محسن وقار علی
محفلین
وہ ہیرو سائنسدان جو کینسر کو شکست دے گا ،حقیقت میں اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ایسا کو ئی عالیشان انسان موجود نہیں جو ایساکرسکے اور اس کا جشن مناسکے۔
اس جنگ میں نہ کوئی فتح ہے نہ جشن ، اس میں کوئی میری کیوری ہے نہ جوناس سالک ، وہی جوناس سالک جس نے 1955 میں پولیوکی ویکسین ایجاد کی تھی۔جوناس سالک سے جب پوچھا گیاکہ پولیوکے بعد اس کا ہدف کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔کیا کینسر؟۔۔۔۔۔ تو اس نے حیرانی سے خاموشی اختیار کرلی۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی باورچی یخنی تیارکرے اور اس کے بعد اس سے کہا جائے کہ اب وہ برفی تیار کرے۔
ان تمام الفاظ کا آسان ترین مطلب ہے کہ کینسر کا علاج دریافت کرنا اکیلے بندے کا کام نہیں۔ اس کے لیے سائنس دانوں، ماہرین ، ٹیکنالوجسٹوں، فار ماسسٹوں، جینیات دانوں ، پتھالوجسٹس ، بائیوسٹیٹس ، بائیوکیمسٹس ، انفارمیٹکس ، اونکالوجسٹ ، سرجنز ، نرسوں ، تکنیک کاروں، سپیشلسٹوں ، محققین ، طبی ماہرین اور رضاکاروں کی ایک پوری فوج کی ضرورت ہے۔اب یہ فوج تیار ہوچکی ہے جو یکجان ہوکر کینسر کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔
کینسر ،جینز کا مہلک گٹھ جوڑ
کینسر دیگر بیماریوں کی طرح نہیں۔یہ کوئی ایک بیماری نہیں ہے۔ یہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیماریوں کی طرح ہے۔اس طرح تمام کینسر محض کسی ایک ایجنٹ کی وجہ سے نہیں ہوتے۔ایجنٹ سے مراد ایک وائرس یا بیکٹیریم ہے جو یا تو بے قابو ہوجاتے ہیں یا تباہ ہوجاتے ہیں۔کینسر ایک پیچیدہ اور ممکنہ طورپر ایسے جینز کا ایک مہلک گٹھ جوڑ ہے جو بھٹک جاتے ہیں ، یا یہ ایسے افزائشی مزاحم ہیں جو لاپتہ ہوجاتے ہیں ، یا یہ ایسے ہارمونز اور ایپی جینوم ہیں جو تیزی سے خود کو بدلتے ہیں یا یہ ایسے بدمعاش خلیات ہیں جو بکھر جاتے ہیں۔یہ بھی ایک ایسی عظیم فوج کی طرح کام کرتے ہیں جو فضاء ، زمین ، سمندر اور دیگر خفیہ راستوں سے حملہ آور ہوتی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم محض ایک نشانہ باز کھڑا کرکے اس کا مقابلہ کررہے ہیں۔ایسا نہیں ہوسکتا ہے ،کینسر کی اس فوج سے لڑنے کے لیے بھی ایک مکمل فوج کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔اور یہ ہے سائنسدانوں کی فوج!!!
میساچسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(ایم آئی ٹی) کے فلپ شارپ کہتے ہیں کہ کینسر ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر پیچیدہ بیماری ہے۔اس کی یہ پیچیدگی حیران کردینے والی ہے۔چنانچہ کینسر سے مقابلہ کرنے کے لیے کسی ایک ہیرو سے کام نہیں چلے گا ، اس کے لیے بہت سے ہیروز کی ایک ٹیم درکار ہے۔فلپ شارپ نوبل انعام یافتہ مالیکیولر بائیولوجسٹ ہیںجو کینسر کے جینیاتی اسباب کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ وہ کینسر سے جنگ کے لیے ’’سپیشل فورسز‘‘ کے یونٹ بھرتی کررہے ہیں۔انہوں نے اس سلسلے میں ایک زبردست ٹیم تیارکرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جسے Stand Up to Cancer (SU2C) نامی ایک آرگنائزیشن فنڈ دے رہی ہے۔
یہ تنظیم امریکہ میں کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح سے پریشان ہے۔ کینسر اس وقت امریکہ کی سب سے مہلک بیماری بن چکی ہے۔امریکہ کے نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کے اعدادوشمار کے مطابق صرف گذشتہ سال امریکہ میں کینسر سے پانچ لاکھ اسی ہزار سے زائد اموات ہوئیں جبکہ سترہ لاکھ سے زائد افراد میں اس کی تشخیص ہوچکی ہے اور جوں جوں بوڑھے افراد کی آبادی میں اضافہ ہوگا ، یہ شرح بھی مزید بڑھے گی۔دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کینسر سے اموات کی شرح اسی طرح بڑھ رہی ہے۔
فوٹو: فائل
سائنس اور ادویات کا اشتراک
اس سے پہلے کینسر کے حوالے سے تحقیق بھی روایتی تحقیقوں کی طرح ہوتی رہی ہے۔تاہم اب ایم ڈی اینڈرسن کینسر سنٹر کی ڈاکٹر لنڈا چن کا کہنا ہے کہ جینیاتی میڈیکل سائنس اور میوٹیشن ریسرچ میں ہونیوالی ترقی کے بعد یوں لگتا ہے کہ سائنس دانوں اور طبی ماہرین کو اب تحقیق کے روایتی طریقے کو بدلنا ہوگا اور ادویات اور سائنس کو الگ الگ انداز سے دیکھنے کے رجحان کو ترک کرنا ہوگا۔ڈاکٹر چن جو انسٹی ٹیوٹ فار اپلائیڈ کینسر سائنسز کی ڈائریکٹر بھی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ سائنس اور ادویات کو یکجا کرتا ہے۔مثال کے طورپر عام جینیاتی میوٹیشن جیسےp53 جو کہ خلیات کی اموات کو کنٹرول کرتی ہے، کینسر کے بہت سے کیسوں میں دیکھی جارہی ہے۔ایک اور قسم کی میوٹیشن جسے BRCA1 کہا جاتا ہے ، عورتوں کے کینسرز جیسے چھاتی اور بیضہ دانی کا کینسر میں عام ہیں۔تاہم ان دونوں اقسام کے کینسرز میں تحقیق اور طبی کام کو زیادہ تر الگ الگ رکھا گیا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کینسر سے جنگ کے لیے جو ہیرو تیار کیے جارہے ہیں ، اس میں واقعتاً ہالی وڈ کارفرما ہے۔کینسر سے جنگ کے لیے SU2C کے نام سے ادارہ بنانے والوں میں ہالی وڈ کی جو شخصیات شامل ہیں ان میں 2011ء میں کینسر سے مرنے والی ’’سپائیڈر مین‘‘ کی پروڈیوسرلارا زسکن ، کیٹی کورک جن کے خاوند 1998ء میں کولون کے کینسر سے فوت ہوئے، اور پیرامائونٹ پکچرز کی سی ای او شیری لانسنگ سرفہرست ہیں۔ جس طرح کوئی فلم بنانے کے لیے بہترین کاسٹ جمع کی جاتی ہے اسی طرح SU2C کا مقصد ہے کہ کینسر سے جنگ کے لیے دنیا بھر سے قابل ترین سائنسدان اکٹھے کیے جائیں ، ان کو دل کھول کر فنڈ دیے جائیں ، ان کے کام کی بھرپور طریقے سے نگرانی کی جائے اور بھاری معاوضہ دے کر کینسر کا علاج جلد ازجلد دریافت کیا جائے۔
