احادیث نبوی اور سنت نبوی کتب روایات میں ہی موجود ہیں۔ روایات کو پرکھنے کے اصول دوبارہ نہیںلکھ رہا ہوں۔ آپ سب مجھ سے یقیناًَ بہتر ہی جانتے ہیں۔ یہاں اس فورم پر بھی ایک سے زائید بار ان اصولوںکے بارے میں لکھا جاچکا ہے۔
روایات کو پرکھنے کے ان تمام اصولوں کے مستند ہونے کے باوجود اگر کوئی روایت قرآن حکیم کے اصولوں کے خلاف ہو تو وہ رسول اللہ صلعم کی حدیث کے مطابق، رد کئے جانے کے قابل ہے۔ خلاف قرآن ایسا نہیںکہ قرآن میںپایا نہیںجاتا تو خلاف قرآن ہوگیا۔
حدیث پر میرا مطالعہ محدود ہے، میں نے صرف ساڑے تین کتب روایات کا مطالعہ کیا ہے ، میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلعم سے منسوب تقریباً تمام روایت موافق القرآن ہیں ۔ جن جگہوں پر خلاف قرآن روایات نظر آتی ہیں وہ ڈپارٹمنٹ عورتوں کے حقوق، غلامی کا فروغ، عوام کی دولت پر قبضہ ، اور اقتدار و حکومت کی روایات ہیں۔ یہ پیلے بھی عرضکرچکا ہوں۔ مزید میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ کچھ ایسی اسرائیلی اور عیسائی روایات کو شامل کیا گیا ہے جو قرآن کا حصہ نہیںہیں یا قرآن حکیم میں واضح احکامات ان اسرائیلی اور عیسائی روایات کے خلاف پائے جاتے ہیں۔
کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جس روایت کو آپ کی قران فہمی قران کے موافق سمجھے لیکن وہ روایت کسی طور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات سے نسبت کا ثبوت نہ رکھتی ہو تو کیا آپ اسے بطور حدیث قبول کریں گے ؟؟؟؟؟
مختلف صورتوں میں۔ اگر ایک روایت جو کہ رسول اکرم سے منسوب ہو جس کا کوئی بھی ثبوت موجود نہ ہو کہ یہ درست روایت ہے ، لیکن آپ میں ، سب اس امر پر متفق ہوں کہ یہ قرآن حکیم کے اصولوں سے سو فی صد موافقت رکھتی ہے تو ہم اس کو قرآن کی تعلیم اور تفصیل و تفسیر تو مان لیں گے اور اس ناطے سے اس کو حجت مان لیں گے کہ قرآن حکیم اس روایت کے تمام اصولوں کی سو فی صد توثیق کرتا ہے۔ ایسا ہم (قانون سازی کے دوران) بہت سے فتاوی اور فقہ کے قوانین کی صورتوں میں بھی کرتے ہیں۔ لیکن مستند ثبوت کی غیر موجودگی میں ہم راوی کی روایت کو ضعیف سمجھیں گے کہ یہ ثابت نہیںہوتا کہ انہی الفاظ میں رسول اکرم نے ان الفاظ کو ادا کیا تھا یا نہیں ۔ اس کی جگہ ہم کسی دوسری مستند سنت رسول کو دیکھیں گے یا پھر دلیل کے لئے قرآن حکیم سے رجوع کریں گے۔
اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتا ہی دیجیے کہ قران الکریم کی طرف رجوع کر کے آخر ہم کس طرح کسی روایت کو پرکھیں ؟؟؟؟؟؟
ہمارے دین و ایمان کی ابتدا اللہ تعالی کے بزرگ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے۔ حضور (ص) پر اللہ تعالی نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ کسی بھی زیر بحث روایت کے موضوع پر جو احکامات قرآن حکیم میں موجود ہیں ان پر قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں تدبر، باہمی مشورہ و مباحثہ ہی اس امر کا تصفیہ کرسکتا ہے ایک روایت کے احکامات قرآن کے احکامات کے موافق ہیں۔
