میری آواز سنو ، پیار کے راز سنو
میں نے ایک پھول جو سینے پہ سجا رکھا تھا
اس کے پردے میں تمہیں دل سے لگا رکھا تھا
تھا جدا سب سے میرے عشق کا انداز سنو
زندگی بھر مجھے نفرت سی رہی اشکوں سے
مرے خوابوں کو تم اشکوں میں ڈبوتے کیوں ہو
جو میری طرح جیا کرتے ہیں کب مرتے ہیں
تھک گیا ہوں مجھے سو لینے دو، روتے کیوں ہو
سو کے بھی جاگتے ہی رہتے ہیں جانباز سنو
میری دنیا میں نہ پورب ہے، نہ پچھم کوئی
سارے انساں سمٹ آئے کھلی بانہوں میں
کل بھٹکتا تھا میں جن راہوں میں تنہا تنہا
قافلے کتنے ملے آج انہی راہوں میں
اور سب نکلے مرے ہمدرد مرے ہمراز سنو
نونہال آتے ہیں، ارادھی کو کنارے کر لو
میں جہاں تھا انہیں جانا ہے وہاں سے آگے
آسماں ان کا، زمیں ان کی، زمانہ ان کا
ہیں کئی ان کے جہاں مرے جہاں سے آگے
انہیں کلیاں نہ کہو، ہیں یہ چمن ساز سنو
کیوں سنواری ہے یہ چندن کی چتا مرے لئے
میں کوئی جسم نہیں ہوں کہ جلاؤ گے مجھے
راکھ کے ساتھ بکھر جاؤں گا میں دنیا میں
تم جہاں کھاؤ گے ٹھوکر وہاں پاؤ گے مجھے
ہر قدم پر ہے نئے موڑ کا آغاز سنو
(کیفی اعظمی)
عزم کا کوہِ گراں، درد کی دیوار ہیں ہم
زخم کا زخم ہیں تلوار کی تلوار ہیں ہم
جیسے جھپکی نہیں صدیوں سے یہ بوجھل پلکیں
آج کی رات کچھ اِس طرح سے بیدار ہیں ہم
جال سرحد سے اٹھا جال بچھانے والے
جب ملی آنکھ، ملی موت کا نذرانہ لئے
جب ہلے ہونٹ،ہلے زہر کا پیمانہ لئے
خون بہتا ہے تو بن جاتی ہے تصویر تری
جنگ اِس ہاتھ میں،اُس ہاتھ میں ویرانہ لئے
تجھ سا دیکھا نہ سنا خون بہانے والے
زندگی تیرے تصور سے بھی گھبراتی ہے
اتنا نزدیک نہ آ سانس گھٹی جاتی ہے
تو نے سونے کے کٹورے میں یہ کیا شے پی لی
گرم سانسوں سے سڑے خون کی بو آتی ہے
منہ ادھر پھیر ذرا پیار جتانے والے
تیرا احسان جو لیں اپنی بہاریں بھولیں
کھیت میں قحط اُگیں باغ میں سنکٹ پھولیں
پیاس بن جائے مقدر جو پئیں تیری شراب
آبلے ہاتھ میں پڑ جائیں جو ساغر چھو لیں
یہ رہا جام ترا زہر پلانے والے
قسمتیں بن کے ترے دم سے بگڑ جاتی ہیں
بستیاں دل کی طرح بس کے اُجڑ جاتی ہیں
تیل پی لیتی ہے آنسو کی طرح ڈر کے زمیں
منڈیاں تیری بھِنک پا کے سُکڑ جاتی ہیں
سکہ کھوٹا ہے ترا داؤ لگانے والے
نرم شاخوں نے لچکنے کی سزا پائی ہے
اِک اِک پھول کو ترسا کے بہار آئی ہے
تارے اترے ہیں زمیں پر کہ کھِلا ہے بیلا
ڈھاک پھولا ہے کہ شعلوں کی گھٹا چھائی ہے
ہے بہت گرم فضا شاخ جھکانے والے
ہم وہ راہی ہیں جو منزل کی خبر رکھتے ہیں
پاؤں کانٹوں پہ شگوفوں پہ نظر رکھتے ہیں
کتنی راتوں سے نچوڑا ہے اُجالا ہم نے
رات کی قبر پہ بنیادِ سحر رکھتے ہیں
او اندھیرے کے خدا شمع بجھانے والے
(کیفی اعظمی)
اے ہمہ رنگ، ہمہ نور، ہمہ سوز و گداز
