میرا تعلق شاید اول الذکر طبقے سے لگتا ھے کیونکہ میں نے آج تک کبھی ووٹ نہیں دیا بلکہ ہماری پوری فیملی میں سے پچھلے دس پندرہ سال میں ایک آدھ بار ہی کسی نے ووٹ دیا ہو گا
بی بی ۔۔۔۔ ۔۔۔ عوام جتنے بھی طبقات میں بٹی ہوئی ہو ۔ ایک قوم ہی کہلاتی ہے ۔ اب وہ چاہے وہ دیہاتی طبقہ ہو یا شہری ۔ جب اپنا رائے حق دہی استعمال کریں گے تو وہ ساری قوم پر ہی لاگو ہوگا ۔آپ ان معاشرتی طبقات کو سیاسی پس منظر سے کیوں ملا رہیں ہیں ۔ کیا کوئی وضاحت کریں گی ، ؟مجھے اس بات سے اختلاف ھے کیونکہ عوام الناس بھی دو تین طبقات اور درجات میں منقسم ھے جس میں ایک بڑا طبقہ دیہاتی آبادی سے تعلق رکھتا ھے اور پارلیمینٹیرینز کی بڑی تعداد اسی طبقے کی مرہونِ منت ہوتی ھے جس کا خمیازہ ہر شہری کو ادا کرنا پڑتا ھے
وہ کیوں؟ ووٹ کیوں نہیں دیا؟ کوئی پسند کا امیدوار نہیں تھا یا کوئی اور وجہ تھی؟
بی بی ۔۔۔۔ ۔۔۔ عوام جتنے بھی طبقات میں بٹی ہوئی ہو ۔ ایک قوم ہی کہلاتی ہے ۔ اب وہ چاہے وہ دیہاتی طبقہ ہو یا شہری ۔ جب اپنا رائے حق دہی استعمال کریں گے تو وہ ساری قوم پر ہی لاگو ہوگا ۔آپ ان معاشرتی طبقات کو سیاسی پس منظر سے کیوں ملا رہیں ہیں ۔ کیا کوئی وضاحت کریں گی ، ؟
مجھے تم سے پورا اتفاق ہے۔ اب میرے علاقے سے جو امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کو ووٹ دیا جا سکے، اور جس کو ووٹ دینا چاہیے وہ اس علاقے سے الیکشن نہیں لڑ رہا۔
رہی بات دیہات کی تو وہاں اپنی پسند کو کون ووٹ دیتا ہے، وہاں تو گاؤں کے چوہدری یا زمیدار کی پسند و ناپسند پر ووٹ دینا ہوتا ہے۔ غریب ہاری کیا جانے کہ الیکشن کیا ہے اور اسمبلی کیا ہے۔
اگر آپ کسی اہل کو ووٹ نہیں دیں گے تو کوئی نااہل ہی پھر منتخب ہوگا ناں ۔ یہ تو ایک طرح سے قومی خیانت ہوئی اور ساتھ ساتھ سیاسی شعور سے دوری بھی ۔ آپ اسے ووٹ دیں جس کا کردارمثبت ہو اور تعمیری سوچ رکھتا ہو ۔ خواہ اس کو آپ لوگوں کے ووٹ سمیت دس پندرہ ہی ووٹ ملیں ہوں ۔مگر آپ اپنا حق کا صحیح استعمال تو کرسکیں گے ۔ ورنہ پھر وہی ہوگا جس پر یہاں بحث چل رہی ہے ۔
بھائی صاحب ان معاشرتی طبقات کا ہمارے سیاسی منظر پر گہرا اثر ھے اور پڑتا رہے گا کیا جاگیرداری نظام کا اثر ہمارے سیاسی ماحول پر نہیں پڑا یا تعلیمی معاملات ڈائریکٹ پورے سیاسی منظر پر اثر انداز نہیں ہوتے جیسے ووٹ کا صحیح استعمال وغیرہ تو یہ سب چیزیں ہی سیاسی منظر میں تبدیلی لاتی ہیں ورنہ اگر سیاست اب کوئی الگ شعبہ ہوتا تو شاید اس کو سدھارنے کا اب تک کچھ تو بندوبست ہو چکا ہوتا۔
میں کیا کروں کہ میری تقریر ضائع ہو گئی ھے دوبارہ لوگن کی وجہ سے ،
ظفری بھائی آپ کی باتیں بجا، لیکن سندھ، بلوچستان اور سرحد کے دیہاتوں کو تو میں نہیں جانتا، پنجاب کے چند ایک دیہات میں نے دیکھے ہیں۔ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کوئی بھی مول نہیں لیتا۔ جو آپ کہہ رہے ہیں اس جگہ پہنچنے کے لیے ابھی بہت لمبا سفر کرنا پڑے گا۔ بہت جد و جہد کرنی پڑے گی۔
آپ نے جس معاشرتی نظام کی بات کی ہے کہ وہ لفظ " عوام " کی تعریف میں نہیں آتا ۔ اگر آتا ہے تو وہ لوگ اس جاگیرداری نظام کے خلاف اٹھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے ۔ کیوں ظلم سہتے ہیں ۔ کیوں ان کے خلاف ووٹ نہیں دیتے ۔ کیوں خود میں سے کسی کو آگے نہیں بڑھاتے ۔ آپ کہیں گی کہ وہ سب جاگیرداروں سے ڈرتے ہیں ۔ جاگیردارانہ نظام سے ڈرتے ہیں ۔ اپنی مال و جان اور عزت کی فکر کرتے ہیں ۔ تو پھر قصہ ہی ختم ہوگیا ۔ قوم کی ایک بڑی تعداد اتنی مختصر سی جماعت کی غلام بنی ہوئی ہے ۔ وہ جس طرح چاہیں ان کو استعمال کرتے ہیں ۔ مگر قوم میں اتنی اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہو ۔ جانتی ہے کہ ملک کا یہ چھوٹا طبقہ ، ان کی تعلیمی ، اخلاقی ، معاشی ، معاشرتی اور حقِ خودارادی کا حق سلب کر رہا ہے ۔ ان کے تمام حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے ۔ مگر پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم پر یہ لوگ مسلط ہیں ۔ اس لیئے ہم کچھ کر نہیں سکتے ۔ کیا قومیں اسی طرح بنتیں ہیں کہ آسمان سے کوئی اترے گا اور ان کے حقوق ان کو واپس دلوادے گا ۔ ؟ اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتیں ہیں ۔ آپ قوم کو چاہے کتنے ہی درجات میں باندھ دیں ۔ کسی کو دیہاتی بنادیں ، کسی کو شہری یا کسی جاگیردار یا وڈیرا بنادیں ۔ کہلائے گی ایک قوم ہی ۔ اگر ایک قوم ہے تو ایک قوم بن کر کیوں نہیں سوچتی ۔ اپنی اصلاح اور اپنی آنے والے نسلوں کی آزادی کی کیوں فکر نہیں کرتی ۔ جاگیردار ہوں یا وڈیرا یا خان یا سردار یا پھر کوئی چوہدری ۔ کوئی کسی کی سوچوں کو غلام نہیں بنا سکتا ۔ جب تک آپ اپنی سوچیں انہیں سونپتے رہیںگے ۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم خود اپنی فکر کرے اور اپنی منزل کے لیئے کوئی لائحہ عمل یا راستہ منتخب کرے ۔ ورنہ یہ شور بیکار کا ہے کہ ہم تہی دست ہیں ، مجبور ہیں ، کچھ کر نہیں سکتے ۔ سوئی ہوئی قومیں ہمیشہ اسی طرح اپنی نااہلیوں اور کاہلیوں کا رونا روتی رہتیں ہیں ۔ جاگی ہوئی قومیں ہمیشہ ظالم اور ظلم کے خلاف برسر پیکار رہتیں ہیں ۔ لہذا قوم کو ان طبقات میں بانٹ کر حقائق سے پردہ پوشی کرنا کسی بھی طرح دانشمندی کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اگر ملک میں فلاح ، خوشحالی اور انصاف کی توقع رکھنی ہے تو پہلے ایک قوم کی طرح سوچنا پڑے گا ۔ جب یہ قومی وحدت قائم ہوجائے گی تو پھر ہی آپ اپنے کسی مثبت ہدف کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
پہلے تو میں نے عوام کو طبقات میں تقسیم نہیں کیا بلکہ ایک حقیقی تجزیہ پیش کیا ھے کہ ایسے نااہل حکمرانوں کی رسائی پارلیمینٹ تک کیسے ہوتی ھے کیونکہ آپ نے کہا تھا کہ عوام ہی انہیں پارلیمینٹ تک پہنچاتے ہیں جبکہ عوام کو طبقات میں بانٹنے والے تو یہ وڈیرے خود ہیں جس کا لمبا بیک گراؤنڈ ھے اور اکثرلوگ اس سے واقف بھی ہیں،دوسرا شمشاد بھائی نے صحیح کہا کہ انقلاب راتوں رات نہیں آ سکتا اس ملک کو ایک مفید لیڈر شپ کی بھی ضرورت ھے کیونکہ کوئی بھی تحریک کبھی بھی اچھی لیڈر شپ کے بغیر نہیں پنپ سکتی اور اچھی لیڈرشپ کے لئے ہمیں عوامی شعور کو بیدار کرنا پڑے گا جو کہ تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ھے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اس جاگیرداری نظام کا خاتمہ بھی بہت ضروری ھے کیونکہ یہ عوامی شعور کی بیداری میں بہت بڑی رکاوٹ ھے اور اسکی کئی وجوہات ہیں اب تو یہ سسٹم جڑ پکڑچکا ھے لیکن اسکے خاتمے کیلئے عوام کو فالوقت اچھی لیڈرشپ کی ضرورت ھے ایک سمت کی ضرورت ھے ،میں پھر یہی کہوں گی کہ اتنے برسوں کے سیاسی جمود کے بعد عوام بری طرح بے سمتی کا شکار ھے، اور اس قوت کو صحیح راہ اس ملک کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ ہی دے سکتا ھے۔
یہ لیڈر شپ کیسے آئے گی ۔ جاگیرداری کا خاتمہ کیسے ہوگا ۔ عوامی سیاسی شعور کیسے بیدار ہوگا ۔ عوام کو صحیح راہ پر اس ملک کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ کیسے لا سکتا ہے ۔
میں نے اپنی کوئی بات کرنے کے بجائے آپ کا ہی اقتباس لیکر آپ ہی سے کچھ سوال پوچھے ہیں ۔ دیکھیں شاید اس طرح آپ میرا مدعا سمجھیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں ۔
اس کو واحد حل ہے تعلیم۔ تعلیم کو اتنا عام اور سستا بنایا جائے کہ ہر کوئی تعلیم حاصل کر سکے۔ اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت پر نہ ڈالی جائے۔