال بعد بھی اتنی ہی مالی حیثیت رکھتے ہوں گے؟ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کی نیت سے لیا گیا قرض جب طویل عرصہ بعد بینک کو واپس کرنا ہوتا ہے تو اس پر کچھ فیصد سود لیا جاتا ہے تاکہ اتنے سالوں میں جو مقروض نے اس قرض سے مالی فائدہ اٹھایا ہے اس میں بینک بھی حصہ دار بن سکے۔
فاروق سرور خان
آپ سودی ذہن کے دائروں مثلا افراط زر میں گھومتے رہیں۔ جب ٣٠ سال بلا سودی قرضہ ہو گا تو اتنی لمبی مدت کا قرضہ دے گا کون؟ کوئی نہیں دے گا۔ اور اگر دے گا تو ذہن قرض حسنہ کا ہو گا۔

یہ سود توریت انجیل قرآن سب میں منع ہے۔

گھر چھوٹے اور کم قیمت بنیں گے۔ جیسے اس زمانے میں بنتے تھے۔ ایسے لگژری گھر اور فلیٹ نہیں بنیں گے کہ آدمی ساری زندگی قرض جیسی گھن کھانے والی چیز میں گزارے۔ بلکہ قرض ہی نہیں حرام سود کے قرضے کے گھر میں گزارے۔

قرض والے شخص کی نماز جنازہ رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نہیں پڑھتے تھے۔ اس قدر سخت چیز ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اصول تو منطقی ہے کہ قرض شدہ مال پر واپسی کے وقت زیادہ مال طلب کرنا دولت کے ارتکاز کا باعث ہے۔ مدت کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو بیچی جائے۔ خریدنے اور بیچنے کے عمل میں صرف ٹائم یا وقت نہیں بیچا جا سکتا۔
اگرکسی کرنسی کی قوت خرید طویل وقت گزرنے کے باوجود مسلسل ایک جیسی رہے تو آپ کی یہ دلیل درست ثابت ہوگی۔ لیکن ایک ایسے عالمی مالیاتی نظام میں جہاں ڈالر اور دیگر قومی کرنسیاں مسلسل افراط زر یا قوت خرید میں کمی کا شکار ہیں وہاں قرض پر سود لئے بغیر معیشت اور مالیاتی نظام کیسے چلے گا؟ قرض پر سود اس لئے لیا جاتا ہے تاکہ قرضہ واپسی کے دوران جو کرنسی کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے، اس نقصان کو پورا کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور معیشت والے ممالک میں افراط زر بہت زیادہ ہوتا ہے وہاں شرح سود بھی اس حساب سے بہت زیادہ رکھا جاتا ہے۔اور اسی لئے ان ممالک میں سرمایہ کاری کے مواقع مضبوط معیشت والے ممالک سے کم ہوتے ہیں۔
 
آپ نے سنی اصول سے سود کی تعریف ثابت کی ہے تو ثبوت تو آپ کی ذمہ داری ہوئی نہ کہ میری۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ میں منطق یا عقلی تعریف کی بات کر رہا ہوں نہ کہ شرعی۔

جی آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے کہ ناواقف آپ ہیں لہذا آپ ڈھونڈئے کہ آپ سے پہلے کتنے لوگ یہ سب کچھ دو ہزار سالوں سے اسلام کے نام پر پیش کرتے رہے ہیں۔

منطقی طور پر آپ کو معلومات فراہم کردیں کہ آپ کا پیش کردہ طریقہ کار اور تعریف دونوں غیر منطقی ہیں۔ اور دوسرے آپ کو یہ بھی پیش کردیا کہ آج کے مالی ادارے کس طرح کام کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ مالی ادارے کس طرح کام کرتے ہیں۔ کہ مال دے کر وقت اور مال دونوں کا معاوضہ بطور منافع یا سود یا پرافٹ وصولتے ہیں۔ منافع، عربی کا ، سود ہندی کا اور پرافٹ انگریزی کے الفاظ ہیں، لفظ بدلنے سے مفہوم یا معانی نہیں بدلتے۔ مزید آپ کو انہی اصول کے بارے میں قرآنی آیات بھی پیش کردی ہیں۔ آپ منافع کو رباء قرار دیتے ہیں، جبکہ رباء منافع کا وہ حصہ ہے جو عوام کا حق یا اللہ کا حق تھا لیکن کوئی منافع کا یہ حصہ (رباء) کھا گیا۔

