کیا یہی مستقبل کے وزیر اعظم ہوں گے؟

شمشاد

لائبریرین
وہ کیوں؟ ووٹ کیوں نہیں دیا؟ کوئی پسند کا امیدوار نہیں تھا یا کوئی اور وجہ تھی؟
 

ظفری

لائبریرین
میرا تعلق شاید اول الذکر طبقے سے لگتا ھے کیونکہ میں نے آج تک کبھی ووٹ نہیں دیا بلکہ ہماری پوری فیملی میں سے پچھلے دس پندرہ سال میں ایک آدھ بار ہی کسی نے ووٹ دیا ہو گا:grin:

اگر آپ کسی اہل کو ووٹ نہیں دیں گے تو کوئی نااہل ہی پھر منتخب ہوگا ناں ۔ یہ تو ایک طرح سے قومی خیانت ہوئی اور ساتھ ساتھ سیاسی شعور سے دوری بھی ۔ آپ اسے ووٹ دیں جس کا کردارمثبت ہو اور تعمیری سوچ رکھتا ہو ۔ خواہ اس کو آپ لوگوں کے ووٹ سمیت دس پندرہ ہی ووٹ ملیں ہوں ۔مگر آپ اپنا حق کا صحیح استعمال تو کرسکیں گے ۔ ورنہ پھر وہی ہوگا جس پر یہاں بحث چل رہی ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
مجھے اس بات سے اختلاف ھے کیونکہ عوام الناس بھی دو تین طبقات اور درجات میں منقسم ھے جس میں ایک بڑا طبقہ دیہاتی آبادی سے تعلق رکھتا ھے اور پارلیمینٹیرینز کی بڑی تعداد اسی طبقے کی مرہونِ منت ہوتی ھے جس کا خمیازہ ہر شہری کو ادا کرنا پڑتا ھے:rolleyes:
بی بی ۔۔۔۔ :rolleyes: ۔۔۔ عوام جتنے بھی طبقات میں بٹی ہوئی ہو ۔ ایک قوم ہی کہلاتی ہے ۔ اب وہ چاہے وہ دیہاتی طبقہ ہو یا شہری ۔ جب اپنا رائے حق دہی استعمال کریں گے تو وہ ساری قوم پر ہی لاگو ہوگا ۔آپ ان معاشرتی طبقات کو سیاسی پس منظر سے کیوں ملا رہیں ہیں ۔ کیا کوئی وضاحت کریں گی ، ؟
 

زونی

محفلین
وہ کیوں؟ ووٹ کیوں نہیں دیا؟ کوئی پسند کا امیدوار نہیں تھا یا کوئی اور وجہ تھی؟



ہاہاہا شمشاد بھائی مجھے سمجھ نہیں آ رہی اسکا کیا جواب دوں مجھے تو آج تک کوئی اس قابل نہیں لگا جسے ووٹ دیا جا سکے شاید میری نظر کمزور ھے،میرا خیال ھے مجھے بھی بینظیر کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنی چاھہیئےیا پھر وہ موٹر وے والا کار خیر جن کے ہاتھوں انجام پایا ان کی یا پھر اگر نہیں تو پھر آخر میں فضل الرحمن صاحب ہی بچتے ہیں کیا خیال ھے;)

ِ
 

زونی

محفلین
بی بی ۔۔۔۔ :rolleyes: ۔۔۔ عوام جتنے بھی طبقات میں بٹی ہوئی ہو ۔ ایک قوم ہی کہلاتی ہے ۔ اب وہ چاہے وہ دیہاتی طبقہ ہو یا شہری ۔ جب اپنا رائے حق دہی استعمال کریں گے تو وہ ساری قوم پر ہی لاگو ہوگا ۔آپ ان معاشرتی طبقات کو سیاسی پس منظر سے کیوں ملا رہیں ہیں ۔ کیا کوئی وضاحت کریں گی ، ؟




بھائی صاحب ان معاشرتی طبقات کا ہمارے سیاسی منظر پر گہرا اثر ھے اور پڑتا رہے گا کیا جاگیرداری نظام کا اثر ہمارے سیاسی ماحول پر نہیں پڑا یا تعلیمی معاملات ڈائریکٹ پورے سیاسی منظر پر اثر انداز نہیں ہوتے جیسے ووٹ کا صحیح استعمال وغیرہ تو یہ سب چیزیں ہی سیاسی منظر میں تبدیلی لاتی ہیں ورنہ اگر سیاست اب کوئی الگ شعبہ ہوتا تو شاید اس کو سدھارنے کا اب تک کچھ تو بندوبست ہو چکا ہوتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے تم سے پورا اتفاق ہے۔ اب میرے علاقے سے جو امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کو ووٹ دیا جا سکے، اور جس کو ووٹ دینا چاہیے وہ اس علاقے سے الیکشن نہیں لڑ رہا۔