بزمِ مہتاب سے آنے کی ضرورت کیا تھی
تو جہاں تھی اسی جنت میں نکھرتا ترا روپ
اس جہنم کو بسانے کی ضرورت کیا تھی
یہ خدو خال، یہ خوابوں سے تراشا ہوا جسم
اور دل جس پہ خدو خال کی نرمی بھی نثار
خار ہی خار شرارے ہی شرارے ہیں یہاں
اور تھم تھم کے اٹھا پاؤں بہاروں کی بہار
تشنگی زہر بھی پی جاتی ہے امرت کی طرح
جانے کس جام پہ رک جائے نگاہِ معصوم
ڈوبتے دیکھا ہے جن آنکھوں میں میخانہ بھی
پیاس ان آنکھوں کی بجھے یا نہ بجھے کیا معلوم
ہیں سبھی حسن پرست، اہلِ نظر، صاحبِ دل
کوئی گھر میں کوئی محفل میں سجائے گا تجھے
تو فقط جسم نہیں شعر بھی ہے گیت بھی ہے
کون اشکوں کی گھنی چھاؤں میں گائے گا تجھے
تجھ سے اک درد کا رشتہ بھی ہے بس پیار نہیں
اپنے آنچل پہ مجھے اشک بہا لینے دے
تو جہاں جاتی ہے جا روکنے والا میں کون
رستے رستے میں مگر شمع جلا لینے دے
(کیفی اعظمی)
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
ہائیں یہ جبر کی صورت جینا
منھ بنائے ہوئے امرت پینا
کانپتی روح دھڑکتا سینا
پیار کو جرم بناتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
دل بھی ہے دل میں تمنا بھی ہے
کچھ جوانی کا تقاضا بھی ہے
تم کو اپنے پہ بھروسا بھی ہے
جھینپ کر آنکھ ملاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
ان کو ہنسنے دو جو انسان نہیں
جن کو کچھ عشق کا عرفان نہیں
سنگ زادوں میں ذرا جان نہیں
آنکھ ایسوں کی بچاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
ظلم تم نے کوئی ڈھایا تو نہیں
ابنِ آدم کو ستایا تو نہیں
خوں غریبوں کا بہایا تو نہیں
یوں پسینے میں نہاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
جھینپتے تو نہیں مندر کے مکیں
جھینپتے تو نہیں محراب نشیں
جھوٹ پر ان کی چمکتی ہے جبیں
سچ پہ تم سر کو جھکاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
پردہ ہے داغ چھپانے کے لئے
شرم ہے جھوٹ پہ چھانے کے لئے
عشق اک گیت ہے گانے کے لئے
اس کو ہونٹوں میں دباتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
آؤ اب گھٹنے کی فرصت ہی نہیں
اور بھی کام ہیں الفت ہی نہیں
ہے یہ خامی بھی ندامت ہی نہیں
ڈر کے چلمن کو اٹھاتی کیوں ہو؟
تم محبت کو چھپاتی کیوں ہو؟
(کیفی اعظمی)
مقتلِ بیروت
(بیروت میں فلسطینیوں کے قتل عام کے سانحہ پر)
اے صبا لوٹ کے کس شہر سے تو آتی ہے
تیری ہر لہر سے بارود کی بو آتی ہے
خوں کہاں بہتا ہے انسان کا پانی کی طرح
جس سے تو روز یہاں کرکے وضو آتی ہے
دھجیاں تو نے نقابوں کی گنی تو ہوں گی
یونہی لوٹ آتی ہے یا کرکے رفو آتی ہے
ایہا الناس فلسطین صدا دیتا ہے
وہ بھی ایسے کہ کلیجوں کو ہلا دیتا ہے
