مریم افتخار
محفلین
مقدس بہنا! اردو محفل کی تیرہویں سالگرہ مبارک! آپ بھی پہلے کی طرح محفل کی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے نا!نینوں بھیا مس یو ٹو
مقدس بہنا! اردو محفل کی تیرہویں سالگرہ مبارک! آپ بھی پہلے کی طرح محفل کی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے نا!نینوں بھیا مس یو ٹو
محفل میں درویشی آ گئی ، تصوف نے رنگ بھر لئے ، دین نے حجرے بنا لئے ، سیاست گپیں لگاتی رہی مگر انسان اپنے اصلی چہروں اور رنگوں سمیت عنقا ہو گئے نہ کوئی رنگ ہے نہ سُخن اور جو اہل سخن تھے وہ یا تو محبتیں کر رہے ہیں یا شادیاں تو بے جذبہ شوق سنائیں کیا ۔۔اس بار سالگرہ پر جتنے دھاگے کھولے گئے ہیں شاید پہلے کبھی اتنے دھاگے نہیں کھولے گئے۔ یہ میرا ذاتی اندازہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ مگر آج سب دھاگوں کی فہرست پر نظریں دوڑاتے ہوئے بھی مجھے کہیں کسی یاد کی کھڑکی کھلی نظر نہیں آئی۔ کہیں پگھلتی برف ، کہیں کوئی بہتا جھرنا، کوئی پرانا منظر، کوئی گلہ، کوئی محبت بھرا شکوہ۔ یہ سب کیسے رہ گیا! یہ کیسے رہ سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے ایسا کوئی دھاگا ہو اور میری نظروں سے اوجھل رہا ہو ایسی صورت میں میری گذارش ہے کہ اس کو اسی دھاگے میں ضم کر دیا جائے۔ ادارت والوں کو بھی تو کام دینا چاہیے نا۔
محفل پر ہی نظیری نیشا پوری کا ایک شعر (بشکریہ محمد وارث بھائی) پڑھا تھا کہ
چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردنگو کہ یہ موقع گلوں کو دراز کرنے کا نہیں ہے مگر آپس میں گفتگو کا تو ہے۔ بیتی باتیں کرنے کا ہے۔ پھر بات جب پرانے دوستوں کی ہے تو قصہ بھی پرانا ہوگا۔ منظر بھی پرانا ہوگا۔ مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب قرۃالعین اعوان ، تعبیر ملکر کسی ایک محفلین کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔ مقابلہ ہوتا تھا۔ صحیح درست کا۔ کیسے رنگین تھے وہ دھاگے۔ وہ جب محمد بلال اعظم ، محمد ا حمد بھائی، عائشہ عزیز ، محب علوی بھائی اور مقدس پائتھون سیکھنے کے نام پر کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ شغل ہوتا تھا۔ قیصرانی بھائی بھی تو اب نہیں آتے۔ ان کے نرم چست جملے یاد آتے ہیں۔ صائمہ شاہ کبھی قطعات و انتخاب پیش کر دیتی تھیں اب تو وہ بھی سب سے ہاتھ اٹھا ایک طرف ہوگئیں۔ فاتح اور انیس الرحمن بھی اب مسلسل نشے میں رہنے لگے ہیں۔ کم ہی بولتے ہیں۔ عاطف بٹ بھی اپنی رنگینی سمیت غائب ہیں اور کاشفی بھائی نے بھی پسندیدہ کلام کے زمرے کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ عمر سیف کے ایک لفظی تبصرے بھی ناپید ہوگئے ہیں اور ابن سعید بھائی کی مسکان بھی سنجیدگی میں بدلتی جاتی ہے۔
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن
کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا آغاز کرنا، بیتی باتیں کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
