کیفی اعظمی کی منتخب شاعری

یاز

محفلین
غزل

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں
اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں گزر گئیں

دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار
کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں

پیمانہ ٹوٹنے کا کوئی غم نہیں مجھے
غم ہے تو یہ کہ چاندنی راتیں بکھر گئیں

پایا بھی ان کو کھو بھی دیا چپ بھی یہ ہو رہے
اک مختصر سی رات میں صدیاں گزر گئیں
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
شام

مست گھٹا منڈلائی ہوئی ہے
باغ پہ مستی چھائی ہوئی ہے

جھوم رہی ہیں آم کی شاخیں
نیند سی جیسے آئی ہوئی ہے

بولتا ہے رہ رہ کے پپیہا
برق سی اک لہرائی ہوئی ہے

لہکے ہوئی ہیں پھول شفق کے
آتشِ تر چھلکائی ہوئی ہے

شعر مرے بن بن کے ہویدا
قوس کی ہر انگڑائی ہوئی ہے

رینگتے ہیں خاموش ترانے
موجِ ہوا بل کھائی ہوئی ہے

رونقِ عالم سر ہے جھکائے
جیسے دلہن شرمائی ہوئی ہے

گھاس پہ گم صم بیٹھا ہے کیفی
یاد کسی کی آئی ہوئی ہے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
میری آواز سنو

میری آواز سنو ، پیار کے راز سنو
میں نے ایک پھول جو سینے پہ سجا رکھا تھا
اس کے پردے میں تمہیں دل سے لگا رکھا تھا
تھا جدا سب سے میرے عشق کا انداز سنو

زندگی بھر مجھے نفرت سی رہی اشکوں سے
مرے خوابوں کو تم اشکوں میں ڈبوتے کیوں ہو
جو میری طرح جیا کرتے ہیں کب مرتے ہیں
تھک گیا ہوں مجھے سو لینے دو، روتے کیوں ہو
سو کے بھی جاگتے ہی رہتے ہیں جانباز سنو

میری دنیا میں نہ پورب ہے، نہ پچھم کوئی
سارے انساں سمٹ آئے کھلی بانہوں میں
کل بھٹکتا تھا میں جن راہوں میں تنہا تنہا
قافلے کتنے ملے آج انہی راہوں میں
اور سب نکلے مرے ہمدرد مرے ہمراز سنو

نونہال آتے ہیں، ارادھی کو کنارے کر لو
میں جہاں تھا انہیں جانا ہے وہاں سے آگے
آسماں ان کا، زمیں ان کی، زمانہ ان کا
ہیں کئی ان کے جہاں مرے جہاں سے آگے
انہیں کلیاں نہ کہو، ہیں یہ چمن ساز سنو

کیوں سنواری ہے یہ چندن کی چتا مرے لئے
میں کوئی جسم نہیں ہوں کہ جلاؤ گے مجھے
راکھ کے ساتھ بکھر جاؤں گا میں دنیا میں
تم جہاں کھاؤ گے ٹھوکر وہاں پاؤ گے مجھے
ہر قدم پر ہے نئے موڑ کا آغاز سنو
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
آوارہ نغمہ

وہ شام تھی کتنی مست بے خود، جو مجھ کو بے خود بنا رہی تھی
اِک آگ دل کی بجھا رہی تھی اِک آگ دل میں لگا رہی تھی

نفس میں حل ہو رہی تھیں پیہم ہوا کی پر کیف و نرم لہریں
فضا کی مستی سمٹ سمٹ کر دل و نظر میں سما رہی تھی

دھواں دھواں تھا شفق کا چہرہ بجھی بجھی تھیں سنہری کرنیں
ہر ایک شے میں تھی بے خودی سی ہر ایک شے سوئی جا رہی تھی

دھنک کی رنگین دھاریوں پر بھی ڈال دی تھی گھٹا نے چادر
گھٹا کی چادر میں بھی مچلتی ہوئی دھنک جگمگا رہی تھی

نہ شام تھی وہ نہ جھٹپٹا تھا، اٹھی تھی اِک بھاپ میکدہ سے
جو رنگ بن کر برس رہی تھی جو خامشی بن کے چھا رہی تھی

اسی لطیف اور خنک ہوا میں، اسی جمیل اور حسیں فضا میں
کھڑی ہوئی رہگذر پہ کوئی جواں فسوں ساز گا رہی تھی