عموماً اس سلسلے میں یہ نکتہ نظر اپنایا جاتا ہے کہ صاحب اس کو فیصلہ تو بہت پہلے ہوچکا ہے۔ لہذا اب مزید غور کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ تدبر جاری رہنا چاہئیے اس لئے کہ 1۔ روایات پر بحث ہمیشہ سے رہی ہے۔ کچھ فرقہ تو ان روایات کو قبول ہی نہیںکرتے۔ 2۔ مسلمان مختلف ادوار میں ان کتب کی ایسی حفاظت نہیں کرپائے جیسا کہ ان کتب کا حق تھا۔ 3۔ ان کتب کی اصل موجود نہیںہے۔
ان وجوہات کی بنیاد پر ایک روایت کے چاہے کتنے بھی مستند راوی موجود ہوں۔، ہم یہ نہیںکہہ سکتے کہ یہ جناب امام بخاری ہی نے لکھا تھا بلکہ اب اس روایت کا صرف ایک راوی ہے وہ ہے اس کو بیان کرکے اس نئی کتاب میں یادواشت سے لکھوانے والا۔ لہذا اصل کتب کی غیر موجودگی میں کم از کم یہ تدبر ، ریسرچ اور تصدیق ضروری ہے کہ آخری راوی وہ جو کہ نامعلوم ہے ، جس نے اس کتاب کے یہ روایت اپنی یادواشت سے لکھوائی ، وہ کیا درست کہہ رہا ہے؟ اس کا پہلا ٹیسٹ قرآن حکیم ہے، اور اس کے بعد راویوں کی اسناد۔
چونکہ چھ کتب روایات کے لکھنے والے رسول اکرم سے تقریباً 200 سال کے بعد آئے، لہذا یہ بتانا مشکل ہے کہ ایک راوی سے دوسرے راوی کی ملاقات کا تسلسل یقین طور پر برقرار رہا۔ یقیناً ہم کو حدیث کی بہتر ڈیٹا بیس کی ضرورت ہے ، جس میں صحیح و ضعیف کا امتیاز ، اس پر ریسرچ اور ساتھ میں راویوں کی اسناد، ان کی تاریخ پیدایش و تاریخ اموات اور رہایش کا مقام موجود ہوں۔ تاکہ یہ تصدیق ہوسکے کہ واقعی ایک راوی سے دوسرے راوی کی ملاقات ان دو سو سالوں میں ممکن تھی؟
یقیناً آپ خود بھی پسند کریں گے کہ آپ کو یقین ہو کہ پیش کردہ روایت مستند ہونے کے معیار کے تقاضوں کو یقینی طور پر پورا کرتی ہے۔ اس پر خاصے کام کی ضرورت ہے۔ میں اب تک قرآن حکیم کے الفاظ کے اردو اور انگریزی ترجمہ کا کام ہی پورا نہیں کر پایا ہوں لہذا حدیث شریف کی ڈیٹا بیس کا کام شروع نہیں کرپایا۔ ممکن ہے آپ لوگ باذوق صاحب کے ساتھ مل کر یہ کام کرسکیں۔ جس میںروایات کے ساتھ درج ذیل معلومات موجود ہوں۔
1۔ ہر روایت کو موافق القرآن ثابت کرنے والی قرآن کی آیات، اور ان پر مناسب بحث و تبصرہ۔
2۔ روایت کا سیاق و سباق، اور ان کا آپس میں لنک
3۔ راویوں کا تاریخ پیدایش، تاریخ وفات اور ان کی جائے رہائش جو مرتب کرنے والے امام تک پہنچتی ہو۔
4۔ صحیح و ضعیف کی شناخت، روایات کے بارے میں علماء اور اماموں کے فتاوی، بیان اور تبصرات۔
5۔ ہر روایت کے زمان و مکان کی شناخت اور اس کی گرامر کا تجزیہ۔
6۔ نقائصکی شناخت تاکہ ریسرچ کرکے ان نقائص کی توثیق و تصدیق کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔
انشاء اللہ تعالی، اگر اللہ تعالی نے مجھے وقت دیا تو میرا ارادہ ان تمام معلومات کو ایک مربوط ڈیٹا بیس میں ڈالنے کا ہے، اگر کوئی صاحب شروع کریں تو ہر طرحکی مدد کرکے خوشی ہوگی۔ اس طرح تمام روایات مربوط ہوجائیں گی ، جن سے صحیح احادیث نبوی (ص) کی بآسانی شناخت ہوسکے۔ قرآن و حدیث کی ایسی ایک مکمل ڈیٹا بیس ، قانون سازی، حکومت، پبلک پالیسی اور عام زندگی اور علم کے حصول و پھیلاؤ میں مددگار ثابت ہوگی۔
والسلام