محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
اس پر پلیٹ فارم پر گاڑی رکی نہیں کہ ’’پکوڑے۔۔گرما گرم پکوڑے۔۔انڈے ۔۔گرم انڈے۔۔چائے۔۔چائے ۔۔چائے۔۔‘‘ کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہچکولے کھاتی ٹرین میں خود بھی ہلتے ہلتے کھانے، پینے کے مزے ہی کچھ اور ہیں۔
ناز، نخرے، پیسے کی فراوانی، وقت کی قلت، موسم کی سختیوں کا خوف، ٹرین لیٹ ہوجانے کا ڈر اور جانے کون کون سے عوامل ہیں جنہوں نے نئی نسل کوباپ دادؤں کے وقت سے چلے آرہے اس کلچر سے دور کر دیا ہے،مگر اب پاکستان ریلوے نے اس کلچر کو پھر سے لوگوں میں پھیلانے اور عام کرنے کا ذمہ اٹھایا ہےجو قابل تحسین ہے۔
اگر آپ بھی اس کلچر کو دیکھنے کے متمنی ہیں یا گئے برسوں کی بھولی بسری یادوں سے خود کو جوڑنا چاہتے ہیں تو آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع سٹی ریلوے اسٹیشن پر بنے ’کیفے بوگی‘ میں چلے جائیے، اب آپ ٹرین میں بیٹھ کر اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں اور اس کے لیے آپ کو کہیں سفر کرنے کی ضرورت نہیں، کراچی کی کچھ ریل گاڑیوں، کوچز اور کنٹونمنٹ اسٹیشنز کو ریستوراں کی شکل دی گئی ہے جو کہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔
یہ بوگیاں ایک متروکہ ریلوے لائن پر کھڑی ہیں۔یہ وہی ڈبے ہیں جو کبھی لوگوں کو شہر شہر پہنچایا کرتے تھے، مگر اب ریلوے کلچر کو فروغ دینے کی غرض سے ’کیفے بوگی‘ کا حصہ ہیں۔
کیفے کی رونقیں اصل میں رات کے وقت جوبن پر ہوتی ہیں، جب ہر طرف یہاں رنگ برنگی ایل ای ڈی لائٹس جلتی ہیں اور میوزک بھی بجتا رہتا ہے۔ یہاں آنے والوں کے لئے وائی فائی کی سہولت بھی بالکل مفت ہے جبکہ ریلوے پولیس کی بدولت فیملیز کو بھی تحفظ کا احساس رہتا ہے اور وہ رات گئے تک یہاں موجود رہتی ہیں۔
کیفے بوگی کے ممبران میں سے ایک سنیل ظفر کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے ریسٹورنٹ کو ٹرین کی اصل بوگی کی طرح دکھانا چاہتے تھے‘۔
کیفے میں ایل ای ڈی لائٹس لگائی گئی ہیں، ساتھ میں ٹرین کے انجن اور ریلوے اسٹیشن کی تصاویر سے بھی سجایا گیا ہے۔ جن لوگوں کو پاکستان ریلوے کی جانب سے کانٹریک پر یہ ریل گاڑیاں ملی ہیں، انہوں نے اس کے باہر بھی ٹیبل اور کرسیاں، چھتریوں کے ساتھ رکھی ہیں۔
اس ریسٹورنٹ میں وائی فائے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ یہاں کا اسٹاف، ویٹرز اور باورچی سبز رنگ کی شرٹس پہنے موجود ہوتے ہیں۔ یہاں موجود ایک ویٹر قلی کی طرح کی ڈریسنگ بھی کرتا ہے جو سرخ رنگ کی قمیض اور پگڑی پہنے گوہکوں کو ان کی گاڑیوں تک کھانا پہنچاتا ہے۔
اس کیفے کو کھلے ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے، اس کی شروعات پیزا اور سینڈویچ سے کی گئی تھی۔شہر قائد میں اس طرح کے کئی اور بھی کیفے کھولے جارہے ہیں۔
وسیم صدیقی