گرائیں
محفلین
یہ سب ہونا تو تھا لیکن ویلنٹائن ڈے کے بعد ہوتا تو اچھا تھا۔ سال میں ایک ہی دن تو آتا ہے جب ہر دل نرم ہونا چاہئے۔جب گلاب کی حکمرانی اور خوش کلامی کی فراوانی ہونی چاہئے۔کم ازکم یومِ محبت پر ، عاجلانہ فیصلے ، کشیدگی، گالم گفتار، تیز مزاجی، الزام تراشی، پتلا سوزی اور بے یقینی کی فضا اچھی نہیں لگتی۔
مگر کیا کریں کوتاہ نظری، ہٹ دھرمی ، اپنی ناک اونچی رکھنے اور دوسرے کی ناک رگڑوانے کی خواہش نے بحیثیت مجموعی دل و دماغ کی کنڈیشننگ کچھ اس طرح کردی ہے کہ جس دن گالی سنائی نہ دے، کسی کو برا بھلا نہ کہہ لیا جائے ، کسی کی انا کے آگے بین نہ بجا لی جائے یا دوسرے کا منہ نہ چڑا لیا جائے ۔ نہ تو ہمارے دماغ کو سکون ملتا ہے نہ ہی دل خوش ہوتا ہے۔
آپ کو تو اچھی طرح معلوم ہے کہ پچھلے دو برس میں آپ نے کتنے فیصلے یکطرفہ طور پر کرنےکی کوشش کی لیکن یہ فیصلے آپ کو چارو ناچار بادلِ نخواستہ واپس لینے پڑے۔جیسے معطل ججوں کی بحالی پر آپ اور آپ کے حواریوں کا مسلسل موقف رہا کہ یہ ایگزیکٹو آرڈر سے بحال نہیں ہوسکتے۔انہیں ازسرِنو حلف اٹھانا پڑے گا۔انکی بحالی آئینی پیکیج کے بغیر ممکن نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔لیکن پھر انہی ججوں کو ایک اوورسیز اور ایک لوکل ٹیلی فون کال پر بحال کرنا پڑا اور بدنامی بھی کمائی۔
اس وقت بھی یہی ہوا جب آپ این آر او کو پارلیمنٹ سے ایک سو بیس دن کی عدالتی مہلت میں بھی منظور نہ کرا سکے۔ عدالت میں این آر او کا دفاع کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔اور جب عدالت نے اسے کالعدم قرار دے دیا تو آپ اس فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے بجائے پورے معاملے کو سیاست کی کنوئیر بیلٹ پر لے آئے اور سازش سازش کا شور مچا دیا۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ نہ جسٹس خواجہ شریف آپ کے ہیں، نہ جسٹس ثاقب نثار آپ کے ملاقاتی ہیں اور نہ جسٹس افتخار چوہدری سے آپ کو جانب داری کی توقع ہے۔چنانچہ یہ جج جانیں کہ کونسی تقرری بہتر ہے اور کس کا تبادلہ اچھا ہے۔جیسے آپ روزانہ بیسیوں دیگر حکمناموں اور سمریوں پر دستخط کرتے ہججوں کی سمری پر بھی دستخط کردیتے۔
مگرآپ آصف علی زرداری نے ایک بار پھر کیلے کے چھلکے پر پاؤں رکھ دیا۔اور ایک بار پھر آپ کی کمر کو چک پڑنے سے بچانے کے لئے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو کہنا پڑ رہا ہے کہ جو عدالت کا فیصلہ ہوگا وہی ہمارا فیصلہ بھی ہوگا۔
جیسے کسی کو آٹوگراف جمع کرنے کا شوق تو کسی کو سکے اور کرنسی نوٹ یا ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا جنون ہوتا ہے۔اسی طرح لگ یہ رہا ہے کہ ایوانِ صدر کے مکین کو ایک سے ایک نادر مسائل جمع کرنے کا شوق ہے۔لیکن یہ شوق وہی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شوق دا کوئی مل نئیں۔اسکے عوض سب کچھ لٹ سکتا ہے۔
آپ کی راہ میں کیلے کے چھلکے بچھانے والے فاروق نائیک چیرمین سینٹ یا بابر اعوان وزیرِ قانون یا لطیف کھوسہ مشیرِ خصوصی نہ رہے تو کسی عدالت کے باہر پھر سے تھڑا لگالیں گے۔آپ کا کیا ہوگا جنابِ عالی !!!!!!
ربط
مگر کیا کریں کوتاہ نظری، ہٹ دھرمی ، اپنی ناک اونچی رکھنے اور دوسرے کی ناک رگڑوانے کی خواہش نے بحیثیت مجموعی دل و دماغ کی کنڈیشننگ کچھ اس طرح کردی ہے کہ جس دن گالی سنائی نہ دے، کسی کو برا بھلا نہ کہہ لیا جائے ، کسی کی انا کے آگے بین نہ بجا لی جائے یا دوسرے کا منہ نہ چڑا لیا جائے ۔ نہ تو ہمارے دماغ کو سکون ملتا ہے نہ ہی دل خوش ہوتا ہے۔
آپ کو تو اچھی طرح معلوم ہے کہ پچھلے دو برس میں آپ نے کتنے فیصلے یکطرفہ طور پر کرنےکی کوشش کی لیکن یہ فیصلے آپ کو چارو ناچار بادلِ نخواستہ واپس لینے پڑے۔جیسے معطل ججوں کی بحالی پر آپ اور آپ کے حواریوں کا مسلسل موقف رہا کہ یہ ایگزیکٹو آرڈر سے بحال نہیں ہوسکتے۔انہیں ازسرِنو حلف اٹھانا پڑے گا۔انکی بحالی آئینی پیکیج کے بغیر ممکن نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔لیکن پھر انہی ججوں کو ایک اوورسیز اور ایک لوکل ٹیلی فون کال پر بحال کرنا پڑا اور بدنامی بھی کمائی۔
اس وقت بھی یہی ہوا جب آپ این آر او کو پارلیمنٹ سے ایک سو بیس دن کی عدالتی مہلت میں بھی منظور نہ کرا سکے۔ عدالت میں این آر او کا دفاع کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔اور جب عدالت نے اسے کالعدم قرار دے دیا تو آپ اس فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے بجائے پورے معاملے کو سیاست کی کنوئیر بیلٹ پر لے آئے اور سازش سازش کا شور مچا دیا۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ نہ جسٹس خواجہ شریف آپ کے ہیں، نہ جسٹس ثاقب نثار آپ کے ملاقاتی ہیں اور نہ جسٹس افتخار چوہدری سے آپ کو جانب داری کی توقع ہے۔چنانچہ یہ جج جانیں کہ کونسی تقرری بہتر ہے اور کس کا تبادلہ اچھا ہے۔جیسے آپ روزانہ بیسیوں دیگر حکمناموں اور سمریوں پر دستخط کرتے ہججوں کی سمری پر بھی دستخط کردیتے۔
مگرآپ آصف علی زرداری نے ایک بار پھر کیلے کے چھلکے پر پاؤں رکھ دیا۔اور ایک بار پھر آپ کی کمر کو چک پڑنے سے بچانے کے لئے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو کہنا پڑ رہا ہے کہ جو عدالت کا فیصلہ ہوگا وہی ہمارا فیصلہ بھی ہوگا۔
جیسے کسی کو آٹوگراف جمع کرنے کا شوق تو کسی کو سکے اور کرنسی نوٹ یا ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا جنون ہوتا ہے۔اسی طرح لگ یہ رہا ہے کہ ایوانِ صدر کے مکین کو ایک سے ایک نادر مسائل جمع کرنے کا شوق ہے۔لیکن یہ شوق وہی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شوق دا کوئی مل نئیں۔اسکے عوض سب کچھ لٹ سکتا ہے۔
آپ کی راہ میں کیلے کے چھلکے بچھانے والے فاروق نائیک چیرمین سینٹ یا بابر اعوان وزیرِ قانون یا لطیف کھوسہ مشیرِ خصوصی نہ رہے تو کسی عدالت کے باہر پھر سے تھڑا لگالیں گے۔آپ کا کیا ہوگا جنابِ عالی !!!!!!
ربط