کیجری وال مستعفی ہو گئے

’اینٹی کرپشن بھارتی ہیرو‘ اروند کیجری وال بدعنوانی مخالف ایک قانون کی راہ میں رکاوٹوں کی بنیاد پر ریاست نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے فوری طور پر نئے انتخابات کرانے کی تجویز دی ہے۔
0,,17348173_303,00.jpg

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروِند کیجری وال چاہتے تھے کہ دہلی اسمبلی میں اینٹی کرپشن کا ایک بِل منظور کیا جائے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس قانون کے نتیجے میں ایک محتسب مقرر کیا جانا مقصود ہے جسے سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین کے خلاف تفتیش کا اختیار حاصل ہو گا۔
دو بڑی جماعتوں نے دہلی اسمبلی سے اس بِل کی منظوری کی راہ میں یہ کہتے ہوئے رکاوٹ کھڑی کر دی تھی کہ پہلے وفاقی حکومت اسے منظور کرے۔ جمعے کو اس مسئلے پر دہلی اسمبلی ’مچھلی بازار‘ بنی رہی۔ ارکانِ اسمبلی دِن بھر ایک دوسرے پر چیختے چلاّتے رہے۔ بعض نے تو ریاستی اسمبلی کے اسپیکر کا مائیکروفون بھی چھیننے کی کوشش کی۔
کیجری وال نے اسمبلی میں ہلڑ بازی کی صورتِ حال کے بعد ہی اپنے استعفے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے دفتر میں ایک بیان میں کہا: ’’دہلی اسمبلی تحلیل کر دی جانی چاہیے اور نئے سرے سے انتخابات کروائے جانے چاہییں۔‘‘
کیجری وال بدعنوانی کے خلاف انّا ہزارے کی تحریک کا بھی حصہ رہے ہیں
ان کے اس اعلان کے موقع پر عام آدمی پارٹی کے باہر ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ کیجری وال کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے بھارت کی امیر ترین شخصیت اور ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین مکیش امبانی اور گیس کی قیمتوں کے بارے میں پالیسی سازوں کے خلاف تفتیش کے احکامات دینے کے بعد کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس بِل کے خلاف متحد ہو گئی ہیں۔
بدعنوانی کے خلاف لڑنے والے اروِند کیجری وال نے گزشتہ برس دسمبر میں ریاست نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ ان کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت ’عام آدمی پارٹی‘ نے ریاستی انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی۔ اس پارٹی نے نئی دہلی کی ریاستی اسمبلی میں 28 نشستیں حاصل کی تھیں۔
سابق ٹیکس انسپکٹر کیجری وال نہ صرف بدعنوانی کے خلاف ہیں بلکہ وہ وی آئی پی کلچر کو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ وہ خود دسمبر میں اپنی حلف برداری کی تقریب میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے پہنچے تھے۔ ان کے اس فیصلے کو دہلی کی سیاسی اشرافیہ کے وی آئی پی کلچر سے بالکل متصادم قرار دیا گیا تھا۔
کیجری وال نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس کلچر کو ختم کر دیں گے۔ انہیں بھارت کے مؤقر ہفت روزہ جریدے ’انڈیا ٹوڈے‘ کی جانب سے ’نیوز میکر آف دی ایئر‘ کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔
http://www.dw.de/کیجری-وال-مستعفی-ہو-گئے/a-17434777
 
کیجریوال اگر میدان میں کھڑے رہ کر مقابلہ کرتے رہتے تو زیادہ بہتر تھا۔ یا
کیجریوال اگر اسمبلی توڑ دیتے (اگر انکو آئین یہ اختیار دیتا ہے وہاں) ، ایسے اسمبلی کو توڑ ہی دینا چاہئے جو کرپشن کے خلاف قانون منظور نا کرے۔
 

زیک

مسافر
یہ عام آدمی پارٹی کی بجائے ڈرامہ پارٹی لگتی ہے۔ پہلے پولیس اور افریقیوں کے معاملے میں ڈرامہ رچایا اور اب اس قانون کا خیال نہیں کیا جس کے تحت مرکزی حکومت کی منظوری ضروری تھی
 
یہ عام آدمی پارٹی کی بجائے ڈرامہ پارٹی لگتی ہے۔ پہلے پولیس اور افریقیوں کے معاملے میں ڈرامہ رچایا اور اب اس قانون کا خیال نہیں کیا جس کے تحت مرکزی حکومت کی منظوری ضروری تھی
پارٹی ڈرامہ ہو یا سنجیدہ کرپشن کے خلاف قانون ضرور بننا چاہئے۔
 