فوٹو: فائل
اعلیٰ پائے کے سائنس دان
SU2C ،فائونڈیشنز ،کارپوریشنز ، اداروں اور پرائیویٹ عطیہ دہندگان کے ذریعے فنڈز اکٹھے کرتی ہے اور پھر اس رقم کو سائنسدانوں کی مذکورہ ٹیم کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ SU2C نے کینسر کا علاج دریافت کرنے کے لیے ابتداء میں تین سال کا وقت رکھا ہے۔اس سلسلے میں تمام منصوبوں کی نگرانی امریکی ایسوسی ایشن فار کینسر ریسرچ کررہی ہے۔کینسر کے علاج کی تلاش کے لیے جو ٹیم بنائی گئی ہے اس میں نوبل انعام یافتگان اور دیگر اعلیٰ پائے کے سائنسدان شامل ہیں۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان اعلیٰ پائے کے سائنسدانوں کے کام پر ہر چھ ماہ بعد نظرثانی کی جاتی ہے۔ آپ خود اندازہ کریں کہ یہ نظرثانی کرنے والے کس قدر اعلیٰ پائے کے لوگ ہوں گے۔
لبلبہ کے کینسر کا علاج دریافت کرنے کے لیے کوشاں ایک شاندار ٹیم ٹرانسلیشنل جینومکس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر ڈینیل وان ہوف کا کہنا ہے کہ نوبل انعام یافتگان اور اعلیٰ پائے کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کرنا ایک عظیم الشان ٹاسک ہے۔ان کے کام پر نظرثانی کرنا بھی ایک بڑا کام ہے ۔ اس کے لیے آپ کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ آگے آنا ہوتا ہے۔ہر چھ ماہ بعد جب لوگ آپ کے کام پر نظرثانی کرتے ہیں تو یہ خاصا مختلف دکھائی دیتا ہے۔تحقیق کا یہ ماڈل بہت انوکھا ہے۔
تحقیق کا نیا ماڈل
کینسر کے خلاف جنگ کے لیے تحقیق کا یہ جو ماڈل تیار کیاگیا ہے وہ میڈیکل ریسرچ کی دنیا میں جاری روایتی طریقہ کار کو بھی متاثر کررہا ہے۔محققین کے لیے اس کا مطلب ہے کہ پیشے جس طرح پیش رفت کرتے ہیں ،اور اعدادوشمار اور کامیابی پر تحسین میں جس طرح شراکت داری کی جاتی ہے، ا س میں تبدیلی آچکی ہے۔اداروں کے لیے ٹیم ریسرچ کا مطلب ہے کہ معاہدوں ، معاوضہ جات ، عہدوں اور حقوق دانش کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔ادویہ ساز کمپنیوں کے لیے اس کا مطلب ہے کہ جس طریقے سے تجرباتی ادویات مختص کی جاتی ہیں اور ان کے طبی تجربات کیے جاتے ہیں ، اس کو ازسرنو مرتب کیا جائے۔
اس طرح ہالی وڈ کی جانب سے جو کچھ کیا جارہا ہے ، اس کو تحقیق کے تمام اداروں کی جانب سے خوش آمدید کہا جارہا ہے۔نیشل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ )جو لگ بھگ ساڑھے پانچ ارب ڈالر کینسر پر ریسرچ کے لیے صرف ایک ہی ادارے کو دے چکا ہے،اب یہ تسلیم کررہا ہے کہ کینسر پر تحقیق کے لیے پیراڈائم شفٹ یعنی بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ این آئی ایچ کے سربراہ فرانسس کولنز جو کہ ہیومن جینوم پراجیکٹ کی سربراہی کرچکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کی نگرانی میں 27 ادارے کینسر پر تحقیق کریں گے اور یہ ادارے زیادہ خود مختار نہیں ہوں گے جو اپنے اپنے اہداف کا تعاقب کریں گے۔ ان کے ساتھ قابل اعتماد معاونین کار ہوں گے جو پیحیدہ حیاتیاتی طبی مسائل کے جواب تلاش کریں گے۔ کولنز کا کہنا ہے کہ وہ تحقیق میں بندشوں کے مخالف اور مختلف ڈسپلنز کو اکٹھا کرکے، تعاون پیدا کرکے اور ڈریم ٹیم تیار کرکے بیرئیرز توڑنے کے حامی ہیں۔