رہی بات دیہات کی تو وہاں اپنی پسند کو کون ووٹ دیتا ہے، وہاں تو گاؤں کے چوہدری یا زمیدار کی پسند و ناپسند پر ووٹ دینا ہوتا ہے۔ غریب ہاری کیا جانے کہ الیکشن کیا ہے اور اسمبلی کیا ہے۔
 

زونی

محفلین
مجھے تم سے پورا اتفاق ہے۔ اب میرے علاقے سے جو امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کو ووٹ دیا جا سکے، اور جس کو ووٹ دینا چاہیے وہ اس علاقے سے الیکشن نہیں لڑ رہا۔

رہی بات دیہات کی تو وہاں اپنی پسند کو کون ووٹ دیتا ہے، وہاں تو گاؤں کے چوہدری یا زمیدار کی پسند و ناپسند پر ووٹ دینا ہوتا ہے۔ غریب ہاری کیا جانے کہ الیکشن کیا ہے اور اسمبلی کیا ہے۔



بالکل صحیح فرمایا شمشاد بھائی غریب ہاری کو تو بہت آسانی سے بلیک میل کیا جاسکتا ھے اور کیا جاتا رہا ھے:rolleyes:
 

زونی

محفلین
اگر آپ کسی اہل کو ووٹ نہیں دیں گے تو کوئی نااہل ہی پھر منتخب ہوگا ناں ۔ یہ تو ایک طرح سے قومی خیانت ہوئی اور ساتھ ساتھ سیاسی شعور سے دوری بھی ۔ آپ اسے ووٹ دیں جس کا کردارمثبت ہو اور تعمیری سوچ رکھتا ہو ۔ خواہ اس کو آپ لوگوں کے ووٹ سمیت دس پندرہ ہی ووٹ ملیں ہوں ۔مگر آپ اپنا حق کا صحیح استعمال تو کرسکیں گے ۔ ورنہ پھر وہی ہوگا جس پر یہاں بحث چل رہی ہے ۔




یہ بات تو ٹھیک ھے آپ کی ،اس بار سوچا تھا عمران خان کو ووٹ دیا جائے لیکن وہ تو میدان میں ہی نہیں اترے :(
 

ظفری

لائبریرین
بھائی صاحب ان معاشرتی طبقات کا ہمارے سیاسی منظر پر گہرا اثر ھے اور پڑتا رہے گا کیا جاگیرداری نظام کا اثر ہمارے سیاسی ماحول پر نہیں پڑا یا تعلیمی معاملات ڈائریکٹ پورے سیاسی منظر پر اثر انداز نہیں ہوتے جیسے ووٹ کا صحیح استعمال وغیرہ تو یہ سب چیزیں ہی سیاسی منظر میں تبدیلی لاتی ہیں ورنہ اگر سیاست اب کوئی الگ شعبہ ہوتا تو شاید اس کو سدھارنے کا اب تک کچھ تو بندوبست ہو چکا ہوتا۔

