سید رافع
محفلین
اگرکسی کرنسی کی قوت خرید طویل وقت گزرنے کے باوجود مسلسل ایک جیسی رہے تو آپ کی یہ دلیل درست ثابت ہوگی۔ لیکن ایک ایسے عالمی مالیاتی نظام میں جہاں ڈالر اور دیگر قومی کرنسیاں مسلسل افراط زر یا قوت خرید میں کمی کا شکار ہیں وہاں قرض پر سود لئے بغیر معیشت اور مالیاتی نظام کیسے چلے گا؟ قرض پر سود اس لئے لیا جاتا ہے تاکہ قرضہ واپسی کے دوران جو کرنسی کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے، اس نقصان کو پورا کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور معیشت والے ممالک میں افراط زر بہت زیادہ ہوتا ہے وہاں شرح سود بھی اس حساب سے بہت زیادہ رکھا جاتا ہے۔اور اسی لئے ان ممالک میں سرمایہ کاری کے مواقع مضبوط معیشت والے ممالک سے کم ہوتے ہیں۔
دیکھیں آپ کے پاس اس وقت گفتگو کے تین آپشن ہیں۔
ایک بات تو یہ ہے کہ افراط زر کے مقابل سود رکھا جاتا ہے۔ بجا۔ یہ اس وقت کی صورتحال ہے۔ اب سنیں اگر کہ آپ خالص عقلی پیمانے پر کوئی دوسرے نظام کی بنیاد پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو وہ میں نے نیو ورلڈ آرڈر آف پیس کے تحت شروع کی۔
دوسرا اگر موجودہ نظام ہی کو اسلامی ممالک میں رائج کرنا ہے تو مسلمانوں میں سود کھانے کو کیسے رواج دیا جائے نعوذ باللہ اس پر بات کرتے ہیں۔
تیسرا آپشن ہے کہ اسلام کے تحت زندگی اس سودی ماحول میں کیسے گزاریں۔ اگر یہ بات ہے تو ہمیں قرآن اور اسکے سمجھنے والوں کے دلائل لانے ہوں گے۔
چوتھا کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔ اگر ہے تو سامنے لائیں۔ مجھے لگتا ہے آپکو آپشن ٢ سوٹ کرے گا۔