مون شاٹس پروگرام
جہاں تک مریضوں کا تعلق ہے تو ان کے لیے ایسا وہاں پر ہورہا ہے جہاں کیمیو تھیریپی کینسر کو نشانہ بناتی ہے۔ ایم ڈی اینڈرسن کینسر سنٹر کے صدر ڈاکٹر رونالڈ ڈی فینو کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ بھی کینسر پرتحقیق کے لیے وہی اشتراکی طریقہ کار اختیار کررہاہے جسے انہوں نے ’’مون شاٹس پروگرام‘‘ کا نام دیا ہے۔اس پروگرام کے تحت انہوں نے چھ سائنسز پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دینا شروع کردیا ہے جس کے ذریعے آٹھ اقسام کے کینسر پر حملہ کیاجائے گا جن میں پھیپھڑوں ، غدودوں ، میلانوما ، چھاتی ، بیضہ دانی اور تین اقسام کے لیوکیمیا یعنی خون کے کینسر شامل ہیں۔
ڈی فینو کے مطابق اس پروگرام پر تین ارب ڈالر لاگت آئے گی۔انہوں نے کہا کہ وہ ا پنی ٹیم کی بھرپور طریقے سے مدد کررہے ہیں جس کے تحت انہیں ہر سال تیس کروڑ ڈالر کی گرانٹ دی جاتی ہے اور یہ عمل اگلے دس سال تک جاری رہے گا۔اس طرح SU2C کی طرح اس ٹیم کی کامیابی کا اندازہ بھی ریسرچ پیپرز کی اشاعت کی تعداد کے بجائے مریضوں سے ملنے والے نتائج کی بنیاد پرلگایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ محض خواب دیکھنا کافی نہیں ہوگا بلکہ کچھ حاصل کرنا ہوگا۔سائنس دانوں کی کامیابی اس بات سے ناپی جائے گی کہ انہوں نے کینسر سے اموات کی شرح میں کتنی کمی کی ہے۔
ایک چھوٹی سی جیت
روایتی علاج کے ذریعے ٹام سٹین بیک کو لاحق پھیپھڑوں کے کینسر پر قابو پانے کی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں۔ٹام کے پھیپھڑوں کے ارد گرد رسولیاں اس قدر بڑھ چکی تھیں کہ انہیں کھانا نگلنے اور سانس لینے میں بھی شدید دشواری ہورہی تھی۔ انہوں نے خاموشی سے شکست تسلیم کرنے کے بجائے خود کو طبی تجربات کے لیے پیش کردیا۔اس طرح ان پر بالٹی مور کے ہسپتال جانز ہاپکنز میں تجربات کی ایک تکنیک آزمائی گئی جس کے تحت ان انزائمز کے کام کرنے اور بند کرنے کے عمل کا مطالعہ کیا گیا جو جینوم کے اوپر موجود ہوتے ہیں اور اس بات کو باقاعدہ کرتے ہیں کہ جینز کس طرح اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں اور کرتے بھی ہیں یا نہیں۔
اس میں تبدیلی یعنی میوٹیشن سے دوچار جینز بھی شامل ہیں جو کہ کینسر کے خلیات میں بدل جاتے ہیں۔چونکہ جینوم میں تبدیلیوں کے حوالے سے سائنس کچھ نہیں کرسکتی ہے اس لیے برتولیدی epigenetic افعال ہر وقت تبدیلی سے دوچار رہتے ہیں جس کی وجہ بعض اوقات ماحول میں موجود کیمیائی اجزاء اور بعض اوقات خود ادویات ہوتی ہیں۔ باسٹھ سالہ سٹین بیک چالیس سال سے سگریٹ نوشی کررہے تھے اور اس تجربے میں شریک تھے کہ آیا برتولیدی کی نئی ادویات ان کے کینسر کی رسولیوں کو کم کرسکتی ہیں۔