وہ بانسری کی لطیف لہریں، لطیف لہروں میں اس کے نغمے
زمانہ مسحور ہو رہا تھا خدائی ہچکولے کھا رہی تھی

نظر میں موسیقیت تھی لرزاں مچل رہے تھے نفس میں نغمے
شباب بھی گنگنا رہا تھا ، حیات بھی گنگنا رہی تھی

نِگاہ نغمہ ، خرام نغمہ ، کلام نغمہ ، پیام نغمہ
ہوا میں نغمے سمو رہی تھی فضا میں نغمے گھلا رہی تھی

سلونے ہونٹوں کی لرزش میں تھی پر فشاں روح میکدے کی
نظر کی سرشاریوں میں تخیلِ سامری تھرتھرا رہی تھی

اسی کے جلوے، اسی کا پرتو، اسی کے نغمے، اسی کا جادو
اسی کی دنیا بسی ہوئی تھی جدھر وہ نظریں اٹھا رہی تھی

دلوں کی حالت بھی دیدنی تھی، رخوں کی رنگت بھی دیدنی تھی
کبھی کوئی لہر آ رہی تھی کبھی کوئی لہر جا رہی تھی

ادا میں نرمی، نوا میں نرمی، نِگہ میں نرمی، مژہ میں جادو
ہر اِک کو مست و خراب کر کے ہر ایک پر مسکرا رہی تھی

کبھی نظر سے نظر ملا کر ، کبھی نظر سے نظر ہٹا کر
ڈبو رہی تھی، مٹا رہی تھی، پلا رہی تھی، چھکا رہی تھی

ہر اِک سے بیگانہ بن رہی تھی دلوں کو دے دے کے نرم جھٹکے
نہ میں کسی کی نہ کوئی میرا ، یہ اجنبیت بتا رہی تھی

لبوں پہ جاں کھنچ کے آ گئی تھی بگڑ چلا تھی نظامِ ہستی
وہ مست لہروں میں بانسری کی دلوں کو جھولا جھلا رہی تھی

کہیں وہی شام آئے کیفی، میں ڈوب جاؤں وہ گائے کیفی
اسی طرح پھر مٹائے کیفی کہ جس طرح سے مٹا رہی تھی
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
غزل

سنا کرو مری جاں اِن سے اُن سے افسانے
سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے

یہاں سے جلد گزر جاؤ قافلے والو !
ہیں میری پیاس کے پھونکے ہوئے یہ ویرانے

مرے جنونِ پرستش سے تنگ آ گئے لوگ
سنا ہے بند کئے جا رہے ہیں بت خانے

جہاں سے پچھلے پہر کوئی تشنہ کام اٹھا
وہیں پہ توڑے ہیں یاروں نے آج پیمانے

بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے

ہوا ہے حکم کہ کیفی کو سنگسار کرو
مسیح بیٹھے ہیں چھپ کے کہاں خدا جانے
(کیفی اعظمی)​
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
پہرہ

عزم کا کوہِ گراں، درد کی دیوار ہیں ہم
زخم کا زخم ہیں تلوار کی تلوار ہیں ہم
جیسے جھپکی نہیں صدیوں سے یہ بوجھل پلکیں
آج کی رات کچھ اِس طرح سے بیدار ہیں ہم
جال سرحد سے اٹھا جال بچھانے والے

جب ملی آنکھ، ملی موت کا نذرانہ لئے
جب ہلے ہونٹ،ہلے زہر کا پیمانہ لئے
خون بہتا ہے تو بن جاتی ہے تصویر تری
جنگ اِس ہاتھ میں،اُس ہاتھ میں ویرانہ لئے
تجھ سا دیکھا نہ سنا خون بہانے والے

زندگی تیرے تصور سے بھی گھبراتی ہے
اتنا نزدیک نہ آ سانس گھٹی جاتی ہے
تو نے سونے کے کٹورے میں یہ کیا شے پی لی
گرم سانسوں سے سڑے خون کی بو آتی ہے
منہ ادھر پھیر ذرا پیار جتانے والے

تیرا احسان جو لیں اپنی بہاریں بھولیں
کھیت میں قحط اُگیں باغ میں سنکٹ پھولیں
پیاس بن جائے مقدر جو پئیں تیری شراب
آبلے ہاتھ میں پڑ جائیں جو ساغر چھو لیں
یہ رہا جام ترا زہر پلانے والے