ایک بزنس ٹائکون کا معاملہ آیا تو دو دشمن پارٹیاں یعنی بی جے پی اور کانگریس، دونوں ہی متحد ہوگئیں۔۔۔ثابت ہوا کہ سیاست کا ایک ظاہر ہے اور ایک ظاہر الظاہر۔۔
ظاہر الظاہر تو سیاسی پارٹیاں ہیں اور ظاہر وہ طبقہ ہے جسکے مفاد کیلئے یہ پارٹیاں کام کرتی ہیں۔۔یعنی کنگ میکرز (ظاہری طور پر)
 
کیجریوال کا استعفی
واہ کیا قربانی ہے؟ کیجریوال نے استعفی دے دیا پر کھویا کیا؟ یہ تو کانگریس کی مہربانی تھی جس نے حمایت دے کر سرکار بنوائی اور چیف منسٹر بننے کا موقع دیا۔ کیجریوال نے کھویا کیا؟ 28 ایم ایل اے تھے 27 ایم ایل اے آج بھی ہیں۔ ایک جو گیا اسےبھی کیجریوال نے نکالا۔ رہی بات سرکار کی وہ حق تو جنتا نے کیجریوال کو دیا ہی نہیں تھا۔ بی جے پی نے32 ایم ایل اے ہونے پر بھی سرکار نہیں بنائی کیونکہ اسے پارلیمنٹ کے لئے کیجریوال کا ٹیسٹ لینا تھا۔ جو پوری طرح کامیاب رہا اور کانگریس کو ایکسپوز کرنا، وہ بھی کامیاب رہی۔ کیجریوال نے ریپبلک ڈے پر اراجکتا پھیلا کر خود ہی اپنے آپ کو آراجکتاوادی کہہ دیا۔ نوٹنکی کر کے دہلی کی جنتا کو پریشان کیا۔ آئین کا اپمان کیا۔ لفٹننٹ گورنر کا اپمان کیا۔
اب وہ سیاسی اچھوت ہیں۔ ہاں جلد ہی اس کے کچھ ایم ایل اے دہلی میں بی جے پی کی سرکار بنوا دیں گے۔ بی جے پی کےٹیسٹ میں کیجریوال کامیاب۔ یہی ہوگا پارلیمنٹ میں۔ کیجریوال کو گالی بھی دیں گے۔ سرکار بنانے کے لئے ضرورت پڑی تو ایم پی بھی۔ یہی تو سیاست کا کھیل ہے، جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ بہت خوب کیجریوال، اچھے نیتا،، اچھے ابھینیتا (اداکار) اور جلد ہی عربوں روپیوں کی دولت کے مالک بھی بن سکتے ہیں۔ چار مہینے پہلے انا اکسپوز ہو گئے اور چار مہینے بعد آپ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اور کتنے مہرے ہیں آر ایس ایس کی جیب میں؟(صحافی عزیز برنی کے فیس بُک سے )
 
کیجریوال کا استعفی
واہ کیا قربانی ہے؟ کیجریوال نے استعفی دے دیا پر کھویا کیا؟ یہ تو کانگریس کی مہربانی تھی جس نے حمایت دے کر سرکار بنوائی اور چیف منسٹر بننے کا موقع دیا۔ کیجریوال نے کھویا کیا؟ 28 ایم ایل اے تھے 27 ایم ایل اے آج بھی ہیں۔ ایک جو گیا اسےبھی کیجریوال نے نکالا۔ رہی بات سرکار کی وہ حق تو جنتا نے کیجریوال کو دیا ہی نہیں تھا۔ بی جے پی نے32 ایم ایل اے ہونے پر بھی سرکار نہیں بنائی کیونکہ اسے پارلیمنٹ کے لئے کیجریوال کا ٹیسٹ لینا تھا۔ جو پوری طرح کامیاب رہا اور کانگریس کو ایکسپوز کرنا، وہ بھی کامیاب رہی۔ کیجریوال نے ریپبلک ڈے پر اراجکتا پھیلا کر خود ہی اپنے آپ کو آراجکتاوادی کہہ دیا۔ نوٹنکی کر کے دہلی کی جنتا کو پریشان کیا۔ آئین کا اپمان کیا۔ لفٹننٹ گورنر کا اپمان کیا۔
اب وہ سیاسی اچھوت ہیں۔ ہاں جلد ہی اس کے کچھ ایم ایل اے دہلی میں بی جے پی کی سرکار بنوا دیں گے۔ بی جے پی کےٹیسٹ میں کیجریوال کامیاب۔ یہی ہوگا پارلیمنٹ میں۔ کیجریوال کو گالی بھی دیں گے۔ سرکار بنانے کے لئے ضرورت پڑی تو ایم پی بھی۔ یہی تو سیاست کا کھیل ہے، جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ بہت خوب کیجریوال، اچھے نیتا،، اچھے ابھینیتا (اداکار) اور جلد ہی عربوں روپیوں کی دولت کے مالک بھی بن سکتے ہیں۔ چار مہینے پہلے انا اکسپوز ہو گئے اور چار مہینے بعد آپ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اور کتنے مہرے ہیں آر ایس ایس کی جیب میں؟(صحافی عزیز برنی کے فیس بُک سے )
پیسے والوں کی حمایت کر کے ایکسپوز تو بی جے پی اور کانگریس ہوگئی۔ باقی جو دعوے عزیز برنی کر رہے ہیں اسکا پتا تو چند دن میں چل جائے گا۔
 