اس معاملے میں جواب نفی میں تھا ۔تاہم اس کیس کی ریسرچ ٹیم نے مکمل طور پر ہار نہیں مانی تھی۔انہوں نے مفروضہ پیش کیا کہ اگر صرف برتولیدی ردوبدل کینسر کے خلاف کام نہ بھی کرے تو بھی یہ اس لحاظ سے بنیادی اثرات کا حامل ہوسکتاہے کہ اس سے کینسر کے علاج کے لیے دیگر ادویات کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔سٹین بیک کے ساتھ اسی طرح ہوا۔وہ جب تجربات سے گذرنے اور دوسرے طبی تجربات میں شامل ہونے کے بعد گھر واپس گئے تو بہت خوش تھے۔
فوٹو: فائل
گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ان کی رسولیاں خاصی سکڑ چکی تھیں اور سی ٹی سکین میں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ان کا کہنا تھاکہ ادویات نے ٹی خلیات (مدافعتی نظام کے اہم خلیات) کو زندہ اور متحرک رکھا تھا۔’’میں زندہ ہوں۔‘‘ سٹین بیک ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے۔’’میں پہلے سے کہیں زیادہ صحت مند ہوں۔‘‘ اس سے بھی زیادہ حوصلے کی بات یہ تھی کہ تجربے میں شامل چند دیگر مریض مکمل طورپر صحت یاب ہوچکے تھے۔
جس ٹیم نے یہ فتوحات حاصل کیں ، اس کے سربراہ جانزہاپکنز کے اونکالوجسٹ ڈاکٹر سٹیفن بائلن اور یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے بائیو کیمسٹ اور مالیکیولر بائیولوجسٹ ڈاکٹر پیٹر جونز ہیں۔ان کے گروپ میں ماہرین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی جن میں جینیات دان ، پتھالوجسٹ ، بائیوسٹیٹس ، بائیوکیمسٹس ، انفارمیٹکس ، اونکالوجسٹ ، سرجنز ، نرسیں ، تکنیک کار اور سپیشلسٹ شامل ہیں جو عام طورپر اس طرح اکٹھے ہوکر کام نہیں کرتے۔ٹیم کو اس کی گرانٹ مئی 2009ء میں دی گئی تھی اور صرف ایک سال کے اندر اس نے برتولیدی یعنی epigenetic طبی تجربات کو وسعت دینے میں کامیابی حاصل کی جس میں سٹین بیک بھی شامل تھے اور کچھ نئے مریضوں کو بھی لیا گیا تھا۔ اس پیچیدہ تحقیق میں نتائج یوں سمجھیں انتہائی برق رفتاری سے حاصل کر لیے گئے تھے حالانکہ روایتی تحقیق میں اس قسم کے نتائج آنے میں کم ازکم دس سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔
اس قسم کا ادارہ جاتی انقلاب اتنا آسان نہیں تاہم تیزی سے آنے والے سائنسی اور ٹیکنالوجیکل انقلاب سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔پچھلے تین سال کے دوران سائنسی اورٹیکنالوجیکل پیش رفت میں بائیو انجینئرنگ ، نانو ٹیکنالوجی، ادویاتی مرکبات اور ڈیٹاگیدرنگ بشمول پروٹین ڈیٹا ، سپلائسنگ ڈیٹا ، میوٹیشن ڈیٹا وغیرہ میں پیش رفت شامل ہے اور ان پر لاگت بھی ہزاروں گنا کم ہوچکی ہے۔مثال کے طور پر انسانی جینوم کی پہلی سیکوئنسنگ پر دس سال سے زائد عرصہ اور لگ بھگ پونے تین ارب ڈالر لاگت آئی تھی۔آج یہی سیکوئنسنگ صرف چند ہزار ڈالر اور چند گھنٹوں میں ہوجاتی ہے ۔
ادویات سازی میں پیش رفت
اس تمام پیش رفت کے نتیجے میں ادویات سازی میں بھی پیش رفت ہوئی ہے۔سینکڑوں کی تعداد میں ڈرگ ایجنٹس کی تیاری جاری ہے جن کے ذریعے جینیاتی میوٹیشن کو ہدف بنایا جاسکتا ہے۔کچھ ادویات جسم کے مدافعتی نظام کو دوبارہ متحرک کرتی ہیں جیسا کہ سٹین بیک کے تجربات کی صورت میں ہوا۔اس طرح کچھ ادویات کینسر کی رسولیوں کو خون اور انرجی کی سپلائی روکتی ہیں۔اس طرح کچھ ادویات ایسی ہیں جو اوپوپٹوسس apoptosis یعنی اس عمل کو دوبارہ شروع کرتی ہیں جس کے تحت صحت مند اجسام میں خلیات کی طے شدہ اموات واقع ہوتی ہیں۔