آپ بھی کوئی یاد شریک کیجیے۔ ان کا ذکر کیجیے جو اب اس محفل میں اپنی مصروفیات کے سبب نہیں آتے۔ وہ جو روز و شب کی بھٹی میں جل رہے ہیں یا آسودہ حال ہیں۔ گلے کیجئے لیکن محبت بھرے۔ شکوے کیجیے لیکن مان سے بھرے۔ جن کا تذکرہ میں نے کیا ہے یا جن کا تذکرہ آپ لوگ کریں گے یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر ہم مکمل الگ الگ خاکے لکھ سکتے ہیں۔ مگر وقت کی بےرخی دیکھیے کہ ان سب سندرتاؤں کو چند لفظوں میں سمونا پڑ رہا ہے۔ سلیم احمد کی یاد آرہی ہے کہ
کیسے قصے تھے کہ چھڑ جائیں تو اڑ جاتی تھی نیند
کیا خبر تھی وہ بھی حرف مختصر ہو جائیں گے
میں نے تو پھر پائتھون کی دوکان کھول لی ہے۔اس بار سالگرہ پر جتنے دھاگے کھولے گئے ہیں شاید پہلے کبھی اتنے دھاگے نہیں کھولے گئے۔ یہ میرا ذاتی اندازہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ مگر آج سب دھاگوں کی فہرست پر نظریں دوڑاتے ہوئے بھی مجھے کہیں کسی یاد کی کھڑکی کھلی نظر نہیں آئی۔ کہیں پگھلتی برف ، کہیں کوئی بہتا جھرنا، کوئی پرانا منظر، کوئی گلہ، کوئی محبت بھرا شکوہ۔ یہ سب کیسے رہ گیا! یہ کیسے رہ سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے ایسا کوئی دھاگا ہو اور میری نظروں سے اوجھل رہا ہو ایسی صورت میں میری گذارش ہے کہ اس کو اسی دھاگے میں ضم کر دیا جائے۔ ادارت والوں کو بھی تو کام دینا چاہیے نا۔
محفل پر ہی نظیری نیشا پوری کا ایک شعر (بشکریہ محمد وارث بھائی) پڑھا تھا کہ
چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردنگو کہ یہ موقع گلوں کو دراز کرنے کا نہیں ہے مگر آپس میں گفتگو کا تو ہے۔ بیتی باتیں کرنے کا ہے۔ پھر بات جب پرانے دوستوں کی ہے تو قصہ بھی پرانا ہوگا۔ منظر بھی پرانا ہوگا۔ مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب قرۃالعین اعوان ، تعبیر ملکر کسی ایک محفلین کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔ مقابلہ ہوتا تھا۔ صحیح درست کا۔ کیسے رنگین تھے وہ دھاگے۔ وہ جب محمد بلال اعظم ، محمد ا حمد بھائی، عائشہ عزیز ، محب علوی بھائی اور مقدس پائتھون سیکھنے کے نام پر کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ شغل ہوتا تھا۔ قیصرانی بھائی بھی تو اب نہیں آتے۔ ان کے نرم چست جملے یاد آتے ہیں۔ صائمہ شاہ کبھی قطعات و انتخاب پیش کر دیتی تھیں اب تو وہ بھی سب سے ہاتھ اٹھا ایک طرف ہوگئیں۔ فاتح اور انیس الرحمن بھی اب مسلسل نشے میں رہنے لگے ہیں۔ کم ہی بولتے ہیں۔ عاطف بٹ بھی اپنی رنگینی سمیت غائب ہیں اور کاشفی بھائی نے بھی پسندیدہ کلام کے زمرے کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ عمر سیف کے ایک لفظی تبصرے بھی ناپید ہوگئے ہیں اور ابن سعید بھائی کی مسکان بھی سنجیدگی میں بدلتی جاتی ہے۔
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن
کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا آغاز کرنا، بیتی باتیں کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
آپ بھی کوئی یاد شریک کیجیے۔ ان کا ذکر کیجیے جو اب اس محفل میں اپنی مصروفیات کے سبب نہیں آتے۔ وہ جو روز و شب کی بھٹی میں جل رہے ہیں یا آسودہ حال ہیں۔ گلے کیجئے لیکن محبت بھرے۔ شکوے کیجیے لیکن مان سے بھرے۔ جن کا تذکرہ میں نے کیا ہے یا جن کا تذکرہ آپ لوگ کریں گے یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر ہم مکمل الگ الگ خاکے لکھ سکتے ہیں۔ مگر وقت کی بےرخی دیکھیے کہ ان سب سندرتاؤں کو چند لفظوں میں سمونا پڑ رہا ہے۔ سلیم احمد کی یاد آرہی ہے کہ