آپ نے جس معاشرتی نظام کی بات کی ہے کہ وہ لفظ " عوام " کی تعریف میں نہیں آتا ۔ اگر آتا ہے تو وہ لوگ اس جاگیرداری نظام کے خلاف اٹھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے ۔ کیوں ظلم سہتے ہیں ۔ کیوں ان کے خلاف ووٹ نہیں دیتے ۔ کیوں خود میں سے کسی کو آگے نہیں بڑھاتے ۔ آپ کہیں گی کہ وہ سب جاگیرداروں سے ڈرتے ہیں ۔ جاگیردارانہ نظام سے ڈرتے ہیں ۔ اپنی مال و جان اور عزت کی فکر کرتے ہیں ۔ تو پھر قصہ ہی ختم ہوگیا ۔ قوم کی ایک بڑی تعداد اتنی مختصر سی جماعت کی غلام بنی ہوئی ہے ۔ وہ جس طرح چاہیں ان کو استعمال کرتے ہیں ۔ مگر قوم میں اتنی اہلیت ہی نہیں‌ ہے کہ وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہو ۔ جانتی ہے کہ ملک کا یہ چھوٹا طبقہ ، ان کی تعلیمی ، اخلاقی ، معاشی ، معاشرتی اور حقِ خودارادی کا حق سلب کر رہا ہے ۔ ان کے تمام حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے ۔ مگر پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم پر یہ لوگ مسلط ہیں ۔ اس لیئے ہم کچھ کر نہیں سکتے ۔ کیا قومیں اسی طرح بنتیں ہیں کہ آسمان سے کوئی اترے گا اور ان کے حقوق ان کو واپس دلوادے گا ۔ ؟ اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتیں ہیں ۔ آپ قوم کو چاہے کتنے ہی درجات میں باندھ دیں ۔ کسی کو دیہاتی بنادیں ، کسی کو شہری یا کسی جاگیردار یا وڈیرا بنادیں ۔ کہلائے گی ایک قوم ہی ۔ اگر ایک قوم ہے تو ایک قوم بن کر کیوں نہیں سوچتی ۔ اپنی اصلاح اور اپنی آنے والے نسلوں کی آزادی کی کیوں فکر نہیں کرتی ۔ جاگیردار ہوں یا وڈیرا یا خان یا سردار یا پھر کوئی چوہدری ۔ کوئی کسی کی سوچوں کو غلام نہیں بنا سکتا ۔ جب تک آپ اپنی سوچیں انہیں سونپتے رہیں‌گے ۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم خود اپنی فکر کرے اور اپنی منزل کے لیئے کوئی لائحہ عمل یا راستہ منتخب کرے ۔ ورنہ یہ شور بیکار کا ہے کہ ہم تہی دست ہیں ، مجبور ہیں ، کچھ کر نہیں سکتے ۔ سوئی ہوئی قومیں ہمیشہ اسی طرح اپنی نااہلیوں اور کاہلیوں کا رونا روتی رہتیں ہیں ۔ جاگی ہوئی قومیں ہمیشہ ظالم اور ظلم کے خلاف برسر پیکار رہتیں ہیں ۔ لہذا قوم کو ان طبقات میں بانٹ کر حقائق سے پردہ پوشی کرنا کسی بھی طرح دانشمندی کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اگر ملک میں فلاح ، خوشحالی اور انصاف کی توقع رکھنی ہے تو پہلے ایک قوم کی طرح سوچنا پڑے گا ۔ جب یہ قومی وحدت قائم ہوجائے گی تو پھر ہی آپ اپنے کسی مثبت ہدف کی طرف بڑھ سکتے ہیں‌۔
 

شمشاد

لائبریرین
ظفری بھائی آپ کی باتیں بجا، لیکن سندھ، بلوچستان اور سرحد کے دیہاتوں کو تو میں نہیں جانتا، پنجاب کے چند ایک دیہات میں نے دیکھے ہیں۔ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کوئی بھی مول نہیں لیتا۔ جو آپ کہہ رہے ہیں اس جگہ پہنچنے کے لیے ابھی بہت لمبا سفر کرنا پڑے گا۔ بہت جد و جہد کرنی پڑے گی۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری بھائی آپ کی باتیں بجا، لیکن سندھ، بلوچستان اور سرحد کے دیہاتوں کو تو میں نہیں جانتا، پنجاب کے چند ایک دیہات میں نے دیکھے ہیں۔ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کوئی بھی مول نہیں لیتا۔ جو آپ کہہ رہے ہیں اس جگہ پہنچنے کے لیے ابھی بہت لمبا سفر کرنا پڑے گا۔ بہت جد و جہد کرنی پڑے گی۔

شمشاد بھائی اگر یہ سفر اتنا ہی گراں ہے اور یہ جہدوجہد اتنی ہی کڑی ہے تو پھر آپ ہی بتائیں کہ اس دوزخ کو جنت کیسے بنایا جائے ۔ ؟
 