قسمتیں بن کے ترے دم سے بگڑ جاتی ہیں
بستیاں دل کی طرح بس کے اُجڑ جاتی ہیں
تیل پی لیتی ہے آنسو کی طرح ڈر کے زمیں
منڈیاں تیری بھِنک پا کے سُکڑ جاتی ہیں
سکہ کھوٹا ہے ترا داؤ لگانے والے

نرم شاخوں نے لچکنے کی سزا پائی ہے
اِک اِک پھول کو ترسا کے بہار آئی ہے
تارے اترے ہیں زمیں پر کہ کھِلا ہے بیلا
ڈھاک پھولا ہے کہ شعلوں کی گھٹا چھائی ہے
ہے بہت گرم فضا شاخ جھکانے والے

ہم وہ راہی ہیں جو منزل کی خبر رکھتے ہیں
پاؤں کانٹوں پہ شگوفوں پہ نظر رکھتے ہیں
کتنی راتوں سے نچوڑا ہے اُجالا ہم نے
رات کی قبر پہ بنیادِ سحر رکھتے ہیں
او اندھیرے کے خدا شمع بجھانے والے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
اجنبی

اے ہمہ رنگ، ہمہ نور، ہمہ سوز و گداز
بزمِ مہتاب سے آنے کی ضرورت کیا تھی
تو جہاں تھی اسی جنت میں نکھرتا ترا روپ
اس جہنم کو بسانے کی ضرورت کیا تھی

یہ خدو خال، یہ خوابوں سے تراشا ہوا جسم
اور دل جس پہ خدو خال کی نرمی بھی نثار
خار ہی خار شرارے ہی شرارے ہیں یہاں
اور تھم تھم کے اٹھا پاؤں بہاروں کی بہار

تشنگی زہر بھی پی جاتی ہے امرت کی طرح
جانے کس جام پہ رک جائے نگاہِ معصوم
ڈوبتے دیکھا ہے جن آنکھوں میں میخانہ بھی
پیاس ان آنکھوں کی بجھے یا نہ بجھے کیا معلوم

ہیں سبھی حسن پرست، اہلِ نظر، صاحبِ دل
کوئی گھر میں کوئی محفل میں سجائے گا تجھے
تو فقط جسم نہیں شعر بھی ہے گیت بھی ہے
کون اشکوں کی گھنی چھاؤں میں گائے گا تجھے

تجھ سے اک درد کا رشتہ بھی ہے بس پیار نہیں
اپنے آنچل پہ مجھے اشک بہا لینے دے
تو جہاں جاتی ہے جا روکنے والا میں کون
رستے رستے میں مگر شمع جلا لینے دے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟

تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
ہائیں یہ جبر کی صورت جینا
منھ بنائے ہوئے امرت پینا
کانپتی روح دھڑکتا سینا
پیار کو جرم بناتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
دل بھی ہے دل میں تمنا بھی ہے
کچھ جوانی کا تقاضا بھی ہے
تم کو اپنے پہ بھروسا بھی ہے
جھینپ کر آنکھ ملاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
ان کو ہنسنے دو جو انسان نہیں
جن کو کچھ عشق کا عرفان نہیں
سنگ زادوں میں ذرا جان نہیں
آنکھ ایسوں کی بچاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
ظلم تم نے کوئی ڈھایا تو نہیں
ابنِ آدم کو ستایا تو نہیں
خوں غریبوں کا بہایا تو نہیں
یوں پسینے میں نہاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
جھینپتے تو نہیں مندر کے مکیں
جھینپتے تو نہیں محراب نشیں
جھوٹ پر ان کی چمکتی ہے جبیں
سچ پہ تم سر کو جھکاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
پردہ ہے داغ چھپانے کے لئے
شرم ہے جھوٹ پہ چھانے کے لئے
عشق اک گیت ہے گانے کے لئے
اس کو ہونٹوں میں دباتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
آؤ اب گھٹنے کی فرصت ہی نہیں
اور بھی کام ہیں الفت ہی نہیں
ہے یہ خامی بھی ندامت ہی نہیں
ڈر کے چلمن کو اٹھاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
مقتلِ بیروت
(بیروت میں فلسطینیوں کے قتل عام کے سانحہ پر)

اے صبا لوٹ کے کس شہر سے تو آتی ہے
تیری ہر لہر سے بارود کی بو آتی ہے
خوں کہاں بہتا ہے انسان کا پانی کی طرح
جس سے تو روز یہاں کرکے وضو آتی ہے
دھجیاں تو نے نقابوں کی گنی تو ہوں گی
یونہی لوٹ آتی ہے یا کرکے رفو آتی ہے