کیسے قصے تھے کہ چھڑ جائیں تو اڑ جاتی تھی نیند
کیا خبر تھی وہ بھی حرف مختصر ہو جائیں گے
محترم صائمہ شاہ بہنا بٹیاانسان اپنے اصلی چہروں اور رنگوں سمیت عنقا ہو گئے
قصور تو ہے ہی اور لکھنے سے پہلے ہی جانتی تھی ، کچھ عرض کرنا چاہوں گی کہمحترم صائمہ شاہ بہنا بٹیا
سدا خوش و شاد و آباد رہیں ۔ آمین
شاید اس میں کچھ قصور آپ ایسی انسان دوست ہستیوں کا ہی ہے ۔
جو مختلف وجوہات پر محفل سے دور ہو گئیں ۔ جب انسان دوست نہ رہے تو انسان کیوں نہ عنقا ہوتے ۔؟ اور ہم ایسے ملنگوں درویشوں نے دین کے حجرے بنا سیاست کی دکان چمکانے میں کامیابی حاصل کر لی ۔ مشہور کہاوت ہے " اجڑیاں باغاں دے گالڑ پٹواری "
بہت دعائیں
حق بلا شک آپ نے بالکل درست کہا ۔شخصیات کے تمام اچھے برے پہلو انسانی ہیں اور صرف مخصوص باتوں کی تشہیر شخصیت کا توازن کھو دیتی ہے ، شخصیت سے انسان کٹ جاتا ہے اور اپنے پیچھے ایک توجہ کا طالب صوفی ، درویش ، سیاست دان اور شاعر یا ادیب چھوڑ جاتا ہے ۔ صفات میں توازن ساتھ رہے تو انسان رنگ نہیں کھوتا بلکہ مزاح سے محبت تک ہر میدان میں اپنے نقش چھوڑتا ہے اپنی بہترین شکل میں ۔
کیسے قصے تھے کہ چھڑ جائیں تو اڑ جاتی تھی نیند
کیا خبر تھی وہ بھی حرف مختصر ہو جائیں گے
خود ساختہ جلا محفلی ختم کرو اور واپس آؤ۔نینوں بھیا مس یو ٹو
ابھی تو اماوس کے دن تھے۔ شاید آجکل ہلال حلال ہوگا۔یہ تیرہ بختی کا نام بھی خوب لیا ، آپ آئے بہار آئی چودھویں کا چاند چڑھنے سے رہ گیا بس
جو لوگ زیادہ ایکٹو ہوتے ہیں وہ اپنے پسند کے موضوعات شروع کر لیتے ہیں۔ باقی باتوں پر۔۔۔ مار اوئے ڈپٹی۔۔۔۔محفل میں درویشی آ گئی ، تصوف نے رنگ بھر لئے ، دین نے حجرے بنا لئے ، سیاست گپیں لگاتی رہی مگر انسان اپنے اصلی چہروں اور رنگوں سمیت عنقا ہو گئے نہ کوئی رنگ ہے نہ سُخن اور جو اہل سخن تھے وہ یا تو محبتیں کر رہے ہیں یا شادیاں تو بے جذبہ شوق سنائیں کیا ۔۔
یہ شکوہ نہیں ہے بلکہ تبدیلی سے براہ راست خطبہ فرما رہی ہوں سو تمام ناصحین اور فرشتے اپنے اپنے حفاظتی بند باندھے رکھیں ۔
ہیں۔ یہ کب سے؟ پرانے طلبا کو خبر بھی نہیں کی۔میں نے تو پھر پائتھون کی دوکان کھول لی ہے۔
ظالممیری معصوم گذارش کا مقصد یہ تھا
ہم تو روز اول سے اسی پر قائم ہیں۔سب اپنے اپنے حفاظتی بند باندھیں رکھیں
یہ شکوہ ہمارا بھی ہے۔محمد احمد بھائی پہلے پہل اپنی موجودگی کا اظہار کردیا کرتے تھے پر اب تو وہ نظر ہی نہیں آتے
میں ایویں ہی تحریر لکھی۔ شعر لکھ کر ہی کام چلا لیتا۔اور ہم تو بس شعر پر مر مٹے!
ہیں۔ یہ کب سے؟ پرانے طلبا کو خبر بھی نہیں کی۔
نہ استاد جی۔ میں آپ کے گھیرو پروگرام میں نہیں آنا اتنی آسانی سے۔بھئی میں نے ایک دھاگہ کھول کر رائے لی تھی اور اس کے بعد شروع کر دیا۔
اب ایسا کرتے ہیں کہ بلکہ بھئی آپ ہی کرو کہ ایک نیا دھاگہ کھول دو پائتھون کورس کے پرانے قاری۔ اس سے گپ شپ اور رونق بڑھے گی اور نئے طلبا کو بھی حوصلہ ملے گا کہ کیسے کیسے ہیرے پائتھون کی "ہٹی" سجائے رکھتے تھے۔
گہری باتیں تو آپ بھی کرنے لگے ہیں سرکارابھی تو اماوس کے دن تھے۔ شاید آجکل ہلال حلال ہوگا۔
کرنے لگے ہیں سے کیا مراد ہے؟گہری باتیں تو آپ بھی کرنے لگے ہیں سرکار