زونی

محفلین
آپ نے جس معاشرتی نظام کی بات کی ہے کہ وہ لفظ " عوام " کی تعریف میں نہیں آتا ۔ اگر آتا ہے تو وہ لوگ اس جاگیرداری نظام کے خلاف اٹھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے ۔ کیوں ظلم سہتے ہیں ۔ کیوں ان کے خلاف ووٹ نہیں دیتے ۔ کیوں خود میں سے کسی کو آگے نہیں بڑھاتے ۔ آپ کہیں گی کہ وہ سب جاگیرداروں سے ڈرتے ہیں ۔ جاگیردارانہ نظام سے ڈرتے ہیں ۔ اپنی مال و جان اور عزت کی فکر کرتے ہیں ۔ تو پھر قصہ ہی ختم ہوگیا ۔ قوم کی ایک بڑی تعداد اتنی مختصر سی جماعت کی غلام بنی ہوئی ہے ۔ وہ جس طرح چاہیں ان کو استعمال کرتے ہیں ۔ مگر قوم میں اتنی اہلیت ہی نہیں‌ ہے کہ وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہو ۔ جانتی ہے کہ ملک کا یہ چھوٹا طبقہ ، ان کی تعلیمی ، اخلاقی ، معاشی ، معاشرتی اور حقِ خودارادی کا حق سلب کر رہا ہے ۔ ان کے تمام حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے ۔ مگر پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم پر یہ لوگ مسلط ہیں ۔ اس لیئے ہم کچھ کر نہیں سکتے ۔ کیا قومیں اسی طرح بنتیں ہیں کہ آسمان سے کوئی اترے گا اور ان کے حقوق ان کو واپس دلوادے گا ۔ ؟ اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتیں ہیں ۔ آپ قوم کو چاہے کتنے ہی درجات میں باندھ دیں ۔ کسی کو دیہاتی بنادیں ، کسی کو شہری یا کسی جاگیردار یا وڈیرا بنادیں ۔ کہلائے گی ایک قوم ہی ۔ اگر ایک قوم ہے تو ایک قوم بن کر کیوں نہیں سوچتی ۔ اپنی اصلاح اور اپنی آنے والے نسلوں کی آزادی کی کیوں فکر نہیں کرتی ۔ جاگیردار ہوں یا وڈیرا یا خان یا سردار یا پھر کوئی چوہدری ۔ کوئی کسی کی سوچوں کو غلام نہیں بنا سکتا ۔ جب تک آپ اپنی سوچیں انہیں سونپتے رہیں‌گے ۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم خود اپنی فکر کرے اور اپنی منزل کے لیئے کوئی لائحہ عمل یا راستہ منتخب کرے ۔ ورنہ یہ شور بیکار کا ہے کہ ہم تہی دست ہیں ، مجبور ہیں ، کچھ کر نہیں سکتے ۔ سوئی ہوئی قومیں ہمیشہ اسی طرح اپنی نااہلیوں اور کاہلیوں کا رونا روتی رہتیں ہیں ۔ جاگی ہوئی قومیں ہمیشہ ظالم اور ظلم کے خلاف برسر پیکار رہتیں ہیں ۔ لہذا قوم کو ان طبقات میں بانٹ کر حقائق سے پردہ پوشی کرنا کسی بھی طرح دانشمندی کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اگر ملک میں فلاح ، خوشحالی اور انصاف کی توقع رکھنی ہے تو پہلے ایک قوم کی طرح سوچنا پڑے گا ۔ جب یہ قومی وحدت قائم ہوجائے گی تو پھر ہی آپ اپنے کسی مثبت ہدف کی طرف بڑھ سکتے ہیں‌۔





پہلے تو میں نے عوام کو طبقات میں تقسیم نہیں کیا بلکہ ایک حقیقی تجزیہ پیش کیا ھے کہ ایسے نااہل حکمرانوں کی رسائی پارلیمینٹ تک کیسے ہوتی ھے کیونکہ آپ نے کہا تھا کہ عوام ہی انہیں پارلیمینٹ تک پہنچاتے ہیں جبکہ عوام کو طبقات میں بانٹنے والے تو یہ وڈیرے خود ہیں جس کا لمبا بیک گراؤنڈ ھے اور اکثرلوگ اس سے واقف بھی ہیں،دوسرا شمشاد بھائی نے صحیح کہا کہ انقلاب راتوں رات نہیں آ سکتا اس ملک کو ایک مفید لیڈر شپ کی بھی ضرورت ھے کیونکہ کوئی بھی تحریک کبھی بھی اچھی لیڈر شپ کے بغیر نہیں پنپ سکتی اور اچھی لیڈرشپ کے لئے ہمیں عوامی شعور کو بیدار کرنا پڑے گا جو کہ تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ھے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اس جاگیرداری نظام کا خاتمہ بھی بہت ضروری ھے کیونکہ یہ عوامی شعور کی بیداری میں بہت بڑی رکاوٹ ھے اور اسکی کئی وجوہات ہیں اب تو یہ سسٹم جڑ پکڑچکا ھے لیکن اسکے خاتمے کیلئے عوام کو فالوقت اچھی لیڈرشپ کی ضرورت ھے ایک سمت کی ضرورت ھے ،میں پھر یہی کہوں گی کہ اتنے برسوں کے سیاسی جمود کے بعد عوام بری طرح بے سمتی کا شکار ھے، اور اس قوت کو صحیح راہ اس ملک کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ ہی دے سکتا ھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس کو واحد حل ہے تعلیم۔ تعلیم کو اتنا عام اور سستا بنایا جائے کہ ہر کوئی تعلیم حاصل کر سکے۔ اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت پر نہ ڈالی جائے۔
 