اس کی آواز پہ لبیک کہا جو تم نے
ہر لبِ زخم سے وہ تم کو دعا دیتا ہے
بے خبر اتنے نہیں تم کو یہ معلوم نہ ہو
تخت پر کون یزیدوں کو بٹھا دیتا ہے
شمر مجرم بھی ہے قاتل بھی ہے ملعون بھی ہے
وہ ہے کیا شمر کو خنجر جو تھما دیتا ہے
میری کیوں مانو گے یہ پوچھ لو ہتھیاروں سے
کون اِک شہر کو شمشان بنا دیتا ہے
کب اٹھائے گا خدا حشر خدا ہی جانے
آدمی روز کوئی حشر اٹھا دیتا ہے
کسی ہتھیار سے پوچھو وہ بتا دے گا تمہیں
کون وہ لوگ ہیں دشمن ہیں جو آزادی کے
نام بتلائیں گی بیروت کی زخمی گلیاں
کون درپے ہوا لبنان کی بربادی کے
بند پانی ہوا بیروت کے جانبازوں پر
حربے رائج ہیں ابھی تک وہی جلادی کے
اک اک بوند کو جس وادی میں ترسے تھے حسین
تیل کے چشمے ہیں ناسور اسی وادی کے
بے ضمیری کا ہے یہ عہد خبر ہے کہ نہیں
کس توقع پہ کھلیں لب کسی فریادی کے
اے صبا اب ہو جو بیروت کی گلیوں میں گزر
اور تیرے سامنے آ جائے کوئی تازہ کھنڈر
اس سے کہہ دینا کہ بھارت کا بھی سینہ ہے فگار
ہل گیا کوہِ ہمالہ جو سنی تیری پکار
جتنے کانٹے بھی بچھانا ہو بچھا لے کوئی
تیری راہوں سے جدا ہوں گی نہ راہیں اپنی
غم نہ کر ہاتھ اگر تیرے قلم ہو جائیں
جوڑ دیں گے تیرے بازو میں یہ بانہیں اپنی
(کیفی اعظمی)
تم پریشان نہ ہو، بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
اسی کوچے میں جہاں چاند اگا کرتے ہیں
شبِ تاریک گزاروں گا چلا جاؤں گا
راستہ بھول گیا، یا یہی منزل ہے مری
کوئی لایا ہے کہ خود آیا ہوں معلوم نہیں
کہتے ہیں حسن کی نظریں بھی حسیں ہوتی ہیں
میں بھی کچھ لایا ہوں، کیا لایا ہوں معلوم نہیں
یوں تو جو کچھ تھا مرے پاس میں سب بیچ آیا
کہیں انعام ملا ، اور کہیں قیمت بھی نہیں
کچھ تمہارے لئے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے
دیکھ لو اور نہ دیکھو تو شکایت بھی نہیں
ایک تو اتنی حسیں اور دوسرے یہ آرائش
جو نظر پڑتی ہے چہرے پہ ٹھہر جاتی ہے
مسکرا دیتی ہو رسماََ بھی اگر محفل میں
اک دھنک ٹوٹ کے سینوں میں بکھر جاتی ہے
گرم بوسوں سے تراشا ہوا نازک پیکر
جس کی اک آنچ سے ہر روح پگھل جاتی ہے
میں نے سوچا ہے تو سب سوچتے ہوں گے شاید
پیاس اس طرح بھی کیا سانچے میں ڈھل جاتی ہے
کیا کمی ہے جو کرو گی مرا نذرانہ قبول
چاہنے والے بہت، چاہ کے افسانے بہت
ایک ہی رات سہی گرمیٔ ہنگامۂ عشق
ایک ہی رات میں جل مرتے ہیں پروانے بہت
پھر بھی اک رات میں سو طرح کے موڑ آتے ہیں
کاش تم کو کبھی تنہائی کا احساس نہ ہو
کاش ایسا نہ ہو گھیرے رہے دنیا تم کو
اور اس طرح کہ جس طرح کوئی پاس نہ ہو
آج کی رات جو میری ہی طرح تنہا ہے
میں کسی طرح گزاروں گا چلا جاؤں گا
تم پریشان نہ ہو، بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