اس طرح نئے بائیومیکر کینسری خلیات کی تلاش ، شناخت اور شکار میں ڈاکٹروں کی مدد کررہے ہیں۔ ڈاکٹر ڈی فینو کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ بہت جلدی ہورہا ہے۔ اگر ہم تھوڑا سا پیچھے جائیں تو ہمارے پاس کینسر کا کوئی مدت وار ٹیبل نہیں تھا۔ہم جینز کو سمجھنے سے قاصر تھے اور ماڈل بھی تیارنہیں کرسکتے تھے۔آج یہ سب کچھ ہورہا ہے اور تیزی سے ہورہا ہے۔
ڈی فینو نے جس طرح ’’مون شاٹ‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا، وہ مارکیٹنگ کی شعبدے بازی نہیں۔ 1961ء میں جب امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اعلان کیا کہ امریکہ چاند پرجارہا ہے تو یہ تصور سائنس فکشن نہ رہا۔اس وقت طبیعات کو سمجھا جاچکا تھا۔ اب صرف جس چیز کی ضرورت تھی وہ انجینئرنگ کا عظیم الشان پراجیکٹ تھا۔ یہ بھی کرلیا گیا اور پھر انسانیت کے لیے وہ عظیم جست لگانے میںکامیابی حاصل کرلی گئی جس کا نیل آرم سٹرانگ نے ذکر کیاتھا۔اس طرح جب صدر رچرڈ نکسن نے 1971 میں کینسر کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو فتح کا دور دور تک امکان نہ تھا۔یہ اسی طرح تھا جیسے کسی نے 1880ء میں چاند پرجانے کا اعلان کردیا ہو۔
لیکن اب کینسر کی فزکس کو سمجھا جاچکا ہے۔اب صرف جس چیز کی ضرورت ہے وہ انجینئرنگ کا عظیم الشان پراجیکٹ ہے۔ میساچوسٹس جنرل ہاسپیٹل کینسر سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈینیل ہاربر کہتے ہیں کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ پرانے زمانے میں کسی مرکب کے تجربے پرتیس سال کا عرصہ لگ جاتا تھا۔ سائنس دانوں نے اس مدت کو گھٹا کر آٹھ سے دس سال کردیا۔اب مخصوص میوٹیشن اوراس کے علاج کے لیے مخصوص ادویات کی دریافت کے بعد محققین نے اس مدت کو ا ور بھی گھٹا کر دوسال تک کردیاہے۔تیس سال کے وقت کو دوسال پر لانا بہت بڑا فرق ہے۔ لیکن اگر آپ مریض ہیں تو یہ فرق بھی کم ہے۔وہ اس لیے کینسر دوسال انتظار نہیں کرتا۔
فوٹو: فائل
کینسر ، ایک عیار بیماری
کینسر ایک چور ہے ۔ یہ حیاتیاتی عمرو عیار ہے۔کینسر کے خلیات صحت مند خلیات میں داخل ہوکر ان پرکنٹرول حاصل کرلیتے ہیں اور اس کے بعد یہ خلیات کو بہلا پھسلا کر خطرناک انداز میں بڑھنے اور تقسیم ہونے پر آمادہ کرلیتے ہیں۔ایک ماہر سائنس دان جان کینٹلی نے خلیات کی اس چکربازی کامطالعہ کرنے میں اپنا تمام کیرئیر صرف کیا ہے۔وہ خلیات کی چکر بازی کو ’’اشارے بازی‘‘ کہتے ہیں جو نہ صرف خلیات کی افزائش بلکہ ان کی زندگی کی مدت کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔اگر اس ’’اشارے بازی‘‘ کو کسی طرح بند کردیا جائے تو کینسر پھیلنا بند ہوجائے گا۔کینٹلی کا کہنا ہے کہ اس اشارے بازی کو بند کرکے وہ خواتین کے تین اہم ترین سرطان یعنی بیضہ دانی، اینڈومیٹیریل اور خاص طورپر چھاتی کے کینسر پر قابو پالیں گے۔