ظفری

لائبریرین


پہلے تو میں نے عوام کو طبقات میں تقسیم نہیں کیا بلکہ ایک حقیقی تجزیہ پیش کیا ھے کہ ایسے نااہل حکمرانوں کی رسائی پارلیمینٹ تک کیسے ہوتی ھے کیونکہ آپ نے کہا تھا کہ عوام ہی انہیں پارلیمینٹ تک پہنچاتے ہیں جبکہ عوام کو طبقات میں بانٹنے والے تو یہ وڈیرے خود ہیں جس کا لمبا بیک گراؤنڈ ھے اور اکثرلوگ اس سے واقف بھی ہیں،دوسرا شمشاد بھائی نے صحیح کہا کہ انقلاب راتوں رات نہیں آ سکتا اس ملک کو ایک مفید لیڈر شپ کی بھی ضرورت ھے کیونکہ کوئی بھی تحریک کبھی بھی اچھی لیڈر شپ کے بغیر نہیں پنپ سکتی اور اچھی لیڈرشپ کے لئے ہمیں عوامی شعور کو بیدار کرنا پڑے گا جو کہ تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ھے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اس جاگیرداری نظام کا خاتمہ بھی بہت ضروری ھے کیونکہ یہ عوامی شعور کی بیداری میں بہت بڑی رکاوٹ ھے اور اسکی کئی وجوہات ہیں اب تو یہ سسٹم جڑ پکڑچکا ھے لیکن اسکے خاتمے کیلئے عوام کو فالوقت اچھی لیڈرشپ کی ضرورت ھے ایک سمت کی ضرورت ھے ،میں پھر یہی کہوں گی کہ اتنے برسوں کے سیاسی جمود کے بعد عوام بری طرح بے سمتی کا شکار ھے، اور اس قوت کو صحیح راہ اس ملک کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ ہی دے سکتا ھے۔

یہ لیڈر شپ کیسے آئے گی ۔ جاگیرداری کا خاتمہ کیسے ہوگا ۔ عوامی سیاسی شعور کیسے بیدار ہوگا ۔ عوام کو صحیح راہ پر اس ملک کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ کیسے لا سکتا ہے ۔
میں نے اپنی کوئی بات کرنے کے بجائے آپ کا ہی اقتباس لیکر آپ ہی سے کچھ سوال پوچھے ہیں ۔ دیکھیں شاید اس طرح آپ میرا مدعا سمجھیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں ۔ :confused:
 

زونی

محفلین
یہ لیڈر شپ کیسے آئے گی ۔ جاگیرداری کا خاتمہ کیسے ہوگا ۔ عوامی سیاسی شعور کیسے بیدار ہوگا ۔ عوام کو صحیح راہ پر اس ملک کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ کیسے لا سکتا ہے ۔
میں نے اپنی کوئی بات کرنے کے بجائے آپ کا ہی اقتباس لیکر آپ ہی سے کچھ سوال پوچھے ہیں ۔ دیکھیں شاید اس طرح آپ میرا مدعا سمجھیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں ۔ :confused:



اوہو بتایا تو ھے" تعلیم تعلیم تعلیم " اور پھر تعلیم ہی کوئی اچھی لیڈر شپ کو عوام میں سے سامنے لا سکتی ھے لیکن اس پروسیس میں وقت درکار ھے کتنا وقت لگے گا یہ کچھ نہیں کہ سکتےلیکن عوام کا اعتماد بھی بحال کرنے کی شدید ضرورت ھے "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ"۔:)


ِ
 

اظہرالحق

محفلین
اس کو واحد حل ہے تعلیم۔ تعلیم کو اتنا عام اور سستا بنایا جائے کہ ہر کوئی تعلیم حاصل کر سکے۔ اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت پر نہ ڈالی جائے۔


تعلیم ۔ ۔ کیسی تعلیم ۔ ۔ گریجویٹ اسمبلی نے کیا کیا ، تعلیم اگر اسکول والی تعلیم ہے تو بھائی وہ انسان کو انسان نہیں بنا پا رہی ۔ ۔ تعلیم نہیں تربیت کی ضرورت ہے ۔ ۔۔ اور جب تک آپ اپنے استاد کو ادب کا مقام نہیں دیتے ۔ ۔ ۔اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا

ہماری تو روایت بن گئی ہے کہ اگر پڑھ لکھ کر کچھ نہیں کر سکتے تو ۔ ۔ بچوں کا مستقبل تو برباد کر سکتے ہیں نا:(
 
Top