آپ کا فرمانا ہے کہ قرض میں صرف رقم کی کی اہمیت ہے، وقت کی نہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا مزدور ، بغیر کھائے 10 سال تک زندہ رہ سکتا ہے؟

میں نہیں سمجھتا کہ آپ خود اپنے پیش کردہ اصول " رقم کے بدلے ، رقم ملے" کے قائیل ہیں؟ آپ کے اس اصول پر میں اگلے 100 سال کے لئے آپ کا سب مال قرض لینے کے لئے تیار ہوں۔ ، اس شرط پر کہ آپ اپنے ارد گرد جتنے لوگوں کو جانتے ہیں، ان کو تیار کر لیں کہ وہ سب بھی اسی "فائیدہ مند " اصول کے تحت، مجھے قرض دینے کے قائیل ہیں۔ اپ کو یقین دلاتا ہوں ، کہ "کریڈت ورتھی" یعنی قابل اعتماد ہوں۔ اتنا کہ "اسٹیٹ بنک" بھی اس اعتماد کو قبول کرے گا۔ آپ تیار ہیں؟

آپ کے جوابات میں 'اضافی رقم ' کو 'تحفہ' قرار دینے سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح آپ ایک طرف منافع کی تعریف غیر ضروری طور پر بدل رہے ہیں۔ اور دوسری طرف آپ، عوام یا پبلک کے لئے رفاحی کاموں اور ترقیاتی کاموں کے لئے کچھ بھی دینا نہیں چاہتے۔ یہ درست بھی ہے، اس لئے کہ انہی نظریات پر چل کر آج سنی اقوام، قرآن سے دور اور ترقیات سے محروم ہیں۔

آج ساری دنیا کہ بنیادی اصول یہ ہے کہ یر شے سے ہونے والی بڑھوتری کا تقریباً پانچواں حصہ، عین کمائی کے وقت ، مرکزی حکومت کے بیت المال کو واجب الادا ہے۔ جو نہیں ادا کرے گا، اس نے منافع، سود، پرافٹ میں سے ، دوسروں کا حق ،یعنی اللہ کا حق یعنی رباء کھایا۔ یہ منطقی ہے، ترقیات کے لئے ضروری ہے اور ساتھ ساتھ عین قرآںی احکامات کے مطابق بھی ہے۔

جبکہ آپ کا پیش کردہ اصول معاشیات اور مالیات کے کسی بھی اصول سے مطابقت نہیں رکھتا، غیر منطقی اور(آپ کو خود اپنے لئے) ناقابل قبول ہے، اور یہ کہ اس کا جواز یا بنیاد، اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم سے نہیں ملتی۔ آپ منافع کو ہندی لفظ سود قرار دے کر ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔ ایسا کسی طور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ سودی ذہن کے دائروں مثلا افراط زر میں گھومتے رہیں۔ جب ٣٠ سال بلا سودی قرضہ ہو گا تو اتنی لمبی مدت کا قرضہ دے گا کون؟ کوئی نہیں دے گا۔ اور اگر دے گا تو ذہن قرض حسنہ کا ہو گا۔
گھر چھوٹے اور کم قیمت بنیں گے۔ جیسے اس زمانے میں بنتے تھے۔ ایسے لگژری گھر اور فلیٹ نہیں بنیں گے کہ آدمی ساری زندگی قرض جیسی گھن کھانے والی چیز میں گزارے۔ بلکہ قرض ہی نہیں حرام سود کے قرضے کے گھر میں گزارے۔
اسی فرسودہ سوچ کی وجہ سے زیادہ تر مسلم ممالک کی معیشتیں بدحالی کا شکار ہیں۔ کیونکہ وہاں نہ قرض دینے والا نفع نقصان میں رسک لینا چاہتا ہے اور نہ ہی قرض لینے والا۔ اس سوچ کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سب ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر عالمی مالیاتی اداروں سے بھیک اور قرضوں کے محتاج ہو چکے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کے جوابات میں 'اضافی رقم ' کو 'تحفہ' قرار دینے سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح آپ ایک طرف منافع کی تعریف غیر ضروری طور پر بدل رہے ہیں۔ اور دوسری طرف آپ، عوام یا پبلک کے لئے رفاحی کاموں اور ترقیاتی کاموں کے لئے کچھ بھی دینا نہیں چاہتے۔ یہ درست بھی ہے، اس لئے کہ انہی نظریات پر چل کر آج سنی اقوام، قرآن سے دور اور ترقیات سے محروم ہیں۔
سنی اقوام اگر مغربی اقوام جتنا ٹیکس دیتے ہوتے تو ان کے معاشی اور مالی حالات آج سے یکسر مختلف ہوتے۔
 