ایہا الناس فلسطین صدا دیتا ہے
وہ بھی ایسے کہ کلیجوں کو ہلا دیتا ہے
اس کی آواز پہ لبیک کہا جو تم نے
ہر لبِ زخم سے وہ تم کو دعا دیتا ہے
بے خبر اتنے نہیں تم کو یہ معلوم نہ ہو
تخت پر کون یزیدوں کو بٹھا دیتا ہے
شمر مجرم بھی ہے قاتل بھی ہے ملعون بھی ہے
وہ ہے کیا شمر کو خنجر جو تھما دیتا ہے
میری کیوں مانو گے یہ پوچھ لو ہتھیاروں سے
کون اِک شہر کو شمشان بنا دیتا ہے
کب اٹھائے گا خدا حشر خدا ہی جانے
آدمی روز کوئی حشر اٹھا دیتا ہے

کسی ہتھیار سے پوچھو وہ بتا دے گا تمہیں
کون وہ لوگ ہیں دشمن ہیں جو آزادی کے
نام بتلائیں گی بیروت کی زخمی گلیاں
کون درپے ہوا لبنان کی بربادی کے
بند پانی ہوا بیروت کے جانبازوں پر
حربے رائج ہیں ابھی تک وہی جلادی کے
اک اک بوند کو جس وادی میں ترسے تھے حسین
تیل کے چشمے ہیں ناسور اسی وادی کے
بے ضمیری کا ہے یہ عہد خبر ہے کہ نہیں
کس توقع پہ کھلیں لب کسی فریادی کے

اے صبا اب ہو جو بیروت کی گلیوں میں گزر
اور تیرے سامنے آ جائے کوئی تازہ کھنڈر
اس سے کہہ دینا کہ بھارت کا بھی سینہ ہے فگار
ہل گیا کوہِ ہمالہ جو سنی تیری پکار

جتنے کانٹے بھی بچھانا ہو بچھا لے کوئی
تیری راہوں سے جدا ہوں گی نہ راہیں اپنی
غم نہ کر ہاتھ اگر تیرے قلم ہو جائیں
جوڑ دیں گے تیرے بازو میں یہ بانہیں اپنی
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
بانسری کا لہرا

نہ جانے چاند یہ تھرا رہا ہے
کہ کوئی جامِ مے چھلکا رہا ہے

زمیں آئینہ ہوتی جا رہی ہے
فلک کافور سا برسا رہا ہے

کھپا جاتا ہے کہرا چاندنی میں
دھواں سیماب بنتا جا رہا ہے

شعاعیں قید ہیں دامِ ہوا میں
فضا میں رنگ سا بل کھا رہا ہے

ہوائیں اِس طرح اٹھلا رہی ہیں
کہ رس پودوں کا چھلکا جا رہا ہے

جہاں پر اِک خموشی چھا رہی ہے
خموشی پر ترنم چھا رہا ہے

کسی نے بانسری بھی لو بجا دی
کوئی طرفہ قیامت ڈھا رہا ہے

سکوتِ شب کا خواب آور فسانہ
سروں میں جذب ہوتا جا رہا ہے

ابھرتی جاتی ہیں رہ رہ کے تانیں
فلک اوپر کو اٹھتا جا رہا ہے

خلا میں بس رہی ہیں مست تانیں
دلِ ارض و سماء لہرا رہا ہے

سمٹتا ہے ، سکڑتا ہے اجالا
مہ و انجم کو غش سا آ رہا ہے

زمیں محور پہ گھومی جا رہی ہے
فلک مرکز پہ گھوما جا رہا ہے

ستارے دے رہے ہیں تالِ پیہم
ہر اِک ذرہ تھرک کر گا رہا ہے

ہوا میں اٹھ رہی ہیں ایسی لہریں
کہ خود نغمہ جھکولے کھا رہا ہے

نہ جانے کیوں ہر اک میٹھی نوا پر
دلِ مہجور بیٹھا جا رہا ہے

کسی کی شکل پھرتی ہے نظر میں
کوئی بِچھڑا ہوا یاد آ رہا ہے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
درج ذیل اشعار کیفی اعظمی نے لکھنؤ میں محرم کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں کہے تھے

