طارق شاہ
محفلین
غزل
کیف بھوپالی
ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں، بدنامیاں، رُسوائیاں
زندگی شاید اِسی کا نام ہے
دُوریاں، مجبُوریاں، تنہائیاں
کیا زمانے میں یونہی کٹتی ہے رات!
کروٹیں، بے تابیاں، انگڑائیاں
کیا یہی ہوتی ہے شامِ انتظار
آہٹیں، گھبراہٹیں، پرچھائیاں
ایک رندِ مَست کی ٹھوکرمیں ہیں
شاہیاں، سُلطانیاں، دارائیاں
رہ گئیں اِک طفلِ مکتب کے حضُور
حِکمتیں، آگاہیاں، دانائیاں
ایک پیکرمیں سِمٹ کررہ گئیں
خُوبیاں، زیبائیاں، رعنائیاں
دیدہ و دانِستہ اُس کے سامنے
لغزشیں، ناکامیاں، پسپائیاں
اُن سے مِل کے اوربھی کچھ بڑھ گئیں!
اُلجھنیں، فِکریں، قیاس آرائیاں
چند لفظوں کے سِوا کچھ بھی نہیں
نیکیاں، قربانیاں، سچّائیاں
کیف، پیدا کر سمندر کی طرح
وُسعتیں، خاموشِیاں، گہرائیاں
کیف بھوپالی