انسان کی بنیادی ضرورتیں ، روٹی، کپڑا، مکان اور توانائی ہیں، یہی وہ "دولت" ہے جس کا تبادلہ آج بارٹر کے بجائے، کرنسی سے ہوتا ہے۔۔ سونا ، چاندی نہیں۔ بھوک سے مرتے ہوئے کوئی بھی اپنا سونا نہیں کھا سکتا۔
دولت کے بارٹر کی جگہ ، کسی متبادل "کرنسی" چاہے وہ پرامیسوری نوٹ (ڈالر، روپیہ، دینا، یورو، آر ایم بی) ہو یا پھر ڈیجیٹل کرنسی ہو ، یہ صرف اور صرف دولت کی ترسیل اور دولت کے سٹوریج کا ذریعہ ہیں۔
کرنسی اگر پرامیسوری نوٹ، ہے تو اس کو جتنا چاہے چھاپ لو بلکہ اب تو صرف دولت مند، اپنی مرضی سے جتنی کرنسی، چاہے ، الیکٹرانک فارم میں جاری کرسکتا ہے۔ کاغذی ، نوٹ کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔
اسی طرح یہ تصور کرنا کہ ، کوئی دھات، سونا یا چاندی محدود رہے گی ، اس لئے کرنسی کے لئے اچھی ہے ، ایک مناسب سوچ نہیں۔ یا یہ تصور کرنا کہ کرپٹو کرنسی، محدود حل رکھتی ہے اس لئے یہ بہتر کرنسی ہے۔ یہ بھی کوئی بہتر حل نہیں ہے۔ کیوں؟
اس لئے کہ دھات ، پھر تیل، کے خلاف پرامیسوری نوٹ اپنی مرضی سے جتنا چاہے چھاپ رہے ہیں، لہذا ڈیجیٹل کرنسی کے لئے آف لائین ، پرامیسوری نوٹ پھر جاری ہوجائیں گے۔
افراط زر کی بنیادی وجہ فائیدہ یا منافع نہیں بلکہ مجرمانہ طور اور مجرمانہ حد تک پرامیسوری نوٹ چھاپنا ہے۔
امریکہ کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ جتنے ڈالر چاہے ، الیکٹرانیکلی بنا کر دے سکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ آج کی دنیا میں وہ صنعتی مقام نہیں رکھتا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد رکھتا تھا۔ لیکن کرنسی چھاپ چھاپ کر بانٹ کر امریکہ اپنی صنعت و حرفت سے کئی ہزار گنا پرامیسوری نوٹ فروخت کرچکا ہے۔ یہی حال کئی دوسرے ممالک کا ہے۔ یہ ایک مجرمانہ حرکت ہے، جس طرح 1930 کی دہائی میں سونے کے عوض نوٹ چھاپ چھاپ کر بانٹے گئے، وہ امریکیوں کے ساتھ جرم تھا، آج یہی جرم ساری دنیا کے ساتھ، سونے کے بعد، پہلے تیل کے ذریعے اوراب اس سے بھی بڑھ کر ملٹری طاقت کے ذریعے اپنی معاشی وسعت سے بڑھ کر امریکہ نے نوٹ چھاپ کر کررہا ہے۔
یورپ ، کل تک امریکہ کا ساتھی تھا، آج یورپ بھی اس ہرے ہرے دھوکے سے بچنے کے راستے ڈھونڈھ رہا ہے، اور چین ایک نیا معاشی مخالف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یورپ اور چین دونوں کا اعتماد امریکی ڈالر پر کم ہوتا جارہا ہے۔ اور دونوں دولت کی ترسیل کے لئے نئی ڈیجیٹل کرنسی ڈھونڈھ رہے ہوں ۔ ایسی کرنسی جو معاشی دولت کی درست یا بہتر ترجمان ہو۔ یہ صورت حال امریکہ بہادر کو کسی طور قابل قبول نہیں۔ لہذا یہ کب جنگ کی صورت میں بدل جائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگلے 5 سے دس سالوں میں ڈالر کا وہ رتبہ برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
بنیادی نکتہ اس تفصیل کا یہ ہے کہ ، افراط زر ، منافع کی زیادتی یا ٹیکس کی کمی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ معاشی وسعت کے مقابلے میں پرامیسوری نوٹ (ڈالر) مجرمانہ حد تک چھاپ کر بانٹنے میں ہے۔ آج یہ حال ہے کہ امریکہ کی سب سے بڑی ایکسپورٹ، یہ پرامیسوری نوٹ ہیں۔ امریکہ اپنے ہی جاری کئے ہوئے پرامیسوری نوٹ (ڈالر) کے مقابلے میں وہ صنعتی پیداوار نہیں رکھتا جو ڈالر کی درست ترجمان ہو۔ اس کا علاج امریکہ اپنی فوجی طاقت سے ممالک پر سینکشنز لگا کر کرتا ہے اور اس طرح اپنے ہی ڈالر کی شکل میں کئے ہوئے وعدے کی وعدہ خلافی کرتا ہے۔ یہ صورت حال زیادہ دن برقرار نہیں رہ سکتی۔ دنیا کے ہر ملک کو اس مسئلہ کا اندازہ ہے،
بہت سی قومیں اور ممالک، اپنی ہی دولت کو امریکہ کے ہاتھوں لٹا چکے ہیں یا امریکہ نے سینکزنز لگا کر یا ایسی دولت کو بلیک منی قرار دے کر اپنے وعدے سے وعدہ خلافی کی ہے۔
کچھ معصوم لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر دولت ان کے ہاتھ میں سنے یا چاندی کی شکل میں یا تیل کی شکل میں ہوگی تو کوئی چھو نہیں سکتا۔ میں اس پر صرف ہنس سکتا ہوں۔ اس لئے کہ بہت دور نا جائیے، صرف دلی کا لال قلعہ یا لاہور کا لال قلعہ دیکھ لیجئے، یہ ایک زمانے میں سونے، چاندی، ہیرے جوہرات کے بہت ہی بڑے بڑے والٹ تھے۔ آج یہ والٹ خالی پڑے ہیں اور آنے جانے والوں کا منہہ چڑا رہے ہیں۔
اب وہ کونسی کرنسی ہوگی جو عالمی سطح پر قبول کی جائے اور ، معیشیت کی درست ترجمان بھی ہو اور افراط زر سے بچاؤ کا ذریعی بھی ہو۔ یہ جب ہی ممکن ہے جب ڈالر صرف امریکی سٹیٹس جاری نا کریں بلکہ ساری اقوام ایک ہی کرنسی استعمال کریں اور ہر ایک سٹیٹ ، اسی کرنسی کو جاری کرسکے۔ یہ دور کی کوڑی ہے، ایسا ہوگا یا نہیں ہوگا، اس میں آپ کا تکہ اور میرا تکہ دونوں کی کوئی اہمیت نہیں