نیرنگ خیال
لائبریرین
اس بار سالگرہ پر جتنے دھاگے کھولے گئے ہیں شاید پہلے کبھی اتنے دھاگے نہیں کھولے گئے۔ یہ میرا ذاتی اندازہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ مگر آج سب دھاگوں کی فہرست پر نظریں دوڑاتے ہوئے بھی مجھے کہیں کسی یاد کی کھڑکی کھلی نظر نہیں آئی۔ کہیں پگھلتی برف ، کہیں کوئی بہتا جھرنا، کوئی پرانا منظر، کوئی گلہ، کوئی محبت بھرا شکوہ۔ یہ سب کیسے رہ گیا! یہ کیسے رہ سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے ایسا کوئی دھاگا ہو اور میری نظروں سے اوجھل رہا ہو ایسی صورت میں میری گذارش ہے کہ اس کو اسی دھاگے میں ضم کر دیا جائے۔ ادارت والوں کو بھی تو کام دینا چاہیے نا۔
محفل پر ہی نظیری نیشا پوری کا ایک شعر (بشکریہ محمد وارث بھائی) پڑھا تھا کہ
آپ بھی کوئی یاد شریک کیجیے۔ ان کا ذکر کیجیے جو اب اس محفل میں اپنی مصروفیات کے سبب نہیں آتے۔ وہ جو روز و شب کی بھٹی میں جل رہے ہیں یا آسودہ حال ہیں۔ گلے کیجئے لیکن محبت بھرے۔ شکوے کیجیے لیکن مان سے بھرے۔ جن کا تذکرہ میں نے کیا ہے یا جن کا تذکرہ آپ لوگ کریں گے یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر ہم مکمل الگ الگ خاکے لکھ سکتے ہیں۔ مگر وقت کی بےرخی دیکھیے کہ ان سب سندرتاؤں کو چند لفظوں میں سمونا پڑ رہا ہے۔ سلیم احمد کی یاد آرہی ہے کہ
محفل پر ہی نظیری نیشا پوری کا ایک شعر (بشکریہ محمد وارث بھائی) پڑھا تھا کہ
چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردن
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن
کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا آغاز کرنا، بیتی باتیں کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
گو کہ یہ موقع گلوں کو دراز کرنے کا نہیں ہے مگر آپس میں گفتگو کا تو ہے۔ بیتی باتیں کرنے کا ہے۔ پھر بات جب پرانے دوستوں کی ہے تو قصہ بھی پرانا ہوگا۔ منظر بھی پرانا ہوگا۔ مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب قرۃالعین اعوان ، تعبیر ملکر کسی ایک محفلین کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔ مقابلہ ہوتا تھا۔ صحیح درست کا۔ کیسے رنگین تھے وہ دھاگے۔ وہ جب محمد بلال اعظم ، محمد ا حمد بھائی، عائشہ عزیز ، محب علوی بھائی اور مقدس پائتھون سیکھنے کے نام پر کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ شغل ہوتا تھا۔ قیصرانی بھائی بھی تو اب نہیں آتے۔ ان کے نرم چست جملے یاد آتے ہیں۔ صائمہ شاہ کبھی قطعات و انتخاب پیش کر دیتی تھیں اب تو وہ بھی سب سے ہاتھ اٹھا ایک طرف ہوگئیں۔ فاتح اور انیس الرحمن بھی اب مسلسل نشے میں رہنے لگے ہیں۔ کم ہی بولتے ہیں۔ عاطف بٹ بھی اپنی رنگینی سمیت غائب ہیں اور کاشفی بھائی نے بھی پسندیدہ کلام کے زمرے کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ عمر سیف کے ایک لفظی تبصرے بھی ناپید ہوگئے ہیں اور ابن سعید بھائی کی مسکان بھی سنجیدگی میں بدلتی جاتی ہے۔سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن
کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا آغاز کرنا، بیتی باتیں کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
آپ بھی کوئی یاد شریک کیجیے۔ ان کا ذکر کیجیے جو اب اس محفل میں اپنی مصروفیات کے سبب نہیں آتے۔ وہ جو روز و شب کی بھٹی میں جل رہے ہیں یا آسودہ حال ہیں۔ گلے کیجئے لیکن محبت بھرے۔ شکوے کیجیے لیکن مان سے بھرے۔ جن کا تذکرہ میں نے کیا ہے یا جن کا تذکرہ آپ لوگ کریں گے یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر ہم مکمل الگ الگ خاکے لکھ سکتے ہیں۔ مگر وقت کی بےرخی دیکھیے کہ ان سب سندرتاؤں کو چند لفظوں میں سمونا پڑ رہا ہے۔ سلیم احمد کی یاد آرہی ہے کہ
کیسے قصے تھے کہ چھڑ جائیں تو اڑ جاتی تھی نیند
کیا خبر تھی وہ بھی حرف مختصر ہو جائیں گے
کیا خبر تھی وہ بھی حرف مختصر ہو جائیں گے