سید رافع

محفلین
سونے کی عالمی مارکیٹ میں مقدار ہر سال بڑھ جاتی ہے۔ یوں سونے پرمبنی کرنسی بھی افراط زر کا شکار ہوتی ہے۔ آپ سے اسی لئے کہا تھا کہ بجائے یہاں اُلٹی سیدھی باتیں لکھنے کہ کسی ایسی کرنسی پر کام کرنے کی کوشش کریں جس کی گزرتے وقت کے ساتھ قوت خرید میں کمی نہ آتی ہو۔ یعنی ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار نہ ہوتی ہو۔ لیکن آپ بجائے اس پر محنت کرنے کے پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ کہ بس سود کو ختم کردو۔ موجودہ قومی کرنسیوں پر استوار مالی نظام کے ہوتے ہوئے سود کیسے ختم ہوگا جب ہر کرنسی (سونے سمیت) مسلسل افراط زر یا قوت خرید میں کمی کا شکار ہو رہی ہے؟
Annualgoldproduction004.png
ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار ہی نہ ہو، نہ آج ہے اور نہ کل ہو گی۔ البتہ سونے اور چاندی ذاتی حیثیت میں اپنی قدر رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کی دی ہوئی کرنسی ہے۔ پیپر کرنسی کی کوئی ذاتی قدر نہیں۔ ردی ہے۔

افراط زر ہوتا کیوں ہے کبھی سوچا ہے الٹے سیدھے سوال داغنے سے پہلے؟ بات گہری ہو جائے گی لیکن نقصان، زلزلے، آفات، بیماریاں، طوفان افراط زر سے بندھے ہیں۔ افراط زر بہت زیادہ ہو گا اگر کہ سود لیا جائے گا۔ بات مزید گہری ہو جائے گی لیکن سنیں سود ماں سے ٣٦ دفعہ زنا کرنے سے شدید ہے۔ زنا سے قتل بڑھتا ہے۔ اور سنیں کہ افراط زر رحمان و رحیم سے جنگ کی وجہ سے ہے کیونکہ سود اللہ کی رحمانیت سے جنگ ہے۔ ان تمام باتوں کو آپ کہاں سننے والے۔ آپ کو اکانومسٹ کے بنائے ہوئے چارٹ میں ڈالر کی گرتی ہوئی قدر تو دکھائی دے جائے گی لیکن یہ سب کچھ دکھائی نہ دے گا جو اوپر بیان کیا۔

اصل مسئلہ ہے کہ قرض دینا ایک عبادت ہے۔ اس کے طور اطوار طریقے سب قرآن میں درج ہیں۔ اگر عبادت سے منہ موڑیں گے تو سختی اور کمی تو آئے گی۔

لیکن یہ سب کچھ بیان کرنا آپ کے سامنے ایسا ہے جیسا بھینس کے آگے بین بجانا۔ آپ وہیں کھڑے رہیں گے۔ دفاع کریں سود کا اور امید رکھیں کہ مستقبل خوشحال اور آخرت تابناک ہو گی۔ ایمان کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ برائی کو برائی تو جانیں۔ سود سے بچنا مشکل ہی نہیں اس دور میں ناممکن ہے۔ سو بلاوجہ اس بات پر وقت کسی کو ضایع نہیں کرنا چاہیے کہ سود سے مکمل کیسے بچیں۔ جب وقت آئے گا اللہ سود کو لپیٹ دے گا۔ کیا اللہ ہم کو دیکھ نہیں رہا کہ ہم کیا دل میں سود کے بارے میں سوچتے ہیں۔

بھائی یہ سب یاد دھانی کی باتیں ہیں اب جس کا جتنا دل چاہے اتنا سود سے بچنے کا اہتمام رکھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار ہی نہ ہو، نہ آج ہے اور نہ کل ہو گی۔ البتہ سونے اور چاندی ذاتی حیثیت میں اپنی قدر رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کی دی ہوئی کرنسی ہے۔ پیپر کرنسی کی کوئی ذاتی قدر نہیں۔ ردی ہے۔
اس سوال کا جواب پہلے بھی دیا چکا ہے کہ کچھ سالوں بعد جب بٹ کائن نامی کرپٹو کرنسی کی مزید سپلائی رُک جائے گی تو اس کی افراط زر صفر فیصد ہوگی۔
bitcoin-inflation-rate-1024x511.png

سونا چاندی اس لئے مضبوط کرنسی نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ بھی افراط زر یا قوت خرید میں کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
 
Top