ادویات سازکمپنیاں طویل عرصے سے میوٹیشن کو ہدف بنارہی ہیں۔اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا مرکب تیارکیا جاسکے جوناقص حیاتیاتی کیمیائی راستوں میں مداخلت کرے گا اور غیرضروی میوٹیشن کو روکے گا۔اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ادویات ہیںجو میوٹیشن پر کچھ اثرانداز ہوسکتی ہیں ۔ اس میں لگتا تو یہ ہے کہ جیسے کامیابی کی بارش ہوگئی ہے لیکن یہ پیچیدگیوں کی بارش بھی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ادویات ساز انڈسٹری پچانوے فیصد کی شرح سے ناکام ہورہی ہے اور نصف سے زائد فیز تھری کے تجربات جو دوا کی منظوری کا آخری مرحلہ ہوتا ہے ، وہ بھی اس ناکامی کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر شارپ کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس سو مختلف ادویات کاکمبی نیشن بنانے کا موقع ہو تو سو کا سوگنا دس ہزار ہوگا، اب آپ دس ہزار تجربات نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر آپ ان میں سے چند کے بھی تجربات کریں تو کن پر کریں گے اور آپ کو کن پر کرنا چاہیے اور کون سے مریضوں پرکرنا ہے؟ اس کے لیے سائنس دانوں کی ایک بڑی ٹیم کام پر لگی ہوئی ہے۔ان کا ہدف یہ ہے کہ جس رفتار سے جینیاتی سائنس اور حیاتیاتی کیمیائی سائنس ترقی کررہی ہے، اسی رفتار سے تجربات بھی کیے جائیں۔
بڑے اہداف
کینسر کی کئی اقسام کے خلاف تو کامیابی سے پیش رفت ہورہی ہے تاہم کچھ ایسے ہیں جن کے حوالے سے صرف ناکامی کی خبریں ہی آرہی ہیں۔مثال کے طورپر لبلبے کاکینسر ، کینسر کی تحقیق میں یہ ایک ایسا شعبہ ہے جسے شارپ نے ’’سانحہ‘‘ قرار دیا ہے۔ لبلبہ کا کینسر اکثر بہت تاخیر سے تشخیص ہوتا ہے اوراکثر میں آپریشن ممکن نہیں ہوتا۔اسے محققین ’’بیڈبائیولوجی‘‘ قرار دیتے ہیں یعنی کینسر کے خلیات ادویات کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔اس کینسر کے خلاف جنگ میں ڈاکٹروں کا پہلا ہدف یہ ہے کہ مریضوں کی زندگی کی شرح کو بڑھایا جائے۔اس وقت صرف پچیس فیصد مریضوں میں ان کی زندگی میں بمشکل ایک سال کااضافہ کیا جاتا ہے۔
فوٹو: فائل
لبلبے کا پیچیدہ کینسر
اس وقت مختلف تحقیقی اداروں میںبکھری 28 سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم کا فوکس اس بات پر ہے کہ ان میٹابولک تبدیلیوں کو اچھی طرح سمجھا جائے جو لبلبے کے خلیات میں رونما ہوتی ہیں۔یہ ایک مشترکہ مشق ہے جو اس وقت شروع ہوئی جب یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے سرجن جیفری ڈربلن نے ایک بیمار لبلبے سے رسولی کو الگ کیا۔ وہ اس رسولی کوآپریشن روم سے لیب میں لے گئے جہاں اسے محفوظ کرلیا گیا۔لیب سے اس کے نمونے کو سالک انسٹی ٹیوٹ کی جین لیبارٹری میںبھیجا گیاجہاں محقق جیفری ویل اوران کے ساتھیوں نے ستارے کی شکل کے اس نمونے کا تجزیہ کیا جو عام طورپر ٹشوکی مرمت کا کام کرتا ہے لیکن کینسر میں بھی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایک اور نمونے کو پرنسٹن میں جوشوا روبن کی لیب میں بھیجا گیا جہاں امائنو ایسڈ ، شوگر اور تین سو سے زائد میٹابولائٹس کا تجزیہ کیا گیا۔ایک نمونہ جان ہاپکنز بھیجا گیا جہاں پر اس کے جینوم سیکوئنس کا تجزیہ کیاگیا۔
