- - کیفی اعظمی

اکمل زیدی

محفلین
مست گھٹا منڈلائی ہوئی ہے

باغ پہ مستی چھائی ہوئی ہے

جھوم رہی ہیں آم کی شاخیں

نیند سی جیسے آئی ہوئی ہے

بولتا ہے رہ رہ کے پپیہا

برق سی اک لہرائی ہوئی ہے

لہکے ہوئے ہیں پھول شفق کے

آتش تر چھلکائی ہوئی ہے

شعر مرے بن بن کے ہویدا

قوس کی ہر انگڑائی ہوئی ہے

رینگتے ہیں خاموش ترانے

موج ہوا بل کھائی ہوئی ہے

رونق عالم سر ہے جھکائے

جیسے دلہن شرمائی ہوئی ہے

گھاس پہ گم سم بیٹھا ہے کیفیؔ

یاد کسی کی آئی ہوئی ہے
 
Top