میں اسطرح کے پروپیگنڈے والی باتیں آجکل بہت سُن رہا ہوں اور خصوصا اسوقت جب پاکستان کو شدید قسم کی دھشت گردی کا سامنا ہے اور خصوصا اسوقت سے جب سے یہ بات عیاں ہوئی کہ یہ نام نہام مقامی طالبان دراصل خود اسرائیلی موساد اور انڈین را کی کارستانیوںکا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
ُپاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا دراصل اس جنگ کا حصہ ہے اور جنگوںمیں مورال گرانے کے لئے ایسے پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں۔اور ظاہر ہے ہمارے دشمنوںکے لئے یہ ضروری ہے کہ لوگوںکا مورال فوج کے متعلق کمزور کیا جائے۔
جہاںتک اس زلزلے کا تعلق ہے، تو اس پر اپنی بے بنیاد تمہیدیں اور اسکی آڑ میںپاکستان اور اسکی فوج اور دیگر اداروں کے خلاف بکواس کرنے والوں کو دیگر حقائق نظر نہیں آتے کہ جس میں اس زلزلے کا مرکز اور اس سے پہلے اس زلزلے کی پیشن گوئیوں کے متعلق خبریں شامل ہیں۔ اور اسکے بعد ہوئے والے آفٹر شاکس اور ان میں بتدریج کمی واقع ہونے کی سائنٹک طریقے سے خبریںجو بالکل صحیح ثابت ہوئیں بھی شامل ہیں۔ میںیہ بات بتاتا چلوں کہ جس علاقے میںیہ زلزلہ آیا وہ پہلے بھی زلزلوں کا مرکز رہ چُکا ہے اور یہ زلزلہ زمین کے نیچے صرف 10 کلومیٹر کی گہرائی میں شروع ہوا اور سطح زمیںسے اتنے قریب ہونے کی وجہ سے ہی اتنی تباہی ہوئی۔
ورنہ اسکو ایٹمی تجربہ قرار دینے والے اور اسی طرحکی بے بنیاد پروپیگنڈے کرنے والے آج تک کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ نہ ہی کوئی تابکاری کے اثرات ظاہر ہوئے، اور نہ ہی کوئی ایسا واقعہ سامنے آیا جس میں کوئی تابکاری نظر آئی ہو، کہیں سے ایٹمی دھماکے کے اثرات جس میں آگ، دھواںوغیرہ شامل ہے، نظر آیا ہو، نہ ہی کوئی ایسا انسان ملا جو اس تابکاری سے متاثر ہوا ہو، حتٰی کہ کوئی جانور تک اس سے متاثر نظر نہیں آیا۔
پہاڑوںکی رنگت تبدیل ہوتے دیکھنے والے نیم عالموں کو یہ خبر نہیںہے کہ ان پہاڑوں میں کئی رنگ کی چٹانیں اور کئی رنگ کی مٹی ہوتی ہے۔ خبر ہو بھی کیسے، کبھی خود تحقیق کرتے تو پتا چلتا کہ اللہ کی زمین میں کتنے رنگ ہوتے ہیں۔ اب زلزلے سے جب زمین اور پہاڑ حرکت کر گئے تو دوسرے رنگ کی زمین باہر نکل آئی۔ مگر ان بے وقووفوں نے شائید ایک پاکستان کا ایٹمی دھماکہ دیکھا تھا جس میں چاغی کے ایک پہاڑ کا رنگ تبدیل ہوگیا اور اب جب بھی کہیں کسی پہاڑ پر کوئی اور رنگ کی زمین ظاہر ہوتی ہے، تو سمجھتے ہیں کہ شائید ایٹمی دھماکہ ہوا ہے
65 اور 71 کی جنگ میں ہندوستان کاجو حال ہوا تھا، وہ سب کو پتہ ہے مگر 71 کی جنگ ہم لڑ کر نہیںہارے تھے، بلکہ اپنے چند بے وقوفوں کی بے وقوفی سے ہارے تھے، البتہ جو پاکستانی 65 کی جنگ میں پاکستان کو شکست خوردہ سمجھنے لگ گئے ہیں ،شائید انکے گھروںمیں کیبل ٹی وی پر انڈین چینل کچھ زیادہ چلتے ہونگے ورنہ انکو پتا ہوتا کہ 6 ستمبر 1965 کو ہندوستانی فوج کو جس ذلت کا سامنا کرنا پڑا وہ آج بھی ان زخموں کی تاب نہ لاکر پاکستان کو گالیاں نکالتے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے، چونڈہ میںٹینکوںکی بہت بڑی جنگ جس میںانڈیا کا سخت نقصان ہوا اور ہمارے ائیر فورس کے طیاروں کی انڈین ائیر فورس کو تباہ کرنے کا عالمی ریکارڈ (ایم ایم عالم اسی پائلٹ کا نام ہے جس نے سب سے کم وقت میں کئی انڈین مگ طیارے گرائے تھے) قائم کر دیا۔ اسی 65 کی جنگ کا حصہ تھا۔ اور ہندوستانی علاقے پاکستان کے قبضے میںآگئے تھے اور حسب عادت ہندوستان، اقوام متحدہ کے گوڈوں گٹوں سے لپٹ گیا تھا کہ یہ جنگ بند کروائی جائے۔
آج جو آزاد کشمیر آپ دیکھ رہے ہیں، یہ 1947 کی جنگِ آزادی کے ساتھ ہی فوج اور سرحد کے مجاہدین نے ہی آزاد کروایا تھا۔ اور پاکستان کو آج بھی اللہ جل شانہ کے فضل و کرم سے اپنی جگہ کھڑا ہے۔
اور افغان جنگ کے خلاف لکھنے والے یہ بات ہمیشہ بھول جاتے ہیں، کہ پاکستان اگر روس کے خلاف اس جنگ کا حصہ نہ بنتا تو آج روس شائید ہم پر بھی قابض ہوتا کیونکہ وہ دراصل آیا ہی گرم پانیوں کے چکر میں تھا۔ اللہ جل شانہ کی مدد سے پاکستا ن نے اپنی طرف بڑھنے والے اپنے وقت کی ایک بڑی سُپر پاور کو اپنی سرحدوں تک پہنچنے سے پہلے ہی شکست دی۔ اور یہ سُپر پاور(سوویت یونین، جسے آج اللہ نے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے) خود کچھ افغانوں کی مدد سے ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔اور پاکستان کے خلاف چاہے افغان ہوں یا روسی یا ہندوستانی، بہرحال ہمارے دشمن ہی کہلائیں گے اور ہم انہیں تباہ کریں گے۔ دنیا کو اچھا لگے یا نہ لگے۔
یاد رکھئے، جب آپ اپنے دشمن سے نبرد آزماء ہوتےہیں تو نقصان ہونا اور جنگیں ہونا اس سلسلے کا حصہ ہوتا ہے۔ کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کو کچھ بھی نہ ہواور دشمن کا نقصان ہی نقصان ہو (مگر اللہ چاہے تو)۔ ظاہر ہے یہ حقیقت کی دنیا، فلمی دنیا سے بہت بہتر ہے۔
اسلئے انڈین فلموں کے شائقین سے درخواست ہے کہ اپنے ذھنوںکو انکے منفی پروپیگنڈے سے پاک رکھیں اور فلمی اثرات کے زیر اثر آکر پاکستان کے خلاف بکواس نہ کیا کریں۔