ابن جمال

محفلین
سابق ٹیکس انسپکٹر کیجری وال نہ صرف بدعنوانی کے خلاف ہیں
کجریوال انکم ٹیکس کمشنر تھے انسپکٹر نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اروند کجریوال کی زندگی سادہ ہے۔انہوں نے اپنے لئے جب مکان لیناچاہاتواس میں سابق وزرائے اعلیٰ کی طرح بڑے مکان نہیں لے کر ایک چھوٹا سامکان لیا۔ اس کے علاوہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اقتدار اوروزارت کی چاہ میں جہاں دوسرے لیڈر اورنیتا مرتے رہتے ہیں۔وہیں اروند کجریوال نے اس کو آسانی سے ٹھکرادیا۔ جہاں تک ریلائنس کمپنی کے خلاف ایف آئی آرداخل کرنے کی بات ہے تویہ اروند کجریوال کا سب سے بڑاکارنامہ ہے۔ ہندوستان میں پٹرولیم اورگیس کے میدان میں مہنگائی کا ذمہ دار یہی بزنس ٹائیکون ہے۔ اس کے کانگریس سے نہایت قریبی روابط ہیں۔ گزشتہ سال کانگریس کو1500کروڑ کا چندہ ملاتھا۔ سوچ لیجئے کس کس نے دیاہوگا۔ جب مکیش امبانی کے خلاف کچھ ثبوت پاکر اس وقت کے وزیر پٹرولیم نے ایک خطیر رقم بطور جرمانہ عائد کردی تو وہ بے چارے جرمانہ کیاوصول کرتے خود ان کی وزارت چھن گئی۔ اوراب تو وزارت کیلئے لابنگ ہوتی ہے۔ بڑے بڑے بزنس آئیکون اپنی پسند کے افراد کو وزارت دلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ نیراراڈیاٹیپ اسکینڈل سے معلوم ہوگیاکہ رتن ٹاٹا جیسے بظاہر شریف شخص بھی اندر سے کتنا بدعنوان ہے؟خلاصہ کلام یہ کہ حمام میں سبھی ننگے ہیں کیاکانگریس ،کیابی جے پی اورکیاکاروباری طبقہ ۔
ایسے میں اروند کجریوال نے بدعنوانی کے خلاف مہم چھیڑی ہے تویہ بڑی بات ہے اور وہ بھی ایسے شخص جو انکم ٹیکس محکمہ کا کمشنر ہو اوراس کے پاس لاکھوں کروڑوں روپئے بدعنوانی سے کمانے کا بھرپور موقعہ ہو۔ہوسکتاہے اروند کجریوال کچھ نہ کرپائیں لیکن ایک امید توجگائی ہے اوربدعنوانی ڈسے ہوئے اورستائے ہوئے لوگوں کیلئے یہ امید بھی بہت ہے۔ اگردوبارہ انتخاب میں اروند کجریوال اکثریت سے دلی اسمبلی انتخاب جیتتے ہیں اوروہ پانچ سال پورے کرتے ہیں تبھی ان کی کارکردگی اورقول وفعل کا صحیح جائزہ لینامناسب ہوگا۔
دلی میں اروند کجریوال کی حکومت صرف48دن رہی۔ اتنی کم مدت اس کیلئے ناکافی ہے کہ کسی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے۔ اتنی کم مدت تو دیگر پارٹیاں اقتدار کا جشن منانے میں ہی گزاردیتی ہیں۔ لیکن اروند کجریوال نے تو بہرحال کچھ کام کیا۔ان کے آنے سے اورکرپشن کے خلاف کھل کر بولنے سے اتناتوہواکہ دلی اگربدعنوانی سے پاک نہ ہوئی تو بدعنوانی کی سطح گھٹ گئی۔ ہاں اب اروند کجریوال کے چلے جانے سے ان بدعنوانوں کو بڑی خوشی ملی ہوگی۔
 
Top