اس تمام مشق سے جو تھیوری سامنے آئی وہ یہ تھی کہ لبلبہ کے کینسر زدہ خلیات ستارے کی شکل والے خلیات سے رابطہ کرتے ہیں جو رسولی کے قریب ظاہر ہوتے ہیں اور مدافعتی نظام کے ردعمل کو زائل کرنے اور کیمیوتھیریپی کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کی سازش کرتے ہیں۔یو ں لگتا ہے کہ کینسر زدہ خلیات جسم کے دیگر حصوں سے گلوٹامائن اور دیگر امائنو ایسڈ چوستے ہیں اور ان کو رسولیوں کو کھلادیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لبلبے کے کینسر کے مریضوں کا وزن بہت تیزی سے کم ہوجاتا ہے۔اگر گلوٹامائن اور دیگر امائنو ایسڈ کو چوسنے کے عمل کو روک دیا جائے تو رسولیوں کو بھوکا مارا جاسکتا ہے۔ٹیم نے دریافت کیا کہ وٹامن ڈی ایک ایسا معدن ہے جو کینسر زدہ خلیات کے ارد گرد رکاوٹوں کو کھڑی ہونے سے روک سکتا ہے اور یوں مدافعتی نظام یاکیمیوتھیریپی کو ان خلیات تک بہتر رسائی دینے میں مدد دے سکتا ہے۔
صرف دوسال کے اندر اس ٹیم نے البیومن پر مشتمل ایک دوا تیار کی اوراس کے تجربات کیے تو اس کے نتائج حوصلہ افزاء تھے ۔ یہ دوا کینسر کے مجموعی علاج میں معاون ثابت ہوئی۔اس کے بعد آخری مرحلے کے تجربات میں ساڑھے آٹھ سو مریضوں کو کیمیوتھیریپی کی دوا ابراکسین کے ساتھ یہ دوا دی گئی جوکہ آخری سٹیج کے لبلبہ کے کینسر میں مبتلا تھے۔نتائج حوصلہ افزاء نکلے۔اس دوا نے اڑتالیس فیصد مریضوں میں بیماری کو مزید بڑھنے سے روک دیا جبکہ نو فیصد مریضوں میں ان کی زندگی کی شرح کو دوگنا کرتے ہوئے دوسال کردیا۔محقق وون ہوف کاکہنا ہے کہ کینسر کے علاج میں اس کمبی نیشن کی کامیابی ایک خوشگوار جھونکا ہے۔
کچھ اسی قسم کی پیشرفت ایم ڈی اینڈرسن انسٹی ٹیوٹ میں بھی ہورہی ہے جہاں فزیشنز اور محققین پہلے چھاتی اور بیضہ دانی کے کینسرز پر الگ الگ تحقیق کرتے تھے۔ اب وہ مل کر تحقیق کررہے ہیں کیونکہ جینیاتی تجربات سے پتہ چلا ہے کہ مختلف اقسام کے کینسر ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔اس تعلق کا استعمال کرتے ہوئے ایم ڈی اینڈرسن انسٹی ٹیوٹ کے اونکالوجسٹ ڈاکٹر جان ہیمش جو کہ SU2C کی اس ڈریم ٹیم کا حصہ ہیں جس نے گردش میں رہنے والے کینسرزدہ خلیات پر فوکس کررکھا ہے، کہتے ہیں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں سائنس دانوں کی ٹیم بن کرکام کرنا اہم بن جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاندار مشق ہے۔ہم ڈیٹا اور مہارت اکٹھی کررہے ہیں اور مختلف قسم کی میوٹیشن کی تفصیل جمع کررہے ہیں۔
کینسر لاعلاج نہیں رہے گا
محققین نے تسلیم کیا ہے کہ ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر دنیا بھر کے سائنسی اور طبی اداروں کے درمیان ایک مربوط تحقیق کی جارہی ہے۔اس کے نتائج بھی حوصلہ افزاء ہیں۔ اس میں شریک سائنس دانوں اوران کے معاونین میں جوش ہے ۔ وہ ایک دوسرے سے سیکھ بھی رہے ہیں اور مربوط تحقیق کی وجہ سے نتائج بھی جلد مل رہے ہیں۔انہوں نے اس بات کی قوی امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل قریب میں کینسر ایک ایسی بیماری بن جائے گی جس کے بارے میں کوئی مایوسی کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکے گا کہ یہ ایک لاعلاج بیماری ہے۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس