ام اویس

محفلین
سائنس ایک بند مُٹھی کی طرح ہے جونہی یہ مُٹھی کھلتی ہے تو اس سے انسانی تجسس و تحقیق پر مبنی بے شمار علوم کا ذخیرہ برآمد ہوتا ہے جو ذاتی بھی ہے اور عالمی بھی، قومی بھی ہے اور بین الاقوامی بھی، دینی بھی ہے اور لادینی بھی ۔ انسان کے تمام تجربات جو کبھی سوچ سمجھ کر کیے گئے اور کبھی الہامی انداز میں یکدم ایک خیال کی صورت سامنے آ ئے، سبھی سائنس کہلاتے ہیں۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ سائنس کے کسی بھی شعبے کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا یہ سب ایک دوسرے سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح منسلک ہیں۔
فزکس مفروضوں اور پیمائشوں پر مبنی ہے لیکن کیمسٹری میں تجربے کے بغیر نتائج نہیں ملتے ۔ فزکس میں ہم مادے اور توانائی کا تعلق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کیمسٹری تو خود مادے کے اسرار کھوجنے کا علم ہے۔
انسانی ذہن ہمیشہ متجسس رہا کہ آخر اشیاء کس چیز سے بنی ہیں، بنیادی چیز کیا ہے؟
ابتدائی فزسٹ کے برعکس ابتدائی کیمسٹ کو بڑی ہمت درکار تھی۔ حادثاتی دھماکے بھی کام کا حصہ تھے اور زہرخوانی بھی۔ کیونکہ یہ کیمسٹ کئی بار چیزوں کو چکھ کر شناخت کرتے تھے۔
ٹھوس ، مائع، گیس اور پلازمہ مادے کی یہ حالتیں کس طرح قائم ہیں ، ان کے بننے کی ترتیب کیا ہے ، کیسے بنتی اور کس عمل سے دوسری حالت میں بدلتی ہیں اور جب بدلتی ہیں توکون سی شکل اختیار کرتی ہیں اور ان کے اندر کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے، ان سوالوں کا جواب کیمیا یا کیمسٹری کہلاتا ہے۔
علم کیمیا سائنس کی وہ شاخ ہے جو مادے کی خصوصیات، اس کی ساخت اور ہیت ترکیبی کے ساتھ مادے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتاتی ہے۔
ہر شے عناصر کا مجموعہ ہے۔
خالق کائنات نے اشیاء کو ان کے متعین خواص (Charateristics) کے ساتھ پیدا کیا، اشیاء کی خصوصیات کو مشاہدے(Obsevation) کے ذریعہ جانا جا سکتا ہے۔انسان ہمیشہ ان اشیاء کو برتنے کے نت نئے تجربے کرتا رہا ہے۔ مادوں کو ملانے، انہیں الگ کرنے میں دلچسپی لیتااور ان سے کام لیتا رہا ہے۔ کائنات کی اشیاء کے درمیان تعامل (Interaction)، بعض قوانین کے تحت ہوتا ہے۔ ان قوانین (Laws of nature) کو بھی مشاہدات پر مبنی غورو فکر کے ذریعے دریافت کیا جا سکتا ہے۔اسلحہ سازی، عطرسازی، رنگ سازی، شیشہ سازی، دھات سازی اور حنوط سازی جیسے قدیم پیشے اس غور و فکر کی عملی مثال ہیں، یہ جانے بغیر کہ جو ہو رہا ہے، وہ کیوں ہو رہا ہے۔ ان قدیم پیشوں کے موجد مادے کے ساتھ کھیلتے رہے ہیں۔
کیمسٹری سالمات اور انکی تبدیلی (transformation) کی سائنس ہے ۔ کسی مادے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ایٹم کہلاتا ہے جس کے اندر اس مادے کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں ایٹم سے سالمات یعنی مالیکیول ترتیب پاتے ہیں ۔ٹھوس اجسام میں یہ مالیکیول ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مضبوطی سے جڑے ہیں کہ حرکت بھی نہیں کر سکتے۔یہی چیز انہیں مضبوط اور اپنے حجم کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے جس کی بنا پر ہم انہیں مادے کی ٹھوس حالت کہتے ہیں۔
مائع اشیاء میں ان کے ترکیبی زرات یعنی مالیکیول ہوتے تو قریب ہی قریب ہیں لیکن ادھر ادھر حرکت کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ ان کا جو حجم ہے یہ طے ہی رہتا ہے مگر مائع اشیاء کی شکل و صورت بدل سکتی ہے۔
گیسی اشیاء کے جو ترکیبی زرات یا مالیکیول ہیں یہ گھومنے پھرنے کے لیے بالکل آزاد ہوتے ہیں ۔ جہاں چاہیں جائیں، انکا حجم بھی بدلتا ہے اور شکل بھی بدلتی ہے ۔ آکسیجن ، نائٹرجن، ہائیڈروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ ، کاربن مونو آکسائیڈ، ہیلیم، ہوا ، آبی بخارات وغیرہ گیسز کی چند مثالیں ہیں۔
یہ تینوں اقسام آپس میں تبدیل ہوسکتی ہیں ۔ ٹھوس چیزیں مائع میں بدل سکتی ہیں اور گیس میں بھی،مائع چیزیں ٹھوس اور گیس میں بدل سکتی ہیں،اسی طرح گیس بھی مائع اور ٹھوس میں بدل سکتی ہے ۔ان تینوں کو ایک خاص درجہ حرارت اور دباؤ کے تحت ایک دوسرے میں بدلا جاسکتا ہے۔
ٹھوس اشیاء کا مائع میں بدلنے کے عمل کو پگھلنا یا melting کہتے ہیں ۔ گیس اشیاء کا سیدھا ٹھوس میں بدلنے کا عمل ڈیپوزیشن کہلاتا ہے ۔ ٹھوس اشیاء کا سیدھا گیس میں بدلنے کے عمل کو سبلیمیشن کہیں گے ۔ مائع اشیاء کا ٹھوس میں بدلنے کے عمل کو فریزینگ کہیں گے اورگیس اشیاء کا مائع میں بدلنے کو کنڈینسیشن یا تکثیف کا عمل کہتے ہیں ۔
بہر حال، مادہ بنیادی عناصر کے مختلف مجموعوں پر مشتمل ہے۔ کائنات کی ہر شے یہاں تک کہ انسان بھی انہیں عناصر سے ترتیب پاتا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے!

