میرا خیال ہے کہ ایسا ہمیشہ ہی ہوتا ہے۔
خواص اور عوام کا ایک تناسب قدرت نے آپ ہی پیدا کر دیا ہے جو ابتدائے تمدن سے یونہی چلا آتا ہے۔ عوام ہمیشہ تعداد میں زیادہ اور ذوق میں کم تر ہوتے ہیں۔ خواص عددی لحاظ سے مٹھی بھر ہوتے ہیں مگر ان کے ذوق اور معیارات کا اثر معاشرے اور تہذیب پر عوام کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
شاعر اس لحاظ سے تین درجات میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں:
- عام: یہ وہ شاعر ہیں جو عوام کے ذوق کے مطابق شعر کہتے ہیں، کثیر التعداد ہوتے ہیں اور ان کی شعری حیات عوام کے ذوق سے منسلک ہوتی ہے جو عموماً ایک دو عشروں میں بدل جاتا ہے۔
- اعلیٰ: یہ وہ شاعر ہیں جو خواص کے ذوق کی تسکین کا سامان کرتے ہیں، کم ہوتے ہیں اور خواص کے معیارات کے موافق ادبی تواریخ وغیرہ میں کوئی نہ کوئی جگہ پاتے ہیں۔
- عظیم: وہ شعرا جو خواص اور عوام کے معیارات پر یکساں طور پر پورے اترتے ہیں اور ہر دو گروہ کو متاثر کرتے ہیں۔ ادبی تواریخ میں عموماً سرِ فہرست پائے جانے والے لوگ ہوتے ہیں۔
پہلے طبقے کی مثال وہ لوگ ہیں جن کا تابش بھائی نے ذکر کیا۔ دوسرے طبقے کی مثالوں میں کلاسیک میں شیفتہؔ، غالبؔ اور دردؔ وغیرہ جبکہ جدید ادبیات میں جونؔ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ تیسرے طبقے کی مثالیں میرؔ، داغؔ، اقبالؔ اور فیضؔ وغیرہ کی دی جا سکتی ہیں۔
یہ تین درجات کسی طرح بھی کامل (exhaustive) نہیں قرار دیے جا سکتے۔ ہر شاعر کم یا زیادہ طور پر تینوں سے تعلق رکھتا ہے مگر تفہیم کی آسانی کے لیے میرا خیال ہے کہ اس طرح دیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
تو اب معاملہ یہ ہے کہ عام شاعر کے اپنے میدان میں کامیاب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اعلیٰ شاعر بھی ہو گیا ہے۔ اسے یہ خبط ہو تو ہو مگر میری رائے میں ادب فہم طبقے کو اس بات پر ناک بھوں نہیں چڑھانی چاہیے۔ عوام کی واہ واہ جسے نصیب ہو جائے اس کے پاؤں زمین پر ٹکنے مشکل ہی ہوتے ہیں۔ اعلیٰ شاعر اور اس کے نقاد کو اصل میں یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا المیہ کیا ہے اور انھیں برتری کیا حاصل ہے۔ عوام لاکھ کورذوق سہی، باذوق لوگوں سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور ان کے مقابل بھی عموماً نہیں ہونا چاہتے۔
یہ خیال محض ایک غلط فہمی ہے کہ عوام اب زیادہ بدذوق ہو گئے ہیں یا شعر کا معیار بہت گر گیا ہے۔ ہر زمانے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ بات صرف اس قدر ہے کہ تاریخ عوام اور ان کے نمائندوں کو بھلا دیتی ہے۔ خواص اور ان کے کام کو محفوظ کر لیتی ہے۔ یعنی غالبؔ زندہ رہتا ہے۔ مگر غالبؔ کے کورذوق معاصر زمانے کی گرد میں دفن ہو جاتے ہیں۔ اس سے یہ قیاس کرنا کہ وہ تھے ہی نہیں یا کم تھے، بجائے خود ایک نادانی ہے!
---
تابش بھائی کی تحریر اور اس کے پیچھے کارفرما دردِ دل اور خوش مذاقی کی داد نہ دینا بہرحال زیادتی ہو گی۔
جاسمن آپا کے الفاظ میں "زبردست پر ڈھیروں زبریں!"