عزا میں بہتے تھے آنسو یہاں،لہو تو نہیں
یہ کوئی اور جگہ ہو گی، لکھنؤ تو نہیں

یہاں تو چلتی ہیں چھریاں زبان سے پہلے
یہ میر انیس کی، آتش کی گفتگو تو نہیں

تم اس کا رکھ لو کوئی اور نام موزوں سا
کیا ہے خون سے جو تم نے، وضو تو نہیں

ٹپک رہا ہےجو زخموں سےدونوں فرقوں کے
بغور دیکھو ، کہیں یہ اسلام کا لہو تو نہیں

سمجھ کےمال میرا جس کو تم نےلوٹا ہے
پڑوسیو! کہیں یہ تمہاری ہی آبرو تو نہیں
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
نذرانہ

تم پریشان نہ ہو، بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
اسی کوچے میں جہاں چاند اگا کرتے ہیں
شبِ تاریک گزاروں گا چلا جاؤں گا

راستہ بھول گیا، یا یہی منزل ہے مری
کوئی لایا ہے کہ خود آیا ہوں معلوم نہیں
کہتے ہیں حسن کی نظریں بھی حسیں ہوتی ہیں
میں بھی کچھ لایا ہوں، کیا لایا ہوں معلوم نہیں

یوں تو جو کچھ تھا مرے پاس میں سب بیچ آیا
کہیں انعام ملا ، اور کہیں قیمت بھی نہیں
کچھ تمہارے لئے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے
دیکھ لو اور نہ دیکھو تو شکایت بھی نہیں

ایک تو اتنی حسیں اور دوسرے یہ آرائش
جو نظر پڑتی ہے چہرے پہ ٹھہر جاتی ہے
مسکرا دیتی ہو رسماََ بھی اگر محفل میں
اک دھنک ٹوٹ کے سینوں میں بکھر جاتی ہے

گرم بوسوں سے تراشا ہوا نازک پیکر
جس کی اک آنچ سے ہر روح پگھل جاتی ہے
میں نے سوچا ہے تو سب سوچتے ہوں گے شاید
پیاس اس طرح بھی کیا سانچے میں ڈھل جاتی ہے

کیا کمی ہے جو کرو گی مرا نذرانہ قبول
چاہنے والے بہت، چاہ کے افسانے بہت
ایک ہی رات سہی گرمیٔ ہنگامۂ عشق
ایک ہی رات میں جل مرتے ہیں پروانے بہت

پھر بھی اک رات میں سو طرح کے موڑ آتے ہیں
کاش تم کو کبھی تنہائی کا احساس نہ ہو
کاش ایسا نہ ہو گھیرے رہے دنیا تم کو
اور اس طرح کہ جس طرح کوئی پاس نہ ہو

آج کی رات جو میری ہی طرح تنہا ہے
میں کسی طرح گزاروں گا چلا جاؤں گا
تم پریشان نہ ہو، بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
جیل کے در پر

اک مجسمِ جرأت و غیرت سراپا انقلاب
کھا رہا تھا جیل کے در پر ہزاروں پیچ و تاب

آنکھ میں خونِ بغاوت قلب میں حبِ وطن
آگ تیکھی چتونوں میں انکھڑیوں میں بانکپن

تپتی سانسوں میں شرر پارے جھکولے آندھیاں
تلملاتی تیوریوں میں تھرتھراتی بجلیاں

خود سراپا اپنے ہر محکم ارادے کا ثبوت
ہند کی پونجی،وطن کی لاج،بھارت کا سپوت

چوٹ سی لگتی تھی دل پر قیدیوں کو دیکھ کر
بے ارادہ توڑ دیتا تھا سلاخوں کی کمر

در سے لڑتی تھیں امنگیں یوں دلِ بیتاب کی
جس طرح بندھے سے ٹکراتی ہو رو سیلاب کی

فیل پیکر سنتری پھرتے تھے بل کھاتے ہوئے
ساز جوتوں کے غلامی کی تھے دھن گاتے ہوئے

پاس ہی در کے کھڑی تھی اک ضعیفہ بد حواس
جیل میں فرزند، پہلو میں بہو، چہرہ اداس

دیکھتی تھی گہہ پسر کو گاہ سوئے آسماں
فرطِ غم سے تھرتھراتی تھیں بدن کی جھریاں

کہہ رہی تھی نظروں نظروں میں کلیجہ تھام کر
اے مری گاڑھی کمائی اے مرے پیارے پسر

تو، تو بچپن ہی کا ضدی ہے یہ ماں تجھ پر فدا
پہلے کب سنتا تھا مانے گا جو، اب کہنا مرا

راہ پر لاؤں تجھے کس طرح کس تدبیر سے
ناسمجھ نادان لڑنا چھوڑ دے تقدیر سے

یہ نہیں کہتی کہ دے اپنی ضعیفہ ماں کا ساتھ
بے حمیت غیر کی لڑکی کا کیوں پکڑا تھا ہاتھ

اک نظر للٰہ اس کی بے زبانی دیکھ لے
حوصلوں کی رو امنگوں کی جوانی دیکھ لے

شرم و الفت میں گھٹی جاتی ہے ہر موجِ نفس
اشک بن کر نرگسی آنکھوں میں کھنچ آیا ہے رس

بیاہ کے لایا تھا اس کو دکھ اٹھانے کے لئے
ہائے یہ آنکھیں نہ تھیں آنسو بہانے کے لئے

وہ ادھر گرم تکلم تھا عجب انداز میں
حریت لو دے رہی تھی شعلۂ آواز میں

کہہ رہا تھا مضمحل چہرے پہ نظریں گاڑ کر
اے مری ماں، اے مری غم خوار میری نوحہ گر

میرے دل کی آگ یہ آنسو بجھا سکتے نہیں
چند قطرے بپھرے طوفاں کو دبا سکتے نہیں

آہ جس پر بوجھ دیدیتا ہو پھولوں کا بھی ہار
کس طرح دیکھوں کنیزی کا اس گردن پہ بار

عورتیں دنیا کی ہوں مصروفِ ترئین دوام
اور ہماری عورتوں کا فرض وہ ڈھالیں غلام

اپنے بادل اٹھ کر کشتِ غیر پر برسا کریں
ہم بھکاری قطرے قطرے کے لئے ترسا کریں

کچھ خبر ہے رو رہی ہے مادرِ ہندوستاں
ڈگمگاتی ہے زمیں تھرا رہا ہے آسماں

ظلم و استبداد کے چھائے ہیں بادل چار سُو
حل کیا جاتا ہے سکوں میں غریبوں کا لہو

بیکسوں کی آہ بھی اہلِ ددل سنتے نہیں
گل کے بندے باغ سے کانٹے کبھی چنتے نہیں

دے رہا ہے دم بہ دم ہم کو صدا ہندوستاں
بن نہیں سکتی ہیں اب قدموں کا لنگر بیڑیاں

کانپتا ہے چرخِ فتنہ ساز ہلتی ہے زمیں
ہند کے بھوکوں نے الٹی ہے گرج کر آستیں

مل نہیں سکتی وطن میں اب غلامی کو پناہ
خار و خس بھی بجلیوں پر گرم کرتے ہیں نگاہ

آستاںِ جبر پر اب جبہ سائی ہو چکی
اہرمن سیرت خداؤں کی خدائی ہو چکی

دفعتاََ پیدا ہوا کچھ قیدیوں میں خلفشار
آ گیا بیوی کو اس تپتے ہوئے لہجے پہ پیار

دوڑ کر ڈالا گلے میں ہار پھر شرما گئی
مادرِ ہندوستان کے رخ پہ سرخی چھا گئی

کہہ اٹھا کیفی ہر اک ذرہ بصد قہر و عتاب
انقلاب و انقلاب و انقلاب و انقلاب
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
غزل

وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد
دادِ سخن ملی مجھے ترکِ سخن کے بعد

دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے
ٹھہرا نہ دل کہیں بھی تری انجمن کے بعد

ہونٹوں کو سی کے دیکھئے پچھتائے گا آپ
ہنگامے جاگ اٹھتے ہیں اکثر گھٹن کے بعد

غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ
قدرِ وطن ہوئی ہمیں ترکِ وطن کے بعد

انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد

اعلانِ حق میں خطرۂ دارو رسن تو ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
پیار کا جشن

پیار کا جشن نئی طرح منانا ہو گا
غم کسی دل میں سہی غم کو مٹانا ہوگا

کانپتے ہونٹوں پہ پیمانِ وفا کیا کہنا
تجھ کو لائی ہے کہاں لغزشِ پا کیا کہنا
میرے گھر میں ترے مکھڑے کی ضیا کیا کہنا
آج ہر گھر کا دیا مجھ کو جلانا ہو گا

روح چہروں پہ دھواں دیکھ کے شرماتی ہے
جھینپی جھینپی سی مرے لب پہ ہنسی آتی ہے
تیرے ملنے کی خوشی درد بنی جاتی ہے
ہم کو ہنسنا ہے تو اوروں کو ہنسانا ہوگا

سوئی سوئی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے جام
کھوئی کھوئی ہوئی نظروں میں محبت کا پیام
لبِ شیریں پہ مری تشنہ لبی کا انعام
جانے انعام ملے گا کہ چرانا ہو گا

میری گردن میں تری صندلی باہوں کا یہ ہار
ابھی آنسو تھے ان آنکھوں میں ابھی اتنا خمار
میں نہ کہتا تھا مرے گھر میں بھی آئے گی بہار
شرط اتنی تھی کہ پہلے تجھے آنا ہو گا
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
نیا حسن

کتنی رنگیں ہے فضا ک،تنی حسیں ہے دنیا
کتنا سرشار ہے ذوقِ چمن آرائی آج
اس سلیقے سے سجائی گئی بزمِ گیتی
تو بھی دیوارِ اجنتا سے اتر آئی آج

رونمائی کی یہ ساعت، یہ تہی دستِ شوق
نہ چرا سکتا ہوں آنکھیں، نہ ملا سکتا ہوں
پیار سوغات ، وفا نذر ، محبت تحفہ
یہی دولت ترے قدموں پہ لٹا سکتا ہوں

کب سے تخیل میں لرزاں تھا یہ نازک پیکر
کب سے خوابوں میں مچلتی تھی جوانی تیری
میرے افسانے کا عنوان بنی جاتی ہے
ڈھل کے سانچے میں حقیقت کے کہانی تیری

مرحلے جھیل کے نکلا ہے مذاقِ تخلیق
سعیٔ پیہم نے دئیے ہیں یہ خدوخال تجھے
زندگی چلتی رہی کانٹوں پہ ، انگاروں پر
جب ملی اتنی حسیں، اتنی سبک چال تجھے

تیری قامت میں ہے انساں کی بلندی کا وقار
دخترِ شہر ہے ، تہذیب کا شہکار ہے تو
اب نہ جھپکے گی پلک، اب نہ ہٹیں گی نظریں
حسن کا میرے لئے آخری معیار ہے تو

یہ ترا پیکرِ سیمیں ، یہ گلابی ساری
دستِ محنت نے شفق بن کے اڑھا دی تجھ کو
جس سے محروم ہے فطرت کا جمالِ رنگیں
تربیت نے وہ لطافت بھی سکھا دی تجھ کو

آگہی نے تری باتوں میں کھلائیں کلیاں
علم نے شکریں لہجے میں نچھوڑے انگور
دل ربائی کا یہ انداز کسے آتا تھا
تو ہے جس سانس میں نزدیک اسی سانس میں دور

یہ لطافت ، یہ نزاکت ، یہ ادا ، یہ شوخی
سو دئیے جلتے ہیں امڈی ہوئی ظلمت کے خلاف
لبِ شاداب پہ چھلکی ہوئی شاداب ہنسی
اِک بغاوت ہے یہ آئینِ جراحت کے خلاف

حوصلے جاگ اٹھے سوزِ یقیں جاگ اٹھا
نگہِ ناز کے بے نام اشاروں کو سلام
تو جہاں رہتی ہے اس ارضِ حسیں کو سجدہ
جن میں تو ملتی ہے ان راہ گذاروں کو سلام

آ قریب آ کہ یہ جوڑا میں پریشاں کر دوں
تشنہ کامی کو گھٹاؤں کا پیام آ جائے
جس کے ماتھے سے ابھرتی ہیں ہزاروں صبحیں
میری دنیا میں بھی ایسی کوئی شام آ جائے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
تصادم