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

عناصر کی اب تک معلوم تعداد سو سے زائد ہے۔ ان میں سے کچھ عناصر کے نام سے تقریباً ہر کوئی واقف ہے مثلا۔ ہائیڈروجن، کلورین، چاندی اور تانبا وغیرہ ہمارے روزمرہ کے علم کا حصہ ہیں لیکن بہت کم لوگوں نے سیلینیم یا روبیڈیم یا ہیشیم کے بارے میں سنا ہے۔
کیمسٹری کا کمال یہ ہے کہ جب ان بنیادی ذرات کو ملایا جاتا ہے تو کچھ نیا، منفرد اور حیرت انگیز مادہ تیار ہو جاتا ہے۔
مثلا سوڈیم جب پانی کے ساتھ ملایا جائے تو ایک دھماکا ہوتا ہے، اگرچہ یہ اپنی خالص حالت میں دستیاب نہیں ہے۔ دوسری طرف کلورین ہے جو ایک سبز گیس ۔ یہ بہت کاسٹک اور دم گھوٹنے والی ہے، اور اتنی بدبو دار ہے کہ پچھلی صدی میں اسے ایک خوفناک کیمیائی گیس ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ تو جب سوڈیم اور کلورین کا ملاپ ہو تو ! کس قسم کی خوفناک بدبو اور زبردست دھماکا ہونا چاہیے؟ لیکن ہم جانتے ہیں کہ سوڈیم کلورائیڈ، تو ایک عام نمک ہے بس۔ نمک پانی میں نہیں پھٹتا اور نہ ہی ہمارا سانس بند کرتا ہے۔ بلکہ، یہ ان کھانوں کا جزو ہے جو ہم روزانہ کھاتے ہیں۔
یہی کیمسٹری ہے، مادے کی بنیادی خصوصیات کو سمجھنا اور اس کی پیشین گوئی اور وضاحت کرنا سیکھنا، یعنی وہ نئے مادوں کی تشکیل میں کیا رد عمل دیتے ہیں اور کس طرح تبدیل ہوتے ہیں۔کیمسٹری بیکروں اور لیبارٹریوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ہمارے آس پاس اور ہر طرف ہے، اور جس قدر اچھی کیمسٹری کی سمجھ ہو گی ، اتنا ہی بہتر ہم اپنی دنیا کو جان سکتے ہیں۔
سائنس کے دیگر علوم کی طرح علم کیمیا بھی مختلف شاخوں میں تقسیم ہے۔
مثلا نامیاتی کیمیا۔ جس میں ان مرکبات پر بحث کی جاتی ہے جن میں لازمی طور پر کاربن پایا جاتا ہے ان کی اکثریت جانداروں سے حاصل ہوتی ہے اس کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان مرکبات کو آگ آسانی اور تیزی سے پکڑ لیتی ہے۔
غیر نامیاتی کیمیا۔ کاربن کے علاوہ باقی تمام عناصر اور مرکبات خصوصا وہ مرکبات جو عام طور پر بے جان اشیا سے حاصل کیے جاتے ہیں ان کو آگ آسانی سے نہیں پکڑ سکتی۔
بائیو کیمسٹری۔ زندہ جانداروں کے اندر موجود مرکبات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح جاندار اجسام غذا سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ شاخ دوا سازی اور غذائی سائنس میں مفید ہے۔
ماحولیاتی کیمیا۔ جو کیمیائی مادوں کے ماحول، جانوروں اور پودوں پر ردعمل سے متعلق معاملات پر بحث کرتی ہے۔
نیوکلیائی کیمیا۔ ذاتی حفظان صحت، آلودگی سے متعلق خطرات اس کے اہم موضوعات ہیں۔ ایسے عناصر جن کا ایٹمی نمبر 83 سے زیادہ ہوتا ہے اپنی خصوصیات کے اعتبار سے مسلسل مختلف نوعیت کی طاقت ور شعاعیں خارج کرتے ہیں، انھیں تابکاری کا نام دیا جاتا ہے۔ اس شاخ کا نام نیوکلیائی کیمیا ہے۔
 

ام اویس

محفلین
IMG-8257.jpg
 
Top