(کیفی اعظمی)
پیار کا جشن نئی طرح منانا ہو گا
غم کسی دل میں سہی غم کو مٹانا ہوگا
کانپتے ہونٹوں پہ پیمانِ وفا کیا کہنا
تجھ کو لائی ہے کہاں لغزشِ پا کیا کہنا
میرے گھر میں ترے مکھڑے کی ضیا کیا کہنا
آج ہر گھر کا دیا مجھ کو جلانا ہو گا
روح چہروں پہ دھواں دیکھ کے شرماتی ہے
جھینپی جھینپی سی مرے لب پہ ہنسی آتی ہے
تیرے ملنے کی خوشی درد بنی جاتی ہے
ہم کو ہنسنا ہے تو اوروں کو ہنسانا ہوگا
سوئی سوئی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے جام
کھوئی کھوئی ہوئی نظروں میں محبت کا پیام
لبِ شیریں پہ مری تشنہ لبی کا انعام
جانے انعام ملے گا کہ چرانا ہو گا
میری گردن میں تری صندلی باہوں کا یہ ہار
ابھی آنسو تھے ان آنکھوں میں ابھی اتنا خمار
میں نہ کہتا تھا مرے گھر میں بھی آئے گی بہار
شرط اتنی تھی کہ پہلے تجھے آنا ہو گا
(کیفی اعظمی)
کتنی رنگیں ہے فضا ک،تنی حسیں ہے دنیا
کتنا سرشار ہے ذوقِ چمن آرائی آج
اس سلیقے سے سجائی گئی بزمِ گیتی
تو بھی دیوارِ اجنتا سے اتر آئی آج
رونمائی کی یہ ساعت، یہ تہی دستِ شوق
نہ چرا سکتا ہوں آنکھیں، نہ ملا سکتا ہوں
پیار سوغات ، وفا نذر ، محبت تحفہ
یہی دولت ترے قدموں پہ لٹا سکتا ہوں
کب سے تخیل میں لرزاں تھا یہ نازک پیکر
کب سے خوابوں میں مچلتی تھی جوانی تیری
میرے افسانے کا عنوان بنی جاتی ہے
ڈھل کے سانچے میں حقیقت کے کہانی تیری
مرحلے جھیل کے نکلا ہے مذاقِ تخلیق
سعیٔ پیہم نے دئیے ہیں یہ خدوخال تجھے
زندگی چلتی رہی کانٹوں پہ ، انگاروں پر
جب ملی اتنی حسیں، اتنی سبک چال تجھے
تیری قامت میں ہے انساں کی بلندی کا وقار
دخترِ شہر ہے ، تہذیب کا شہکار ہے تو
اب نہ جھپکے گی پلک، اب نہ ہٹیں گی نظریں
حسن کا میرے لئے آخری معیار ہے تو
یہ ترا پیکرِ سیمیں ، یہ گلابی ساری
دستِ محنت نے شفق بن کے اڑھا دی تجھ کو
جس سے محروم ہے فطرت کا جمالِ رنگیں
تربیت نے وہ لطافت بھی سکھا دی تجھ کو
آگہی نے تری باتوں میں کھلائیں کلیاں
علم نے شکریں لہجے میں نچھوڑے انگور
دل ربائی کا یہ انداز کسے آتا تھا
تو ہے جس سانس میں نزدیک اسی سانس میں دور
یہ لطافت ، یہ نزاکت ، یہ ادا ، یہ شوخی
سو دئیے جلتے ہیں امڈی ہوئی ظلمت کے خلاف
لبِ شاداب پہ چھلکی ہوئی شاداب ہنسی
اِک بغاوت ہے یہ آئینِ جراحت کے خلاف
حوصلے جاگ اٹھے سوزِ یقیں جاگ اٹھا
نگہِ ناز کے بے نام اشاروں کو سلام
تو جہاں رہتی ہے اس ارضِ حسیں کو سجدہ
جن میں تو ملتی ہے ان راہ گذاروں کو سلام
آ قریب آ کہ یہ جوڑا میں پریشاں کر دوں
تشنہ کامی کو گھٹاؤں کا پیام آ جائے
جس کے ماتھے سے ابھرتی ہیں ہزاروں صبحیں
میری دنیا میں بھی ایسی کوئی شام آ جائے
(کیفی اعظمی)