دو نگاہوں کا اچانک وہ تصادم مت پوچھ
ٹھیس لگتے ہی اڑا عشق شرارہ بن کر

اڑ کے پہلے انھیں جھینپی ہوئی نظروں میں رکا
نرم، معصوم، حسیں، مست اشارہ بن کر

پھر نِگہ سے عرق آلود جبیں پر جھلکا
پنکھڑی، پھول، گہر، لعل، ستارہ بن کر

ڈھل کے ماتھے سے اتر آیا گل عارض میں
رنگ، رس، شہد نہیں ان سے بھی پیارا بن کر

گل عارض سے سمٹ آیا لبِ رنگیں میں
راگ، مے، لہر، ہنسی، برق کا دھارا بن کر

لبِ گلرنگ سے پھر رینگ گیا بانہوں میں
لوچ ، خم ، جذب ، مچلتا ہوا پارہ بن کر

بس کے بانہوں کی گدازی میں چلا دل کی طرف
چاہ ، الطاف ، کرم ، پیار مدارا بن کر

دل میں ڈوبا تھا کہ بس پھوٹ پڑا رگ رگ سے
جانِ دل ، جانِ نظر ، جانِ نظارہ بن کر

پیکرِ حسن سے پھر اڑ کے چلا میری طرف
ایک بدمست جوانی کا اتارہ بن کر

رہزنِ ہوش مگر ہوش کا پیغام لئے
دشمنِ ضبط مگر ضبط کا یارا بن کر

درد ہی درد مگر وجہِ سکوں وجہِ طرب
سوز ہی سوز مگر جان سے پیارا بن کر

آتے ہی چھا گیا کھوئی ہوئی ہستی پہ مری
میری کھوئی ہوئی ہستی کا سہارا بن کر

اب شرارہ وہی اس کے لب و رخسار میں ہے
اِدر کیفی مرے تپتے ہوئے اشعار میں ہے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
مِنتیں

پیکرِ شاعری نہ جا ، روحِ مصّوری نہ جا
تجھ سے فروغِ نغمگی، اے ہمہ نغمگی نہ جا

تیرا ہی عکسِ حسن ہے یہ میرے گھر کی چاندنی
اے میرے گھر کی چاندنی لے کے یہ چاندنی نہ جا

تو نے ابھی کہا تھا خود تم ہو مجھے بہت عزیز
ہاں میں عزیز ہوں تجھے رکھ لے مری خوشی نہ جا

شامِ طرب تھی بے وفا صبح سے بڑھ کے مل گئی
صبح ہے ہم پہ خندہ زن خیر ٹھہر ابھی نہ جا

دیدۂ نیم باز میں خوابِ جواں ہے لالہ کار
نیند پکڑ رہی ہے پاؤں نیند میں جھومتی نہ جا

اف یہ نفس کی خستگی، اف یہ تھکا تھکا سا جی
اونگھ رہی ہیں مستیاں چور ہے زندگی نہ جا

دیکھ یہ شبنمی بہار، سن یہ خموش بھیرویں
ایسی لطیف صبح کو چھوڑ کے باولی نہ جا

ڈھال کے ظرفِ شعر میں باس کے عطرِ ذوق میں
تجھ پہ ابھی لٹاؤں گا دہر کی سرخوشی نہ جا

ہونٹ ترے لرز گئے رخ پہ شفق برس پڑی
اب یہ ضدیں فضول ہیں چھوڑ کے اب چلی نہ جا
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
غزل

ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی
میرا چھپر اُٹھا گیا کوئی

لگ گیا اک مشین میں میں بھی
شہر میں لے کے آ گیا کوئی

میں کھڑا تھا کہ پیٹھ پر میری
اشتہار اِک لگا گیا کوئی

یہ صدی دھوپ کو ترستی ہے
جیسے سورج کو کھا گیا کوئی

ایسی مہنگائی ہے کہ چہرہ بھی
بیچ کے اپنا کھا گیا کوئی

اب وہ ارمان ہیں نہ وہ سپنے
سب کبوتر اُڑا گیا کوئی

وہ گئے جب سے ایسا لگتا ہے
چھوٹا موٹا خدا گیا کوئی

میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
معذرت

یہ بکھرے سے گیسو یہ آنکھوں میں لالی
قیامت ہے تیری یہ آشفتہ حالی

یہ روئی ہوئی بھیگی بھیگی سی آنکھیں
اور آنکھوں میں یہ نرم ڈورے گلابی

شکستہ شکستہ یہ رنگِ مسرت
چکیدہ چکیدہ یہ اشکِ زلالی

پریدہ پریدہ یہ چہرے کی رنگت
رمیدہ رمیدہ یہ رُخ کی سجا لی

لبِ لعل یہ مُرتعش مُرتعش سے
یہ کچھ سمٹی سمٹی سی ہونٹوں کی لالی

یہ کچھ بہکی بہکی سی سفاک نظریں
یہ کچھ سہمی سہمی سی فرخندہ حالی

یہ کچھ الجھے الجھے پریشان تخیل
یہ کچھ بھٹکی بھٹکی سی روشن خیالی

یہ کچھ روٹھے روٹھے سے معصوم جذبے
نہ شوخی نہ عشوے نہ شیریں مقالی

مرے حسبِ وعدہ نہ آنے سے شاید
ہوئی تیرے ارمان کی پائیمالی

بس اب ہنس دے مت کر زیادہ پشیماں
کہ آخر ہوں اِک شاعرِ لا اُبالی
(کیفی اعظمی)​
 
Top